• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکالمہ،مفہوم اورپس منظر ، ڈاکٹر عبدالحیی المدنی پروفیسر این ای ڈی یونیورسٹی کراچی

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
٭مکالمہ ، مفہوم اور پس منظر
لغوی اور اصطلاحی معنی
مکالمہ ایک خاص اصطلاح ہے جوعربی زبان کے سہ حرفی لفظ ک ل م سے مشتق ہے جس کا مطلب لفظ ، بات ،جملہ،قصیدہ یا خطبہ ہو سکتا ہے اور کلام کے معنی بات کے ہیں(۱) ۔
اس سہ حرفی لفظ کے معانی مشہور لغوی ابن الفارس نے’’ بات کرنا‘‘ اور’’ زخمی کرنا‘‘ بیان کیے ہیں(۲)
گویا کہ بات کرنے والا اپنی بات سے دوسرے کو مجروح کرتا ہے ۔جبکہ نواب صدیق حسن خان نے کہا کہ ک۔ل۔م کی خاصیت شدت اور قوت ہے(۳)
اس سے ثلاثی مزید کالمہ یکالمہ مکالمۃ جس سے مراد گفتگو کرنا ہے اس کا سب سے اہم مترادف جو قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے وہ ’’حوار
ـ‘‘ ہے جو ایک جامع اصطلاح ہے جس کا تذکرہ آئندہ سطور میں کیا جائے گا۔
مکالمہ جیسا کہ لفظ سے ظاہر ہے کہ دو یا دو سے زیادہ باتوں سے وجود میں آتا ہے لہذا مکالمہ کے مختلف پہلوؤں کی مناسبت سے جائزہ لینا اہم ہے کہ مکالمہ صرف باہمی بات چیت کا نام ہے یا اس میں گفتگو کے علاوہ اور بھی مظاہر ہو سکتے ہیں توعمومی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کے مختلف مظاہر میں اشارہ(۴) خاموشی (۵)خطبہ(۶) وغیرہ بھی شامل کیے جا سکتے ہیںکیونکہ گفتگو کے جو اھداف مقرر کیے جا سکتے ہیں وہی اھداف ان تین مظاہر سے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں گو کہ اس میں کمی بیشی ممکن ہے ۔کہا جاسکتا ہے کہ مکالمہ اوراس کے مظاہرمیں افکار وآراء کا منطقی اور مفید تبادلہ ہوتا ہے کیوں کہ اس میں سننے اور کہنے کی دونوں کیفیات پائی جا رہی ہیں اور ان دونوں کی اہمیت کم نہیں کیوں کہ تبادلہ افکار صرف کہنے سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں سننے کی کیفیت کا پایا جانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے
یعنی تبادلہ افکار صرف ایک فریق کی جہود کا نام نہیں بلکہ جتنے بھی فریق موجود ہیں ان سب کی عملی شرکت کا مظہر ہے خواہ وہ کہنے کی کیفیت میں ہو یا سننے کی کیفیت دونوں میں بہت ضروری ہے بصورت دیگرنہ تو اس کی کوئی منطقی بنیاد ہو گی اور نہ ہی اس کے اھداف حاصل ہو سکیں گے اور یہ عمل محض ایک تکلف ثابت ہو گا ۔مزید برآنکہ تبادلہ افکار صرف بات چیت کا نام نہیں کیونکہ اس کے علاوہ بھی بہت سے مظاہر ہیں جن کا بیان دوسرے باب میں کیا جائے گا
مکالمہ خواہ وہ بین المذاہب ہو یا عمومی، اگر ایک فریق زیادہ طاقت اور وسائل رکھتا ہے تو وہ اس مرحلے میں دوسرے کے افکار سننے کی زحمت نہیں کرتابلکہ صرف اپنی بات کہنے کوترجیح دیتاہے اور سننے کی ذمہ داری مقابل فریق پر ڈال دیتا ہے یہ عمل مکالمہ نہیں صرف اپنی گفتگو سنانے کا نام ہے۔ قرآن مجید نے مکالمہ کے ان دو بنیادی عناصر کو بیان کرتے ہوئے کہا :فبشر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ اولئک ھداھم اللہ و اولئک ھم اولوالالباب(۷)
پس میرے بندوں کو بشارت دے دو جو بات سنتے ہیں اور پھر اس میں بہترین کو چن لیتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں ۔
مکالمہ کے مفہوم کے بارے میں سطور سابقہ کا خلاصہ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے
۱۔ مکالمہ کا مفہوم افکار و آراء کا منطقی و مفید تبادلہ ہے
۲۔ افکار کے منطقی تبادلے کی حقیقی بنیاد دو عناصر رہے اول کہنا اور دوم سننا
۳۔ تہذیب و تمدن کی بنیاد دو امور پر ہے اول مفہوم حیات اور دوم بہتر حیات کی اقدار و مقاصد
ان نقاط کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو فریق کے مابین گفت و شنید کے لیے نکتہ سوم بنیاد بن سکتا ہے یعنی مطلوبہ اقدار و مقاصد کے بارے میں مختلف مذاہب اور اقوام کے مابین مشترک تصورات اس کی بہترین اساس بن سکتے ہیں ۔کیوں کہ یہ امر متفق ہے کہ مکالمہ ہمیشہ متفق پہلوؤں اور مشترک نقاط کے تعین کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ۔
تہذیبوں کے مابین مشترکہ نقاط پرکم سے کم اتفاق بہتر زندگی کی ضمانت بن سکتاہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ تعالی کا انبیاء کے ساتھ مکالمہ
