• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکالمہ: کیا احادیث حجت ہیں؟

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
انتظامیہ: درج ذیل دو مراسلہ جات اس دھاگے سے منتقل کئے گئے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
آپ ہی نے ایک اور دھاگے میں اپنی کم علمی کا اعتراف کر رکھا ہے۔ میرا اشارہ اسی طرف تھا۔ پھر بھی آپ کی تکلیف کے لئے میں تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں بھائی۔ لیکن آپ کی اس طرح بغیر علم کے قرآن کی تفسیر فرمانے سے ہمیں بھی شدید تکلیف کا سامنا ہے۔ مناسب ہوگا کہ پہلے عقائد و اصول پر بات ہو جائے۔ اگر آپ کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حجیت پر اعتراض ہے تو پہلے وہ اعتراضات کسی نئے دھاگے میں بیان کر دیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ کسی ایک آیت کی بنیاد پر کسی شرعی حکم کا فیصلہ سنا دینا درست فعل نہیں۔ اس کے لئے مضمون سے متعلق تمام آیات کا سامنے ہونا ضروری ہے۔ یہاں تک آپ بھی متفق ہیں۔ اب ہمارے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی حجت ہے لہٰذا ہم مضمون سے متعلق آیات کے علاوہ احادیث کو بھی سامنے رکھتے ہیں۔ پھر ان آیات و احادیث سے اپنا من مانا مفہوم لینے کے بجائے وہ مفہوم متعین کرتے ہیں جوصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سمجھا ہے۔ لہٰذا آپ کا اور ہمارا معیار ایک بہرحال نہیں ہو سکتا۔ اور کسی بھی مسئلے سے متعلق آپ کی رائے ہم سے اتفاقاً ہی موافق ہو سکتی ہے۔ بجائے ان مسائل پر بات کرنے کے، اگر آپ اصول پر بات کر لیں تو زیادہ مناسب ہے۔ جب تک آپ انکار حدیث کے علمبردار ہیں تب تک ان مسائل پر آپ سے گفتگو ہو ہی نہیں سکتی۔
نیز انکار حدیث کا حکم مسلمانوں کے کسی دیگر فرقے یا گروہ جیسا نہیں ہے کہ اسے ایزی لیا جائے۔ دور حاضر میں قادیانیوں کے بعد کسی گروہ کے کفر پر اگر امت مسلمہ کا اجماع ہے تو وہ منکرین حدیث کا گروہ ہے۔ لہٰذا آپ بھی اس بات کو سیریس لیں اور ہم بھی کوشش کریں گے کہ آپ پر ممکن حد تک حجت تمام کر دی جائے۔
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ۔
شاکر بھائی اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ کم علمی کا اعتراف اور جہالت دونوں میں بہت فرق ہے۔ تاہم آپ کی تحریر میں کافی باتیں بہت ہی معقول اور قابل توجہ ہیں۔
بھائی صاحب یہ بات واقعئی درست لگتی ہے کہ میرا اور آپ لوگوں کا کسی بات پر متفق ہونا محض اتفاق ہی ہوگا۔ بھائی اپنے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں، ضروری نہیں کہ آپ اس سے اتفاق بھی کریں۔
ابراہیم علیہ سلام اور اسماعیل علیہ سلام کی دعاء ہے۔
اے ہمارے رب ان میں ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث کر، جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے، اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کا تزکیہ کرے، بیشک تو زبردست صاحب حکمت ہے۔(البقرہ۔129)
دیکھیں حضرت محمدٖ ٖصلی اللہ علیہ وسلم، رسول اللہ کے ہیں۔ یعنی اللہ نے آپ کو رسول بنایا ہے۔ اب اللہ سے بہتر یا اللہ کے علاوہ ، رسول کی سیرت، رسول کا کردار، رسول کا فعل ،رسول کا اسوۃ حسنہ اور رسول کا قول کون بیان کر سکتا ہے؟
دیکھیں آیت کا تجزیہ کرتے ہیں۔
1۔ رسول، اللہ کی کتاب سے آیات تلاوت کرتے ہیں۔
2۔ اللہ کی آیت سے اللہ کی کتاب کا علم دیتے ہیں۔
3۔ اللہ کی حکمت والی آیات سے حکمت بیان کرتے ہیں۔
4۔ اللہ کی آیات سے تزکیہ کرتے ہیں۔
سب کام اللہ کی کتاب سے ہو رہے ہیں۔ اللہ کی کتاب میں بے پناہ علم ہے۔ "اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے، سوائے اس کے جو وہ چاہے (البقرہ۔255)
میں اللہ کے رسول صرف کو اللہ کی کتاب سے پہچانتا ہوں اور میرے لئے یہ کافی ہے۔
