• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا محمد حنیف ندوی اور ان کی علمی خدمات

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مولانا محمد حنیف ندوی اور ان کی علمی خدمات
مولانا محمد حنیف ندوی کا شمار بیسویں صدی عیسوی کے برصغیر کے مشاہیر علمائے اہل حدیث میں ہوتا ہے۔ وہ اس عہد کے ممتاز مصنف اور نامور محقق تھے۔ ۱۰ جون ۱۹۰۸ ء کو پنجاب کے مردم خیز شہر گوجراں والامیں پیدا ہوئے۔ والد کا نام نورالدین تھا۔ بیٹے نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو باپ نے سرکاری اسکول میں داخل کرادیا۔ اسکول میں صرف چار جماعتوں تک تعلیم پائی، جسے اس زمانے میں پرائمری کہا جاتا تھا ۔ اس کے ساتھ ناظرہ قرآن مجیدبھی پڑھ لیا۔

۱۹۲۱ ء میں فارغ التحصیل ہو کر حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی گوجراں والا تشریف لائے تو مولانا محمد حنیف ندوی ان کے حلقۂ درس میں شامل ہو گیے اور اس دور کے مروّجہ علوم کی تمام کتابیں ان سے پڑھیں ۔۱۹۲۵ ء میں سندِ فراغ حاصل کی۔

مولانا محمد حنیف ندوی نہایت ذہین اور پڑھنے لکھنے میں بڑے تیز تھے۔ مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم کے یہ اولین شاگرد تھے۔ سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں علوم دینیہ کی تکمیل سے فارغ ہو گیے تھے۔ حضرت مولانا سلفی ۱۹۲۱ سے لے کر اپنی وفات (۱۹۶۸ ء) تک فریضۂ تدریس سرانجام دیتے رہے۔ اڑتالیس برس کی اس طویل مدت میں محمد حنیف ندوی جیسا کوئی تیز فہم اور ذہین طالب علم ان کے حلقۂ درس میں شریک نہیں ہوا۔ وہ مولانا سلفی کے لائق ترین شاگرد تھے۔

علومِ متداولہ سے فراغت کے فوراً بعد ۱۹۲۵ ہی میں مولانا محمد اسماعیل سلفی نے مولانا سید سلیمان ندوی کے نام سفارتی خط دے کر ان کو دارالعلوم ندوۃ العلماء (لکھنؤ) میں داخل کرادیا تھا۔ یہ مولانا محمد حنیف ندوی کی زندگی کا ایک نیا موڑ تھا۔ پانچ سال وہ اس دارالعلوم میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ انھیں قرآن مجید سے انتہائی لگاؤ تھا چنانچہ اڑھائی سال میں انھوں نے قرآن مجید کے موضوع پر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تخصص کا اعزاز حاصل کیا۔ اس اثنا میں انھوں نے تمام قدیم وجدید تفسیروں کا بے حد محنت اور دلچسپی سے مطالعہ کیا۔ عربی ادب بھی ان کا خاص موضوع تھا اس کے بھی تمام گوشوں پر عبور حاصل کیا۔ لکھنؤ کی زبان اور ثقافت وتہذیب سے بھی وہ بہت متاثر ہوئے۔

مولانامحمد حنیف ندوی کے اساتذہ کا حلقہ محدود ہے۔ گوجراں والا میں انھوں نے مولانا محمد اسماعیل سلفی اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں مولانا عبدالرحمٰن نگرامی، مولانا حیدر حسن ٹونکی اور شمس العلماء مولانا حفیظ اللہ سے استفادہ کیا۔ ۱۹۳۰ ء میں ندوۃ العلماء کا نصاب مکمل کرکے واپس اپنے وطن گوجراں والا آئے تو ایک سیاسی جماعت ’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ میں شامل ہو گیے اور انگریزی حکومت کے خلاف تقریر یں کیں، جس کی پاداش میں انھیں گرفتار کر لیا گیا اور چھ مہینے کی سزاہوئی۔

رہائی کے بعد ۱۹۳۰ ہی میں لاہور کی مسجد مبارک (اہل حدیث) میں انھیں خطابت کا منصب عطا ہوا۔ یہ مسجداسلامیہ کالج کے متصل ہے۔ خطابت کے علاوہ نماز مغرب کے بعد وہ درسِ قرآن بھی دیتے تھے، خطبہ جمعہ اور درسِ قرآن میں اسلامیہ کالج کے پروفیسر اور طلبا باقاعدہ شامل ہوتے تھے۔ درسِ قرآن کاآغاز انھوں نے ابتداء قرآن سے کیا تھا، خطبۂ جمعہ میں بھی یہی صورت حال تھی۔ سورہ فاتحہ سے خطبہ دینا شروع کیا اور ایک تسلسل کے ساتھ آخر ِقرآن تک پہنچے۔ درسِ قرآن میں ایک دفعہ قرآن مجید ختم کر کے دوسری دفعہ بھی چند سپارے ختم کر لیے تھے۔ خطبہ جمعہ اور روزانہ کے درس قرآن میں وہ نئے سے نئے نکات بیان کرتے تھے۔ سامعین کے سوالات کے جواب بھی نہایت عمدگی سے دیتے تھے۔ ان کی زبان اور لب ولہجے سے متاثر ہو کر کالج کے اساتذہ وطلبا کے علاوہ لاہور کے اخبار نویس اور ایڈیٹر بھی ان کے خطباتِ جمعہ اور درس میں حاضر ہوتے تھے۔ اس زمانے کا لاہور اردوزبان کے بڑے بڑے ماہرین کا مرکز تھا۔ مولانا ظفر علی خاں اس باب میں خاص طور سے شہرت رکھتے تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں مولانا حنیف ندوی کے درسِ قرآن اور خطبہ جمعہ میں اردو زبان کے لیے حاضر ہوتا ہوں۔ یہ کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی زبان بولتے ہیں۔