مکالمہ کے مفہوم کو وضاحت کے بعد اس کے تاریخی اور اسلامی پس منظر کے حوالے سے سب سے اہم امر اللہ تعالی کا اپنے انبیاء ورسل کے ساتھ مکالمہ جات اور اس کے آداب و کیفیات کا وجود ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے :
انبیاء ورسل کے ساتھ اللہ تعالی کے مکالمے پر چند آیات درج ذیل ہیں :
اللہ تعالی اور سید نا آدم علیہ السلام کے مابین مکالمہ
وَقُلْنَا یَا آدَمُ اسْکُنْ أَنتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَکُلاَ مِنْہَا رَغَداً حَیْْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا ہَ
ـذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُونَا مِنَ الْظَّالِمِیْنَ ۔ فأَزَلَّہُمَا الشَّیْْطَانُ عَنْہَا فَأَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ وَقُلْنَا اہْبِطُواْ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِیْ الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَی حِیْنٍ فَتَلَقَّی آدَمُ مِن رَّبِّہِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْْہِ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ قُلْنَا اہْبِطُواْ مِنْہَا جَمِیْعاً فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُم مِّنِّیْ ہُدًی فَمَن تَبِعَ ہُدَایَ فَلاخَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ وَالَّذِیْنَ کَفَرواْ وَکَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا أُولَـئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (۸)
پھر ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھائو مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اورانہیں اس حالت سے نکلواکرچھوڑا جس میں وہ تھے ،ہم نے حکم دیاکہ ’’اب تم سب یہاں سے اترجائو ،تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں گزربسرکرنا ہے‘‘۔اس وقت آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی جس کو اس کے رب نے قبول کرلیا کیوں کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اوررحم فرمانے والا ہے ،ہم نے کہا تم سب یہاں سے اترجائو پھرجومیری طرف سے ہدایت تمہارے پاس پہنچے توجولوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لئے کسی خوف اوررنج کا موقع نہ ہوگااورجو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اورہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
اس کے علاوہ سورۃ الاعراف کی آیات نمبر ۱۹ تا ۲۵ اور سورۃ طہ کی آیات نمبر ۱۱۷ تا ۱۲۴ بھی قابل ذکر ہیں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ تعالی کا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ مکالمہ
وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ أَن طَہِّرَا بَیْْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہَ
ـَذَا بَلَداً آمِناً وَارْزُقْ أَہْلَہُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْہُم بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن کَفَرَ فَأُمَتِّعُہُ قَلِیْلاً ثُمَّ أَضْطَرُّہُ إِلَی عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِیْر(۹)
یاد کر و کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میںآزمایااور وہ ان سب میں پورا اترگیا تواس نے کہا میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والاہوں ۔ابراہیم نے عرض کیا : اورکیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے ‘‘؟ اس نے جواب دیا : میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے ۔ اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لئے مرکز اورامن کی جگہ قراردیا تھا اورلوگوں کوحکم دیاتھا کہ ابراہیم جہاں عبادت کے لئے کھڑاہوتاہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنالو، او رابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک رکھو،اور یہ کہ ابراہیم نے دعاکی : اے میرے رب ، اس شہر کو امن کا شہر بنادے ،اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت کومانیں ،انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے ۔جواب میں اس کے رب نے فرمایا:اورجو نہ مانے گا دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اسے بھی دوں گا،مگر آخرکار اسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا اور وہ بدترین ٹھکاناہے۔
