• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بسم الله الرحمن الرحيم

صحیح بخاری جلد 1
کتاب کا نام : صحیح بخاری شریف
مترجم: حضرت مولانا علامہ محمد داؤد راز رحمہ الله
ناشر : مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند


فہرست مضامین
کتاب الوحی
وحی کی ابتداء کیسے ہوئی؟
( کیفیت وحی) (وحی کی ابتداء)
(وحی کی ابتداء)
(وحی کی علامات، وحی کا محفوظ کرنا)
(جبرئیل علیہ السلام کا وحی لانا)
(ابوسفیان اور ہرقل کا مقالمہ)

کتاب الایمان
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے
ایمان کے کاموں کا بیان
باب مسلمان کی تعریف میں
کون سا اسلام افضل ہے؟
کھانا کھلانا بھی اسلام سے ہے
اپنے بھائی کیلئے وہ پسند جو اپنے لیے۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان ہے
ایمان کی مٹھاس کے بارے میں
انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے
باب ؟؟؟؟؟
فتنوں سے دور بھاگنا دین ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد۔۔۔
باب ایمان کی ایک روش میں
اہل ایمان کا اعمال میں دوسرے سے بڑھنا
شرم و حیا بھی ایمان سے ہے
آیت فان تابوا۔۔۔الخ کی تفسیر
ایمان عمل کا نام ہے
جب حقیقی اسلام پر کوئی نہ ہو
سلام پھیلانا بھی اسلام میں داخل ہے
خاوند کی ناشکری کے بیان میں
گناہ جاہلیت کے کام ہیں
ظلم کی کمی و بیشی کے بیان میں
علامات منافق
قیام لیلتہ القدر ایمان سے ہے
جہاد ایمان سے ہے
رمضان کی راتوں کا قیام ایمان سے ہے
صوم رمضان بھی ایمان سے ہے
دین آسان ہے
نماز بھی ایمان سے ہے
انسان کے اسلام کی خوبی کے بارے میں
اللہ کو دین کا کون سا عمل زیادہ پسند ہے
ایمان کی کمی و زیادتی کے بارے میں
زکوٰۃ دینا اسلام میں داخل ہے
جنازے کے ساتھ جانا ایمان میں داخل ہے
مومن کو اعمال کے ضیاع سے ڈرنا چاہئے
ایمان اسلام کے بارے میں سوالات
باب ؟؟؟؟؟
دین کوگناہ سے محفوظ رکھنے والے کی فضیلت
مال غنیمت کا پانچواں حصہ ادا کرنا ایمان سے ہے
بغیر خالص نیت کے عمل صحیح نہیں
دین خیر خواہی کا نام ہے

کتاب العلم
علم کی فضیلت کے بیان میں
کسی سے علم کی بات پوچھنا
علمی مسائل کے لیے آواز بلند کرنا
الفاظ حدثناواخبرناوانبانا کے متعلق
امتحان لینے کا بیان
شاگرد کا استاد کے سامنے پڑھنا اور سنانا
مناولہ کا بیان
وہ شخص جو مجلس کےآخر میں بیٹھ جائے
حدیث آگے پہنچانے کا بیان
علم کا درجہ قول و عمل سے پہلے ہے
لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے تعلیم دینا
تعلیم کیلئے نظام الاوقات بنانا
فقاہت دین کی فضیلت
علم میں سمجھداری سے کام لینے کا بیان
علم و حکمت میں رشک کرنے کے بیان میں
حضرت موسٰی اور خضر علیہم السلام کا بیان
فہم قرآن کیلئے دعائے نبوی
بچے کا حدیث سننا کس عمر میں معتبر ہے
تلاش علم میں گھر سے نکلنے کے بیان میں
پڑھنے اور پڑھانے کی فضیلت
علم کے زوال اور جہل کی اشاعت کے بیان میں
علم کی فضیلت کے بیان میں
سواری پر بھی فتویٰ دینا جائز ہے
اشارے سے سوال کا جواب دینا
وفد عبدالقیس کو ہدایات نبوی
مسائل معلوم کرنے کے لئے سفر کرنا
طلباء کی باری مقرر کر لینا
جب کو ئی مسئلہ درپیش ہو تواس کےلیے سفر کرنا (کیسا ہے؟
استاد کے خفا ہونے کے بیان میں
شاگرد کا دو زانو ہو کر ادب سے بیٹھنا
معلم کا تین بار مسئلہ کو دہرانا
مرد کا اپنی باندی اور گھر والوں کو تعلیم دینا
عورتوں کو تعلیم دینا
علم حدیث کے لئے حرص کا بیان
علم کس طرح اٹھا لیا جائےگا
عورتوں کی تعلیم کے لئے خاص دن مقرر کرنا
شاگرد نہ سمجھ سکے تو دوبارہ پوچھ لے
جو موجود ہے وہ غائب کو پہنچا دے
جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھے
علوم دین کو قلم بند کرنے کے بیان میں
رات میں تعلیم دینا اور وعظ کرنا
سونے سے قبل علمی گفتگو کرنا
علم کو محفوظ رکھنے کے بیان میں
علماء کی بات خاموشی سے سننا
جب کسی عالم سے پوچھا جائے۔۔۔
کھڑے کھڑے سوال کرنا
رمی جمار کے وقت بھی مسئلہ پوچھنا
فرمان الٰہی کہ تم کو تھوڑا علم دیا گیا ہے
بعض باتوں کو مصلحتاً چھوڑ دینا
مصلحت سے تعلیم دینا اور نہ دینا
طالب علم کے لئے شرمانا مناسب نہیں
شرمانے والا کسی کے ذریعے مسئلہ پوچھ لے
مسجد میں علمی مذاکرہ کرنا اور فتویٰ دینا
سوال سے زیادہ جواب دینا

