• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا مودودی اور ان کی جماعت

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
پیش کردہ (مفتی) عابدالرحمٰن بجنوری​
مولانا مودودی اور ان کی جماعت


السلام علیکم
محترم قارئین کرام آج میں آپ حضرات کی خدمت میں اپنے والد مرحوم حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمٰن صاحب ؒ (خلیفہ ومجاز حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ) کی سوانح حیات’’ دیروحرم‘‘ سے ایک تاریخی اقتباس پیش خدمت کررہاہوں ،موصوف کا شمار ہندوستان کے کبارعلماء میں ہوا کرتا تھا اور دنیا کے تین ممتاز مفتیان کرام میں سے ایک تھے، نہایت حق گو،بیباک ،اور مشہورزمانہ اردوخبار ’’مدینہ‘‘ کے ایڈیٹر تھے، ان کی سوانح حیات الغزالی فورم پر قسظ وار شائع کررہا ہوں ، لیجئے ملاحظہ فرمائیں مولانا مودودی کے بارے میں۔
مولانا مودودی اور جماعت اسلامی:​

’’جماعت ِ اسلامی‘‘ کا لفظ شروع میں مولانا مودودی صاحب نے اپنی تحریروں میں (مدینہ منورہ کی چھوٹی سی جماعت ِ اسلامی) سے شروع کیا تھا۔ تحریرات سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کوئی جماعت تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ بہرحال وہ اندازہ محض اندازہ نہ رہا؛بلکہ وجود اور حقیقت بن گیا اور جماعت ِ اسلامی کے نام سے ایک جماعت بن گئی۔
ہندوستان میں یہ صرف رامپور کی حد تک تھی، یا پھر ہم خیال لوگ ہوں؟ باہر کوئی تشکیل نہ تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے حلقۂ دیوبند میں اس کا چرچا مظاہر علوم سہارنپور کی درسگاہ سے ہوا۔ وہاں مفتی محمد سعید صاحب مرحوم والد مفتی مظفر حسین صاحبؒ اور مولانا زکریا قدوسی میں نوک جھونک رہتی تھی۔ اس زمانے میں مظاہر علوم کے سرپرستوں میں دو حضرات یعنی مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ اور مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوریؒ تھے۔ یا دونوں میں سے کوئی ایک۔
سہارنپور سے بات دیوبند آگئی، دیوبند حضرت مدنیؒ کے اردگرد رہنے والے دو تین صاحب تھے، حضرت کو اتنی فرصت کہاں تھی کہ وہ اُردو کتابوں کا مطالعہ کریں، پیری مریدی، جلسہ اور اسباقِ بخاری وترمذی پھر انھیں سے متعلق مطالعہ۔ ان ردے بازوں نے جن اقتباسات پر نشان لگا دیا وہ پڑھ لیا یہ اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ ان حضرات کی تحریرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ اقتباسات سے آگے نہیں بڑھا۔ حلقۂ رامپور کے ترجمان مولانا ابواللیث صاحب مرحوم اور رامپور سے نکلنے والا رسالہ ’’زندگی‘‘ تھا۔ حلقۂ دیوبند کے پاس یا تو الجمعیۃ اخبار یا رسالہ دارالعلوم تھا، اور بس بات بڑھتی رہی۔
جماعت ِ اسلامی کے لوگوں کا یہ طریقۂ کار رہا ہے کہ وہ معتمد خاص ہی لوگوں کو رکن بناتے ہیں باقی دیگر حضرات دلچسپی رکھنے والے یا ہم خیال لوگوں کو نہیں۔ دوسرا یہ کہ ان کا ہر ایک ہم خیال خود بھی کتابیں خریدتا اور خرید کر دوسروں کو پڑھواتا اس لئے بات پڑھے لکھے حلقے، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور کچہریوں اور دفاتر مسلمانوں میں چلتی رہی۔ اس کی تردید میں حضرت مدنیؒ پیش پیش تھے۔ کوئی جلسہ اور تقریر مودودی صاحب اور جماعت اسلامی کی تردید سے خالی نہ ہوتی تھی۔ گویا میدانِ جنگ کہیں اور دفاع کہیں۔ اس لئے اس حلقہ پر کوئی اثر نہ ہوا، جہاں یہ خیال پرورش پارہا تھا قلمی میدان میں وہ ملکوں میں پھیل گئے اور یہ ایک ہی حلقے میں رہے۔