اس کے علاوہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۱۳۱ اور ۲۶۰ اہم ہیں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ تعالی کا سیدنا عیسی علیہ السلام کے ساتھ مکالمہ
إِذْ قَالَ اللّہُ یَا عِیْسی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْْکَ وَعَلَی وَالِدَتِکَ إِذْ أَیَّدتُّکَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِیْ الْمَہْدِ وَکَہْلاً وَإِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرَاۃَ وَالإِنجِیْلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَہَیْْئَۃِ الطَّیْْرِ بِإِذْنِیْ فَتَنفُخُ فِیْہَا فَتَکُونُ طَیْْراً بِإِذْنِیْ وَتُبْرِئُ الأَکْمَہَ وَالأَبْرَصَ بِإِذْنِیْ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَی بِإِذْنِیْ وَإِذْ کَفَفْتُ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ عَنکَ إِذْ جِئْتَہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِنْہُمْ إِنْ ہَ
ـذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْن(۱۰)
پھر تصور کرو اس موقع کاجب اللہ فرمائے گا کہ : اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! یادکرو میری اس نعمت کو جو میں نے تجھے اورتیری ماں کو عطاکی تھی ،میںنے روح پاک سے تیری مددکی ،توگہوارے میں بھی لوگوں سے بات کرتاتھااوربڑی عمر کوپہنچ کربھی،میں نے تجھے کتاب اورحکمت اورتورات اورانجیل کی تعلیم دی ،تومیرے حکم سے مٹی پتلا پرندے کی شکل کا بناتا اوراس میں پھونکتاتھا اوروہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتاتھا،تومادر زاداندھے اورکوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتاتھا،تومُردوں کو میرے حکم سے نکالتاتھا،پھر جب تو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاںلے کر پہنچا اورجولوگ ان میں سے منکر حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادوگری کے سوااورکچھ نہیں ہیں ۔
اس کے علاوہ سورۃ المائدہ کی آیات نمبر ۱۱۴ تا ۱۱۹ قابل ذکر ہیں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ تعالی کا سید ناموسی علیہ السلام کے ساتھ مکالمہ
وَأَوْحَیْْنَا إِلَی مُوسَی وَأَخِیْہِ أَن تَبَوَّء َا لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوتاً وَاجْعَلُواْ بُیُوتَکُمْ قِبْلَۃً وَأَقِیْمُواْ الصَّلاَۃَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَقَالَ مُوسَی رَبَّنَا إِنَّکَ آتَیْْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلأہُ زِیْنَۃً وَأَمْوَالاً فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّواْ عَن سَبِیْلِکَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَی أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلَی قُلُوبِہِمْ فَلاَ یُؤْمِنُواْ حَتَّی یَرَوُاْ الْعَذَابَ الأَلِیْمَ قَالَ قَدْ أُجِیْبَت دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَلاَ تَتَّبِعَآنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُون (۱۱)
اورہم نے موسی اوراس کے بھائی کواشارہ کیا کہ مصر میںچند مکان اپنی قوم کے لئے مہیاکرو اوراپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھیرالواورنماز قائم کرو اوراہل ایمان کو بشارت دے دو۔موسیٰ نے دعاکی اے میرے رب، تونے فرعون اوراس کے سرداروں کودنیاکی زندگی میں زینت اوراموال سے نواز رکھا ہے،اے رب،کیا یہ اس لئے ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکائیں؟اے رب ،ان کے مال غارت کردے اوران کے دلوں پرایسی مہرکردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں ۔اللہ تعالی نے جواب میں فرمایا،تم دونوں کی دعا قبول کی گئی ،ثابت قدم رہواوران لوگوں کے طریقے کی ہرگز پیروی نہ کروجوعلم نہیں رکھتے ۔
وَمَا أَعْجَلَکَ عَن قَوْمِکَ یَا مُوسَی قَالَ ہُمْ أُولَاء عَلَی أَثَرِیْ وَعَجِلْتُ إِلَیْْکَ رَبِّ لِتَرْضَی قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِن بَعْدِکَ وَأَضَلَّہُمُ السَّامِرِی (۱۲)
اورکیاچیز تمھیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسیٰ؟ اس نے عرض کیا وہ بس میرے پیچھے آہی رہے ہیں ،میںجلدی کرکے تیرے حضور آگیاہوں اے میرے رب،تاکہ تو مجھ سے خوش ہوجائے ، فرمایا:اچھا توسنو !ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کوآزمائش میںڈال دیااورسامری نے انہیں گمراہ کر ڈالا۔
