• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا مودودی، سرفراز خان صفدر اور مسعود بی ایس سی کی کتابوں کا مطالعہ نفع بخش یا گمراہی کا پیش خیمہ

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
*مولانا مودودی، سرفراز خان صفدر اور مسعود بی ایس سی کی کتابوں کا مطالعہ نفع بخش یا گمراہی کا پیش خیمہ؟ (1).*

گذشتہ دنوں ایک مضمون *"چند کتابیں"* کے عنوان سے زیرِ نظر ہوا، مضمون نگار نے اہل بدعت ومنکرینِ سنت کی کتابوں پڑھنے کا مشورہ دیا ہے، جس میں مولانا مودودی، سرفراز خان صفدر اور مسعود بی ایس سی کی تالیفات کو بطورِ خاص زیرِ مطالعہ لانے کی ترغیب دی گئی ہے۔

*نوٹ*: [اگر یہ مضمون دیگر مکاتبِ فکر کی جانب سے لکھا گیا ہوتا تو میں اس سے قطعا تعرض نہیں کرتا، چونکہ جنہوں نے یہ مضمون تحریر کیا ہے انہیں حلقہ اہل حدیث کے خواص احباب کے یہاں پذیرائی حاصل ہے، اس لئے نوکِ قلم کو تکلیف دینے کی نوبت آئی، کیوں کہ منہجِ سلف سے جڑے لوگوں کے متعلقین اگر منہجِ سلف کی مخالفت کریں تو اس کا اثر بہت گہرا اور دیر پا ہوتا ہے، اور ہم اہل حدیثوں کے ساتھ اکثر ایسا ہوا ہے کہ ہم کسی کی ظاہری حماست کو دیکھ کر اس کو قریب کرلیتے ہیں، لیکن بعد میں ہمارے لئے وہ ناسور بن جاتا ہے، اللہ ہم سبھوں کو ہدایت دے اور منہج سلف پر قائم ودائم رکھے]۔

اپنے مضمون کی شروعات کرتے ہوئے موصوف کہتے ہیں کہ : *"دو ایسی کتب جن کو پڑھ کر امید ہے کہ انسان انکار حدیث کی گمراہی میں کبھی مبتلا نہیں ہوسکتا، ان میں پہلی اہلحدیث عالم علامہ عبدالرحمٰن کیلانی کی ’’آئینہ پرویزیت‘‘ ہے اور دوسری سید مودودی کی ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘.*

غیور سلفی بھائیو! اوپر کے سطور کو بغور پڑھیں اور پھر سوچیں کہ مودودی صاحب کی مذکورہ کتاب پڑھ کوئی انسان انکار حدیث میں کبھی مبتلا نہیں ہو سکتا، لیکن اس کے مصنف مولانا مودودی خود اس کتاب کی تالیف کے بعد منکرین سنت کے علمبردار اور مشعلِ راہ بنے۔
یہ بات کسی بھی سلفی العقیدہ شخص پر مخفی نہیں کہ مولانا مودودی کی تعلیمات افکارِ سیئہ وضالہ وباطلہ کا مجموعہ ہے، جہاں آپ کو انکار حدیث کے ساتھ ساتھ اعتزال، اشعریت، صوفیت، خارجیت، رافضیت اور وحدۃ الوجود جیسے تمام عقائد آسانی سے دستیاب ہو جاتے ہیں۔
ماضی قریب میں ہندوستان میں انکارِ حدیث کے سرخیل سر سید، امین احسن اصلاحی اور مولانا مودودی وغیرہ ہی رہے ہیں۔

لوگوں کو حدیث کا انکار کرنا نہیں آتا تھا، لیکن مولانا مودودی اور ان جیسے حضرات کی کاوشوں کی بدولت لوگوں نے حدیث پر اعتراض کرنا، عقل و درایت کی کسوٹی پر پرکھ حدیث کا انکار کرنا، اور اسے عجمی سازش کا نتیجہ بتانا سیکھا ہے۔

لوگوں کو صحابہ پر کلام کرنا نہیں آتا تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف زبان درازی کرنا، دل میں بغض وعناد پالنا مولانا مودودی کی تحریروں سے لوگوں نے سیکھا۔

عام مسلمانوں کی رافضیوں سے قربت بھی بہت کم تھی، لیکن مولانا مودودی خمینی زندیق گمراہ کی حکومت سے ایسے مسحور ہوئے کہ وہ ان کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے، چنانچہ اس کا اثر خاص حلقے میں آج تک دکھائی دیتا ہے، اور رافضیوں نے بھی اس کا صلہ انہیں اور ان کی جماعت کو گاہے بگاہے دیا ہے۔

جامعہ اسلامیہ کے ایک طالب نے مذکورہ مضمون
کو اپنے فیس بک پیج پر نشر کیا تھا، جس پر کسی بھائی نے تعلیق چڑھائی تو اس طالب علم نے" خذ ما صفا ودع ما كدر" کا اس معلِّق کو مشورہ دیا۔
مثال کے طور پر یوں سمجھ لیں کہ مذکورہ طالب علم نے سونے کی دکان کھول رکھی ہے جس میں اصلی سونا، جعلی سونا اور تھوڑے سے پیتل کا کاروبار چلاتے ہیں، بس مشکل یہ ہے کہ وہ دونوں قسم کے سونا اور پیتل کو ایک ساتھ ملا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں، اب لوگ اسے سونا ہی سمجھ کر اس کا بھاؤ کرتے ہیں، کوئی کم علم ان پر جب اعتراض کرتا ہے کہ بھائی ایسا لگ رہا ہے کہ اس میں ملاوٹ ہے ، تو یہ طالبِ علم کہتے ہیں کہ بھائی جو اصلی سونا ہے وہ لے لو اور جو نقلی سونا یا پیتل ہے اسے چھوڑ دو، اب بیچارا خریدار اس شش و پنج میں مبتلا ہے کہ مجھے جب اصلی سونے کی پرکھ نہیں تو میں جعلی سونا اور پیتل کی پہچان کیسے کروں؟

صفا وکدر کا کا نعرہ لگا کر سلفیوں کو اہل بدعت کی کتاب پڑھنے کی ترغیب دینا بالکل ویسے ہی جیسے کوئی شہد میں زہر ملا کر دے اور کہے کہ اللہ رب العالمین نے شہد میں شفا رکھی ہے، تم کو شہد سے مطلب ہونا چاہیے زہر سے نہیں۔

محترم قارئین! آخر وہ کون سا ایسا موضوع جس پر سلف نے اور منہجِ سلف کے پیروکار وں نے سیر حاصل بحث نہ کی ہو کہ ہمیں ایک خارجی و معتزلی فکر کے حامل سے اس کو سمجھنے کی ضرورت پڑ گئی؟

قارئین کرام! انکارِ حدیث سے بچنے کیلئے مولانا مودودی کی کتاب پڑھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ظلم سے بچنے کیلئے ظالم سے مشورہ لینا، قتل جیسے شنیع عمل سے دور رہنے کیلئے قاتل سے نصیحت طلب کرنا، نماز کی اہمیت جاننے کیلئے بے نمازی کے پاس جانا، سود کے حرمت پر سود خور سے معلومات حاصل کرنا۔