اللہ کی کتاب سے باہر ہر فرقہ نے اپنی اپنی تحقیق اور فہم اور چاہت سے رسول کی شخصیت بنائی ہوئی ہے۔ اللہ کی کتاب سے باہر، رسول کے متعلق جو جو باتیں جس جس کے پاس ہیں، ان باتوں کی نہ تو اللہ نے کوئی سند نازل فرمائی ہے اور نہ ہی رسول نے ان کی تصدیق کی ہے اور نہ ہی وہ قول رسول کریم ہیں۔
لیونکہ قول رسول کریم، اللہ کا کلام ہے ۔ اللہ نے نازل کیا ہے۔ (الحاقہ۔40 اور 43) اس قول رسول کریم کی اتھارٹی اللہ کی ہے وہ بیان کر رہا ہے۔ یہ لا ریب ہے اس میں کوئی قول ضعیف یا موضوع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
میں اسی قول رسول کریم پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور میرے لئے صرف اور صرف اللہ کی کتاب کافی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بھائی صاحب یہ بات واقعئی درست لگتی ہے کہ میرا اور آپ لوگوں کا کسی بات پر متفق ہونا محض اتفاق ہی ہوگا
اللہ تعالی کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ جو منکرین اسلام کو ہدایت دے سکتا ہے وہ منکرین حدیث کو بھی دے سکتا ہے ۔۔۔ بس خلوص دل سے اللہ سے یہ دعا کیا کریں :
اللہم أرنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ
باقی باتیں تو بعد میں ہو تی رہیں گی ذرا بھائی مسلم کا کیا ہوا ترجمہ اور ان کی کی ہوئی تفسیرکا موازنہ کریں
اے ہمارے رب ان میں ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث کر، جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے، اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کا تزکیہ کرے، بیشک تو زبردست صاحب حکمت ہے۔(البقرہ۔129)
1۔ رسول، اللہ کی کتاب سے آیات تلاوت کرتے ہیں۔
2۔ اللہ کی آیت سے اللہ کی کتاب کا علم دیتے ہیں۔
3۔ اللہ کی حکمت والی آیات سے حکمت بیان کرتے ہیں۔
4۔ اللہ کی آیات سے تزکیہ کرتے ہیں۔
۔ اب صرف دو سوال کرنے کی ’’ جسارت ‘‘ کروں گا ۔۔۔۔
یہ جو ترجمہ پیش کیا گیا ہے قرآن کے کون سے پارے میں ہے ؟
اور جو تجزیہ پیش کیا گیا یہ کس سورت سے لیا گیا ہے ؟
بھائی جب آپ ہر چیز قرآن سے لینے کے دعوی دار ہیں تو اردو تفسیر بھی قرآن سے ہی دکھائیں ، یا کہیں کہ ممانعت صرف عربی تفسیر ( یعنی أحادیث ) کی ہی ہے ؟
میں اللہ کے رسول صرف کو اللہ کی کتاب سے پہچانتا ہوں اور میرے لئے یہ کافی ہے۔
کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ جس کو آپ اللہ کی کتاب کہتے ہیں وہ واقعہ ہی وہی ہے جو منزل من اللہ ہے ۔۔۔ دلیل ایسی دیں جس میں رسول کی بات نہ ماننی پڑے ۔۔۔۔۔
اللہ کی کتاب سے باہر ہر فرقہ نے اپنی اپنی تحقیق اور فہم اور چاہت سے رسول کی شخصیت بنائی ہوئی ہے۔ اللہ کی کتاب سے باہر، رسول کے متعلق جو جو باتیں جس جس کے پاس ہیں، ان باتوں کی نہ تو اللہ نے کوئی سند نازل فرمائی ہے اور نہ ہی رسول نے ان کی تصدیق کی ہے اور نہ ہی وہ قول رسول کریم ہیں۔
محترم بھائی آپ جو قرآن کی تفسیر کرتے ہیں یہ جبریل آپ کو بتا کے جاتا ہے ؟ فیا للعجب !!!
لیونکہ قول رسول کریم، اللہ کا کلام ہے ۔ اللہ نے نازل کیا ہے۔ (الحاقہ۔40 اور 43) اس قول رسول کریم کی اتھارٹی اللہ کی ہے وہ بیان کر رہا ہے۔ یہ لا ریب ہے اس میں کوئی قول ضعیف یا موضوع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
میں اسی قول رسول کریم پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور میرے لئے صرف اور صرف اللہ کی کتاب کافی ہے۔
وأنزلنا إلیک الذکر لتبین للناس۔۔۔۔۔۔
مذکورہ آیت کریمہ میں جو قرآن کی وضاحت کا حکم ہے وہ کس کو ہے ؟ اگر آپ مانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی ہے ۔۔۔ تو کیاآپ نے یہ ذمہ داری نبھائی ہے کہ نہیں ؟ اگر مانتے ہیں کہ نبھائی ہے تو ذرا بتائیں کہ قرآن کی آیات تو ہمارے پاس مصحف میں موجود ہیں ۔۔۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی ہوئی وضاحت کہاں ہے ؟