بے شبہ مولانا محمد حنیف ندوی نستعلیق عالمِ دین تھے۔شکل وصورت اور وضع قطع دورگزشتہ کے اساتذۂ فن سے ملتی ہوئی۔ شبہ گزرتاتھا کہ غالب، ذوق، حالی اور نذیر احمد کے قبیلے کا کوئی فرد اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا ہے۔ لباس اور پہناوے کے اعتبار سے ایک خاص تہذیب اور خاص ثقافت کے حسین پیکر۔ لہجہ لکھنوی، اسلوبِ کلام میٹھا اور پیارا، لوگوں کو دھوکا ہوتا تھا کہ یوپی کے کسی بہت بڑے علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

مسجد مبارک میں مولانا حنیف ندوی نے ۱۹۴۹ تک درسِ قرآن اور خطباتِ جمعہ کا سلسلہ جاری رکھا یعنی تقریباً بیس برس انھوں نے باقاعدگی سے یہ اہم خدمت سرانجام دی۔ بعد ازاں کچھ عرصہ ہراتوار کو نماز عصر کے بعد ان کا (ہفتہ وار) درسِ قرآن ہوتا رہا لیکن افسوس ہے ان کے اس دور کے درسِ قرآن کسی نے قلم بند نہ کیے ۔ لوگ اس سے متاثر تو بہت ہوئے، اس کا چرچا بھی ہوا لیکن سب زبانی کلامی۔

اب آئیے مولانا ندوی کی تحریری خدمتِ قرآن کی طرف۔!


۱۔ ۱۹۳۴ میں انھوں نے تفسیر ’’سراج البیان‘‘ لکھی۔ یہ تفسیر متعدد مرتبہ چھپی اور بہت پڑھی گئی۔یہی وہ تفسیر اب قارئین کے زیر مطالعہ ہے۔ اس تفسیر کے سلسلے میں مولانا نے تفسیر وحدیث کی جن کتابوں سے مدد لی ، وہ ہیں تفسیر خازن، تفسیرکبیر، تفسیر ابن جریر، درّ منثور، تفسیر ابن کثیر، روح المعانی، مدارک، مسند حاکم، مسند بزاز، سیوطی کی اسباب النزول، تفسیر حقانی، خلاصۃ التفاسیر، موضح القرآن، تفسیر حسینی، تفسیر بیان القرآن، صحاح ستہ اور بعض دیگر کتب حدیث۔

مولانا کی عمر اس وقت چوبیس برس کی تھی اور وہ ان کی بھر پور جوانی کا زمانہ تھا۔ انھوں نے تفسیر میں ہر صفحے کے اہم مضامین کی تبویب کی ہے۔ نیچے حلِّ لغات ہے جو لوگ مولانا کے اندازِ نگارش سے دلچسپی رکھتے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ بولتے اور لکھتے وقت کوئی کمزور بات ان کے قریب آنے کی جرأت نہیں کرتی تھی۔ وہ علمی معاملات میں جہاں قدیم علوم سے استفادہ کرتے تھے، وہاں جدید کو بھی پیش نگاہ رکھتے تھے۔ اس تفسیر میں بھی انھوں نے قدیم وجدید سے رابطہ قائم رکھا ہے۔

یہاں یہ عرض کردیں کہ متحدہ ہندوستان گیارہ صوبوں پر مشتمل تھا، جن میں ایک صوبہ پنجاب تھا جو دریائے اٹک کی لہروں سے لے کر دلی کی دیواروں تک انتیس ضلعوں میں پھیلاہواتھا ۔ تقسیم ملک سے قبل اردو زبان میں شروع سے لے کر آخر تک پورے قرآن مجید کی تفسیر پنجاب کے صرف دو علمائے کرام نے لکھی اور وہ دونوں اہل حدیث ہیں۔ پہلے حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری جنھوں نے ’’تفسیر ثنائی‘‘ سپرد قلم کی اور دوسرے مولانا محمد حنیف ندوی جو ’’تفسیر سراج البیان‘‘ کے مصنفِ شہیرہیں ۔

۲۔ مولانا فتح محمد خاں جالندھری کا ترجمۂ قرآن بہت مقبول ومتداول ہے۔ پاکستان میں قرآن مجید سے متعلق ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں اسی ترجمے کو پیش نگاہ رکھا جاتا ہے۔ اس ترجمے پر پہلی مرتبہ ناشر کی درخواست پر مولانا محمد حنیف ندوی نے نظر ثانی کی تھی۔

۳ ’’ مطالب القرآن فی ترجمۃ القرآن‘‘کو لاہور کے ایک قدیم اشاعتی ادارے ’’پیکو لمیٹڈ‘‘کی مطبوعات میں بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اس میں دائیں جانب کے صفحے پر قرآن مجید کا متن اور بائیں طرف اس کا ترجمہ اور حاشیے میں تفسیر ہے۔ ترجمہ سید محمد شاہ (ایم اے) کا ہے اور اس پر نظر ثانی ’’مجلسِ فکر ونظر‘‘ نے کی جو تین اہل علم پر مشتمل تھی۔ ان کے اسمائے گرامی علی الترتیب اس طرح مرقوم ہیں:

٭ مولانا محمد حنیف صاحب ندوی خطیب جامع مسجد مبارک، لاہور۔
٭ مولانا شہاب الدین صاحب فاضل دیوبند، خطیب جامع مسجد چوبرجی، لاہور۔
٭ پروفیسر یوسف سلیم چشتی بریلوی بی اے پرنسپل اشاعتِ اسلام کالج لاہور۔

اس نظر ثانی شدہ مسودے کی برصغیر کے تیرہ معروف علمائے کرام نے تصدیق کی، جن میں علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا قطب الدین عبدالوالی فرنگی محلی لکھنوی، مولانا حیدر حسن ٹونکی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مولانا عبدالعزیز گوجراں والا، مولاناعبدالحلیم صدیقی لکھنؤ، مولانا محمد شبلی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، ڈاکٹر محمد ہدایت حسین پرنسپل مدرسہ عالیہ کلکتہ شامل ہیں۔

۴ تقسیم ہند سے پہلے پیکو لمیٹڈ (لاہور) کا ایک ماہنامہ ’’حقیقت اسلام‘‘ شائع ہوتا تھا۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے اس رسالے میں قرآن مجید کے مختلف موضوعات پر بہت سے مقالات لکھے جو نہایت شوق سے پڑھے گیے ۔

۵ ۱۹ ؍اگست ۱۹۴۹ ء کو گوجراں والا سے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ جاری ہوا۔ اس وقت مولانا ندوی کا قافلۂ عمر چالیس منزلیں مکمل کرکے اکتالیسویں منزل میں داخل ہو چکا تھا۔ اس اخبار کے اجرا سے ٹھیک ایک سال بعد ۲۵؍اگست ۱۹۵۰ ء کو یعنی اپنی عمر کے بیالیسویں سال میں مولانا ممدوح نے ’’قرآن کی منتخب آیات کی تفسیر ‘‘ کے عنوان سے اخبار میں قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کا آغاز فرمایا۔ سب سے پہلے انھوں نے ایک طویل نوٹ میں ’’منتخب آیات‘‘ کے الفاظ کی وضاحت فرمائی جس کی چند سطور یہ ہیں:

’’ہم اس شمارے سے اس نئے اور مستقل باب کو شروع کر رہے ہیں۔ تفسیر آیات کا انتخاب ان معنوں میں ہے کہ اختصار کے تقاضوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ہم کن آیات کو اپنے ذوق کی رعایتوں سے آپ کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ ورنہ یہاں متعارف معنوں میں انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں تو ایک ایک آیت جانِ معنیٰ اور روحِ انتخاب ہے۔ اس باب میں ہم صرف ان آیات کو لائیں گے جن کی ادبی، نحوی یا کلامی وفقہی اہمیتوں کو اجاگر کر سکیں۔ مقصود یہ ہے کہ ہماری موجودہ پود کے دلوں میں قرآن کی عظمت کا صحیح صحیح احساس کروٹ لے اور انھیں یہ معلوم ہو کہ آج سے چودہ سو سال پہلے کی اس کتاب میں کتنا اعجاز ، کتنے معانی اور فکروعمل کا کتنا نکھار مضمر ہے۔ امید ہے ہمارے قارئین اسے دلچسپی سے پڑھیں گے۔‘‘

اس عنوان کے تحت سب سے پہلے مولانا ندوی نے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ کے متعلق لکھا اور بڑی تفصیل سے لکھا۔ پھر سورہ فاتحہ کی چند آیات کو موضوعِ فکر ٹھہرا یا ۔ اس کے بعد قرآن کے مختلف مقامات کی بہت سی آیات کی تفسیر قلم بند کی۔ ’’الاعتصام‘‘ میں یہ سلسلہ کافی عرصہ جاری رہا۔ میں اس وقت مولانا کے ساتھ ’’الاعتصام ‘‘ میں خدمت انجام دیتا تھا۔

۶ ۱۵؍مئی ۱۹۵۱ ء کو مولانا محمد حنیف ندوی ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستہ ہو گیے (اور ’’الاعتصام‘‘ کی ادارت میرے سپرد کر دی گئی) جنوری ۱۹۵۵ ء میں ادارہ ثقافت اسلامیہ کا ماہنامہ مجلہ ’’ثقافت‘‘ جاری ہوا تو مولانا ندوی نے تفسیر قرآن کا سلسلہ اس مجلے میں شروع کردیا ۔ پھر جنوری ۱۹۶۸ میں ماہنامہ ’’ثقافت‘‘ کا نام بد ل کر اسے ’’المعارف‘‘ کے نام سے موسوم کر دیا گیا تو اس کے بعض شماروں میں بھی مولانا نے اس موضوع پر لکھا۔ (اکتوبر ۱۹۶۵ میں مجھے بھی ادارہ ثقافت اسلامیہ سے منسلک کر لیا گیا تھا اور ’’المعارف‘‘ کا ایڈیٹر مجھے مقرر کر دیا گیا تھا)

۷ ریڈیو پاکستان (لاہور) میں بھی مختلف اوقات میں بعض آیات قرآنی سے متعلق مولانا کی تقریریں ہوئیں۔
ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ ، ماہنامہ ’’ثقافت‘‘، ماہنامہ ’’المعارف‘‘ اور ریڈیو کی تقریریں جمع کرلی جائیں تو ان سب آیات کی تفسیر کم سے کم پانچ سو صفحات کو پہنچ سکتی ہے۔ میں ان شاء اللہ یہ خدمت سرانجام دینے کی کوشش کروں گا۔