اس کے علاوہ سورۃ طہ کی آیات نمبر ۱۱ تا ۴۸ اور سورۃ الشعراء آیات نمبر ۱۰ تا ۱۷ اور سورۃ النمل آیات نمبر ۸ تا ۱۲ اہم ہیں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ تعالی کا سید نا نوح علیہ السلام کے ساتھ مکالمہ
وَنَادَی نُوحٌ رَّبَّہُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابُنِیْ مِنْ أَہْلِیْ وَإِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنَ قَالَ یَا نُوحُ إِنَّہُ لَیْْسَ مِنْ أَہْلِکَ إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنِّیْ أَعِظُکَ أَن تَکُونَ مِنَ الْجَاہِلِیْنَ قَالَ رَبِّ إِنِّیْ أَعُوذُ بِکَ أَنْ أَسْأَلَکَ مَا لَیْْسَ لِیْ بِہِ عِلْمٌ وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْ أَکُن مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ قِیْلَ یَا نُوحُ اہْبِطْ بِسَلاَمٍ مِّنَّا وَبَرکَاتٍ عَلَیْْکَ وَعَلَی أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَکَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمْ ثُمَّ یَمَسُّہُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِیْم (۱۳)
نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا کہ میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے یقینا تیرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا اے نوح یقینا وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں تجھے ہرگز وہ چیز نہیں مانگنی چاہیے جس کا تجھے مطلقا علم نہ ہومیں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے اپنا شمار کرانے سے باز رہے نوح نے کہا کہ اے میرے پالنہار میں تیری ہی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں تجھ سے وہ مانگوں جس کا مجھے علم نہ ہواگر تو مجھے نہ بخشے اور تو مجھ پر رحم نہ فرمائے گا تو میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔فرما دیا گیا کہ اے نوح ہماری جانب سے سلامتی اور ان برکتوں کے ساتھ اتر جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کی بہت سی جماعتوں پر اور بہت سی امتیں ہوں گی جنہیں ہم فائدہ تو ضرور پہنچائیں گے لیکن پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عمومی طور پر قرآن مجید کی بے شمار آیات اس حوالے سے نقل کی جا سکتی ہیں جس میں اللہ تعالی کا انبیاء و رسل کے ساتھ مکالمہ کا ذکر ہے یہ چند آیات بطور نمونہ نقل گئی ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالی اور انبیاء کے مابین حوار اور گفت و شنید کی کیفیات موجود تھیںاگر کسی رسول یا نبی کو ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے مکالمہ کی راہ اختیار کی اور اسی طرح اللہ تعالی نے انبیاء کے ساتھ اپنے تعلق کی وجہ سے انہیں کسی موقع پر اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ ہر مرحلہ اور ہر موقع پررہنمائی مہیا کی اور ان مکالمہ جات میں سب سے اہم امر یہ نظر آتا ہے کہ کسی بھی مرحلہ پر نہ تو اللہ تعالی کی طرف سے ظلم کی کیفیت نظر آتی ہے اور نہ ہی رسولوں کی جانب سے بحث برائے بحث کا انداز ملتا ہے بلکہ حکم کے سامنے اطاعت و تسلیم کا رویہ سامنے آتا ہے اگر کسی مقام پر کوئی حکم سمجھ میں نہیں آیا تو اس کے بارے میں استفسار بھی انتہائی احترام و تعظیم کے ساتھ کیا گیا اور سبب واضح ہونے کے بعد قلب کی گہرائیوں کے ساتھ اسے تسلیم کیا۔
مکالمہ جات میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ دو فریقین کے مابین جب کسی موضوع پر بات ہو اور کسی ایک فریق پر حق واضح ہو جائے تو پھر اسے ہٹ دھرمی اور ضد زیب نہیں دیتی بلکہ اسے تسلیم کرلینے میں ہی اس کی عزت ہے
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ مخالف فریق خواہ درجہ میں بڑا ہو اگر کسی مقام پر ضرورت محسوس ہو تو استفسار کیا جا سکتا ہے لیکن آداب ملحوظ خاطر رکھناضروری ہیں۔ مکالمہ جات کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی موضوع کے بارے میں تصورات واضح ہو جاتے ہیں جیسا کہ نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور اللہ تعالی کی طرف سے صراحت آنے کے بعد فورا استغفار اوررجوع کی راہ اختیار کی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ تعالی کا انسانوں کے ساتھ مکالمہ بواسطہ رسل یا ملائکہ