اگر کوئی بات غیر مناسب ہو تو پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔۔۔۔
ہدانا اللہ و إیاکم ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
ذرا بھائی مسلم کا کیا ہوا ترجمہ اور ان کی کی ہوئی تفسیرکا موازنہ کریں
اے ہمارے رب ان میں ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث کر، جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے، اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کا تزکیہ کرے، بیشک تو زبردست صاحب حکمت ہے۔(البقرہ۔129)
1۔ رسول، اللہ کی کتاب سے آیات تلاوت کرتے ہیں۔
2۔ اللہ کی آیت سے اللہ کی کتاب کا علم دیتے ہیں۔
3۔ اللہ کی حکمت والی آیات سے حکمت بیان کرتے ہیں۔
4۔ اللہ کی آیات سے تزکیہ کرتے ہیں۔
۔ اب صرف دو سوال کرنے کی ’’ جسارت ‘‘ کروں گا ۔۔۔۔
یہ جو ترجمہ پیش کیا گیا ہے قرآن کے کون سے پارے میں ہے ؟
اور جو تجزیہ پیش کیا گیا یہ کس سورت سے لیا گیا ہے ؟
بھائی جب آپ ہر چیز قرآن سے لینے کے دعوی دار ہیں تو اردو تفسیر بھی قرآن سے ہی دکھائیں ، یا کہیں کہ ممانعت صرف عربی تفسیر ( یعنی أحادیث ) کی ہی ہے ؟
میں اللہ کے رسول صرف کو اللہ کی کتاب سے پہچانتا ہوں اور میرے لئے یہ کافی ہے۔
کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ جس کو آپ اللہ کی کتاب کہتے ہیں وہ واقعہ ہی وہی ہے جو منزل من اللہ ہے ۔۔۔ دلیل ایسی دیں جس میں رسول کی بات نہ ماننی پڑے ۔۔۔۔۔
بالکل صحیح کہا، مسلم صاحب کو اس کا دوٹوک جواب دینا ہوگا۔

علاوہ ازیں مسلم صاحب بتا سکتے ہیں کہ وہ مچھلی کھاتے ہیں یا نہیں؟؟؟ اور اگر کھاتے ہیں تو ذبح کر کے یا ویسے ہی؟؟؟ اور کیا وہ اس کی دلیل قرآن کریم سے یا سیدنا ابراہیم﷤ کی حدیث سے بیان کر سکتے ہیں؟؟؟ کیونکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ ... ﴾ ... سورة المائدة: 3 یعنی تم پر مردار حرام کیا گیا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
ممکن ہو تو مسلم بھائی پہلے اپنا ایک دعویٰ مربوط شکل میں دائر کر دیں۔ مثلاً آپ احادیث کو بالکل ہی نہیں مانتے یا تاریخ کی حد تک فائدہ اٹھانے کے قائل ہیں؟ یا قرآن کی تفسیر، شان نزول وغیرہ کے لئے احادیث سے استفادہ کے قائل ہیں یا نہیں؟ قرآن کی تفسیر تو ٓپ کرتے ہیں لیکن کیا یہ تفسیر لغت ہی سے کرنی چاہئےیا کوئی اور بھی طریقہ ہے؟
پہلے آپ اپنا مکمل نظریہ پیش کر دیں اس حوالے سے۔ دلیل بے شک نہ دیں۔ ایک ایک دعویٰ پر دلیل آپ سے بعد میں طلب کی جا سکتی ہے اور پھر اس پر بحث کی جا سکتی ہے۔
نیز اگر برا نہ منائیں تو یہ بھی بتا دیں کہ موجودہ نظریات آپ کو کس نے سکھلائے ہیں؟ آیا والد صاحب نے؟ کسی عالم دین نے ؟یا آپ نے خود ہی یہ سب جان لیا کہ احادیث حجت نہیں ہیں؟ مثلاً آپ غلام احمد پرویز صاحب کے ہم خیال ہیں تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ حق پر تھے اور انہوں نے جو کتب لکھی ہیں ہمیں ان سے استفادہ کرنا چاہئے۔ اگر آپ کسی عالم کا حوالہ دے دیں گے تو اس سے ہمیں آپ کے عقائد کا تجزیہ کرنے میں آسانی ہوگی اور ہر بات آپ سے نہیں پوچھنی پڑے گی۔
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
مسلم صاحب شائد سوالوں کا جوب لینے گئے ہیں کہ ابھی تک واپس ہی نہیں آئے ...
مسلم صاحب قرآن کے بحر ذخار میں غوطہ زن ہو کر کچھ آیات ضرور لیتے آئیں گے اپنی مخصوص تاویلات کے ساتھ۔
بقول اقبال
؎ قرآن میں ہو غوطہ زن ہے اے مردِ مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار

اور پھر قرآن کا ایک درس اس تلقین کے ساتھ ہم سب بھائیوں کے لیے چھوڑ جائیں گے۔
؎ درسِ قرآن اگر ہم نے نہ بھلایا ہوتا
یہ زمانہ نہ زمانے نے دیکھا ہوتا
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
السلام علیکم۔
آپ حضرات نے کئی تندوتیز سوالات کئے ہیں اور ایسا متوقع تھا۔ ندیم بھائی نے حسب سابق طنز بھی کیا ہے۔ میں تو حق بات آپ لوگوں تک پہنچا رہا ہوں۔ میری درج زیل دو پوسٹ کا مطا لعہ کرلیں۔

وعلیکم السلام۔ آپ کے سوال کا ایک سادہ سا جواب تو "ہاں" ہے مگر یاد رہے کہ اس "ہاں" کی تصدیق سے قبل چند شرائط کی تکمیل بھی ضروری ہے۔
اور اب کاؤنٹر سوال کے طور پر میں بھی آپ سے کیا یہ دریافت کرنے کی جراءت کر سکتا ہوں کہ :
جن "لوگوں" سے سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلاوت شدہ آیات جمع کی گئیں اور اسے قرآن کا نام دیا گیا تو جب وہی لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بات بیان کریں تو اسے حدیث کہہ کر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟

بازوق صاحب۔ السلام علیکم۔
آپ کے جواب سے ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ مختلف مکتبہ فکر کے پاس جمع شدہ احادیث بھی (استغفراللہ) اللہ کا کلام ہے اگر چند شرائط کی تکمیل ہو جائے۔
دیکھیں پہلا فرق تو یہیں ظاہر ہو گیا، وہ یہ کہ لوگوں کی جمع شدہ احادیث کا کلام اللہ ہونا آپ کے نزدیک چند شرائط سے مشروط ہے۔ کیا اللہ کی کتاب کا کلام اللہ ہونا بھی آپ کے لئے چند شرائط سے مشروط ہوگا؟؟ غور کرنے کے لئے یہ ایک بڑا فرق ہے۔
اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں۔ آپ کا سوال ہے

جن "لوگوں" سے سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلاوت شدہ آیات جمع کی گئیں اور اسے قرآن کا نام دیا گیا تو جب وہی لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بات بیان کریں تو اسے حدیث کہہ کر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟


اپ کے سوال کا تجزیہ کرتے ہیں۔ سوال میں آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی بات آگے بیان ہونے کو حدیث کہ رہے ہیں۔ جبکہ پہلے آپ لکھ چکے ہیں کہ چند شرائط کے پورا ہونے کے بعد یہ اللہ کا کلام ہے۔ تو آپ کا سوال یوں بنےگا۔
جن "لوگوں" سے سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلاوت شدہ آیات جمع کی گئیں اور اسے قرآن کا نام دیا گیا تو جب وہی لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بات بیان کریں تو اسے اللہ کا کلام کہہ کر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟
اس کو آپ اس طرح سمجھیں جیسے کہ آپ کو اللہ کی کتاب آپ کے آباء و اجداد سے ملی۔ آپ یہ اللہ کی کتاب اپنی بعد والی نسل کے لئے چھوڑ جائیں گے۔ یعنی انسان صرف اللہ کی کتاب کو منتقل کر رہا ہے۔ اللہ کی کتاب کی حفاظت ،اس کا لاریب ہونا، اس کا باطل سے پاک ہونا ،ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک ہونا ان سب باتوں کی زمہ داری اور اتھارٹی اللہ واحد کی ہے۔ کسی بھی انسان کی نہیں۔ جبکہ لوگوں کی جمع کردہ احادیث کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ وہ اللہ کا کلام تو بہت دور کی بات ہے وہ تورسول کے الفاظ تک نہیں ہیں۔ یاد رکھیں دنیا کی کوئ کتاب بشمول احادیث کی تمام کتب یہ دعوی نہیں کرتیں کہ وہ اللہ کا کلام ہیں۔یہ ظلم عظیم تو آپ کر رہے ہیں۔
لوگوں کی جمع شدہ احادیث پر نظر ڈالیں تو یہاں راویوں کا ایک سلسلہ ہے، جو بات لو رسول کی جانب منسوب کرتا ہے۔ یہاں حدیث کی اتھارٹی روایت کرنے والوں کی ہے۔ جو کہ تمام انسان تھے۔ پھر مذید دیکھیں احادیث کو جمع کر کہ کتابی شکل دینے والے حضرات نے بھی لاکھوں احادیث اپنے علم، فہم ، صوابدید اور اپنے بنائے ہوئے اصولوں کی وجہ سے ضائع کردیں اور اپنی کتب میں ان کو شامل نہیں کیا۔ اگر یہ احادیث بھی اللہ کا کلام ہوتیں تو ان حضرات میں ایک حدیث بھی ضائع کرنے کی طاقت نہ ہوتی۔ یہ حضرات نہ تو نبی تھے نہ ہی رسول اور نہ ہی ان پر اللہ کی وحی نازل ہوتی تھی کہ ان کا کام ہمارے لئے حجت ہو۔
ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کوئی انسان ہمیں بتائے کہ یہ قرآن ہے۔ اللہ خود اپنی اتھررٹی پر اپنی کتاب میں بتا رہا ہے کہ قرآن کس نے نازل کیا ہے اور اس کا رسول بھی بتا رہا ہے۔
"طس۔ وہ آیت ٖقرآن کی اور واضح کتاب کی ہیں۔ (النمل۔1)
"یس۔ پر از حکمت قرآن کی قسم۔ (یس۔1،2)
"کہ بے شک ہم نے اسے ایک قرآن عربی بنا دیا تاکہ تم سمجھ سکو۔ (الزخرف۔3)
"ق۔ قرآن مجید کی قسم "(ق۔1)
"بلکہ وہ تو بزرگی والا قرآن ہے" (البروج۔21)
"الر۔ وہ آیات کتاب اور ایک واضح قرآن کی ہیں" (الحجر۔1)
"اور کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور بیشک باطل تو مٹنے والا ہی ہے۔ (الاسراء۔81)
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
دوسری پوسٹ درج زیل ہے۔

