• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مؤمن و مطمئن نفس

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مؤمن و مطمئن نفس

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{یٰٓأَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْ إِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ o} [الفجر: ۲۷ تا ۳۰]
'' اے اطمینان والی روح! تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل، اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش، پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں چلی جا۔ ''
شرح ... نفس مطمئنہ: اس آیت میں روح سے مراد پاک اور یقین رکھنے والی جان ہے، حق کے ساتھ گھومنے والی، ایمان، ذکر اللہ اور ثواب پر مطمئن ہونے والی اور اللہ کے فیصلوں پر راضی ہونے والی روح مراد ہے یعنی اسے معلوم ہے کہ جو چیز مجھے نہیں ملی وہ میں حاصل نہیں کرسکتی تھی اور جو مجھے ملی ہے وہ مجھ سے چھینی نہیں جاسکتی تھی۔
اس کی مزید صفات حسب ذیل ہیں: دوبارہ جی اٹھنے اور ثواب ملنے کی تصدیق کرنے والی، اللہ کے رب ہونے کا یقین رکھنے والی، لہٰذا اسی کے لیے عاجزی و انکساری ظاہر کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو وعدے کیے ان پر یقین رکھتے ہوئے عمل کرتی ہے اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجاتے ہیں۔
اسے کہا جائے گا: اے اطمینان والی روح! تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل یعنی اس کے قرب و ہمسائیگی ، ثواب اور جو اس نے اپنے بندوں کے لیے جنت میں تیار کیا ہے اس کی طرف چل (راضیۃ: خود اس ذات باری تعالیٰ سے راضی ہونے والی (مرضیۃ: وہ ذات الٰہی تجھ سے خوش ہے۔
یہ خوشخبری نفس کو موت کے وقت سنائی جاتی ہے اور قیامت کے دن بھی سنائی جائے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مومن بندہ جب دنیا سے جدا ہونے اور آخرت کی طرف سفر کرنے کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے سفید چہروں والے فرشتے اترتے ہیں گویا ان کے چہرے سورج ہیں (یعنی چمکنے میں سورج کی مانند ہیں۔) ان کے پاس جنت کے کفنوں میں سے کفن اور جنت کی خوشبوؤں میں سے خوشبو ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ اس کے پاس تاحد نظر بیٹھ جاتے ہیں پھر موت کا فرشتہ آتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے تو کہتا ہے ''اے پاک روح! رب کی مغفرت اور رضا کی طرف نکل'' تو روح نکلتی ہے چنانچہ ایسے بہتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ بہتا ہے، فرشتہ اسے پکڑلیتا ہے اور جب پکڑتا ہے تو اپنے ہاتھ پر پلک جھپکنے کے برابر بھی نہیں رکھتا کہ دوسرے فرشتے اس کو پکڑ لیتے ہیں اور یہ اس کفن اور خوشبو میں اس روح کو رکھ دیتے ہیں تو اس روح سے دنیوی کستوری کی مہک سے زیادہ عمدہ مہک نکلتی ہے۔ فرشتے اسے لے کر اوپر چلے جاتے ہیں اور جن فرشتوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ یہی کہتے ہیں: یہ پاک روح کس کی ہے؟ یہ جواب دیتے ہیں: فلاں بن فلاں کی ہے، دنیوی ناموں میں سے اس کا سب سے اچھا نام لے کر بتاتے ہیں حتیٰ کہ آسمان دنیا پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے لیے دروازہ کھلواتے ہیں، دروازہ کھولا جاتا ہے چنانچہ ہر آسمان پر بسنے والے فرشتے اگلے آسمان تک اس کے ہم نوا بنتے ہیں یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر اس روح کو پہنچا دیا جاتا ہے تو رب تعالیٰ فرماتے ہیں: میرے بندے کا نامۂ اعمال علیین میں لکھو اور اسے واپس زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ میں نے زمین سے ہی انہیں پیدا کیا اور اسی میں انہیں لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ اٹھاؤں گا، لہٰذا اس کی روح لوٹا دی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا دیتے ہیں اور اسے کہتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میرا رب اللہ ہے۔ پھر کہتے ہیں: تیرا دین کون سا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میرا دین اسلام ہے، پھر سوال کرتے ہیں: جو آدمی تم میں مبعوث کیا گیا اس کے متعلق کیا کہتے ہو؟ وہ جواب دے گا: وہ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر سوال کریں گے: کس نے یہ بتایا؟ کہے گا: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی تھی۔ آسمان سے پکارنے والا اعلان کرے گا کہ میرے بندے نے سچ بولا ہے، جنت کا بستر اس کے لیے بچھا دو، جنت کے کپڑے اسے پہنا دو، اس کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دو تاکہ اس کے پاس جنت کی خوشبو اور ہوا آئے اور اس کی قبر تاحد نگاہ وسیع کردی جاتی ہے۔ اس کے پاس خوبصورت چہرے اور عمدہ کپڑوں میں اچھی خوشبو والا ایک آدمی آتا ہے۔ وہ کہتا ہے: جو چیز تجھے خوش کرتی ہے اس کے ساتھ خوشی منا، کیونکہ یہ تیرا وہی دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا، قبر والا اس سے پوچھتا ہے: تو کون ہے؟ تیرا چہرہ تو بھلائی لانے والا معلوم ہوتا ہے۔ تو وہ کہے گا: میں تیرا نیک عمل ہوں۔ یہ قبر والا کہے گا: اے میرے رب! قیامت برپا کر، اے میرے رب! قیامت قائم کر کہ میں اپنے گھر والوں اور مال کی طرف لوٹ جاؤں۔ (اسی طرح) کافر بندہ جب دنیا سے جانے اور آخرت کی طرف سفر کرنے کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے ٹاٹ لے کر اترتے ہیں، اس کے پاس تاحد نگاہ وہ بیٹھ جاتے ہیں، پھر موت کا فرشتہ آتا ہے، حتیٰ کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ کر کہتا ہے: ''اے خبیث روح! اللہ کی طرف سے ناراضی اور غضب کی طرف نکل، تو وہ روح انسان کے جسم میں بکھر جاتی ہے، موت کا فرشتہ اس کو کھینچتا ہے جیسے لوہے کی سلاخ اون سے کھینچی جاتی ہے۔ فرشتہ اسے پکڑ لیتا ہے ایک لمحہ بھی اپنے ہاتھ پر نہیں رکھتا کہ دوسرے فرشتے اسے ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے زمینی مردار کی بدبو سے بھی زیادہ (کراہت والی) بدبو نکلتی ہے، فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں، فرشتوں کی جس جماعت پر گزرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں: یہ خبیث روح کس کی ہے؟ یہ کہتے ہیں: فلاں بن فلاں کی ہے۔ دنیوی ناموں میں سے اس کا برا ترین نام لے کر بتاتے ہیں، دروازہ کھلواتے ہیں، لیکن آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: {لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ أَبْوَابُ السَّمَآئِ}... ان (کافروں) کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس کی کتاب نچلی زمین میں، جو سجین ہے، اس میں لکھو چنانچہ اس کی روح پھینک دی جاتی ہے اور اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، وہ پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: ہائے، ہائے! مجھے علم نہیں۔ پھر وہ سوال کرتے ہیں: تیرا دین کون سا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: ہائے، ہائے! مجھے علم نہیں۔ پھر پوچھتے ہیں: جو آدمی تم میں مبعوث کیا گیا تھا اس کے متعلق کیا کہتے ہو؟ وہ کہتا ہے: ہاہ، ہاہ مجھے علم نہیں۔ آسمان سے اعلان کرنے والا پکارے گا کہ میرے بندے نے جھوٹ بولا ہے، آگ کا بستر اس کے لیے بچھا دو، اس کے لیے آگ کی طرف دروازہ کھول دو تاکہ اسے آگ کی گرمی اور تپش پہنچے، پھر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے، یہاں تک کہ اس کی پسلیاں مختلف ہوجاتی ہیں (پھر) اس کے پاس قبیح چہرے، برے کپڑے اور بدبو والا آدمی آتا ہے، وہ کہتا ہے: جو چیز تجھے بری لگتی ہے اس کے ساتھ خوش ہوجا، یہ ہے تیرا وہ دن جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا، قبر والا کہے گا: تو کون ہے؟ تیرا چہرہ تو برائی لے کر آنے والا محسوس ہوتا ہے؟ چنانچہ وہ آدمی کہے گا: میں تیرا خبیث عمل ہوں، پھر قبر والا کہے گا: اے میرے رب! قیامت قائم نہ کرنا۔ 1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۶۷۶۔ تفسیر قرطبی، ص: ۳۹، ۲۰۔ ابن کثیر، ص: ۵۴۵ ؍ ۴۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top