اللہ تعالی نے جہاں رسولوں اور انبیاء کے ساتھ مکالمہ جات کا سلسلہ جاری رکھا وہاںعام انسانوں کے ساتھ بھی مکالمہ جات کیے گو کہ ان مکالمہ جات میں براہ راست گفت وشنید کی کوئی کیفیت نہیں بلکہ بواسطہ رسول یا فرشتہ ممکن ہوئے۔جیسا کہ درج ذیل آیات اس امر پر شاہد ہیں:
وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُواْ لِیْ وَلْیُؤْمِنُواْ بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُون(۱۴)
اے نبی میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں ،تو انہیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں ۔پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے ،میں اس کی پکار سنتا اورجواب دیتاہوں لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں ۔یہ بات تم انھیں سنادو ،شاید کہ وہ راہ راست پالیں۔
یَسْأَلُونَکَ مَاذَا یُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَیْْرٍ فَلِلْوَالِدَیْْنِ وَالأَقْرَبِیْنَ وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَیْْرٍ فَإِنَّ اللّہَ بِہِ عَلِیْم (۱۵)
لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں ؟ جواب دو کہ جومال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اورمسافروں پرخرچ کرو ۔اور جوبھلائی بھی تم کرو گے ،اللہ اس سے باخبر ہوگا۔
ثَمَانِیَۃَ أَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَیْْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْْنِ قُلْ آلذَّکَرَیْْنِ حَرَّمَ أَمِ الأُنثَیَیْْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْْہِ أَرْحَامُ الأُنثَیَیْْنِ نَبِّؤُونِیْ بِعِلْمٍ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ وَمِنَ الإِبْلِ اثْنَیْْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْْنِ قُلْ آلذَّکَرَیْْنِ حَرَّمَ أَمِ الأُنثَیَیْْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْْہِ أَرْحَامُ الأُنثَیَیْْنِ أَمْ کُنتُمْ شُہَدَاء إِذْ وَصَّاکُمُ اللّہُ بِہَ
ـذَا فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّہِ کَذِباً لِیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْْرِ عِلْمٍ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ قُل لاَّ أَجِدُ فِیْ مَا أُوْحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّماً عَلَی طَاعِمٍ یَطْعَمُہُ إِلاَّ أَن یَکُونَ مَیْْتَۃً أَوْ دَماً مَّسْفُوحاً أَوْ لَحْمَ خِنزِیْرٍ فَإِنَّہُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقاً أُہِلَّ لِغَیْْرِ اللّہِ بِہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّکَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ(۱۶)
یہ آٹھ نرومادہ ہیں،دو بھیڑکی قسم سے اور دوبکری کی قسم سے ، اے محمد !ان سے پوچھو کہ اللہ نے ان کے نرحرام کیے ہیں یامادہ ،یاوہ بچے جو بھیڑوں اور بکریوں کے پیٹ میں ہوں ؟ ٹھیک ٹھیک علم کے ساتھ مجھے بتائو اگر تم سچے ہو۔اوراسی طرح دواونٹ کی قسم سے ہیں اورددوگائے کی قسم سے ، پوچھو،ان کے نر اللہ نے حرام کئے ہیں یامادہ ،یاوہ بچے جو اونٹنی اورگائے کے پیٹ میں ہوں؟کیاتم اس وقت حاضر تھے جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کا حکم دیاتھا؟پھراس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگاجو اللہ کی طرف منسوب کرکے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط راہ نمائی کرے۔یقینا اللہ ایسے ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔ اے محمد ! ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جوکسی کے کھانے والے پر حرام ہو، الایہ کہ وہ مردار ہو،یابہایاہواخون ہو، یاسورکاگوشت ہوکہ ناپاک ہے ،یافسق ہو کہ اللہ کے سواکسی اورکے نام پرذبح کیاگیاہو۔پھرجوشخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیز ان میں سے کھالے) بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتاہواوربغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوزکرے ،تویقینا تمہارارب درگزرسے کام لینے والااوررحم فرمانے والاہے۔