مولانا طویل عرصے تک ٹیلی ویژن کے ’’بصیرت‘‘ پروگرام میں بھی قرآن مجید کی تفسیر بیان فرماتے رہے لیکن یہ زبانی سلسلہ تھا جو محفوظ نہیں رہ سکا۔

۸ ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستگی کے زمانے میں مولانا محمد حنیف ندوی نے قرآنِ مجید کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ لکھنے کا عزم کیا۔ طے یہ پایا کہ وہ اس موضوع سے متعلق ہر ہفتے ’’الاعتصام‘‘ میں اشاعت کے لیے مضمون عنایت فرمایا کریں گے۔ اس کا عنوان ہم نے ’’چہرۂ نبوت قرآن کے آئینے میں ‘‘ رکھا۔ خیال یہ تھا کہ مضمون مکمل ہونے کے بعد اسی عنوان سے کتاب شائع کی جائے گی۔ مولانا نے ’’الاعتصام‘‘ میں بہتّر (۷۲) قسطیں لکھیں لیکن اس موضوع کی تکمیل نہ ہو سکی۔ ان کی وفات کے بعد میں نے ان کی تحریر فرمودہ بہتر قسطوں کو جمع کیا اور جو حصہ مولانا سے رہ گیا تھا اسے مکمل کیا اور اس کی تبویب کرکے ’’چہرۂ نبوت قرآن کے آئینے میں‘‘ کے نام سے کتاب شائع کردی۔ یہ کتاب انتیس ابواب اور ۳۲۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب ۱۹۹۹ ء میں علم وعرفان پبلشرز اردو بازار لاہور نے شائع کی۔

۹ مولانا ندوی نے ۱۹۷۸ میں ’’مطالعہ قرآن‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ قرآن کے موضوع پر مولانا ندوی کی یہ نہایت محققانہ کتاب ہے جس میں سولہ عنوانات کو موضوعِ گفتگو ٹھہرایا گیا ہے اور وہ عنوانات یہ ہیں (۱) قرآن کا تصور وحی وتنزیل (۲) قرآن مجید اور کتبِ سابقہ (۳) اسفار خمسہ (۴) عہد نامۂ جدید اور اناجیل اربعہ (۵) قرآن حکیم اور اس کے اسما وصفات (۶) قرآنی سورتوں کی قسمیں اور ترتیب (۷) قرآنی سورتوں کی زمانی ومکانی تقسیم(۸) جمع وکتابتِ قرآن کے تین مراحل (۹) قرآن حکیم کی لسانی خصوصیات (۱۰) اعجاز قرآن اور اس کی حقیقت (۱۱) محتویاتِ قرآن (۱۲) مشکلات قرآن (۱۳) قرآن کے رسم الخط کے بارے میں نقطۂ اختلاف (۱۴) تفسیر (۱۵) تفسیر کے دو مشہور مدرسۂ فکر۔ اصحاب الحدیث اور اہل الرائے (۱۶) اوّلیاتِ قرآن۔

مطالعۂ قرآن کا ’’پیش لفظ‘‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ایس اے رحمان مرحوم کا تحریر کردہ ہے۔

۱۰ گزشتہ سطور سے ہمیں مولانا محمد حنیف ندوی کی تفسیر سراج البیان کا پتا چلا جو ان کے کلکِ گوہر بار کے اس دور کا ذخیرۂ علم وعرفان ہے، جب وہ چوبیس برس کے جوان رعنا تھے ۔ پھر ہم ان کے ان قرآنی افکار سے متعارف ہوئے جو انھوں نے اکتالیس بیالیس سال کی عمر میں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ اور بعض دیگر رسائل وجرائد کے اوراق کی وساطت سے ہمیں مہیا فرمائے۔ اب آپ ان کے ایک اور شاہ کار قرآنی سے مطلع ہوتے اور اس سے اپنے قلب ونظر کی تازگی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اس شاہ کار کا نام ہے ’’لسان القرآن‘‘۔ حروفِ تہجی کی ترتیب سے قرآن کا یہ توضیحی لغت ہے، جس کو صفحاتِ قرطاس پر منقش کرنے کا عزم انھوں نے ۱۹۸۲ میں کیا تھا جب کہ لیل ونہار کی پیہم رفتار نے ان کو عمر کی پچھترویں منزل میں پہنچادیا تھا۔ وہ سن وسال کے اعتبار سے اس
وقت بوڑھے ہو چکے تھے لیکن ان کا قلم جوان تھا اور نئے سے نئے افکار اگلتا تھا اور واقعہ یہ ہے کہ ان کا قلم ہمیشہ عالم شباب میں رہا۔ شب وروز کی تقویمی رفتار کبھی اس کی روانی کوروک نہ سکی۔ جس طرح ان کے معلومات کا ذخیرہ وسعت پذیر اور مطالعے کا دامن ہمہ گیر تھا، اسی طرح ان کے پاس الفاظ کا خزینہ بھی بھر پور تھا اور الفاظ کے طرزِ ادا کا سلیقہ بھی اللہ نے ان کو خاص طور سے بخشا تھا۔ قرآن سے انھیں جو دلی لگاؤ اور روحانی وابستگی تھی، اس کا اظہار اس موضوع سے متعلق ان کی نگارشات کے ہر مقام پر ہوتا ہے، اس کے حوالے دینے کو جی چاہتا ہے، لیکن افسوس ہے اس مختصر تحریر میں اس کی گنجائش نہیں ۔

