محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
مومن و کافر کا کفر کرناَ
بات بڑی عجیب سی لگتی ہے کہ مومن بھی ہو اور وہ کفر بھی کرے۔ کافر کا کفر کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن مومن کفر کیسے کر سکتا ہے؟
اس تھریڈ میں اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ قرآن مجید سے راہنمائی لی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہ
کیا آپ نے اِن لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوٰی تو کرتے ہیں کہ وہ اس (چیز یعنی قرآن و سنت) پر ایمان لائے جوآپ کی طرف اتارا گیا اور ان (آسمانی کتابوں) پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئیں (مگر) چاہتے یہ ہیں کہ اپنے مقدمات (فیصلے کے لئے) طاغوت کی طرف لے جائیں حالانکہ انہیں حکم دیا جا چکا ہے کہ اس سے کھلا کفر کریں۔
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۰ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى لَاانْفِصَامَ لَہَا
دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی طاغوت سے کفر کرے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کا ٹوٹنا (ممکن ہی) نہیں۔
مندرجہ بالا پہلی آیت میں جملہ اقسامِ طاغوت کے ساتھ ''کفر'' کرنا فرض کر دیاگیا ہے۔
جبکہ دوسری آیت میں ہر قسم کے طاغوت سے ''کفر'' کرنے کے بعد اللہ تعالی کے ساتھ ایمان لانے پر کامیابی کا دارومدار رکھا گیا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا دونوں آیات میں لفظ کفر کا ترجمہ ہم نے کفر ہی کیا ہے۔
آخر کیوں۔
جبکہ قرآن مجید کے عام تراجم میں مذکورہ جگہوں پر کفر کا ترجمہ انکار کیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ
لفظ انکار میں وہ شدت نہیں پائی جاتی جو لفظ ''کفر''میں ہے۔
اور
کفروشرک کے حاملین سے یہی ''کفر'' مطلوب ہے، صرف انکار نہیں۔
اور یہی محل نزاع ہے
کیا اس طرح کی سوچ رکھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے لوگ اس دنیامیں موجود تھے؟
قرآن مجید میں اللہ تعالی راہنمائی فرماتاہے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ
بیشک تمہارے لئے ابراہیم (علیہ السلام) میں اور اُن کے ساتھیوں میں بہترین نمونۂ (اقتداء) ہے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: ہم تم سے اور اُن سب سے جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو کلیتہً بیزار (اور لاتعلق) ہیں، ہم نے تمہارے ساتھ کھلا کفر کیا ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور نفرت و عناد ہمیشہ کے لئے ظاہر ہوچکا، یہاں تک کہ تم ایک اللہ پر ایمان لے آؤ۔
اس آیت میں ایک بات انتہائی قابل غور ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے کفر و شرک کرنے والوں سے اظہارِ برأت کے بعد جو لفظ استعمال کیا وہ كَفَرْنَا ہے۔
دوسری بات یہ کہ آیت کے شروع میں خطاب محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے متبعین کو ہے اور آیت میں موجود لفظ ''ابدا'' اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ قیامت تک یہ معاملہ چلتا رہے گا تیسرا یہ کہ رسول اکرم ﷺ کی اُمت میں سے جو بھی شخص اس آیت پر عمل کرے گا، وہ اس لفظ ''ابدا'' کی وجہ سے اس حکم میں داخل ہو گا۔
اب اس تصویر کا دوسرا رُخ دیکھتے ہیں:
وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا [٤:١٥٠]
اور کہتے ہیں کہ بعض پر تو ہم ایمان لائے اور بعض کے ساتھ کفر کیا ۔ اور چاہتے ہیں کہ اس (ایمان و کفر) کے درمیان کوئی راہ نکال لیں
اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّہِيْنًا [٤:١٥١]
ایسے ہی لوگ درحقیقت کافر ہیں، اور ہم نے کافروں کے لئے رُسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے،