• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مُسافر اور مقیم کے میقات میں فرق واضح کریں ؟

محمدعظیم

مبتدی
شمولیت
مارچ 10، 2014
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
13
آسلاعلیکم،
میں اِک پوسٹ لگا رھا ھوں برائے کرم اک اک کر کے جواب نمبر سے دیں جزاک آللہ خیرا،
آسلام علیکم، حافظ عمران الٰہی بھائی،
بھائی میں نے وقت کی کمی کی وجہ سے سولات لکھے نھیں اور اِمیج اپلوڈ کیا اگر اِمیج پر کلک کیا جائے تو سارے سوالات واضح ہو جاینگے،
جزاک آللہ خیرا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964

سوال نمبر 1
مسافر کی تعریف کریں ۔


جواب :
سفر کا لغوی معنی ہے ’’ کسی چیز کو ظاہر کرنا ، بے پردہ کرنا ‘‘ ۔ مسافر یعنی سفر کرنے والے کو مسافر اس وجہ سے کہاجاتا ہےچونکہ سفر کے دوران مختلف جگہوں سے گزرتے ہوئے ، مختلف لوگوں سے ملتے جلتے ایک دوسرے کی عادات و اخلاق کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔ گویا سفر مسافروں کے احوال و عادات سے نقاب کشائی کرتا ہے ۔
اصطلاحی طور پر مسافر کی کوئی واضح اور متعین ایسی تعریف نہیں ہے جو قابل ذکر ہو ۔ البتہ کچھ حدود و قیود کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض لوگون نے اس کی تعریف کرنے کی کوشش کی ہے ۔ چنانچہ معجم لغۃ الفقہاء (ص 245)میں مسطور ہے :
السفر: بالتحريك مص سفر، ج أسفار، قطع المسافة، سمي بذلك لانه يسفر عن أخلاق الرجال، ومنه قولهم: سفرت المرأة عن وجهها: إذا أظهرته.
* الخروج عن عمارة موطن الاقامة قاصدا مكانا يبعد مسافة يصح فيها قصر.

اس عبارت میں سفر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کی وضاحت کی گئی ہے ۔ اول الذکر تو وہی ہے جس کی وضاحت پہلے گزر چکی ۔ اصطلاحی تعریف کا مفہوم یوں ہے :
اپنی رہائش گاہ سے کسی ایسی جگہ یا منزل کا ارادہ کرتے ہوئے اتنی مسافت کے لیے نکلنا جس میں قصر کرنے کی اجازت ہو ۔
اب بظاہر یہ ایک تعریف تو ہے لیکن اس تعریف کا فائدہ کوئی نہیں ۔ کیونکہ سفر کی تعریف تو یہاں ہم اس لیے کریں گے تاکہ اس بنیاد پر قصرو اتمام صلاۃ کے مسائل حل کیے جاسکیں ۔ لیکن تعریف ہی ایسے کی گئی ہے کہ یہ مسئلہ پھر باقی رہ جاتا ہے ۔
سفر کی تعریف کے حوالے سے اسی پیچیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اکثر علماء نے اس کی تعریف کا تکلف کیا ہی نہیں ۔ بلکہ بعض علماء نے کہا ہےکہ سفر وہ ہے جسے عرف عام میں سفر سمجھاجاتا ہے ۔
بہر صورت سفر کی تعریف کیا ہے کیا نہیں ؟ اس میں زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں کیونکہ خالی سفر کی تعریف کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔
ہاں شریعت کے اندر سفر کی کیا مقدار ہے کہ جس پر سفر کے احکام لاگو ہوتے ہیں تواس حوالے سے علماء و فقہاء نے مختلف روایات کی بنیاد پر تعیین وعدم تعیین کے حوالے سے گفتگو کی ہے ۔ یہاں چند مشہور فتاوی جات جو میسر ہوئے نقل کیے جاتے ہیں ۔ تمام کو پڑھ کر دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے جس پر دل مطمئن ہو اس پر عمل کرلینا چاہیے ۔
اور یہی اوپر تصویر میں ذکر کیے گئے سوال نمبر 2 کا جواب ہے ۔
پہلا فتوی :