شیخ البانی اور شیخ ابن باز رحمہما اللہ، اور شیخ صالح الفوزان وغیرہ حفظہم اللہ جمیعا فرماتے ہیں کہ: اخوان المسلمین اہل سنت والجماعت میں سے نہیں ہے، یاد رہے کہ جماعت اسلامی اور اخوان المسلمین کا منہج ومشرب ایک ہی ہے، ان دونوں کے درمیان وہی رشتہ ہے جو اشعریت وماتریدیت کے درمیان ہے۔
اہل علم و فضل کے نزدیک یہ نیا فرقہ ہے جس کے اصول منہج سلف کے اصول کے مخالف ہے جیسا کہ شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ فرماتے ہیں، تو پھر ان کے بانی ومؤسس کو کس خانے میں رکھا جائے؟
اس لئے قطاع الطریق کی پہچان کریں، اور منہجِ سلف کے دشمن کو پروموٹ کرنے والوں سے ساودھانی اختیار کریں۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*ملاحظہ*: اہل بدعت کی کتابوں سے استفادہ کے سلسلے میں سلف کا موقف کیا ہے، ان شاءاللہ آخری قسط میں تفصیل آئے گی۔

ابو احمد محمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
*مولانا مودودی، سرفراز خان صفدر اور مسعود بی ایس سی کی کتابوں کا مطالعہ نفع بخش یا گمراہی کا پیش خیمہ؟ (2).*

موصوف آگے لکھتے ہیں کہ: *"اگر کسی صاحب کو سنت و بدعت میں فرق جاننامقصود ہو اور قواعد اصولیہ کی بنیاد پر یہ تحقیق مطلوب ہو کہ فرقہ ہائے باطلہ نے کس طرح سے بدعت کی تعریف میں بے جا تصرف کرکے کئی بدعات کو سنت کے دائرے میں لاکھڑا کرنے کی مذموم سعی کی ہے، تو ایسے احباب کو لازمی طور پر حنفی عالم علامہ سرفراز خان صفدر کی کتاب ’’راہ سنت‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیئے جو کہ اس موضوع پر بلاشبہ لاجواب و از حد معلوماتی کتاب ہے"*

مولانا سرفراز خان صفدر فقہا حنفی، عقیدتا اشعری وماتریدی، اور طریقتا صوفی تھے۔
اگر کسی کو یہ جاننا ہو کہ مولانا سرفراز خان صفدر نے اہل حدیث اور ان کے علماء پر کیا کرم فرمائی کی ہے تو ان کی کتاب "طائفہ منصورہ" کی ورق گردانی کرلیں، اہل حدیث علماء کے تئیں ان کے دل میں چھپے نفرتوں کے لاوا کی گرمی مقدمے میں ہی محسوس ہوگی۔

ہمارے "چند کتابیں" والے موصوف اہل حدیثوں کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ سنت اور بدعت کے درمیان کا فرق ان سے سیکھنا چاہئے جنہوں نے خود اپنے گھر میں بدعت کو پناہ دے رکھی ہو۔

بھلا جو شخص سنتِ رفع الیدین کے انکار کیلئے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں چھ قسم کے خود ساختہ اضطراب کا دعویٰ کرکے حدیث کو ناقابل عمل سمجھے ان سے ہم سنت اور بدعت کا فرق کیسے سمجھیں؟
جو صحیح سنت پر عمل کرنا تو در کنار اس کو صحیح کہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہوں ان سے سنت وبدعت کی تفریق کے مسائل سیکھے جائیں، یہ تو بڑے تعجب کی بات ہے۔
نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے سلسلے میں جو احادیث وارد ہیں ان سب کی تاویلات کرکے انکار کی چوکھٹ تک پہنچانے کیلئے انہوں نے باضابطہ ایک کتاب "احسن الکلام۔۔۔" تالیف کی ہے، جس میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا خوب بخیہ ادھیڑا ہے، اور اپنے امام کے قول کو صحیح ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی، ہاتھ پاؤں، قلم اور دماغ سب کا زور لگا دیا ہے۔