اصل پیغام ارسال کردہ از: sahj
مسٹر مسلم
یہ بات کنفرم کردیں کہ آپ " اہل قرآن " ہونے کے دعوے دار ہیں ،یا نہیں ؟ اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور جن کتابوں میں احادیث لکھی ہوئ ہیں انہیں آپ کیا سمجھتے ہیں ؟
یہ جوابات آپ دے دیجئے پھر ان شاء اللہ بات آگے بڑھائیں گے ۔

شکریہ
السلام علیکم۔
بھائی صاحب " اہل قرآن " کی کوئی اصطلاح قرآن مجید میں میری نظر سے نہیں گزری اگر آپ کو علم ہے تو سورۃ اور آیت نمبر بتا دیں۔
دیکھیں دنیا میں اللہ کی کتاب قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور چیز "فرقان" نہیں ہے۔(2:185) اللہ کی کتاب سب سے اوپر ہے۔ زندگی میں پیش آنے والے سارے معاملات اسکی روشنی میں دیکھنے چاہیئں۔
لوگوں کی جمع شدہ احادیث پر بھی اللہ کی کتاب " فرقان" ہے۔جس حدیث کی قرآن کی آیات سے تصدیق ہو جائے تو وہ ٹھیک ہے اس پر عمل کیا جاسکتا ہے (مگر وہ حدیث ، اللہ کا کلام ہرگز نہیں ہو سکتی ۔ پچھلی پوسٹ میں اسکی وضاحت کر چکا ہوں ) اور جس حدیث کو قرآن کی آیات رد کردے تو اس حدیث کو رد کردینا چاہئے۔ ایمان اللہ کی آیات پر ہو کیونکہ فرقان اللہ کی کتاب ہے وہ آپ کو بتائے گی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔
یہاں لوگ الٹا کام کررہے ہیں، بجائے قرآن کو فرقان بنائیں اور اس سے احادیث کو پرکھیں وہ احادیث سے قرآن کو سمجھنا چاہتے ہیں، یعنی اللہ کے کلام جس کی حفاظت اللہ کے زمہ ہے جس کے لا ریب ہونے پر اللہ واحد کی اتھارٹی ہے، جس میں باطل کہیں سے داخل نہیں ہوسکتا، جس میں کوئی انسان کتنی ہی کوشش کر لے تبدیلی نہیں کرسکتا اور تمام انسان اور جن اگر مل کر ایسا قرآن بنانا چاہیں تو نہیں بنا سکتے (17:88) ایسی اللہ کی کتاب کو انسانی کلام سے جو کئی واسطوں سے سن کر جمع کیا گیا ہو، جس کی حفاظت کی اللہ نے کوئی ضما نت نہیں لی ہو، جو لاریب نہیں ہے اس سے آپ قرآن سمجھنا چاہتے ہیں؟؟؟ یہ بہت ہی عجیب اور نا قابل فہم بات ہے۔
یاد رکھیں اللہ کی کتاب اللہ کا کلام ہے اور قول رسول کریم ہے۔ جس کو اللہ واحداپنی اتھارٹی پر قول رسول کریم کہہ رہا ہے ، وہ آپ کو نظر کیوں نہیں آتا ، جس کا ضامن کوئی انسان راوی نہیں بلکہ اللہ سبحانہ خود ہے۔