کتاب الوضو
آیت اذا قمتم الی الصلوٰۃ کی تفسیر
نماز بغیر پاکی کے قبول نہیں
وضو کی فضیلت کے بارے میں
شک کی وجہ سے نیا وضو نہ کرے
مختصر وضو کرنے کا بیان
پورا وضو کرنے کے بیان میں
چہرے کا صرف ایک چلو پانی سے دھونا
ہرحال میں بسم اللہ پڑھنا
حاجت کو جانے کی دعا
پاخانہ کے قریب پانی رکھنا
پیشاب اور پاخانہ کے وقت قبلہ رخ نہ ہونا
دو اینٹوں پر بیٹھ کر قضائے حاجت کرنا
عورتوں کو قضائے حاجت کے لئے باہر نکلنا
گھروں میں قضائے حاجت کرنا
پانی سے طہارت کرنا بہتر ہے
طہارت کے لئے پانی ساتھ لے جانا
استنجاء کے لیے نیزہ بھی ساتھ لے جانا
دائیں ہاتھ سے طہارت کی ممانعت
اپنے عضو کو اپنے داہنے ہاتھ سے نہ پکڑے
پتھروں سے استنجاء کرنا ثابت ہے
ہڈی اور گوبر سے استنجاء نہ کرے
اعضاء وضو کو ایک ایک بار دھونا
اعضاء وضو کو دو دو بار دھونا
اعضاء وضو کو تین تین بار دھونا
وضو میں ناک صاف کرنا ضروری ہے
طاق ڈھیلوں سے استنجاء کرنا
دونوں پاؤں دھونا اور قدموں پر مسح نہ کرنا چاہیے۔
وضو میں کلی کرنا ضروری ہے
ایڑیوں کے دھونے کے بارے میں
جوتوں کے اندر پاؤں دھونا اور مسح کرنا
وضو اور غسل میں دائیں جانب سے ابتداء کرنا
پانی کی تلاش ضروری ہے
جس پانی سے بال دھوئے جائیں
جب کتابرتن میں پی لے
وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان
جو اپنے ساتھی کو وضو کرائے
بے وضو تلاوت قرآن وغیرہ
بے ہوشی کے شدید دورہ سے وضو ٹوٹنے کا بیان
پورے سر کا مسح کرنا ضروری ہے
ٹخنوں تک پاؤں دھونا
وضو کے بچے ہوئے پانی کا بیان
ایک ہی چلو سے کلی اور ناک میں پانی دینا
سر کا مسح کرنے کے بیان میں
اپنی بیوی کے ساتھ وضو کرنا جائز ہے
بے ہوش آدمی پر وضو کا پانی چھڑکنے کا بیان
لگن پیالے وغیرہ میں وضو کرنا
طشت میں پانی لے کر وضو کرنا
ایک مد پانی سے وضو کرنا
موزوں پر مسح کرنا
وضو کر کے موزہ پہننا
بکری کا گوشت، ستو کھا کر وضوضروری نہیں
ستو کھا کر صرف کلی کرنا
دودھ پی کر کلی کرنا
سونے کے بعد وضو کرنے کا بیان
بغیر حدث کے بھی نیا وضو جائز ہے
پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنا کبیرہ گناہ ہے
پیشاب کو دھونے کے بیان میں
باب :۔۔۔
ایک دیہاتی کا مسجد میں پیشاب کرنا
مسجد میں پیشاب پر پانی بہانا
بچوں کے پیشاب کے بارے میں
کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پیشاب کرنا
اپنے کسی ساتھی سے آڑ بنا کر
کسی قوم کی کوڑی پر پیشاب کرنا
حیض کا خون دھونا ضروری ہے
منی کے دھونے کے بارے میں
اگر منی وغیرہ دھوئے اور اس کا اثر نہ جائے
اونٹ بکری کے رہنے کی جگہ کے بارے میں
جب نجاست گھی اور پانی میں گر جائے
ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے
جب نمازی کی پشت پر کوئی نجاست ڈال دی۔۔۔
کپڑے میں تھوک اور رینٹ وغیرہ لگ جائے
نشہ والی چیزوں سے وضو جائز نہیں
عورت کا اپنے باپ کے چہرے سے خون دھونا
مسواک کے بیان میں
بڑے آدمی کو مسواک دینا
سوتے وقت وضو کرنے کی فضیلت

کتاب الغسل
قر آن حکیم میں غسل کے احکام
غسل سے پہلے وضو کرنے کا بیان
مرد کا بیوی کے ساتھ غسل کرنا
ایک صاع وزن پانی سے غسل کرنا
سر پر تین بار پانی بہانا
صرف ایک مرتبہ بدن پر پانی ڈالنا
حلاب یا خوشبو لگا کر غسل کرنا
غسل جنابت کرتے وقت کلی کرنا
ہاتھ مٹی سے ملنا تاکہ خوب صاف ہو جائیں
کیا جنبی ہاتھ برتن میں ڈال سکتا ہے؟
غسل میں داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی گرانا
غسل اور وضو کے درمیان فصل کرنا
جس نے ایک سے زائد مرتبہ جماع کیا۔۔۔
مذی کا دھونا اور اس سے وضو کرنا
غسل کے بعد خوشبو کا اثر باقی رہنا
بالوں کا خلال کرنا
غسل جنابت میں اعضاء کو دوبارہ دھونا
جب کوئی شخص مسجد میں ہو اور اس کو۔۔۔
غسل جنابت کے بعد ہاتھوں سے پانی جھاڑ لینا
جس نے سر کے داہنے حصے سے غسل شروع کیا
جس نے تنہائی میں ننگے ہو کر غسل کیا
نہاتے وقت پردہ کرنا
عورت کو احتلام ہونا
جنبی کا پسینہ ناپاک نہیں
جنبی گھر سے باہر نکل سکتا ہے
غسل سے پہلے جنبی کا گھر میں ٹھہرنا
بغیر غسل کئے جنبی کا سونا
جنبی پہلے وضو کرے پھر سوئے
جب دونوں شرمگاہیں مل جائیں تو غسل واجب ہوگا
اس چیز کا دھونا جو عورت کی شرمگاہ سے لگ جائے

کتاب الحیض
اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان

حیض کی ابتداء کیسے ہوئی
حائضہ کا اپنے شوہر کا سر دھونا
مرد کا حائضہ بیوی کی گود میں قرآن پڑھنا
نفاس کا نام حیض بھی ہے
حائضہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا
حائضہ عورت روزہ چھوڑ دے
حائضہ حج میں طواف کے علاوہ ارکان۔۔۔
استحاضہ کا بیان
حیض کا خون دھونے کا بیان
استحاضہ کی حالت میں اعتکاف
کیا عورت حیض والے کپڑے میں نماز۔۔۔
حیض کے غسل میں خوشبو استعمال کرنا
حیض سے پاکی کے بعد غسل۔۔۔
حیض کا غسل کیونکر ہو؟
عورت کا حیض کے غسل کے بعد کنگھی کرنا
حیض کے غسل کے وقت بالوں کو کھولنا
مخلقہ و غیر مخلقہ کی تفسیر
حائضہ حج اور عمرہ کا احرام کس۔۔۔
حیض کا آنا اور اس کا ختم ہونا
حائضہ عورت نماز کی قضا نہ کرے
حائضہ عورت کے ساتھ سونا
حیض کے لئے علیحدہ کپڑے
عیدین میں حائضہ بھی جائیں
اگر کسی عورت کو ایک ماہ میں تین بار۔۔۔
زرد اور مٹیالا رنگ ایام حیض کے۔۔۔
استحاضہ کی رگ کے بارے میں
جو عورت طواف افاضہ کے بعد حائض ہو
جب مستحاضہ جسم میں پاکی دیکھے۔۔۔
نفاس میں مرنے والی عورت کا نماز جنازہ
باب : ...

کتاب التیمم
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان

حکم تیمم کا نازل ہونا
جب پانی ملے نہ مٹی تو کیا کرے
اقامت کی حالت میں تیمم
کیا مٹی پر تیمم کے لئے ہاتھ مارنے کے بعد۔۔۔
تیمم میں صرف منہ اور دونوں پہنچوں۔۔۔
پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے
جب جنبی کو غسل سے خطرہ ہو
تیمم میں ایک ہی دفعہ مٹی پر ہاتھ مارنا
پاک مٹی سے تیمم کرنا