مولانا سرفراز خان صفدر کی اصطلاحات محدثین سے بے خبری، ائمہ دین اور ثقہ محدثین پر ان کے نوازشات، احادیث اور مختلف عبارتوں میں کانٹ چھانٹ، اور احادیث پر حکم لگانے میں تناقض کو جاننا ہے تو محترم شیخ ارشاد الحق اثری صاحب حفظہ اللہ ومتعہ بالصحۃ کی تصنیف " مولانا سرفراز صفدر اپنی تصانیف کے آئینے میں" زیرِ مطالعہ لائیں، حقیقت وا ہو جائے گی۔

قارئینِ کرام! اپنے مسلک کی تائید میں اہل دیوبند حدیث کی جس طرح تاویل کرتے ہیں، اور اپنے امام کے قول کو مقدم کرنے کے لیے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو کھلواڑ کرتے ہیں یہ کسی پر مخفی نہیں، بلکہ انکار سنت کے چور دروازے انہیں مقلدوں نے پیدا کئے ہیں، البتہ ان کے انکارِ حدیث کی لگائی ہوئی کھیتی کی فصل جماعتِ اسلامی اور دیگر منکرین حدیث نے کاٹی ہے اور اسے انجام تک پہنچایا ہے۔

محترم قارئین! یہاں یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ دیوبندی اور بریلوی دونوں ایک ہی ہیں، دونوں کے درمیان برائے نام ہی فرق ہے۔
دونوں فقہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو مانتے ہیں، دونوں خالص مقلد ہیں، دونوں عقیدے میں ماتریدیہ اور اشاعرہ ہیں، طریقت میں بھی صوفیت کے طرق اربعہ میں سے کسی ایک کو مانتے ہیں، دونوں کے درمیان مجھے جو فرق نظر آتا ہے وہ بس اتنا ہی کہ جو رائے اور عقیدت دیوبندی اپنے اکابرین کے بارے میں خفیہ طور پر رکھتے ہیں وہی چیز بریلوی ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں، اگر یقین نہ ہو تو ایک بریلوی عالم ارشد القادری کی کتاب "زلزلہ" کی ورق گردانی کریں، اس کتاب نے حقیقتا ایوان دیوبندیت میں زلزلہ برپا کر دیا تھا، جس پر عامر عثمانی صاحب تبصرہ کرتے ہوئے علماء دیوبند کو للکار بیٹھے۔
ارشد القادری کی مذکورہ کتاب کے رد میں کئی کتابیں منظرعام پر آئیں، جن میں اعتدال کی گردان لگانے والے بعض اہل ندوہ نے بھی شرکت کی تھی، پھر ان تمام ردود پر ارشد القادری کا دوسرا رد " زیر وزبر" کے نام سے آیا، کتاب کیا ہے، دیوبند کے مسند نشینوں کے سروں پر لٹکتی ہوئی ننگی تلوار ہے، اس کتاب کے بعد گویا اہل دیوبند کو سانپ سونگھ گیا ہو، کیوں کہ بریلوی گھر کے بھیدی ہیں، اور انہیں لنکا ڈھانے میں کسی قسم کی کوئی دقت نہیں، چنانچہ انہوں نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ ڈال دیا۔

محترم قارئین! ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ مذکورہ کلام کا مقصد کیا ہے؟
مقصد یہ ہے کہ مذکورہ کتاب میں اکابرینِ دیوبند کے ایسے ایسے واقعات، تصرفات، اور دعوے کا ذکر ہے کہ الامان و الحفیظ۔
یہ تمام کے تمام شرک وبدعات کے زمرے میں آتے ہیں، بلکہ یوں کہا جائے کہ بر صغیر میں بدعت کی پیدائش اور اس کا جنم اہل دیوبند اور بریلویت کے کارخانے سے ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

جو خود بدعت کے علمبردار ہوں، سنت صحیحہ کو صرف اس لئے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہوں کہ وہ ان کے امام کے قول کے مخالف ہے، کیا ان سے ہمیں سنت وبدعت کے درمیان تفریق کو سمجھنے اور ان کی تالیف کو پڑھنے کی ضرورت ہے...!!! ؟؟؟

غیور سلفی بھائیو اور منہجِ سلف صالحین کے پیروکارو! مدلسین کی تدلیس کو سمجھیں اور اس سے بچنے کی حتی الوسع کوشش کریں۔

ابو احمد محمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
*مولانا مودودی، سرفراز خان صفدر اور مسعود بی ایس سی کی کتابوں کا مطالعہ نفع بخش یا گمراہی کا پیش خیمہ؟ * (3).