پس مجھے ان چیزوں کی قسم ہے جنہیں تم دیکھتے ہو۔
اور ان کی بھی جنہیں تم نہیں دیکھتے۔
کہ بے شک یہ (قرآن) قول رسول کریمﷺ ہے۔
اور یہ کسی شاعر کے قول کے ساتھ نہیں۔ تم بہت ہی کم ایمان لاتے ہو۔
اور نہ ہی یہ کسی کاہن کے قول کے ساتھ ہے۔ تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
یہ تو جہانوں کے رب کی جانب سے نازل کردہ ہے۔ (الحاقہ 38،39،40،41،42،43)

کہہ دے کون سی چیز سب سے بڑی شہادت ہے، کہہ دے میرے اور تمہارے درمیان اللہ شاہد ہے کہ یہ قرآن مجھ پر وحی کیا گیا ہے۔ تاکہ میں تمہیں اور ان کو جن تک وہ پہنچے اس سے متنبہ کر دوں۔ کیا تم واقعئی یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، کہہ دے میں (یہ) گواہی نہیں دیتا۔ کہہ دے اس میں شک نہیں کہ وہی معبود واحد ہے، اور میں اس شرک سے بری ہوں جو تم کرتے ہو۔ (الانعام ۔19)
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
﷽​
ہم شکرادا کرتے ہیں پیارے رب کا جس نے اس دین کو اتنا آسان بنایا ۔
مسلم صاحب نے بات صاف کردی کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی کسی بھی بات کو حجت نہیں مانتے ۔جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیراسلام کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔
حدیث اگر حجت ہے تو پھر اس کا منزل من اللہ ہونا ضروری ہے
اس چیز کا اتباع کروجو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور اس کے علاوہ کسی ولی کی اتباع مت کرو(اعراف3)
اب اگر یہ ثابت ہو جا ئے کہ حدیث حجت ہے اور اس کے بغیر قرآن پر عمل کرنا ناممکن ہے تو پھر یقینا حدیث وحی ہے کیونکہ آیات بالا کی رو سے صرف وحی کا اتباع لازم ہے اور غیر وحی کا اتباع حرام ہے
حدیث کے حجت ہونے کے دلائل
رسول َ مبعوث ہوئے اور قوم کو خطاب کیا(اے قوم)
میں اللہ کا رسول ہوں مجھے اللہ نے بندوں کی طرف مبعوث کیا ہے کہ میں انہیں اس بات کی دعوت دوں کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ زرا بھی شرک نہ کرواور مجھ پر اللہ نے ایک کتاب نازل کی ہے (مسند احمدوسندہ صحٰح بلوغ المانی )
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالاالفاظ حجت ہیں تو پھر ماننا پڑے گا آپ َ اللہ کے رسول ہیں اور قرآن اللہ کی کتاب ہے اگر یہ الفاظ حجت نہیں توپھر لازم آے گا کہ نہ آپ َاللہ کے رسول َہیں اور نہ قرآن اللہ کی کتاب ہےِ"
" آپَ کی رسالت اور قرآن پر ایمان لانے کہ لئے یہ ضروری ہےکے یہ الفاظ حجت ہوں" جب تک یے الفاظ حجت نہ ہوں قرآن بھی حجت نہ ہو گا "اور یہ الفاظ حدیث کے ہیں لہزا حدیث کا حجت ہونا لازمی ہے:

بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اپنی تشریح آپ ہی بیان کرتا ہےلہزاہمیں کسی اور چیز کی ضررت نہیں لیکن یہ صرف دعوی ہی دعوی ہے حقیقت اس کے خلاف ہے جیسے اللہ قرآن میں فرماتا ہے""اقیمو الصلوۃ"" یعنی صلوہ قائم کرو ؟مگر کیسے؟صلوہ کیسے کہتے ہیں؟اس کی تشریح نہیں قرآن میں جب اس کی تشریح قرآن میں تلاش کرتے ہیں توعجیب حیرانی ہوتی ہے ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے""اولیک علیہم صلوات من ربھم و رحمہ"صابرین پر اللہ کی طرف سے صلوۃ ہوتی ہے اور رحمت"دوسری جگہ ارشاد ہے" وصل علیھم ان صلو تک سکن لھم" ان پر صلوۃ بیھجیے بے شک آپ کی صلوۃ ان کے لئے باعث سکون ہے"ایک آیات میں اللہ کی طرف سے صلوۃ نازل ہو رہی ہے دوسری میں بندے کو حکم ہو رہا ہے کہ صلوۃ نازل کرو "اب کوئی کیا سمجھے ایک جگہ ارشاد ہو رہا ہے " اقیم الدین" دین قائم کرو" ہو سکتا ہے صلوۃ کے معنے دین کے ہوں اور اس آیات میں صلوۃ کی تشریح دین کی گئی ہو؟پھر ارشاد ہوتا ہے "واقیمواالوزن"وزن کو قائم کرو"اس سےصلوۃ کے معنی وزن کے بھی ہو سکتے ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے"اقیمو الصلوۃ طرفی النھاروزلفامن الیل" یعنی دن کے دونو اطرف اور کچھ رات کے وقت بھی صلوۃ قائم کرو"اس سے معلوم ہوا کہ صلوۃ ایسی چیزہے جو مسلسل قائم نہ رکھی جائے بلکہ دن اور رات کے بعض اقات میں ہی قائم کی جائے"" صلوۃ کے معنی کولہے ہلانے کے بھی ہو سکتے ہیں اس لحاظ سے اگر کوئی اقیمو الصلوۃ کے معنی یہ کرے کہ"نا چ گانے کی محفل قائم کرو" اور ثبوت میں یہ آیات پیش کرے"انما الحیوۃ الدنیا لعب ولھو"دنیا کی زندگی بس لہوو لعب ہی تو ہے" اور پھر اس سے استدلال کرے کہ جب دنیا کی زندگی لہو و لعب ہی ہے تودنیا میں رقص سرور کی محفل قائم کرنا ہی اقیموالصلوۃ " کا اصل منشا ہے تو بتا ئے اس کی تردید کیسے ہو گی

جاری ہے
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
اللہ تعالی فرماتا ہے" واتواالزکوۃ" زکوۃ دو"اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے"اے یحیی کتاب کو قوت سے پکڑ لواور ہم نے یحیی کو بچپن میں ہی حکم دے دیا تھا اور اپنی طرف سے مہر بانی دی تھی اور زکوۃ دی تھی اور وہ متقی تھے(مریم 12 13 )اس دوسری آیا ت میں زکوۃ کےمعنی پاکیزگی کے ہیں تو پہلی آیات کے معنی ہوئے"پاکیزگی دو" اور یہ معنی سراسرباطل ہیں ـ اور اگر پہلی آیات میں زکوۃ سے مراد ٹیکس ہے تو دوسری آیات کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ یحیی علیہ اسلام کو ٹیکس دیتا تھا (اللہ معاف فرمائے) اور یہ بلکل مضحکہ خیز ہے ـ ان دونوں مثالوں سے یہ واضح ہوا کہ قرآن مجید اکثر مقامات میں تشر یح اصلاحی کا محتاج ہے یعنی ایک استاد کی ضرورت ہے جو اسے پڑھائے اور اس کے مشکل مقامات کو حل کرے اور وہ استاد سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کون ہو سکتا ہے کیونکہ یہ منصب رسول َ کو خود اللہ نے دیا ہے" وہ اللہ ہی ہے جس نے امیوں میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب حکمت کی تعلم دیتا ہے( الجمعہ 2)اب اگرپڑہانے میں تشریح شامل نہیں ہے تو پھر رسول َکا تلاوت کر دینا کافی تھا لیکن محض تلاوت پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکے تلاوت کا منصب بتانے کے بعد تعلیم کا منصب بھی بتایا گیا کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے معلم بنا کر بیجھے گئے ہیں لہزا آپ کی تشریح بھی من جانب اللہ ہونی چاہئے اور یہی وہ چیز ہے جس کو وحی خفی کہا جاتا ہے اب اس کے حجت ہونے میں کیا شبہ رہ گیا ہے
جاری ہے
 
Top