• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مومنوں سے دوستی واجب ہے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
مومنوں سے دوستی واجب ہے
فضیلۃ الشیخ ابو عمرو عبدالحکیم حسان حفظہ اللہ

اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے درمیان باہمی الفت کو واجب ٹھہرایا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ مومنوں کی آپس میں محبت اور دوستی ایمان کے لوازمات اور اساسیات میں سے ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ کافروں اور مشرکوں سے محبت اور دوستی سے منع فرمایا ہے اور واضح کیا ہے کہ اہل ایمان کے لیے یہ قطعاً حرام اور شجر ممنوعہ ہے۔ یہ بھی واضح فرمایا کہ کافروں سے دوستی رچانا اور ان کی نصرت وحمایت اور کسی طرح کی سپورٹ (support) کرنا ساری دنیا کے مسلمانوں کے عقیدہ وایمان کے بالکل منافی ہے۔

مومنوں سے دوستی کے وجوب کی پہلی دلیل :

مومنوں کے درمیان باہمی محبت ومودت واجب ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید اور فرقان حمید میں ارشاد فرماتے ہیں :
﴿إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ  وَمَنْ يَتَوَلَّ اللہَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللہِ هُمُ الْغَالِبُونَ﴾(المائدہ55-56:)
’’تمہارا دوست تو اللہ تعالیٰ ، اس کا رسول اور اہل ایمان ہیں ، جو نماز قائم کرتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور (اپنے اللہ کے آگے) جھکتے ہیں، جو شخص بھی اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور مومنوں سے دوستی کرے گا تو (وہ اللہ کی جماعت اور پارٹی میں داخل ہوجائے گا) اور اللہ کی جماعت ہی غلبہ پانے والی ہے‘‘

مومنوں سے دوستی کے وجوب کی دوسری دلیل:


قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ اسی حقیقت اور حکم کو یوں بیان فرماتے ہیں :
﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللہِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ واللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللہِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ وَأُولُو الأرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللہَ إِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾ (الانفال:75-72)
’’جو لوگ ایمان لائے اور (اپنے وطنوں سے) ہجرت کر گئے اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کے ساتھ اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا وہ، اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو لوگ ایمان تو لے آئے لیکن ہجرت نہیں کی۔ تو جب تک وہ ہجرت نہ کریں تم کوان کی دوستی سے کوئی سروکار نہیں اور اگروہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد وتعاون طلب کریں تو تم پر مدد کرنا واجب ہے۔ مگر ان لوگوں کے مقابلے میں کہ تم میں اور ان میں (صلح کا) عہد ہو (تو مدد نہیں کرنی چاہئے) اور اللہ رب العزت تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور جو لوگ کافر ہیں وہ بھی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ تو (مومنو!) اگر تم یہ (آپس میں دوستی کا کام) نہ کروگے تو زمین میں فتنہ برپا ہوجائے گا اور بڑا فساد مچے گا اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کرگئے اور اللہ کی راہ میں جنگ کرتے رہے۔ اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے (اللہ کے ہاں) مغفرت اور عزت کی روزی ہے اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کرگئے اور تمہارے ساتھ ہوکر جہاد کرتے رہے وہ بھی تم میں سے ہی ہیں اور رشتے دار اللہ کی کتاب کی رُو سے ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں کچھ شک نہیں کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے‘‘


مذکورہ بالا دونوں مقاماتِ قرآنیہ سے معلوم ہوا کہ مومنوں کا آپس میں ایک دوسرے سے محبت واُلفت کا تعلق قائم کرنا واجب ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا واضح بیان:
اسی بناء پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اِنَّ أَصْلَ الدِّیْنِ وَ کَمَالِہٖ أَنْ یَّکُوْنَ الحُبُّ فِی اللہِ وَ الْبُغْضُ فِی اللہِ وَ الْمُوَالَاۃُ فِی اللہِ وَالْمُعَادَاۃُ فِی اللہِ وَالاِسْتِعَانَہُ بِاللہِ وَالْخَوْفُ مِنَ اللہِ وَالرَّجَاءُ لِلّٰہِ وَالاِعْطَاءُ لِلّٰہِ وَالمَنَعُ لِلّٰہِ۔‘‘ [الدررالسنیۃ:109/7]
’’دین کی اصل حقیقت اور اوجِ کمال یہی ہے کہ :

  • اللہ تعالٰی ہی کے لیے محبت ہو۔
  • اللہ تعالٰی ہی کے لیے نفرت ہو۔
  • اللہ تعالٰی ہی کے لیے آپس میں دوستانہ مراسم ہوں۔
  • اللہ تعالٰی ہی کے لیے دشمنیاں ہوں۔
  • اللہ تعالٰی ہی کے لیے ہرقسم کی عبادت ہو
  • اللہ تعالٰی ہی سے مدد طلب کی جائے
  • اللہ تعالٰی ہی سے ڈرا جائے۔
  • اللہ تعالٰی ہی سے تمام امیدیں وابستہ کی جائیں۔
  • اللہ تعالٰی ہی کے لیے عنایات اور سخاوتیں ہوں۔
  • اللہ تعالٰی ہی کے لیے کسی جگہ سخاوت وبخشیش سے ہاتھ روکا جائے۔
 
Top