بہرحال بات پھیلی اور بعد میں اختلاف اور افتراق کی شکل اختیار کرگئی تو حلقۂ رامپور (مولانا ابواللیث اصلاحی) نے حضرت مدنیؒ سے مراسلت شروع کی، یہ مراسلت میں نے ۵۵-۵۶ء میں پڑھی ہے۔ اس میں انھوں نے حضرت مدنیؒ سے ملاقات کا وقت مانگا کہ افہام وتفہیم کے لئے مراسلت ناکافی ہے تو حضرت مدنیؒ نے لکھ دیا: ’’لکُمْ دینُکُمْ وَ لِی دِین‘‘۔ بس یہ جملہ یاد رہ گیا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ شروع میں چند اہل علم لوگ مولانا مودودی صاحب کی تحریرات سے متأثر ہوئے۔ مثلاً: مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا منظور نعمانی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، ان حضرات کی تلو ّن مزاجی سے مجھے ان کے اہل علم ہونے میں تامل ہے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کوئی عربیت کے ماہر نہیں تھے۔ بس اتنا ہے کہ عربی زبان کی کتابوں کا مطالعہ کسی حد تک کرلیتے تھے۔ یہ بات ان کی تحریرات سے ثابت ہے۔
وہ مدینہ اخبار میں بھی رہے اور الجمعیۃ میں بھی۔ اس سے پہلے وہ حیدرآباد میں مولانا عبداللہ عمادی (۱)
حاشیہ
(۱) مولانا مودودی صاحب مولانا عبداللہ عمادی کے لائبریرین تھے۔ کتابوں وغیرہ سے تلاش وجستجو کے بعد ان کو کچھ مضامین دیا کرتے تھے۔ انھیں کی صحبت میں رہ کرکے کچھ عربی زبان سے مناسبت ہوگئی تھی۔ )
کے ساتھ بھی جو علم میں بڑی حد تک ان کے مربی رہے۔ مولانا مودودی صاحب نے ’’الہلال‘‘ اور سرسید کی تحریروں کا خوب مطالعہ کیا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی تحریرات میں ان کے الفاظ نہیں بلکہ جملے اور سطریں خوب بولتے ہیں۔ اقتباس کے طور پر نہیں اپنائیت کے طور پر۔ تفہیم القرآن کو پڑھنے والوں نے اگر غور کیا تو اس کی تصدیق ہوجائے گی۔ اس میں شک نہیں کہ ان کا مطالعہ اور معلومات بہت ہی زیادہ وسیع ہیں۔ ان تمام چیزوں کو ہم نے اپنی کتاب ’’تقصیراتِ تفہیم القرآن‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہے اور اس کا جائزہ بھی لیا ہے۔
بات آگے نکل گئی۔ اس اختلاف کو افتراق ہم اس وجہ سے کہتے ہیں کہ جماعت ِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے حلقہ ٔ دیوبند کے نزدیک اگر وہ کافر نہیں ہیں تو مومن بھی نہیں؛ بلکہ گمراہ ہیں۔ ابتداء میں اس اختلاف کی وجہ سے گھروں میں لڑائیاں ہوئیں، نکاح ٹوٹے، حقہ پانی بند ہوا۔ ہمارے نزدیک یہ ہندوستانی مسلمانوں پر یہودیت کی تخریب پسند پالیسی یا اقوامِ عالم کی جادوگری کا اثر پڑا تھا اور وہ یہی چاہتے تھے:
{لَتَجِدَّنَ أشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا الیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوْا الَّذِیْنَ قَالُوا اِنَّا نَصاریٰ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِصِّیْصِیْنَ وَ رُہْبَانًا وَّاَنَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ} (المائدۃ، جزو:۶)
تم ضرور پاؤگے لوگوں میں سب سے زیادہ دشمن مومنین کا یہود کو اور مشرکین کو اور ضرور پاؤگے ان سے قریب محبت میں مومنین سے ان کو جو اپنے کو نصاریٰ کہتے ہیں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ان میں علماء ہیں، راہب ہیں اور وہ متکبر نہیں ہیں۔
بات بڑھنے کے خوف سے مختصراً اشارہ ہے، ہمارے علماء اور مذہبی حلقوں کی آنکھوں پر پٹی چڑھی رہی کہ انھوں نے اس قرآنی ہدایت سے اعراض کیا جس کی سزا نسلوں تک جاری رہے گی ؎

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

وہ لوگ جو روزانہ قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہیں، محرابوں میں پڑھتے اور سنتے ہیں، وعظ کی دھوم مچاتے ہیں لیکن اس سے غافل۔ جہاں تک عوام کا معاملہ ہے ؎

یوں دن تو گزرنے کو گزر جائیں گے لیکن
یہ بے رُخی اے اہل وطن یاد رہے گی

جن لوگوں کی زندگیاں القابات اور خطابوں میں گزریں یاد رکھیں میدانِ محشر سامنے ہے، زخمیوں کے زخم میں جب تک وہ بھر نہ جائے گا جو ٹیس رہے گی اس میں برابرکے شریک رہیں گے اور اذیت کا یہ بوجھ شاید وہ نہ اُتار سکیں۔
 
Top