زید نے اپنے گائوں سے دوسرے گائوں کی جو اسی میل کے فاصلہ پر ہے مہینے مین دو چار مرتبہ اپنی ضروریات کے لئے صبح جاکر شام کو آنا پڑتاہے۔ یا بعض اوقات اسی گائوں میں ٹھر جانا پروتا ہے۔ تو کیا اس گائوں میں پہنچ کر نماز کو قصر کرسکتا ہے۔ یا جمع پڑھ سکتاہے۔ اس خیال سے کہ وہ مسافر ہے کتنے میل سفر کا ارادہ ہو تو نمازقصر اور کن صورتوں میں نماز جمع پڑھ سکتے ہیں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بہ نیت نیک کرسکتاہے۔ محض کھیل تماشے کے لئے نہیں۔ قصر ، فرض یا واجب نہیں۔ حسب ضرورت ہے سفر کی تعیین نہیں آئی۔ عرف عام میں جتنی مسافت کو سفر کہتے ہیں وہی سفر ہے۔ (اہل حدیث 5 زی الحجہ 1331ہجری)
فتاوی ثنائیہ ( محدث فتوی )
دوسرا فتوی :

استاذ محترم ! ایک اہم بات یاد آئی وہ یہ ہے کہ میاں مسعود احمد صاحب نے اپنی کتاب صلوٰۃ المسلمین ص ۲۸۸ پر لکھا ہے ''مسافر کے لیے قرآن وحدیث میں ایسی کوئی مدت مقرر نہیں کہ اس مدت سے زیادہ کہیں ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو قصر نہ کرے ۔ صلوۃ المسلمین
عرض یہ ہے کہ آپ جناب کی تحقیق اس مسئلہ میں کیا ہے ؟ میں آپ کی توجہ سید ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فتویٰ کی طرف بھی دلانا چاہتا ہوں جو صحیح بخاری میں موجود ہے نماز قصر کے بارہ میں ۔بخاری۔تقصیر الصلاۃ۔باب ماجاء فی التقصیر وکم یقیم حتی یقصر؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید اور نبی کریمﷺ کی قولی حدیث سے مسافر کے لیے مدت قصر مقرر نہیں کہ اس سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو وہ قصر نہ کرے البتہ آپ کے عمل سے پتہ چلتا ہے کہ آپ حالت سفر میں تین چار دن کے قیام کے ارادہ کی صورت میں قصر کرتے تھے اس سے زیادہ دن کے قیام کے ارادہ کے ساتھ آپﷺ سے قصر کرنا مجھے معلوم نہیں۔
وباللہ التوفیق
احکام و مسائل از نورپوری ( محدث فتوی )

تیسرا فتوی :

قصر کتنی مسافت سے شروع ہوتا ہے اور مدت اس کی کتنے دن ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قصر صلاۃ کے لیے مسافت تئیس کلو میٹر ہے کیونکہ حدیث میں نو میل وارد ہے اور پرانے میل انگریزی میل سے بڑے تھے تو اگر کسی نے ۲۳ کلو میٹر یا اس سے زیادہ مسافت سفر کرنا ہو تو وہ اپنے شہر ، قصبہ یا دیہات کی آبادی سے باہر چلا جائے تو نماز قصر پڑھے اسی طرح سفر سے واپسی پر اپنے شہر قصبہ یا دیہات کی آبادی میں داخل ہونے سے قبل قبل قصر پڑھے۔
تردد کی صورت میں کوئی مدت معین نہیں مہینہ کئی مہینے بھی قصر ہے اور اگر وہ منزل مقصود پر پہنچ کر کچھ معین عرصہ قیام کا ارادہ رکھتا ہے تو پھر زیادہ صحیح اور پختہ بات یہی ہے کہ وہ مدت چار دن ہے مطلب یہ ہے کہ اگر وہ چار دن یا اس سے زیادہ عرصہ کسی جگہ پر ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس جگہ پر پہنچ جانے کے بعد نماز پوری پڑھے قصر نہ پڑھے اور اگر اس کا ارادہ چار دن سے کم ٹھہرنے کا ہو تو وہ اس جگہ پہنچنے کے بعد بھی نماز قصر پڑھے۔
وباللہ التوفیق
احکام و مسائل ( محدث فتوی )
چوتھا فتوی :