کتاب الصلوٰۃ
نماز کیسے فرض ہوئی؟

کپڑے پہن کر نماز پڑھنا۔۔۔
نماز میں گدی پر تہمند باندھنا
ایک کپڑا بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھنا
جب ایک کپڑے میں کوئی نماز پڑھے
جب کپڑا تنگ ہو تو کیا کرے
غیر مسلموں کے بنے کپڑے میں نماز پڑھنا
بے ضرورت ننگا ہونے کی کراہت
قمیص، پاجامہ وغیرہ پہن کر نماز پڑھنا
ستر عورت کا بیان
بغیر چادر اوڑھے ایک کپڑے میں نماز پڑھنا
ران کے متعلق روایات
عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے
بیل لگے ہوئے کپڑوں میں نماز پڑھنا
ایسا کپڑا جس پر صلیب یا تصویریں ہوں
ریشم کے کوٹ میں نماز پڑھنا
سرخ رنگ کے کپڑے میں نماز پڑھنا
چھت، منبر اور لکڑی پر نماز پڑھنا
جب آدمی کا کپڑا اس کی عورت سے لگ جائے
بورئیے پر نماز پڑھنے کا بیان
کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھنا
بچھونے پر نماز پڑھنے کے بیان میں
سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنا
جوتوں سمیت نماز پڑھنا
موزے پہنے ہوئے نماز پڑھنا
جب کوئی پورا سجدہ نہ کرے
سجدہ میں بغلوں کو کھلا رکھنا
قبلہ کی طرف منہ کرنے کی فضیلت
مدینہ اور شام والوں کا قبلہ
مقام ابراہیم کو مصلٰے بناؤ
ہر مقام اور ملک میں رخ قبلہ کی طرف ہو
قبلہ سے متعلق اور احادیث
اگر مسجد میں تھوک لگا ہو تو۔۔۔
مسجد میں سے رینٹ کو کھرچ ڈالنا
نماز میں داہنی طرف نہ تھوکنا
بائیں طرف یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکنا
مسجد میں تھوکنے کا کفارہ
بلغم کو مسجد میں مٹی کے اندر چھپانا
جب (نماز میں) تھوک کا غلبہ ہو۔۔
نماز پوری طرح پڑھنا اور قبلہ کا بیان
یہ مسجد فلاں خاندان کی ہے کہنا؟
مسجد میں مال تقسیم کرنا
جسے مسجد میں کھانے کی دعوت۔۔۔
مسجد میں فیصلے کرنا
کسی کے گھر میں نماز پڑھنا
گھروں میں جائے نماز مقرر کرنا
مسجد میں داخل ہونے اور دیگر کاموں۔۔۔
دور جاہلیت کے مشرکوں کی قبروں کو۔۔۔
بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنا
اونٹوں کے رہنے کی جگہ میں نماز پڑھنا
اگر نمازی کےآگے آگ ہو
مقبروں میں نماز کی کراہیت
عذاب کی جگہوں میں نماز
گرجا میں نماز پڑھنے کا بیان
باب :۔۔۔
فرمان مبارک میرے لئے ساری زمین پر نماز۔۔۔
عورت کا مسجد میں سونا
مسجدوں میں مردوں کا سونا
سفر سے واپسی پر نماز پڑھنا
مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت پڑھے
مسجد میں ہوا خارج کرنا
مسجد کی عمارت
مسجد بنانے میں مدد کرنا
مسجد کی تعمیر میں کاریگروں سے امداد لینا
مسجد بنانے کا اجر و ثواب
مسجد میں اپنے تیر کے پھل کو تھامے رکھنا
مسجد میں تیر وغیرہ لے کر گزرنا
مسجد میں شعر پڑھنا
چھوٹے نیزوں سے مسجد میں کھیلنا
منبر پر مسائل خرید و فروخت کا ذکر کرنا
مسجد میں قرض کا تقاضا کرنا
مسجد میں جھاڑو دینا
مسجد میں شراب کی سوداگری کی حرمت۔۔۔
مسجد کے لئے خادم مقرر کرنا
قیدی یا قرضدار مسجد میں باندھنا
جب کوئی شخص اسلام لائے
مسجد میں مریضوں کے لئے خیمہ لگانا
ضرورت سے مسجد میں اونٹ لے جانا
باب :۔۔۔
مسجد میں کھڑکی اور راستہ
کعبہ اور مساجد میں دروازے۔۔۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مشرک کا مسجد میں داخل ہونا۔۔۔
مسجد میں آواز بلند کرنا۔۔۔
مسجد میں حلقہ بنا کر یا یونہی بیٹھنا
مسجد میں چت لیٹنا کیسا ہے؟
عام راستوں پر مسجد بنانا
بازار کی مسجد میں نماز پڑھنا
مسجد وغیرہ میں انگلیوں کا قینچی کرنا
مدینہ کے راستے کی مساجد کا بیان
امام کا سترہ مقتدیوں کو کفایت کرتا ہے
نمازی اور سترہ میں کتنا فاصلہ ہونا چاہئے
برچھی کی طرف نماز پڑھنا
عنزہ کی طرف نماز پڑھنا
مکہ اور دیگر مقامات پر سترہ کا حکم
ستونوں کی آڑ میں نماز پڑھنا
دو ستونوں کے بیچ میں نماز پڑھنا
باب :۔۔۔
اونٹ اور درخت و چارپائی وغیرہ کا سترہ
چارپائی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا
نمازی سامنے سےگزرنے والے کو روک دے
نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ
ایک نمازی کا دوسرے کی طرف رخ کرنا
سوتے ہوئے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا
عورت کو بطور سترہ کر کے نفل پڑھنا
نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی
نماز میں اگر کوئی گردن پر بچی اٹھالے
حائضہ عورت کے بستر کی طرف نماز
نمازی کا بیوی کو چھونا
عورت نماز پڑھنے والے سے گندگی ہٹا دے

مواقیت الصلوات
نماز کے اوقات اور مسائل

آیت منیبین الیہ واتقول کی تفسیر
نماز درست طریقے سے پڑھنے پر بیعت کرنا
گناہوں کے لیے نماز کفارہ ہے
نماز وقت پر پڑھنے کی فضیلت
پانچوں وقت کی نمازیں گناہوں کا کفارہ
نماز کو بے وقت پڑھنا نماز کو ضائع۔۔۔
نماز پڑھنے والا اپنے رب سے محو کلام۔۔۔
سخت گرمی میں ظہر کو ٹھنڈے وقت۔۔۔
سفر میں ظہر کو ٹھنڈے وقت پڑھنا
ظہر کا وقت سورج ڈھلنے پر ہے
کبھی نماز ظہر عصر تک موخر کی۔۔۔
نماز عصر کے وقت کا بیان
نماز عصر کے چھوٹ جانے پر کتنا گناہ ہے؟
نماز عصر چھوڑ دینے پر کتنا گناہ ہے؟
نماز عصر کی فضیلت کا بیان
جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈوبنے۔۔۔
مغرب کی نماز کے وقت کا بیان
جس نے مغرب کو عشاء کہنا مکروہ جانا
عشاء اور عتمہ کا بیان
نماز عشاء کا وقت جب لوگ جمع ہو جائیں
نماز عشاء کے لئے انتظار کرنے کی فضیلت
نماز عشاء سے پہلے سونا کیسا ہے
نیند کا غلبہ ہو تو عشاء سے پہلے بھی سونا
نماز عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے
نماز فجر کی فضیلت کے بیان میں
نماز فجر کا وقت
فجر کی ایک رکعت پانے والا
جو کوئی کسی نماز کی ایک رکعت پا لے
صبح کی نماز کے بعد نماز پڑھنا
سورج چھپنے سے پہلے قصداً نماز نہ پڑھے
جس نے فقط عصر اور فجر کے بعد نماز کو مکروہ جانا
عصر کے بعد قضا نمازیں
ابر کے دنوں میں نماز کے لئے جلدی کرنا
وقت نکل جانے کے بعد نماز پڑھتے وقت اذان دینا
قضا نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا
جو شخص کوئی نماز بھول جائے
اگر کئی نمازیں قضا ہو جائیں
عشاء کے بعد دنیاوی باتیں کرنا مکروہ ہے
عشاء کے بعد مسائل کی باتیں کرنا
عشاء کے بعد اپنی بیوی یا مہمان سے باتیں کرنا