لسان القرآن کی پہلی جلد حروفِ تہجی کی ترتیب سے ا ب (اب) سے شروع ہوئی اور ج ی د (جید) پر ختم ہوئی۔ یعنی یہ جلد پانچ حروف، الف، ب، ت، ث، ج پر مشتمل ہے اور چار سو صفحات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
اس کے بعد دوسری جلد مسلسل نمبروں کے ساتھ صفحہ ۴۰۱ سے شروع ہوئی ہے۔ اس جلد کا آغاز ح، ب، ب (حبّ) سے ہوتا ہے اور اختتام د، ی، ن (دین) پر ہوتا ہے۔ دونوں جلد یں ۷۹۳ صفحات پر محیط ہیں۔ پہلی جلد ۱۹۸۳ ء میں اور دوسری ۱۹۸۵ میں شائع ہوئی۔

لسان القرآن کی دوسری جلد مولانا محمد حنیف ندوی کی آخری تصنیف ہے۔ اس کے بعد وہ بیمار ہو گیے اور قلم کی رفتار ہمیشہ کے لیے رک گئی۔ ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۷ کو ان کی کتابِ حیات کا خاتمہ ہو گیا۔

انا لِلّٰہ وانا الیہ راجعون۔
پھر بہت سے دوستوں کے اصرار پر اس فقیر نے ’’لسان القرآن‘‘ کا سلسلہ شروع کیا اور اس کی تیسری جلد لکھی جو تین حروف (د،ر،ز) پر مشتمل ہے یہ جلد چھپ گئی ہے اور ساڑھے تین سو صفحات پر محیط ہے۔

اللہ تعالیٰ کا مولانا محمد حنیف ندوی پر یہ خاص فضل ہے کہ انھوں نے اپنے سفرِتحریر کا آغاز بھی قرآن مجید سے کیا اور اختتام بھی اللہ کی اسی متبرک ومقدس کتاب پر ہوا یعنی ان کی پہلی کتاب تفسیر سراج البیان ہے اور آخری لسان القرآن۔ یہ سعادت بہت کم مصنفین کے حصے میں آئی ہوگی۔

یہ مولانا محمد حنیف ندوی کی قرآنی خدمات کا تذکرہ تھا جو بدرجہ غایت اہمیت کا حامل ہے۔ اب ان کی دیگر علمی خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے نمبروار ملا حظہ فرمائیے۔

۱۔ مرزائیت نئے زاویوں سے :۔ یہ مولانا ندوی کے ان مضامین ومقالات کا مجموعہ ہے جو مرزائیت سے متعلق ان کے دورِ ادارت میں الاعتصام میں چھپتے رہے۔ ۱۹۵۲ ء کے آخر میں یہ مضامین پہلی دفعہ کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ یہ نہایت دلچسپ کتاب ہے اور اس میں واقعی مرزائیت کے بارے میں نئے زاویوں سے گفتگو کی گئی ہے۔ حال ہی میں یہ کتاب میرے طویل مقدمے کے ساتھ طارق اکیڈمی فیصل آباد نے شائع کی ہے۔

۲۔ مسئلۂ اجتہاد :۔ یہ کتاب ۱۹۵۲ میں چھپی ۔ صفحات ۲۰۰۔

۳۔ افکارِ ابن خلدون :۔ سالِ اشاعت ۱۹۵۴ ء صفحات ۲۳۳۔

۴۔ افکارِ غزالی :۔ یہ کتاب ۱۹۵۶ ء میں شائع ہوئی ۔ صفحات ۵۱۴۔

۵۔ سرگزشتِ غزالی ـ:۔ یہ امام غزالی کی تصنیف ’’المنقذمن الضظلال‘‘ کا ترجمہ ہے۔ کتاب ۱۹۵۹ ء میں چھپی۔ صفحات۱۹۶۔

۶۔ تعلیمات غزالی :۔ امام غزالی کی ’’احیاء علوم الدین‘‘ ان ابواب کا اردو ترجمہ جن کا تعلق نماز، زکوٰۃ، روزے، حج وغیرہ اہم مسائل سے ہے۔ ۱۹۶۲ میں چھپی ۔صفحات ۵۶۰۔

۷۔ مکتوبِ مدنی :۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے ان کے دور کے ایک مشہور عالم اسماعیل بن عبداللہ آفندی رومی مدنی نے وحدت الوجود اور نظر یہ شہود کے بارے میں سوال کیا تھا۔ شاہ صاحب نے اس مکتوب میں اس کا تفصیل سے جواب دیا ہے۔ اسے’’ مکتوب مدنی‘‘ کہاجاتا ہے ۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے اس اہم علمی کا وش کا سلیس اور شگفتہ اردو ترجمہ کردیا ہے۔ ۳۶صفحات کا یہ مکتوب ۱۹۶۵ میں چھپا۔

۸۔ عقلیات ابن تیمیہ:۔ اس کتاب کا اصل موضوع امام ابن تیمیہ کا فلسفہ اور منطق ہے۔۳۸۵ صفحات کی یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۶۶ء میں چھپی

۹۔ مسلمانوں کے عقائد وافکار:۔علامہ ابوالحسن اشعری چوتھی صدی ہجری کی جلیل القدر شخصیت تھے۔ ان کی تصانیف میں ’’مقالات الاسلامیین‘‘ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ یہ کتاب دو ضخیم جلدوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مولانا نے شگفتہ اردو میں اس کا ترجمہ کیا ہے اور دونوں جلدوں پر الگ الگ طویل مقدمہ لکھا ہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۹۶۸ میں چھپی جو ۳۸۰ صفحات پر مشتمل ہے اور دوسری جلد ہے ۱۹۷۰ میں شائع ہوئی جو ۴۲۴ صفحات کو گھیرے ہوئے ہے۔