درج بالا آیات سے ہمیں مکالمہ کی ایک اور کیفیت معلوم ہوتی ہے جس میں اللہ تعالی اپنی مخلوق سے بواسطہ رسل یا فرشتے بات چیت کرتا ہے۔یعنی مخلوق کے غلط عقائد اور اوھام کی بیخ کنی کے لیے مخلوق کو مخاطب کیا جس سے مکالمہ کی ایک صورت سمجھ میں آتی ہے کہ فریقین کے مابین کوئی غلط فہمی موجود ہو تو اسے زائل کرنے کے لیے بات چیت اور گفتگو کے اسلوب کو استعمال کرنا ہی بہتر اور احسن ہے۔ جبکہ قرآن مجید کی بعض آیات سے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کے ساتھ مخاطبت اپنے فرشتوں کے ذریعے بھی کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی آمد صرف انبیاء پر نہیں ہوتی گو کہ اس میں عموم نہیں پایا جاتا جیسا کہ درج ذیل آیات سے معلوم ہوتا ہے :
إِذْ قَالَتِ الْمَلآئِکَۃُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللّہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْہاً فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِیْ الْمَہْدِ وَکَہْلاً وَمِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَتْ رَبِّ أَنَّی یَکُونُ لِیْ وَلَدٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذَلِکِ اللّہُ یَخْلُقُ مَا یَشَاء ُ إِذَا قَضَی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُون (۱۷)
جب فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تجھے اپنے ایک فرمان کی خوشخبری دیتاہے ۔اس کانام مسیح عیسٰی ابن مریم ہوگا،دنیا اورآخرت میں معززہوگا،اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیاجائے گا،لوگوں سے گہوارے میں بھی کلام کرے گا اوربڑی عمرکو پہنچ کر بھی،اور وہ ایک مردصالح ہوگا،یہ سن کر مریم بولی: پروردگار!میرے ہاں بچہ کہاں س ہوگا ،مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔جواب ملا،ایسا ہی ہوگا،اللہ جو چاہتاہے پیداکرتاہے ،وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتاہے تو بس کہتاہے کہ ہوجااوروہ ہوجاتاہے۔
اسی طرح کی کیفیات سورۃ ھود آیات نمبر ۶۹ تا ۷۴، ۸۰ تا ۸۱، سورۃ الحجر آیات نمبر ۵۱ تا ۶۶، سورۃ مریم آیات نمبر ۱۶ تا ۲۱ ، سورۃ العنکبوت آیات نمبر ۳۱ تا ۳۴ اور دیگر کثیر آیات میں بیان کی گئی ہیں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
انبیاء کا اپنی اقوام کے ساتھ مکالمہ:
مکالمہ یعنی بات چیت کے ضمن میں سب سے زیادہ اہم مرحلہ وہ نظر آتا ہے جب قرآن مجید ان مواقع کی منظر کشی کرتا ہے جب انبیاء کرام علہیم السلام اپنی اپنی اقوام کو مخاطب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اس مخاطبت میں ان کے مدنظر اصلاح کا پہلو تھا وہ اصلاح جس کا تعلق ان کی پوری حیات سے تھا ۔
انبیاء کرام علہیم السلام کا اپنی اقوام کے ساتھ مکالمہ جات کی کیفیات کو قرآن مجید نے بہت تفصیل سے بیان کیا ہے کیوں کہ اس کا تعلق دعوت اسلام و توحید سے ہے تاکہ ہر دور کے داعی حضرات ان احوال اور کیفیات کو مدنظر رکھیں اور فریضہ امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا قیام تا قیامت ممکن ہو سکے اور اس میں کسی بھی دور میں کوئی تعطل یا رکاوٹ آڑے نہ آسکے۔جن انبیاء کرام کی اپنی اقوام کے ساتھ گفتگو کو نقل کیا گیا ہے ان میں سید نا ابراہیم ، سید ناشعیب ، سید نا صالح ،سید نالوط ، سید نا موسی ، سید نا نوح، سید نا ھود علہیم السلام قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ جن کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ بغیر نام کے کیا گیا ہے ہم بطور مثال چند آیات کا ذکر کریں گے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اس میں مکالمہ جات کی کیا کیفیات اور اسالیب موجود تھے ۔
وَاتْلُ عَلَیْْہِمْ نَبَأَ إِبْرَاہِیْمَ إِذْ قَالَ لِأَبِیْہِ وَقَوْمِہِ مَا تَعْبُدُونَ قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَاماً فَنَظَلُّ لَہَا عَاکِفِیْنَ قَالَ ہَلْ یَسْمَعُونَکُمْ إِذْ تَدْعُونَ أَوْ یَنفَعُونَکُمْ أَوْ یَضُرُّونَ قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاء نَا کَذَلِکَ یَفْعَلُونَ (۱۸)