موصوف آگے فرماتے ہیں: "مولانا مسعود احمد بی۔ایس۔سی نے ’’تفہیم اسلام بجواب دو اسلام‘‘۔ اس کتاب میں مسعود احمد صاحب نے "دو اسلام" کے ایک ایک پیرا کا علاحدہ علاحدہ جواب لکھا ہے۔ اس کتاب (تفہیم اسلام بجواب دو اسلام) کو پڑھ کر غلام جیلانی برق صاحب نے اپنے موقف سے رجوع کیا اور کتاب ’’تاریخ تدوین حدیث‘‘ لکھی۔۔"

مسعود بی ایس برادرس (زبردستی کے مفتیوں) کے سلسلے کی ایک کڑی ہیں، جیسے مودودی صاحب، امین احسن اصلاحی صاحب، سر سید صاحب، غامدی صاحب وغیرہ نے علماء شریعت کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے بغیر علم حاصل کرنے کو ترجیح دی اور کتابوں کو ہی اپنا استاد سمجھا، اسی طریق کو موصوف نے بھی اپنایا، اور بعد میں الگ سے اپنی ایک جماعت "جماعۃ المسلمین" بنا ڈالی۔
اس جماعت کے اصول و ضوابط اور قواعد و شروط بھی تیار کئے گئے، چناں چہ جو اس جماعت میں شامل ہوا وہی مسلمان ہے، بقیہ سب کفار ہیں۔
لفظِ "مسلم" کو لے کر بڑی دھما چوکڑی مچائی، اور پھر جماعۃ المسلمین کی مشین سے دھڑا دھڑ تکفیر وتبدیع کے فتوے تیار ہو کر نکلنے لگے۔

محترم قارئین! مان لیجئے کہ ایک آدمی بریلوی عالم کی کتاب پڑھ کر مسلمان ہوتا ہے تو کیا ہم تمام مسلمانوں کو بریلوی عالم کی کتاب پڑھنے کا مشورہ دیں گے؟
مسعود بی ایس سی صاحب نے غلام جیلانی برق صاحب کی کتاب "دو اسلام" کا جواب دیا، لیکن پھر بعد میں مسعود بی ایس سی صاحب خود دو اسلام کے قائل ہو گئے، جہاں ان کی جماعت کا اسلام الگ تھا اور اور بقیہ تمام مسلمانوں کا اسلام الگ۔
مسعود بی ایس سی صاحب نے "توحید المسلمین" نامی کتاب تالیف کی جس میں اللہ کے حاضر وناظر ہونے کا عقیدہ بڑے زور و شور سے اٹھایا، اور اللہ کو حاضر قرار دینے کیلئے اس قدر زور صرف کیا ہے کہ قلم ٹوٹ گیا۔

قارئینِ کرام! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فتنے کی پیشن گوئی کی ہے جس کا ظہور ان دعاۃ کی شکل میں ہوگا جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے، وہ ہم میں سے ہی ہوں گے اور ہماری زبان ہی بولیں گے، اپنی باتوں کو اسلام کے نام پر ہی پیش کریں گے، ان کی باتیں اوپر سے بڑی سنہری ہوں گی لیکن اندر سے ہلاکت وگمراہی کا ذخیرہ ہوں گی، جس طرح راکھ اوپر سے ٹھندی ہوتی ہے لیکن اس کے اندر چھپی ہوئی چنگاری بڑا دھماکا کر سکتی ہے۔
سلف صالحین، ائمہ دین، اور فقہاء صالحین سے محبت کرنے والے غیرت مند مسلمان بھائیو! منہجِ سلف کو خود ساختہ افکار کے حاملین کے سپرد کرنے سے بچیں، کیوں جن کتابوں سے موصوف آپ کا رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں ان میں کی اکثریت نے انکار حدیث میں حصہ لیا ہے، بعض نے کھل کر تو بعض نے پسِ پردہ۔
اس لئے کسی کی بھی بات قبول کرنے سے قبل دیکھیں کہ وہ منہجِ سلف صالحین کے مطابق اپنی بات پیش کر رہا ہے یا اس سے ہٹ کر۔

ابو احمد محمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
*مولانا مودودی، سرفراز خان صفدر اور مسعود بی ایس سی کی کتابوں کا مطالعہ نفع بخش یا گمراہی کا پیش خیمہ؟ (4).*

#اہل_بدعت_وضلالت_کی_کتابوں_سے_استفادہ_کے_سلسلے_میں_سلف_کا_موقف۔#

سلف صالحین رحمہم اللہ نے کتاب وسنت کی روشنی میں ہر موضوع پر نہایت عمدہ، مفصل اور سیر حاصل بحث کی ہے، شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جو تشنہ رہ گیا ہو.
جیسے ایک مخلص طبیب مریض کیلئے خیر خواہ ہوتا ہے اور اسے ان چیزوں سے روکتا ہے جو اس کی صحت کیلئے مضر ہوں، اور ان اشیاء کے استعمال کی ترغیب دیتا ہے جن میں اس کی تندرستی اور صحت وعافیت کا راز مضمر ہو، بالکل اسی طرح ایک مخلص عالم دین عوام الناس کیلئے طبیب کے قائم مقام ہوتا ہے جو ان کے عقیدہ ومنہج کی صحت وسلامتی کے پیشِ نظر ان پگڈنڈیوں پر چلنے سے منع کرتا ہے جہاں دن میں بھی دھندلا پن ہو، اور پائے ثبات میں لغزش پیدا ہونے کا خطرہ ہو، اور ان شاہراہِ عام پر چلنے کی تلقین کرتا ہے جہاں کی رات بھی دن کے مانند ہے۔
چناں چہ اہل بدعت کی کتابوں میں پائے جانے والے افکار انہیں دھندلی پگڈنڈیوں کے مانند ہیں جہاں قدم ڈگمگانے کا پورا خطرہ ہوتا، گرچہ اس دھندلے پن میں کچھ نظر آجائے لیکن لغزش کا خطرہ ہنوز برقرار رہتا ہے، جبکہ اہل سنت اور سلف صالحین کی کتابیں ان شاہراہِ عام کی مانند ہیں جہاں اندھیرا تو درکنار، سنت کی ضیاء پاش کرنوں سے وہاں کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہوتی ہیں۔

ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: بدعتیوں سے علم حاصل کرنے میں دو خرابیاں ہیں:
1- بدعتی عجبِ نفس میں مبتلا ہو جائے گا اور یہ سمجھے گا کہ وہ حق پر ہے۔
2- اور دوسری خرابی یہ ہوگی کہ لوگ اس سے دھوکے میں پڑ جائیں گے(1)۔