۱۰۔ اساسیاتِ اسلام:۔ اس کتاب میں اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے کہ اسلام میں ہمارے تہذیبی، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور روحانی مسائل کا حل بہ طریق احسن موجود ہے۔ اپنے موضوع کی یہ نہایت اہم کتاب ہے جو نو(۹)ابواب پر مشتمل ہے۔ تین سو صفحات کی یہ کتاب ۱۹۷۳میں چھپی۔

۱۱ تہافت الفلاسفہ (تلخیص وتفہیم) غزالی اور ابن رشد دونوں نے حکمت وفلسفہ کے امام ومجتہد کی حیثیت سے شہرت پائی ۔ غزالی کی تصانیف میں سے ایک مشہور کتاب ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ ہے اور ابن رشد کی قابلِ قدر فلسفیانہ تصانیف میں سے ایک معروف تصنیف ’’تہافۃ التہافہ‘‘ ہے جو انھوں نے غزالی کی تہافۃ الفلاسفہ کے جواب میں لکھی ۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے غزالی کی شاہ کار ’’تہافتہ الفلاسفہ ‘‘کی سلیس اور رواں دواں اردو میں تلخیص کی ہے ۔ علاوہ ازیں اس پر طویل مقدمہ لکھا ہے، جس میں غزالی اور ابن رشد کے فلسفیانہ افکار ونظر یات پر جلاتلامحاکمہ کیا ہے۔ مولانا کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے فلسفہ اور منطق کے دقیق مباحث کو اردو ادب کے خوب صورت قالب میں ڈھال دیا ہے ۔ ۲۲۵ صفحات کی یہ کتاب ۱۹۷۴ میں چھپی ۔

۱۲ مطالعہ حدیث:۔مستشرقین اور استشراق زدہ لوگوں نے ایک مدت سے حدیث وسنت کے بارے میں اس ہرزہ سرائی کو ’’علمی وتحقیقی‘‘ رنگ دینے کی جدوجہد شروع کر رکھی ہے کہ اس کی تدوین وتسوید کا سلسلہ محض تاریخی عوامل کی بنا پر ظہور میں آیا۔ ہمارے ہاں کے کچھ لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے اور انھوںنے مستشرقین کے اس اندازِ فکر کو آگے بڑھانے اور پھیلانے کی کوشش کی ۔مولانا محمد حنیف ندوی نے’’ مطالعہ حدیث‘‘ میں اس کا پورا پورا جواب دیا ہے اور بتایا ہے کہ حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اشاعت وفروغ اور حفظ وصیانت کا معاملہ عہد نبوی سے لے کر صحاح ستہ کی تدوین تک ایک خاص نوع کا تسلسل لیے ہوئے ہے، جس میں شک وریب کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی ۔ علاوہ ازیں مولانا نے اس کتاب میں حدیث سے متعلقہ علوم وفنون پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس میں رجال وروّات کی جانچ پر کھ کے پیمانوں کی تشریح کا بھی پورا اہتمام کیا گیا ہے اور ان اصولوں کی بھی وضاحت کی گئی ہے، جن سے محدثین نے متنِ حدیث کی صحت واستواری کا تعین کیا ہے۔

’’مطالعہ حدیث‘‘ پندرہ عنوانات پر مشتمل ہے جو یہ ہیں (۱) قرآن حکیم اور اطاعت رسول (۲) سنت کن حقائق سے تعبیر ہے(۳) سنت عہد نبوی میں (۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوبِ دعوت وارشاد (۵) صحابہ اور تابعین کے دور میں علم حدیث کی اشاعت کا جذبہ (۶) صحابہ اور تابعین کے زمانے میں اشاعتِ حدیث کے اسباب وعوامل (۷) روایت کی دو قسمیں (۸) تدوینِ حدیث (۹) حدیث کے بارے میں فنِّ جرح وتعدیل (۱۰) فتنۂ وضعِ حدیث اور محدثین کی مساعیٔ جمیلہ (۱۱) اصطلاحاتِ حدیث (۱۲) علومِ حدیث (۱۳) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (۱۴) امام زہری (۱۵) کتبِ حدیث اور ان کے مؤلفین۔

مولانا محمد حنیف ندوی کو حدیث وسنت سے قلبی شغف اور روحانی تعلق تھا اور منکرین ومعترضینِ حدیث سے انتہائی نفرت! یہی جذبۂ صادقہ اور داعیۂ حق اس کتاب کی تصنیف کا باعث بنا۔

’’مطالعہ حدیث‘‘ ۲۳۰ صفحات پر مشتمل ہے جو ۱۹۷۹ میں طبع ہوئی ۔

اس کتاب کے علاوہ اپنی مختلف کتابوں میں مولانا نے حجیت حدیث کے متعلق بہت کچھ لکھا۔ اخبار ’’الاعتصام‘‘ اور دیگر متعدد رسائل وجرائد میں نہایت مدلل انداز میں اس موضوع پر بے شمار مضامین تحریر فرمائے۔