کتاب الاذان
اذان کیونکر شروع ہوئی

اذان کے کلمات دو دو مرتبہ دہرائے جائیں
اقامت کے کلمات ایک ایک دفعہ کہنا
اذان دینے کی فضیلت
اذان بلند آواز سے ہونی چاہیے
اذان کی وجہ سے خون ریزی کا رکنا
اذان کا جواب کس طرح دینا چاہئے
اذان کی دعا کے بارے میں
اذان کے لئے قرعہ اندازی کا بیان
اذان کے دوران بات کرنا
نابینا شخص کے اذان دینے کا بیان
صبح ہونے کے بعد اذان دینا
صبح صادق سے پہلے اذان دینا
اذان اور تکبیر کے بیچ میں کتنا فاصلہ ہو
اذان سن کر جو گھر میں تکبیر کا انتظار کرے
اذان اور تکبیر کے درمیان نفل پڑھنا
سفر میں ایک ہی شخص اذان دے
اگر کئی مسافر ہوں تو نماز کے لیے اذان۔۔
کیا مؤذن اذان میں اپنا منہ اِدھر اُدھر گھمائے؟
یوں کہنا کہ نماز نے ہمیں چھوڑ دیا؟
نماز کا جو حصہ جماعت کے ساتھ پاسکو۔۔
نماز کی تکبیر کے وقت کس وقت کھڑے ہوں؟
نماز کے لئے جلدی نہ اٹھے
کیا مسجد سے کسی ضرورت کی وجہ سے۔۔۔
اگرامام مقتدیوں سے کہے کہ تم لوگ۔۔۔
آدمی یوں کہے کہ ہم نے نماز نہیں پڑھی۔۔۔
تکبیر کے بعد اگر امام کو کوئی ضرورت۔۔۔
تکبیر ہو چکنے کے بعد باتیں کرنا
جماعت سے نماز پڑھنا فرض ہے
نماز باجماعت کی فضیلت
فجر کی نماز باجماعت کی فضیلت
ظہر کی نماز کے لئے سویرے جانے کی فضیلت
جماعت کے لئے ہر ہر قدم پر ثواب
عشاء کی نماز باجماعت
دو یا زیادہ آدمی ہوں تو جماعت ہو سکتی ہے
نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت
مسجد میں صبح و شام آنے والوں کی فضیلت
جب نماز کی تکبیر ہونے لگے۔۔۔
بیمار کو کس حد تک جماعت میں آنا چاہئے
بارش اور کسی عذر سے گھر میں نماز پڑھنا
بارش میں جو لوگ مسجد میں آجائیں
جب کھانا حاضر ہو اور نماز کی تکبیر۔۔۔
جب امام کو نماز کے لئے بلایا جائے
اس آدمی کے بارے میں جو امور خانہ میں۔۔۔
طریقہ نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت۔۔۔
امامت کرانے کا حقدار کون ہے؟
عذر کی وجہ سے امام کے پہلو میں کھڑا ہونا
امامت شروع ہو جانا اور پہلے امام کا آنا۔۔۔
قرات میں اگر سب برابر ہوں
جب امام کسی قوم کے ہاں گیا
امام کی اقتداء ضروری ہے
مقتدی کب سجدہ کریں؟
امام سے پہلے سر اٹھانے کا گناہ
غلام کی امامت کا بیان
اگر امام اپنی نماز کو پورا نہ کرے۔۔۔
باغی اور بدعتی کی امامت کا بیان
جب صرف دو ہی نمازی ہوں۔۔۔
اگر کوئی امام کی بائیں طرف کھڑا ہوا۔۔۔
اگر امامت کی نیت نہ ہو لیکن لوگ۔۔
اگر امام لمبی سورۃ شروع کر دے
امام کو چاہئے کہ قیام ہلکا کرے
جب اکیلا نماز پڑھے توطویل کر سکتا ہے
امام سے نماز کی طوالت کی شکایت
نماز مختصر لیکن پوری پڑھنا
بچے کے رونے پر نماز کو مختصر کرنا
ایک شخص نماز پڑھ کر پھر دوسرے۔۔۔
اس سے متعلق جو مقتدیوں کو امام۔۔۔
ایک شخص امام کی اقتداء کرے اور لوگ۔۔۔
اگر امام کو شک ہو جائے۔۔۔
امام اگر نماز میں رونے لگے
تکبیر کےوقت صفوں کا برابر کرنا
صفیں برابر کرتے وقت امام کا لوگوں۔۔۔
صف اول کا ثواب
صف برابر کرنا نماز کا پورا کرنا ہے
صفیں برابر نہ کرنے والوں کا گناہ
کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملانے کا بیان
اگر کوئی امام کے بائیں طرف کھڑا ہو
اکیلی عورت ایک صف کا حکم رکھتی ہے
مسجد اور امام کی داہنی جانب کا بیان
جب امام اور مقتدیوں کے درمیان کوئی۔۔۔
رات کی نماز کا بیان
تکبیر تحریمہ کا واجب ہونا

کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ)
تکبیر تحریمہ کے وقت دونوں ہاتھوں۔۔۔

تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین
ہاتھوں کو کہاں تک اٹھانا چاہئے
قعدہ اولٰی سے اٹھنے کے بعد رفع الیدین
نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا
نماز میں خشوع کا بیان
تکبیر تحریمہ کے بعد کیا پڑھا جائے؟
(سورج گہن کے وقت نماز)
نماز میں امام کی طرف دیکھنا
نماز میں آسمان کی طرف نظراٹھانا
نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا۔۔۔
اگر نمازی پر کوئی حادثہ ہو؟
امام اور مقتدی کے لئے قرات کا واجب ہونا
نماز ظہر میں قرات کا بیان
نماز عصر میں قرات کا بیان
نماز مغرب میں قرات کا بیان
نماز مغرب میں بلند آواز سے قرات
نماز عشاء میں بلند آواز سے قرات
نماز عشاء میں سجدہ کی سورۃ پڑھنا
نماز عشاء میں قرات کا بیان
عشاء کی پہلی دو رکعتیں لمبی۔۔۔
نماز فجر میں قرات قرآن
فجر کی نماز میں بلند آواز سے قرات
ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنا
پچھلی دو رکعات میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا
ظہر و عصر میں قرات آہستہ
اگر امام سری نماز میں کوئی آیت۔۔۔
پہلی رکعت میں قرات طویل
جہری نمازوں بلندآواز سےآمین کہنا
آمین کہنے کی فضیلت
مقتدی کا بلند آواز سے آمین کہنا
جب صف تک پہنچنےسے پہلے ہی کسی نے۔۔۔
رکوع کرنے کے وقت بھی تکبیر کہنا
سجدے کے وقت بھی تکبیر کہنا
جب سجدہ کر کے کھڑا ہو تو تکبیر کہے
رکوع میں ہاتھ گھٹنوں پر رکھنا
اگر رکوع اطمینان سے نہ کرے۔۔۔
رکوع میں پیٹھ کو برابر کرنا
جس نے رکوع پوری طرح نہیں کیا۔۔۔
نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دینا جس نے رکوع۔۔۔
رکوع کی دعا کا بیان
رکوع سے سر اٹھانے پر دعا
اللھم ربنا ولک الحمد کی فضیلت
باب :۔۔۔
رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کیا کہا جائے
سجدہ کے لئے اللہ اکبر کہتا ہوا جھکے
سجدہ کی فضیلت کا بیان
سجدہ میں دونوں بازو کھلے ہوں
سجدہ میں پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ ہوں

جب سجدہ پوری طرح نہ کرے
سات ہڈیوں پر سجدہ کرنا
سجدہ میں ناک بھی زمین سے لگانا
کیچڑ میں بھی ناک زمین سے لگانا



اگلی جلدیں دیکھئے :

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤
مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠
مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد٤- حدیث نمبر٢٤٩١ تا ٣٤٦٤
مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد٥- حدیث نمبر٣٤٦٥ تا ٤٣٩٤
مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٦- حدیث نمبر٤٣٩٥ تا ٥٢٤٤
مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد٧ - حدیث نمبر٥٢٤٥ تا ٦٥١٦

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد٨ - حدیث نمبر٦٥١٧ تا ٧٥٨٣

----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

کتاب الوحی


باب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء کیسے ہوئی (حدیث نیت کی درستگی کے بارے میں)
وقول الله جل ذكره ‏{‏إنا أوحينا إليك كما أوحينا إلى نوح والنبيين من بعده‏}‏‏.‏
اور اللہ عزوجل کا یہ فرمان کہ “ ہم نے بلاشبہ ( اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کی طرف وحی کا نزول اسی طرح کیا ہے جس طرح حضرت نوح ( علیہ السلام ) اور ان کے بعد آنے والے تمام نبیوں کی طرف کیا تھا۔ ” ﷺ