یعنی جب لوگ دیکھیں گے کہ علماء ان بدعتیوں سے علم حاصل کر رہے ہیں تو وہ اس دھوکے میں پڑ جائیں گے کہ یہ بدعتی حق پر ہیں، کیوں کہ اگر وہ حق پر نہیں ہوتے تو یہ حق پرست علماء ان سے علم حاصل کیوں کرتے یا ان سے علم حاصل کرنے کی تلقین کیوں کرتے؟ عوام حق وباطل کے درمیان تمییز بہت کم ہی کر پاتے ہیں، بس وہ اپنے علماء کی تقریر و تحریر اور ان کے تعامل وتصرف سے ہی سیکھتے ہیں، اس لئے اگر احتیاط نہیں برتا گیا تو پوری امت کی گمراہی کا خطرہ در پیش ہوگا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہود ونصاری کی کتابوں کو پڑھنے سے منع کیا ہے، حالاں کہ ان کی کتابوں پر ہمارا اجمالی ایمان ہے، اور یقینا وہ کتابیں وحی الٰہی سے خالی نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کتابوں کو پڑھنے سے روکا بلکہ ناراضگی کا اظہار بھی کیا، کیوں کہ اس میں حق کے ساتھ باطل کی بھی آمیزش ہے، اور ہمارے پاس کتاب و سنت کی شکل میں ایسی تعلیمات موجود ہیں جو خالص حق ہے۔
چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ یہودیوں کی کتاب کا بعض نسخہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوگئے اور فرمایا: (( أمتهوكون يا ابن الخطاب؟! والذي نفسي بيده؛ لقد جئتكم بها بيضاء نقيّة، لا تسألوهم عن شيء فيخبروكم بحق فتكذبوا به أو بباطل فتصدقوا به، والذي نفسي بيده؛ لو أنّ موسى عليه السلام كان حياً ما وسعه إلا أن يتّبعني ))(2).

مفہومِ حدیث: اے عمر رضی اللہ عنہ ابھی تک تم متردد ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یقینا میں تمھارے پاس بالکل صاف ستھری شریعت کے کر آیا ہوں، یہود ونصاری سے کچھ نہ پوچھا کرو، ہوسکتا ہے وہ تمہیں حق بتائیں اور تم انہیں جھٹلا دو، یا جھوٹ بتائیں تو تم انہیں سچ مان لو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آج موسی علیہ الصلاۃ والسلام بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی مجھ پر ایمان لانا مجھ پر ہی ایمان لانا پڑتا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت سے عمر رضی اللہ عنہ نے فائدہ اٹھایا، چنانچہ ان کے دورِ خلافت میں جب اسکندریہ فتح ہوا تو وہاں اہل روم کی بہت سی کتابیں پائی گئیں، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے اس کتاب کے متعلق پوچھا کہ ان کتابوں کا کیا کیا جائے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان تمام کتابوں کو جلانے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ ہمارے لئے کتاب اللہ ہی کافی ہے(3)۔

مروذی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے کہا کہ میں ایک کتاب عاریتا لی ہے، جس میں کچھ شریعت مخالف چیزیں ہیں، کیا میں اس کتاب کو پھاڑ دوں یا جلا دوں؟، تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: ہاں بالکل اسے جلا دو یا پھاڑ دو، کیوں کہ اہل بدعت اپنی کتابوں میں بدعت داخل کر دیتے ہیں، میں اس قسم کی کتابوں سے سختی سے منع کرتا ہوں(4)۔

مفضل بن مہلہل فرماتے ہیں کہ: کسی بھی بدعتی کی مجلس میں بیٹھوگے تو وہ شروع سے ہی اپنی بدعت کو بیان نہیں کرے گا، کیوں کہ اگر وہ بدعت سے ہی مجلس کی شروعات کرےگا تو تم ان کی مجلس سے اٹھ کر چلے جاؤگے، اس لئے وہ مجلس کی ابتدا ان احادیث سے کرتا ہے جو عظمتِ سنت پر دلالت کرتی ہوں، پھر اس کے بعد دوران گفتگو اپنی بدعات کو قدرے چالاکی سے پیش کرے گا، اگر وہ بدعت سنت کے نام پر تمہارے دل میں جگہ بنا لے تو پھر کیسے باہر نکلے گی؟ (5)۔