مولانا محمد حنیف ندوی جماعت اہل حدیث کے گل سرسید تھے۔ تقسیم ملک کے بعد ۲۴ ؍جولائی ۱۹۴۸ کو مغربی پاکستان کی مرکزی جمعیت اہل حدیث کا قیام عمل میں آیا تو وہ اس کے ارکان میں شامل تھے۔ مرکزی جمعیت کی مجلس عاملہ اور اس کی مختلف کمیٹیوں کے رکن تھے۔ ہفت روز ہ اخبار ’’الاعتصام‘‘ جاری ہوا تو انھیں اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور کئی سال اس کے ایڈیٹر رہے ،مئی ۱۹۴۹ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی پہلی سالانہ کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تو انھیں اس کانفرنس کا صدرِ استقبالیہ بنایا گیا جب کہ اس کانفرنس کی صدارت کے فرائض مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی نے انجام دیئے۔ مولاناندوی کا خطبہ استقبالیہ زبان اور معلومات کے اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل تھا جو الاعتصام کے اجرا کے بعد اس کے چند شماروں میں چھپا۔ صدر جمعیت اہل حدیث مولانا سید محمدداؤد غزنوی کے نزدیک مولانا ندوی کو بے حد احترام کا مقام حاصل تھا جماعتی اور علمی معاملات میں وہ مولانا ندوی کو اپنا مشیر قرار دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جب میں مولانا حنیف ندوی سے گفتگو کرتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں امام غزالی کی مجلس میں بیٹھا ہوں۔

جماعت اہل حدیث کی مرکزی تعلیمی درس گاہ کا نام ’’جامعہ سلفیہ‘‘ مولانا محمد حنیف ندوی نے رکھا تھا تاکہ اس کے فارغ التحصیل حضرات اپنی نسبت سلفیت کی طرف کریں اور سلفی کہلائیں۔ جامعہ سلفیہ کے اولین اساتذہ کی جماعت میں مولانا ندوی بھی شامل تھے۔ جب کہ دیگر اساتذہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور مولانا شریف اللہ خاں تھے۔ جامعہ سلفیہ کی نصابی کمیٹی کے بھی مولانا ندوی رکن تھے اور اس کے صدر مولانا سید محمد داؤد غزنوی تھے۔ اس کا نصاب تعلیم اسی کمیٹی نے ترتیب دیا تھا۔ جامعہ سلفیہ کی مجلس منتظمہ کے بھی مولانا ندوی ؒ رکن تھے۔ انھوں نے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے بعض اجلاسوں کی صدارت بھی کی۔

مولانا محمد حنیف ندوی قدیم وجدید کے پیکر حسین اور صاحبِ فضل وکمال بزرگ تھے۔ مفسرِ کتاب ہدیٰ، فنونِ نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، خزانۂ علوم قرآن ، محبِّ رسولِ عربی، دلدادۂ حدیث نبوی، حاضر جواب، مقرر شیریں بیان، خطیبِ نکتہ طراز، خلوت گزیں مجمع کمال اور گوشہ نشیں محفل آرا تھے۔ دنیا اور اہلِ دنیا سے بے نیاز، دولت وثروت سے مستغنی، لوگوں کی دادوتحسین سے بے پروا ، عربی کے ادیب، اردو کے صاحب، طرز مصنف، متوکل علی اللہ، مجسمۂ فہم وتدبر، اسلامی فلسفے میں یکتا، عمر انیات وعلوم حاضرہ میں منفرد اور علم ومطالعہ کے علاوہ ہر شے سے بے تعلق۔!

اس قناعت پیشہ صاحب علم وہنر نے ۱۲ جولائی ۱۹۸۷ کو نمازِ مغرب کے بعد وفات پائی اور دوسرے دن ۱۳؍ جولائی کو انھیں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ۔
محمد اسحٰق بھٹی​
جناح اسٹریٹ​
اسلامیہ کالونی، ساندہ،​
لاہور، پاکستان​
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
ماشا اللہ مغل صاحب مولانا ندوی ؒ پر بہت جامع اور خوبصورت تحریر بیجھی ہے۔مولانا ندوی ؒ کا فکری پہلو کیا تھا ،اور مسلک اہلحدیث کو کس نظر سے دیکھنا چاہتے تھے۔آپ کی اس تحریر سے واضح ہو تا ہے:۔
مولانا حنیف ندوی ؒ فرماتے ہیں:۔
’’ تضاد کی تیسری صورت جس سے مولانا ( سید داؤد غزنویؒ )از حد شاکی اور پریشان تھے۔جماعت اہلحدیث کے مزاج کی موجودہ کفیت ہے،مولانا کے نقطہ نظر سے اسلام چونکہ تعلق باللہ اور اسکے ان انعکات کا نام ہے،جو معاشرہ اور اور فرد کی زندگی میں لطائف اخلاق کی تخلیق کرتے ہیں۔
اسلئے تحریک اہلحدیث کا اولین مقصد یہ ہونا چاہئے کہ جماعت میں محبت الہی کے جذبوں کو عا م کرے۔تعلق باللہ کی برکات جو پھیلائے،اور اطاعت زہد واتقاوخشیت اور ذکر وفکر کو روا ج دے،لیکن ہماری محرومی و تیرہ بخشی ملاحظہ ہو کہ عوام تو عوام خواص تک تصوف وا حسان کی لذتوں سے نا آشنا ہیں۔حلانکہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ خواص تو خواص ہمارے عوام تک زہد و ورع کا بہترین نمونہ سمجھے جاتے تھے۔
آپ پوچھے گے مولانا مرحوم کے نزدیک ان تضادات سے چھٹکارا پانے کا طریق کیا تھا۔؟
بارہا یہ مسئلہ مولانا کے ہاں زیر بحث آیا ۔انکی اس سلسلہ میں جچی تلی رائے یہ تھی کہ ہمیں تعلیم وتربیت کے پورے نظام کو بدلنا چاہئے،کہ جو جماعت اہلحدیث کی تعمیر کے لئے زیادہ ساز گار ثابت ہو سکے۔اور اسکے فکر وعقیدہ کو ایسی استوار بنیادوں پہ قائم کر سکے، جن میں تضاد اور الجھاؤ کی خلل اندازیاں نہ پائی جائیں ۔جو ان میں زندگی کی نئی روح دوڑا سکے‘‘۔( حضرت مولانا داؤد غزنوی ص )
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
شکریہ آصف بھائی آپ نے مولاناندوی کی ایمان افروز سوانح حیات پڑھنےکا موقع فراہم کیا۔آپ واقعی جدیدوقدیم کاحسین امتزاج تھے۔آپ کےطریق استدلال میں عقلیاتی رنگ غالب ہوتاتھا۔لیکن مسلمہ حدود سے باہر نہیں جاتاتھا۔تاہم کچھ شاذ آرا امت کے تمام علماسےہی صادر ہوئی ہیں۔ہمارا ایمان ہےاس باب میں وہ اللہ کےہاں قابل عفوہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964