اور انہیں ابراہیم کا قصہ سنائو جبکہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پوچھا تھا کہ ’’یہ کیاچیزیں ہیں جن کو تم پوجتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کچھ بت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں اورانہی کی سیوا میں ہم لگے رہتے ہیں اس نے پوچھا کیا یہ تمہاری سنتے ہیں جب تم انہیںپکارتے ہو ؟یایہ تمھیں کچھ نفع یانقصان پہنچاتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیانہیں، بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کوایساہی کرتے پایاہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور سید نا شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو توحید کی طرف دعوت دی :
إِذْ قَالَ لَہُمْ شُعَیْْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ إِنِّیْ لَکُمْ رَسُولٌ أَمِیْنٌ فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِیْعُونِ وَمَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْْہِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ أَوْفُوا الْکَیْْلَ وَلَا تَکُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیَاء ہُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِیْ الْأَرْضِ مُفْسِدِیْنَ وَاتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالْجِبِلَّۃَ الْأَوَّلِیْنَ قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ وَمَا أَنتَ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَإِن نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکَاذِبِیْنَ فَأَسْقِطْ عَلَیْْنَا کِسَفاً مِّنَ السَّمَاء ِ إِن کُنتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ قَالَ رَبِّیْ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ (۱۹)
جب کہ ان سے یاد کرو جب شعیب نے ان سے کہا تھاکیا تم ڈرتے نہیں؟میں تمہارے لئے ایک امانت داررسول ہوں لہٰذا تم اللہ سے ڈرواورمیری اطاعت کرو میں اس کام پر تم سے کسی اجر کاطالب نہیںہوں ۔میرااجرتو رب العالمین کے ذمہ ہے۔پیمانے ٹھیک بھرواورکسی کو گھاٹانہ دو ۔صحیح ترازو سے تولو اور لوگوں کوان کی چیزیں کم نہ دو۔زمین میں فساد نہ پھیلاے پھرواوراس ذات کاخوف کروجس نے تمھیں اورگذشتہ نسلوں کو پیداکیاہے۔ انہوں نے کہا تومحض ایک سحر زدہ آدمی ہے اورتوکچھ نہیں مگر ایک انسان ہم ہی جیسا،اورہم توتجھے بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں۔اگر توسچاہے تو ہم پرآسمان کا کوئی ٹکڑاگرادے ۔شعیب نے کہا میرارب جانتاہے جوکچھ تم کررہے ہو۔
اور سید نا موسی علیہ السلام اور فرعون کے مابین مکالمہ جات خاصی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ گفتگو دو انتہائی مختلف نظریات کے حاملین کے درمیان ہوئی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انبیاء کرام نے اپنی اقوام کی اصلاح کے لیے کیا طریقہ کار اختیارکیا جس میں تہذیب ،اخلاق اور احترام کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی وحدانیت کو ہی مخالف فریق تک پہنچایا گیا بلکہ اس کے غلط نظریات کی شدت سے نفی کی جیسا کہ درج ذیل آیات سے معلوم ہوتا ہے :
فَأْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُولَا إِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ أَنْ أَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ قَالَ أَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْداً وَلَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَأَنتَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ قَالَ فَعَلْتُہَا إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّیْنَ فَفَرَرْتُ مِنکُمْ لَمَّا خِفْتُکُمْ فَوَہَبَ لِیْ رَبِّیْ حُکْماً وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ أَنْ عَبَّدتَّ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِیْنَ قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْْنَہُمَا إن کُنتُم مُّوقِنِیْنَ قَالَ لِمَنْ حَوْلَہُ أَلَا تَسْتَمِعُونَ قَالَ رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبَائِکُمُ الْأَوَّلِیْنَ قَالَ إِنَّ رَسُولَکُمُ الَّذِیْ أُرْسِلَ إِلَیْْکُمْ لَمَجْنُونٌ قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْْنَہُمَا إِن کُنتُمْ تَعْقِلُونَ قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَہاً غَیْْرِیْ لَأَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُونِیْنَ قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُکَ بِشَیْْء ٍ مُّبِیْنٍ قَالَ فَأْتِ بِہِ إِن کُنتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ فَأَلْقَی عَصَاہُ فَإِذَا ہِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ وَنَزَعَ یَدَہُ فَإِذَا ہِیَ بَیْْضَاء لِلنَّاظِرِیْنَ قَالَ لِلْمَلَإِ حَوْلَہُ إِنَّ ہَذَا لَسَاحِرٌ عَلِیْمٌ یُرِیْدُ أَن یُخْرِجَکُم مِّنْ أَرْضِکُم بِسِحْرِہِ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ قَالُوا أَرْجِہِ وَأَخَاہُ وَابْعَثْ فِیْ الْمَدَائِنِ حَاشِرِیْنَ یَأْتُوکَ بِکُلِّ سَحَّارٍ عَلِیْمٍ فَجُمِعَ السَّحَرَۃُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُومٍ وَقِیْلَ لِلنَّاسِ ہَلْ أَنتُم مُّجْتَمِعُونَ لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَۃَ إِن کَانُوا ہُمُ الْغَالِبِیْنَ فَلَمَّا جَاء السَّحَرَۃُ قَالُوا لِفِرْعَوْنَ أَئِنَّ لَنَا لَأَجْراً إِن کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِیْنَ قَالَ نَعَمْ وَإِنَّکُمْ إِذاً لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ قَالَ لَہُم مُّوسَی أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ فَأَلْقَوْا حِبَالَہُمْ وَعِصِیَّہُمْ وَقَالُوا بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ(۲۰)
فرعون کے پاس جائو اور اس سے کہو ،ہم کو رب العالمین نے اس لئے بھیجا ہے کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے ، فرعون نے کہا ’’کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سانہیں پالاتھا؟تونے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں گزارے ،اور اس کے بعد کر گیاجو کچھ کہ کر گیا،تو بڑا احسان فراموش آدمی ہے ،موسیٰ نے جواب دیا ’’اس وقت وہ کام میںنادانستگی میں کردیاتھاپھرتمہارے خوف سے بھاگ گیا ،اس کے بعد میرے رب نے مجھ کو علم عطا کیا اورمجھے رسولوں میں شامل فرمالیا ،رہاتیرااحسان جو تونے مجھ پر جتایا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ تونے بنی اسرائیل کوغلام بنالیاتھا‘‘فرعون نے کہا ’’اور یہ رب العالمین کیا ہوتا ہے ؟‘‘موسی نے جواب دیا’’آسمانوں اور زمین کارب اور ان سب چیزوں کا رب جوآسمان و زمین کے درمیان ہیں ،اگر تم یقین لانے والے ہو‘‘ فرعون نے اپنے گردوپیش کے لوگوں سے کہا’’سنتے ہو؟‘‘موسی نے کہا ’’تمہارا رب اورتمہارے ان آبائو اجداد کا رب بھی جو گزرچکے ہیں‘‘۔فرعون نے (حاضرین سے) کہا ’’تمہارے یہ رسول صاحب جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں‘‘ موسی ٰ نے کہا ’’مشرق و مغرب اورجو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ،اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں‘‘فرعون نے کہا’’اگر تونے میرے سواکسی اور کو معبود مانا تومجھے بھی ان لوگوں میں شامل کردوں گاجوقید خانوں میں پڑے سڑرہے ہیں۔‘‘موسی نے کہا ’’اگرچہ میں لے آئوں تیرے سامنے ایک صریح چیز بھی؟فرعون نے کہا ’’اچھا تولے آاگرتوسچاہے‘‘۔(اس کی زبان سے یہ بات نکلتے ہی)موسی نے اپنا عصا پھینکا اوریکایک وہ ایک صریح اژدہا تھا۔پھر اس نے اپنا ہاتھ (بغل سے) کھینچا اوروہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہاتھا۔فرعون اپنے گردوپیش کے سرداروں سے بولا یہ شخص یقینا ایک ماہر جادوگرہے ، چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک سے نکال دے اب بتائو تم کیا حکم دیتے ہو۔انہوں نے کہا ،اسے اور اس کے بھائی کو روک لیجئے اور شہروں میں ہر کارے بھیج دیجئے کہ ہر سیانے جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں۔ چنانچہ ایک روا مقرر وقت پرجادو گراکٹھے کرلئے گئے اورلوگوں سے کہاگیاتم اجتماع میں چلوگے ؟شاید کہ ہم جادوگروںکے دین ہی پر رہ جائیں اگروہ غالب رہے۔ جب جادوگر میدان میںآئے توانہوں نے فرعون سے کہا ہمیں انعام توملے گا اگر ہم غالب رہے ؟اس نے کہا ہاں اورتم اس وقت مقربین میںشامل ہوجائو گے۔ موسیٰ نے کہا پھینکوجو تمہیں پھینکنا ہے۔ انہوں نے فورااپنی رسیاں اورلاٹھیاں پھینک دیں اوربولے فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے ۔
 
Top