محترم قارئین! اگر آپ غور فرمائیں تو مفضل بن مہلہل رحمہ اللہ کا یہ اثر مولانا مودودی، سرفراز خان صفدر اور مسعود احمد بی ایس سی جیسے صاحبان پر پورے طور سے منطبق ہوتی ہے، یہ حضرات بھی اپنی کتابوں کی شروعات کتاب وسنت کے دفاع سے ہی کرتے ہیں، لیکن آگے چل کر ایسا گل کھلاتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔
مثال کے طور مولانا مودودی صاحب کی کتاب "خلافت وملوکیت" کو لے لیں، شروع کے صفحات قرآنی آیات اور اس کے ترجمہ سے مزین ہیں، احادیث کا انبار ہے، لیکن بعد میں جاکر جو انہوں نے گل کھلایا وہ کسی صاحب عقل و خرد پر پوشیدہ نہیں ہے، خاص طور سے جنہوں نے ان کی اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اہل بدعت کی کتابوں سے دور رہنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کتاب کے مطالعہ کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہو جائے، اور بدعتیوں کی کتابوں کی ترویج و اشاعت بھی عوام کے درمیان نہ کی جائے، ان کتابوں میں گمراہی ہوتی اور گمراہی کی جگہوں سے دور رہنا واجب ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں بتاتے ہوئے فرمایا: (( من سمع به فلينأ عنه فوالله إن الرجل ليأتيه وهو يحسب أنه مؤمن فيتبعه مما يبعث به من الشبهات )) رواه أبو داود قال الألباني: وإسناده صحيح.
مفہومِ حدیث: جو دجال کے آنے کی خبر سنے وہ اس سے دور رہے، اس کے قریب نہ جائے، اللہ کی قسم ایک آدمی اپنے آپ کو مؤمن سمجھے گا اور اس کے پاس مقابلہ کرنے کے لیے جائے گا، لیکن دجال اس کو اپنے شبہات میں ایسا الجھائے گا کہ وہ اسی کا پیروکار بن کر رہ جائے گا۔

**(اس لئے جن کتابوں میں بدعت وضلالت ہے اس سے دور رہنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اپنے آپ کو بڑا دقاق سمجھ کر ان کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کرے اور کہے کہ میں تو خذ ما صفا ودع ماکدر پر عمل کروں گا، اور بعد میں پتہ چلے کہ وہ اس فکر سے ایسا متاثر ہوا کہ خود اس کو بھی پتہ نہیں چلا)**
لیکن اگر اہل بدعت پر رد کرنے کے لیے ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ان پر رد کرنے کے لیے ان کی کتابوں کو پڑھ سکتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ اہل بدعت پر رد کرنے کے لیے ان کی کتابوں کو پڑھنے کی اجازت صرف اسی کو ہوگی جو عقیدہ صحیحہ کا علم رکھتا ہو، اور بدعتیوں پر رد کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہو، بصورتِ دیگر ان کی کتابوں کو پڑھنا جائز نہیں(6)۔

قارئین کرام! آپ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے کلام میں غور فرمائیں، انہوں نے اہل بدعت کی کتاب کو پڑھنے کی اجازت ان کی بدعات پر رد کرنے کی غرض سےدی ہے، رہی بات ان کی کتابوں سے استفادہ کرنے کی تو علماء نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔
ایسے بہت سے اقوال علماء سلف صالحین سے منقول ہیں، طوالت کے خوف سے انہیں ترک کر رہا ہوں، کیوں کہ عقل مند را اشارہ کافی است۔

ابو احمد محمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) شرح حلیۃ طالب علم/ ص 138.
(2) حديث حسن، الإرواء ( 6/338-340 ).
(3) مجموع الفتاوى 17/ 41.
(4) هداية الأريب الأمجد ( ص : 38 )۔
(5) الابانۃ لابن بطہ (ص140، رقم الاثر 394)۔
(6) مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله ( 5/89 )، بتصرف یسیر.
** بریکٹ کے درمیاں کا کلام راقم کی اپنی توضیح ہے۔
 
Top