أولئك آبائي فجئني بمثلهم -------- إذا جمعتنا يا جرير المجامع
اللهم اغفر له و ارحمه و عافه و اعف عنه و أكرم نزله و وسع مدخله و اغسله بالماء والثلج والبرد -
سقى الله ثراه و جعل الجنة مثواه -
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
۹۔ مسلمانوں کے عقائد وافکار:۔علامہ ابوالحسن اشعری چوتھی صدی ہجری کی جلیل القدر شخصیت تھے۔ ان کی تصانیف میں ’’مقالات الاسلامیین‘‘ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ یہ کتاب دو ضخیم جلدوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مولانا نے شگفتہ اردو میں اس کا ترجمہ کیا ہے اور دونوں جلدوں پر الگ الگ طویل مقدمہ لکھا ہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۹۶۸ میں چھپی جو ۳۸۰ صفحات پر مشتمل ہے اور دوسری جلد ہے ۱۹۷۰ میں شائع ہوئی جو ۴۲۴ صفحات کو گھیرے ہوئے ہے۔
یہ کتاب کہیں نیٹ پر دستیاب ہے ؟
آزاد ، کلیم حیدر بھائی ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
یہ کتاب کہیں نیٹ پر دستیاب ہے ؟
آزاد ، کلیم حیدر بھائی ۔
خضر بھائی عربی زبان میں تو مل گئی ہے۔۔۔۔۔لنک
لیکن اردو میں اس وقت ادارہ کی لائبریری میں موجود نہیں۔۔ کوشش کریں گے کہ مارکیٹ سے خرید کر اپلوڈ کردیا جائے۔ ان شاءاللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خضر بھائی عربی زبان میں تو مل گئی ہے۔۔۔۔۔لنک
لیکن اردو میں اس وقت ادارہ کی لائبریری میں موجود نہیں۔۔ کوشش کریں گے کہ مارکیٹ سے خرید کر اپلوڈ کردیا جائے۔ ان شاءاللہ
جزاکم اللہ خیرا کلیم حیدر بھائی ۔ عربی میں تو یہ کتاب معروف ہے اصل میں میں مولانا حنیف ندوی صاحب کا اشعریت کے بارے میں موقف جاننا چاہتا تھا ۔
کیونکہ عام طور محقق یا مترجم حواشی کے ذریعے یا مقدمہ کے ذریعے اپنے موقف کی وضاحت کردیتا ہے جیساکہ بھٹی صاحب نے بھی وضاحت کی ہے ۔
خیر ان شاء اللہ منتظر ہیں کہ کب اس در ثمین تک رسائی ہوتی ہے ۔ اللہ آپ کے لیے آسانی پیدا فرمائے ۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میں نے اپنے لیے اسکین کرائی تھی۔رشید سے پتا کریں؛ان کے پاس ہو گی ورنہ مجھ سے لے لیں۔مولنا حنیف ندوی کے طرز تحریر کا میں بہت مداح بل کہ عاشق ہوں تاہم فکری اعتبار سے بہت تحفظات ہیں۔مجھے حیرانی ہوئی کہ ان کی تفسیر کے تعارف میں ہند کے کسی عالم نے دیکھے بغیر ہی اسے منہج سلف سے ہم آہنگ ہونے کی سند دے دی ہے حالاں کہ وہ صفات میں تاویل کے قائل ہیں۔ہم ماہ نامہ الاحیا مارچ 2011 سے یہ تفسیر قسط وار شائع کر رہے ہیں اور ارادہ یہی تھا کہ بعد میں اسے کتابی صورت میں طبع کر دیں گے تحقیق اور حواشی کے ساتھ لیکن سبقک بھا عکاشہ؛معلوم نہیں ہندی احباب نے اس پر تحقیق و تعلیق کا اہتمام کیا ہے یا نہیں؟ ممکن ہو تو طبع جدید کی پی ڈی ایف اپ لوڈ ہونی چاہیے۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
شکریہ آصف بھائی آپ نے مولاناندوی کی ایمان افروز سوانح حیات پڑھنےکا موقع فراہم کیا۔آپ واقعی جدیدوقدیم کاحسین امتزاج تھے۔آپ کےطریق استدلال میں عقلیاتی رنگ غالب ہوتاتھا۔لیکن مسلمہ حدود سے باہر نہیں جاتاتھا۔تاہم کچھ شاذ آرا امت کے تمام علماسےہی صادر ہوئی ہیں۔ہمارا ایمان ہےاس باب میں وہ اللہ کےہاں قابل عفوہیں۔
مولانا ندویؒ سے کونسی شاذ آرا صادر ہوئی ،ذرا انکی نشاندہی فرما دے ،ہو سکتا ہے وہ شاذ نہ ہوں ،آپکو غلط فہمی ہوئی ہو۔
 
Top