حدیث نمبر : 1
حدثنا الحميدي عبد الله بن الزبير، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا يحيى بن سعيد الأنصاري، قال أخبرني محمد بن إبراهيم التيمي، أنه سمع علقمة بن وقاص الليثي، يقول سمعت عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ على المنبر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه ‏"‏‏.‏
ہم کو حمیدی نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم کو سفیان نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ہم کو یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ مجھے یہ حدیث محمد بن ابراہیم تیمی سے حاصل ہوئی۔ انھوں نے اس حدیث کو علقمہ بن وقاص لیثی سے سنا، ان کا بیان ہے کہ میں نے مسجد نبوی میں منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زبان سے سنا، وہ فرما رہے تھے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن ) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔


تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کے افتتاح کے لیے یا تو صرف بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی کو کافی سمجھا کہ اس میں بھی اللہ کی حمد کامل طور پر موجود ہے یا آپ نے حمد کا تلفظ زبان سے ادا فرمالیا کہ اس کے لیے لکھنا ہی ضروری نہیں۔ یا پھر آپ نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کو ملحوظِ خاطر رکھا ہو کہ تحریرات نبوی کی ابتداصرف بسم اللہ الرحمن الرحیم ہی سے ہوا کرتی تھی جیسا کہ کتب تواریخ وسیر سے ظاہر ہے۔ حضرت الامام قدس سرہ نے پہلے “ وحی ” کا ذکر مناسب سمجھا اس لیے کہ قرآن وسنت کی اولین بنیاد “ وحی ” ہے۔ اسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت موقوف ہے۔ وحی کی تعریف علامہ قسطلانی شارح بخاری کے لفظوں میں یہ ہے ( والوحی الاعلام فی خفاءوفی اصطلاح الشرع اعلام اللہ تعالیٰ انبیاءہ الشی امابکتاب او برسالۃ ملک او منام اوالہام ) ( ارشاد الساری 48/1 ) یعنی وحی لغت میں اس کو کہتے ہیں کہ مخفی طور پر کوئی چیز علم میں آجائے اور شرعاً وحی یہ ہے کہ اللہ پاک اپنے نبیوں رسولوں کو براہِ راست کسی مخفی چیز پر آگاہ فرمادے۔ اس کی بھی مختلف صورتیں ہیں، یا تو ان پر کوئی کتاب نازل فرمائے یا کسی فرشتے کو بھیج کر اس کے ذریعہ سے خبردے یاخواب میں آگاہ فرمادے، یادل میں ڈال دے۔ وحی محمدی کی صداقت کے لیے حضرت امام نے آیت کریمہ انآاوحينآ اليک کما اوحينا الي نوح ( النساء: 163 ) درج فرماکر بہت سے لطیف اشارات فرمائے ہیں، جن کی تفصیل طوالت کا باعث ہے۔ مختصریہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ عالیہ حضرت آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ،عیسیٰ وجملہ انبیاء ورسل علیہم السلام سے مربوط ہے اور اس سلسلے کی آخری کڑی حضرت سیدنامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہیں۔ اس طرح آپ کی تصدیق جملہ انبیاء ورسل علیہم السلام کی تصدیق ہے اور آپ کی تکذیب جملہ انبیاء ورسل علیہم السلام کی تکذیب ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ( ومناسبۃ الآیۃ للترجمۃ واضح من جہۃ ان صفۃ الوحی الٰی نبینا صلی اللہ علیہ وسلم توافق صفۃ الوحی الٰی من تقدمہ من النبیین ) ( فتح الباری9/1 ) یعنی باب بدءالوحی کے انعقاد اور آیت ( انااوحینا الیک ) الآیۃ میں مناسبت اس طور پر واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول قطعی طور پر اسی طرح ہے جس طرح آپ سے قبل تمام نبیوں رسولوں پر وحی کا نزول ہوتا رہا ہے۔ ذکر وحی کے بعد حضرت الامام نے الحدیث انما الاعمال بالنیات کونقل فرمایا، اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ ظاہر کرنا بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخزانہ وحی سے جو کچھ بھی دولت نصیب ہوئی یہ سب آپ کی اس پاک نیت کا ثمرہ ہے جو آپ کو ابتداءعمر ہی سے حاصل تھی۔ آپ کا بچپن، جوانی، الغرض قبل نبوت کا سارا عرصہ نہایت پاکیزگی کے ساتھ گذرا۔ آخر میں آپ نے دنیا سے قطعی علیحدگی اختیار فرماکر غار حرا میں خلوت فرمائی۔ آخر آپ کی پاک نیت کا ثمرہ آپ کو حاصل ہوا اور خلعت رسالت سے آپ کونوازاگیا۔ روایت حدیث کے سلسلہ عالیہ میں حضرت الامام قدس سرہ نے امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی سند کا افتتاح فرمایا۔ حضرت امام حمیدی رحمہ اللہ علم وفضل، حسب ونسب ہر لحاظ سے اس کے اہل تھے اس لیے کہ ان کی علمی وعملی جلالت شان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ میں سے ہیں، حسب ونسب کے لحاظ سے قریشی ہیں۔ ان کا سلسلہ نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحضرت خدیجۃ الکبریٰ ر ضی اللہ عنہاسے جاملتا ہے ان کی کنیت ابوبکر، نام عبداللہ بن زبیربن عیسیٰ ہے، ان کے اجداد میں کوئی بزرگ حمیدبن اسامہ نامی گذرے ہیں، ان کی نسبت سے یہ حمیدی مشہورہوئے۔ اس حدیث کوامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حمیدی سے جو کہ مکی ہیں، لاکر یہ اشارہ فرما رہے ہیں کہ وحی کی ابتدا مکہ سے ہوئی تھی۔
حدیث ( انماالاعمال بالنیات ) کی بابت علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وھذاالحدیث احد الاحادیث التی علیھا مدار الاسلام و قال الشافعی واحمد انہ یدخل فیہ ثلث العلم ” ( ارشاد الساری 56,57/1 ) یعنی یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا دارومدارہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ جیسے اکابرامت نے صرف اس ایک حدیث کو علم دین کا تہائی یانصف حصہ قرار دیا ہے۔ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور بھی تقریباً بیس اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمایا ہے۔ بعض علماءنے اسے حدیث متواتر بھی قرار دیا ہے۔اس کے راویوں میں سعدبن ابی وقاص، علی بن ابی طالب، ابوسعیدخدری، عبداللہ بن مسعود، انس، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ، جابربن عبداللہ، معاویہ بن ابی سفیان، عبادۃ بن صامت عتبہ بن عبدالسلمی، ہلال بن سوید، عقبہ بن عامر، ابوذر عقبہ بن المنذر عقبہ بن مسلم اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی نقل کئے گئے ہیں۔ ( قسطلانی رحمہ اللہ )

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی جامع صحیح کو اس حدیث سے اس لیے شروع فرمایا کہ ہر نیک کام کی تکمیل کے لیے خلوص نیت ضروری ہے۔ احادیث نبوی کا جمع کرنا، ان کا لکھنا، ان کا پڑھنا، یہ بھی ایک نیک ترین عمل ہے، پس اس فن شریف کے حاصل کرنے والوں کے لیے آداب شرعیہ میں سے یہ ضروری ہے کہ اس علم شریف کو خالص دل کے ساتھ محض رضائے الٰہی ومعلومات سنن رسالت پناہی کے لیے حاصل کریں، کوئی غرض فاسد ہرگز درمیان میں نہ ہو۔ ورنہ یہ نیک عمل بھی اجروثواب کے لحاظ سے ان کے لیے مفیدعمل نہ ہوسکے گا۔ جیسا کہ اس حدیث کے شان ورود سے ظاہر ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت ام قیس نامی کو نکاح کا پیغام دیا تھا، اس نے جواب میں خبردی کہ آپ ہجرت کرکے مدینہ آجائیں توشادی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ وہ شخص اسی غرض سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچا اور اس کی شادی ہوگئی۔ دوسرے صحابہ کرام اس کو مہاجر ام قیس کہا کرتے تھے۔ اسی واقعہ سے متاثر ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔

حضرت امام قسطلانی فرماتے ہیں۔ ( واخرجہ المولف فی الایمان والعتق والہجرۃ والنکاح والایمان والنذور وترک الحیل ومسلم والترمذی والنسائی وابن ماجۃ واحمد والدارقطنی وابن حبان والبیھقی ) یعنی امام بخاری رحمہ اللہ اپنی جامع صحیح میں اس حدیث کو یہاں کے علاوہ کتاب الایمان میں بھی لائے ہیں اور وہاں آپ نے یہ باب منعقد فرمایا ہے ( باب ماجاءان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ ولکل امرءما نوی ) یہاں آپ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے کہ وضو، زکوۃ، حج روزہ جملہ اعمال خیر کا اجراسی صورت میں حاصل ہوگا کہ خلوص نیت سے بغرض طلب ثواب ان کو کیاجائے۔ یہاں آپ نے استشہاد مزید کے لیے قرآنی آیت کریمہ ( قل کل یعمل علی شاکلتہ ) کونقل کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ شاکلتہ سے نیت ہی مراد ہے۔ مثلاً کوئی شخص اپنے اہل وعیال پر بہ نیت ثواب خرچ کرتا ہے تویقینا اسے ثواب حاصل ہوگا۔ تیسرے امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب العتق میں لائے ہیں۔ چوتھے باب الہجرۃ میں پانچویں کتاب النکاح میں چھٹے نذورکے بیان میں۔ ساتویں کتاب الحیل میں۔ ہرجگہ اس حدیث کی نقل سے غرض یہ ہے کہ صحت اعمال وثواب اعمال سب نیت ہی پر موقوف ہیں اور حدیث ہذا کا مفہوم بطور عموم ہر دوصورتوں کوشامل ہے۔ اس حدیث کے ذیل میں فقہاءشوافع صرف صحت اعمال کی تخصیص کرتے ہیں اور فقہاءاحناف صرف ثواب اعمال کی۔ حضرت مولاناانورشاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہردو کی تغلیط فرماتے ہوئے امام المحدثین بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہی کے موقف کی تائید کی ہے کہ یہ حدیث ہر دوصورتوں کو شامل ہے۔ ( دیکھو انوارالباری 16,17/1 )

نیت سے دل کا ارادہ مراد ہے۔ جوہرفعل اختیاری سے پہلے دل میں پیدا ہوتا ہے، نماز، روزہ، وغیرہ کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا غلط ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگراکابر امت نے تصریح کی ہے کہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کا ثبوت نہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے نہ صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے، لہٰذا زبان سے نیت کے الفاظ کا ادا کرنا محض ایجادبندہ ہے جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

آج کل ایک جماعت منکرین حدیث کی بھی پیدا ہوگئی ہے جو اپنی ہفوات کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی بھی استعمال کیا کرتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ روایت حدیث کے خلاف تھے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کو حضرت عمررضی اللہ عنہ کی روایت سے شروع فرمایا ہے۔ جس سے روزروشن کی طرح واضح ہو گیا کہ منکرین حدیث کا حضرت عمررضی اللہ عنہ پر یہ الزام بالکل غلط ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ خود احادیث نبوی کو روایت فرمایا کرتے تھے۔ ہاں صحت کے لیے آپ کی طرف سے احتیاط ضرور مدنظر تھا۔ اور یہ ہر عالم، امام، محدث کے سامنے ہونا ہی چاہئیے۔ منکرین حدیث کو معلوم ہونا چاہئیے کہ سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے عہدخلافت میں احادیث نبوی کی نشرواشاعت کا غیرمعمولی اہتمام فرمایا تھا اور دنیائے اسلام کے گوشہ گوشہ میں ایسے جلیل القدر صحابہ کو اس غرض کے لیے روانہ فرمایا تھا، جن کی پختگی سیرت اور بلندی کردار کے علاوہ ان کی جلالت علمی تمام صحابہ میں مسلم تھی۔ جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ازالۃ الخفاء میں تحریر فرماتے ہیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے :
“ فاروق اعظم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ایک جماعت کے ساتھ کوفہ بھیجا۔ اور معقل بن یسار وعبداللہ بن مغفل وعمران بن حصین کو بصرہ میں مقرر فرمایا اور عبادہ بن صامت اور ابودرداءکو شام روانہ فرمایا اور ساتھ ہی وہاں کے عمال کو لکھا کہ ان حضرات کو ترویج احادیث کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ حضرات جو حدیث بیان کریں ان سے ہرگز تجاوز نہ کیاجائے۔ معاویہ بن ابی سفیان جو اس وقت شام کے گورنر تھے ان کو خصوصیت کے ساتھ اس پر توجہ دلائی۔ ”

حضرت عمررضی اللہ عنہ 7نبوی میں ایمان لائے اور آپ کے مسلمان ہونے پر کعبہ شریف میں مسلمانوں نے نماز باجماعت ادا کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ باطل کے مقابلہ پر حق سربلندہوا۔ اسی وجہ سے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاروق کا لقب عطا فرمایا۔ آپ بڑے نیک،عادل اور صائب الرائے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی تعریف میں فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کردیا ہے۔ 13 نبوی میں آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے بعدخلافت اسلامیہ کوسنبھالا اور آپ کے دور میں فتوحات اسلامی کا سیلاب دوردور تک پہنچ گیا تھا۔ آپ ایسے مفکر اور ماہرسیاست تھے کہ آپ کادور اسلامی حکومت کا زریں دور کہا جاتا ہے۔ مغیرہ بن شعبہ کے ایک پارسی غلام فیروزنامی نے آپ کے دربار میں اپنے آقا کی ایک غلط شکایت پیش کی تھی۔ چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس پر توجہ نہ دی۔ مگروہ پارسی غلام ایسا برافروختہ ہوا کہ صبح کی نماز میں خنجر چھپا کر لے گیا اور نماز کی حالت میں آپ پر اس ظالم نے حملہ کردیا۔ اس کے تین دن بعد یکم محرم 24 ھ کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اور نبی اکرم ا اور اپنے مخلص رفیق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں قیامت تک کے لیے سوگئے۔ ( انا للہ واناالیہ راجعون۔ اللہم اغفرلہم اجمعین۔ آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ( کیفیت وحی)

حدیث نمبر : 2
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة أم المؤمنين ـ رضى الله عنها ـ أن الحارث بن هشام ـ رضى الله عنه ـ سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله كيف يأتيك الوحى فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أحيانا يأتيني مثل صلصلة الجرس ـ وهو أشده على ـ فيفصم عني وقد وعيت عنه ما قال، وأحيانا يتمثل لي الملك رجلا فيكلمني فأعي ما يقول ‏"‏‏.‏ قالت عائشة رضى الله عنها ولقد رأيته ينزل عليه الوحى في اليوم الشديد البرد، فيفصم عنه وإن جبينه ليتفصد عرقا‏.
ہم کو عبداللہ بن یوسف نے حدیث بیان کی، ان کو مالک نے ہشام بن عروہ کی روایت سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد سے نقل کی، انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی۔ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص حارث بن ہشام نامی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ حضور آپ پر وحی کیسے نازل ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وحی نازل ہوتے وقت کبھی مجھ کو گھنٹی کی سی آواز محسوس ہوتی ہے اور وحی کی یہ کیفیت مجھ پر بہت شاق گذرتی ہے۔ جب یہ کیفیت ختم ہوتی ہے تو میرے دل و دماغ پر اس ( فرشتے ) کے ذریعہ نازل شدہ وحی محفوظ ہو جاتی ہے اور کسی وقت ایسا ہوتا ہے کہ فرشتہ بشکل انسان میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے۔ پس میں اس کا کہا ہوا یاد رکھ لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے سخت کڑاکے کی سردی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور جب اس کا سلسلہ موقوف ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پسینے سے شرابور تھی۔