آدمی کتنے دنوں تک نماز قصر کر سکتا ہے ۳ یا ۱۸ دن عورت والدین کے پاس ہوتے ہوئے نماز قصر (دوگانہ ) اداکر سکتی ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسافر نے اگر ارادہ بنا لیا کہ فلاں مقام پر اس نے چار ایام سے زیادہ مدت ٹھہرنا ہے تو وہ وہاں پہنچتے ہی نماز پوری پڑھے قصر نہ کرے کیونکہ حالت سفر میں ارادہ بنا کر ٹھہرنے کی صورت میں چار ایام سے زیادہ میں قصر کرنا رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔ ۱۰ دن اور ۱۹ دن والی روایات ایک مقام پر ارادہ بنا کر ٹھہرنے کی صورتیں نہیں جیسا کہ ان روایات کے سیاق سے واضح ہے تردد کی صورت میں کہ آج جاتا ہوں کل جاتا ہوں۔ کوئی مدت معین نہیں۔
عورت اپنے والدین کے پاس اگر مسافر ہے تو شروط قصر کی موجودگی میں قصر کر سکتی ہے مثلاً ایک عورت کی شادی ہو چکی ہے وہ اپنے میاں کے پاس مسافت قصر پر مقیم ہے چار دن یا کم مدت کے لیے اپنے والدین کے گھر آئی ہوئی ہے تو وہ نماز قصر پڑھ سکتی ہے بلکہ اس کے لیے قصر افضل ہے۔
احکام و مسائل( محدث فتوی )

سوال نمبر 7
کیا عام نمازی مسافر اور حاجی یاعمرہ کی غرض سے سفر کرنے والے کی قصر نماز میں اسلام نے کوئی فرق کیا ہے ؟
جواب :
اس حوالے سے شریعت کے اندر کوئی فرق موجود نہیں ۔( فیما أعلم ) کسی بھی سفر میں چاہے وہ عمومی ہو یا عمرہ و حج یا کسی اور نیک یا جائز کام کے لیے ہو اگر اس میں قصر کی شروط و قیود پائی جاتی ہیں تو قصر کرنا جائز ہے ۔ اگر نہیں پائی جاتیں تو کسی میں بھی قصر کرنا جائز نہیں ۔
ہاں البتہ حرام اور معصیت کے سفر کے بارے میں علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ اس میں مسافر کو وہ رخصتیں نہیں ملیں گی جو جائز اور نیکی کے سفر میں ملتی ہیں ۔ جیساکہ فتاوی ثنائیہ میں گزرا ہے ۔

یہی تین سوالات تھے سفر اور قصر کے تعلق سے جن کا جو مجھے درست لگا لکھ دیا ۔
باقی سوالات کا تعلق میقات اور احرام وغیرہ سے ہے اس حوالے سے ان شاء اللہ بعد میں ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
استاذ محترم ! ایک اہم بات یاد آئی وہ یہ ہے کہ میاں مسعود احمد صاحب نے اپنی کتاب صلوٰۃ المسلمین ص ۲۸۸ پر لکھا ہے ''مسافر کے لیے قرآن وحدیث میں ایسی کوئی مدت مقرر نہیں کہ اس مدت سے زیادہ کہیں ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو قصر نہ کرے ۔ صلوۃ المسلمین
عرض یہ ہے کہ آپ جناب کی تحقیق اس مسئلہ میں کیا ہے ؟ میں آپ کی توجہ سید ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فتویٰ کی طرف بھی دلانا چاہتا ہوں جو صحیح بخاری میں موجود ہے نماز قصر کے بارہ میں ۔بخاری۔تقصیر الصلاۃ۔باب ماجاء فی التقصیر وکم یقیم حتی یقصر؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید اور نبی کریمﷺ کی قولی حدیث سے مسافر کے لیے مدت قصر مقرر نہیں کہ اس سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو وہ قصر نہ کرے البتہ آپ کے عمل سے پتہ چلتا ہے کہ آپ حالت سفر میں تین چار دن کے قیام کے ارادہ کی صورت میں قصر کرتے تھے اس سے زیادہ دن کے قیام کے ارادہ کے ساتھ آپﷺ سے قصر کرنا مجھے معلوم نہیں۔

پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریبا بیس تک نماز کیوں قصر کی؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
سوال نمبر 3
ایک شخص کوحرم میں نوکری مل جاتی ہے اب وہ پورا سال حرم میں قیام کرےگا ۔ حج یا عمرہ کے لیے اس کا میقات کیا ہے
؟ جواب :
ایسا شخص چونکہ مکہ میں مقیم ہوتا ہے اس لیے اس کاحکم اہل مکہ والا ہی ہے ۔ اور اہل مکہ کے لیے حج کے لیے احرام باندھنے کی جگہ مکہ ہی ہے ۔ جیساکہ حدیث شریف کے اندر آیا ہے
: (هن لهن' ولمن اتي عليهن من غير اهلهن' ممن اراد الحج والعمرة' فمن كان دونهن فمن اهله' حتی اهل مكة يهلون منه) (صحيح البخاري' الحج' باب مهل اهل مكة للحج والعمرة' ح: 1524 وصحيح مسلم' الحج' باب مواقيت الحج' ح: 1181)
"یہ ان علاقوں کے لوگوں کے لیے میقات ہیں اور ان کے لیے بھی جو یہاں سے گزریں اور یہاں کے باشندے نہ ہوں اور ان کا حج و عمرہ کا ارادہ ہو۔ جو لوگ میقات کے اندر ہوں تو وہ اپنی جگہ ہی سے احرام باندھیں حتیٰ کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے (احرام باندھیں۔")
البتہ عمرے کے لیے ان کو بھی حدود مکہ سے باہر ( مسجد عائشہ وغیرہ ) نکلنا پڑے گا ۔ اس کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والا واقعہ ہے ۔ کہ جب آپ نے ایام ماہواری سے فارغ ہو کر عمرہ کا ارادہ کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو حدود حرم سے باہر جانے کا حکم ارشاد فرمایا تھا ۔ (صحیح بخاری، باب کیف تھل الحائض والنفساء، حدیث: 1556 وصحیح مسلم، الحج، باب بیان وجوہ...الخ، حدیث: 1211) مزید تفصیل کے لیے : http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/8994/0/

سوال نمبر 4 اور 5 :
ایک شخص کچھ دیر کے لیے مثلا 15 دن یا ایک مہینہ یا 3 ماہ کے لیے حرم کے قریب رہائش پذیر ہوجاتا ہے تو اس کا میقات کون سا ہوگا
؟ جواب :
حرم مکہ کے اندر رہائش اختیار کرنے والے کا وہی حکم ہے جو اہل مکہ کے لیے ہے ۔ واللہ اعلم ۔
سوال نمبر 6
اگر کوئی بھول کر میقات سے بلا احرام گزر جاتا تو اس کا کیا حکم ہے
: جواب :
شیخ ابن باز سے یہی سوال کیا گیا ۔ سوال اور جواب دونوں ملاحظہ فرمائیں
: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جس شخص کا عمرے کا ارادہ ہو اور وہ احرام کے بغیر میقات سے گزر جائے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس شخص کا حج عمرے کا ارادہ ہو تو اس کے لیے واجب ہے کہ وہ احرام کے بغیر میقات سے نہ گزرے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: «يُهِلُّ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ مِنْ ذِی الْحُلَيْفَةِ...» صحيح البخاری، الحج، باب ميقات اهل المدينة، ح: ۱۵۲۵۔ ''اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں۔'' لہٰذا حج و عمرہ کا ارادہ کرنے والے کے لیے واجب ہے کہ وہ میقات سے احرام باندھے اور احرام کے بغیر میقات سے نہ گزرے۔ اگر کوئی شخص احرام کے بغیر میقات سے گزر گیا تو اسے واپس آکر میقات سے احرام باندھ لینا چاہیے۔ اس صورت میں اس پر فدیہ لازم نہیں ہوگا۔ اگر اس نے اپنی جگہ ہی سے احرام باندھا اور میقات کے پاس واپس نہ آیا تو اہل علم کے نزدیک اس پر فدیہ واجب ہے اور وہ یہ کہ ایک جانور ذبح کر کے مکہ کے فقراء میں تقسیم کر دے۔ وباللہ التوفیق
فتاویٰ ارکان اسلام ( محدث فتوی )
ایک اور فتوی
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1337/0/
 

محمدعظیم

مبتدی
شمولیت
مارچ 10، 2014
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
13
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریبا بیس تک نماز کیوں قصر کی؟
آسلام علیکم،
بھائی مجھے اس بات پر صحیح حادیث چایئے کہ ( آپ حالت سفر میں تین چار دن کے قیام کے ارادہ کی صورت میں قصر کرتے تھے) تو اس تین چار دن کا مجھے صحیح حادیث چایئے،
جزاک آللہ خیرا
 
Top