تشریح : انبیاءعلیہم السلام خصوصاً حضرت سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے مختلف طریقے رہے ہیں۔ انبیاءکے خواب بھی وحی ہوتے ہیں اور ان کے قلوب مجلّیٰ پر جو واردات یا الہامات ہوتے ہیں وہ بھی وحی ہیں۔ کبھی اللہ کا فرستادہ فرشتہ اصل صورت میں ان سے ہم کلام ہوتا ہے اور کبھی بصورت بشرحاضرہوکر ان کو خدا کا فرمان سناتا ہے۔ کبھی باری تعالیٰ وتقدس خودبراہ راست اپنے رسول سے خطاب فرماتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں وقتاً فوقتاً وحی کی یہ جملہ اقسام پائی گئیں۔ حدیث بالا میں جو گھنٹی کی آواز کی مشابہت کا ذکر آیا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے وحی مرادلے کر آنے والے فرشتے کے پیروں کی آواز مراد بتلائی ہے، بعض حضرات نے اس آواز سے صوت باری کو مرادلیا ہے اور قرآنی آیت وماکان لبشر ان يکلمہ اللہ الا وحيا اومن ورآي حجابٍ الخ ( الشوریٰ: 51 ) کے تحت اسے وراءحجاب والی صورت سے تعبیر کیا ہے، آج کل ٹیلی فون کی ایجاد میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ فون کرنے والا پہلے گھنٹی پر انگلی رکھتا ہے اور وہ آواز جہاں فون کرتا ہے گھنٹی کی شکل میں آواز دیتی ہے۔ یہ تو اللہ پاک کی طرف سے ایک غیبی روحانی فون ہی ہے جو عالم بالا سے اس کے مقبول بندگان انبیاء ورسل کے قلوب مبارکہ پر نزول کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول اس کثرت سے ہوا کہ اسے باران رحمت سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید وہ وحی ہے جسے وحی متلو کہا جاتا ہے، یعنی وہ وحی جو تاقیام دنیا مسلمانوں کی تلاوت میں رہے گی اور وحی غیرمتلوآپ کی احادیث قدسیہ ہیں جن کو قرآن مجید میں “ الحکمۃ ” سے تعبیرکیا گیا ہے۔ ہر دوقسم کی وحی کی حفاظت اللہ پاک نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہے اور اس چودہ سوسال کے عرصہ میں جس طرح قرآن کریم کی خدمت وحفاظت کے لیے حفاظ، قرائ، علمائ،فضلائ، مفسرین پیدا ہوتے رہے، اسی طرح احادیث نبویہ کی حفاظت کے لیے اللہ پاک نے گروہ محدثین امام بخاری رحمہ اللہ و مسلم رحمہ اللہ وغیرہم جیسوں کو پیدا کیا۔ جنھوں نے علم نبوی کی وہ خدمت کی کہ قیامت تک امت ان کے احسان سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ حدیث نبوی کہ اگردین ثریا پر ہوگا توآل فارس سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو وہاں سے بھی اسے حاصل کرلیں گے، بلاشک وشبہ اس سے بھی یہی محدثین کرام امام بخاری ومسلم وغیرہم مرادہیں۔ جنھوں نے احادیث نبوی کی طلب میں ہزارہا میل پیدل سفرکیا اور بڑی بڑی تکالیف برداشت کرکے ان کو مدون فرمایا۔

صدافسوس کہ آج اس چودہویں صدی میں کچھ لوگ کھلم کھلا احادیث نبوی کا انکار کرتے اور محدثین کرام پر پھبتیاں اڑاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی پیدا ہوچلے ہیں جو بظاہر ان کے احترام کا دم بھرتے ہیں اور در پردہ ان کو غیرثقہ، محض روایت کنندہ، درایت سے عاری، ناقص الفہم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں۔ مگراللہ پاک نے اپنے مقبول بندوں کی خدماتِ جلیلہ کو جو دوام بخشا اور ان کو قبول عام عطا فرمایا وہ ایسی غلط کاوشوں سے زائل نہیں ہوسکتا۔الغرض وحی کی چارصورتیں ہیں ( 1 ) اللہ پاک براہِ راست اپنے رسول نبی سے خطاب فرمائے ( 2 ) کوئی فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر آئے ( 3 ) یہ کہ قلب پر القاءہو ( 4 ) چوتھے یہ کہ سچے خواب دکھائی دیں۔
اصطلاحی طور پر وحی کا لفظ صرف پیغمبروں کے لیے بولا جاتا ہے اور الہام عام ہے جو دوسرے نیک بندوں کو بھی ہوتا رہتا ہے۔ قرآن مجید میں جانوروں کے لیے بھی لفظ الہام کا استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ واوحی ربک الی النحل ( النحل: 68 ) میں مذکور ہے۔ وحی کی مزیدتفصیل کے لیے حضرت امام حدیث ذیل نقل فرماتے ہیں: ( حدیث مبارکہ نمبر 3 دیکھیں )ِ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : (وحی کی ابتداء)

حدیث نمبر : 3
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة أم المؤمنين، أنها قالت أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحى الرؤيا الصالحة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، ثم حبب إليه الخلاء، وكان يخلو بغار حراء فيتحنث فيه ـ وهو التعبد ـ الليالي ذوات العدد قبل أن ينزع إلى أهله، ويتزود لذلك، ثم يرجع إلى خديجة، فيتزود لمثلها، حتى جاءه الحق وهو في غار حراء، فجاءه الملك فقال اقرأ‏.‏ قال ‏"‏ ما أنا بقارئ ‏"‏‏.‏ قال ‏"‏ فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد، ثم أرسلني فقال اقرأ‏.‏ قلت ما أنا بقارئ‏.‏ فأخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد، ثم أرسلني فقال اقرأ‏.‏ فقلت ما أنا بقارئ‏.‏ فأخذني فغطني الثالثة، ثم أرسلني فقال ‏{‏اقرأ باسم ربك الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربك الأكرم‏}‏ ‏"‏‏.‏ فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم يرجف فؤاده، فدخل على خديجة بنت خويلد رضى الله عنها فقال ‏"‏ زملوني زملوني ‏"‏‏.‏ فزملوه حتى ذهب عنه الروع، فقال لخديجة وأخبرها الخبر ‏"‏ لقد خشيت على نفسي ‏"‏‏.‏ فقالت خديجة كلا والله ما يخزيك الله أبدا، إنك لتصل الرحم، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق‏.‏ فانطلقت به خديجة حتى أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزى ابن عم خديجة ـ وكان امرأ تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العبراني، فيكتب من الإنجيل بالعبرانية ما شاء الله أن يكتب، وكان شيخا كبيرا قد عمي ـ فقالت له خديجة يا ابن عم اسمع من ابن أخيك‏.‏ فقال له ورقة يا ابن أخي ماذا ترى فأخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر ما رأى‏.‏ فقال له ورقة هذا الناموس الذي نزل الله على موسى صلى الله عليه وسلم يا ليتني فيها جذعا، ليتني أكون حيا إذ يخرجك قومك‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أومخرجي هم ‏"‏‏.‏ قال نعم، لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا‏.‏ ثم لم ينشب ورقة أن توفي وفتر الوحى‏.‏
ہم کو یحییٰ بن بکیر نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی ہم کو لیث نے خبر دی، لیث عقیل سے روایت کرتے ہیں۔ عقیل ابن شہاب سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔ آپ خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا۔ پھر من جانب قدرت آپ تنہائی پسند ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت اور یاد الٰہی و ذکر و فکر میں مشغول رہتے۔ جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ ہمراہ لیے ہوئے وہاں رہتے۔ توشہ ختم ہونے پر ہی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لاتے اور کچھ توشہ ہمراہ لے کر پھر وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے، یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ پر حق منکشف ہو گیا اور آپ غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے کہ اچانک حضرت جبرئیل آپ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! پڑھو آپ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ پڑھو اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا، پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے۔ پس یہی آیتیں آپ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ حضرت خدیجہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ لوگوں نے آپ کو کمبل اڑھا دیا۔ جب آپ کا ڈر جاتا رہا۔ تو آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے۔ خدا کی قسم آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔ پھر مزید تسلی کے لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے، چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ ( انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا۔ ورقہ اسی کو لکھتے تھے ) وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ کے حالات بیان کیے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجیئے وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کی تفصیل سناؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از اوّل تا آخر پورا واقعہ سنایا، جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس ( معزز راز دان فرشتہ ) ہے جسے اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ ( حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں ) ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے۔ مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔ مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے۔ پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔


حدیث نمبر : 4
قال ابن شهاب وأخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن جابر بن عبد الله الأنصاري، قال ـ وهو يحدث عن فترة الوحى، فقال ـ في حديثه ‏"‏ بينا أنا أمشي، إذ سمعت صوتا، من السماء، فرفعت بصري فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالس على كرسي بين السماء والأرض، فرعبت منه، فرجعت فقلت زملوني‏.‏ فأنزل الله تعالى ‏{‏يا أيها المدثر * قم فأنذر‏}‏ إلى قوله ‏{‏والرجز فاهجر‏}‏ فحمي الوحى وتتابع ‏"‏‏.‏ تابعه عبد الله بن يوسف وأبو صالح‏.‏ وتابعه هلال بن رداد عن الزهري‏.‏ وقال يونس ومعمر ‏"‏ بوادره ‏"‏‏.
ابن شہاب کہتے ہیں مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہا سے یہ روایت نقل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کے زمانے کے حالات بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس سے ڈر گیا اور گھر آنے پر میں نے پھر کمبل اوڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس وقت اللہ پاک کی طرف سے یہ آیات نازل ہوئیں۔ اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے! اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھ اور گندگی سے دور رہ۔ اس کے بعد وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی۔ اس حدیث کو یحییٰ بن بکیر کے علاوہ لیث بن سعد سے عبداللہ بن یوسف اور ابو صالح نے بھی روایت کیا ہے۔ اور عقیل کے علاوہ زہری سے بلال بن رواد نے بھی روایت کیا ہے۔ یونس اور معمر نے اپنی روایت میں لفظ “ فوادہ ” کی جگہ “ بوادرہ ” نقل کیا ہے۔

تشریح : بوادر،بادرۃ کی جمع ہے۔ جوگردن اور مونڈھے کے درمیانی حصہ جسم پر بولا جاتا ہے۔ کسی دہشت انگیز منظر کو دیکھ کر بسااوقات یہ حصہ بھی پھڑکنے لگتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اس حیرت انگیز واقعہ سے آپ کے کاندھے کا گوشت تیزی سے پھڑکنے لگا۔
ابتدائے وحی کے متعلق اس حدیث سے بہت سے امور پر روشنی پڑتی ہے۔ اوّل منامات صادقہ ( سچے خوابوں ) کے ذریعہ آپ کا رابطہ عالم مثال سے قائم کرایا گیا، ساتھ ہی آپ نے غارحرا میں خلوت اختیارکی۔ یہ غار مکہ مکرمہ سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ آپ نے وہاں “ تحنث ” اختیار فرمایا۔ لفظ تحنث زمانہ جاہلیت کی اصطلاح ہے۔ اس زمانہ میں عبادت کا اہم طریقہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ آدمی کسی گوشے میں دنیاومافیہا سے الگ ہوکر کچھ راتیں یادِ خدا میں بسرکرے۔ چونکہ آپ کے پاس اس وقت تک وحی الٰہی نہیں آئی تھی، اس لیے آپ نے یہ عمل اختیار فرمایا اور یادِالٰہی، ذکروفکر ومراقبہ نفس میں بالقائے ربانی وہاں وقت گذارا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو تین مرتبہ اپنے سینے سے آپ کا سینہ ملاکر زور سے اس لیے بھینچا کہ بحکم خدا آپ کا سینہ کھل جائے اور ایک خاکی ومادی مخلوق کو نورانی مخلوق سے فوری رابطہ حاصل ہوجائے۔ یہی ہوا کہ آپ بعد میں وحی الٰہی اقرا باسم ربک کو فرفر ادا کرنے لگے۔ پہلی وحی میں یہ سلسلہ علوم معرفت حق وخلقت انسانی واہمیت قلم وآداب تعلیم اور علم وجہل کے فرق پر جوجولطیف اشارات کئے گئے ہیں، ان کی تفصیل کایہ موقع نہیں، نہ یہاں گنجائش ہے۔ ورقہ بن نوفل عہدجاہلیت میں بت پر ستی سے متنفر ہوکر نصرانی ہوگئے تھے اور ان کو سریانی وعبرانی علوم حاصل تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وفات پر ان کو جنتی لباس میں دیکھا اس لیے کہ یہ شروع ہی میں آپ پر ایمان لاچکے تھے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ کی ہمت افزائی کے لیے جو کچھ فرمایاوہ آپ کے اخلاق فاضلہ کی ایک بہترین تصویر ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرف عام کے پیش نظر فرمایا کہ آپ جیسے ہمدرد انسانیت بااخلاق ہرگز ذلیل وخوار نہیں ہوا کرتے۔ بلکہ آپ کا مستقبل تو بے حد شاندارہے۔ ورقہ نے حالات سن کر حضرت جبرئیل علیہ السلام کو لفظ “ ناموس اکبر ” سے یادفرمایا۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ شرح بخاری میں فرماتے ہیں ہو صاحب سرالوحی والمراد بہ جبرئیل علیہ الصلوۃ والسلام واہل الکتاب یسمونہ الناموس الاکبر یعنی یہ وحی کے رازداں حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں جن کو اہل کتاب “ ناموس اکبر ” کے نام سے موسوم کیا کرتے تھے۔ حضرت ورقہ نے باوجودیکہ وہ عیسائی تھے مگریہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام لیا، اس لیے کہ حضرت موسیٰ ہی صاحب شریعت ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شریعت موسوی ہی کے مبلغ تھے۔ اس کے بعد تین یااڑھائی سال تک وحی کا سلسلہ بند رہا کہ اچانک مدثر کا نزول ہوا۔ پھر برابر پے درپے وحی آنے لگی۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو دبایا۔ اس کے متعلق علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہذا الغط لیفرغہ من النظر الی امور الدنیا ویقبل بکلیۃ الی مایلقی الیہ وکررہ للمبالغۃ واستدل بہ علی ان المودب لایضرب صبیا اکثر من ثلاث ضربات وقیل الغطۃ الاولیٰ لیتخلیٰ عن الدنیا والثانیۃ لیتفرغ لما یوحی الیہ والثالثۃ للموانسۃ ( ارشاد الساری 63/1 ) یعنی یہ دبانا اس لیے تھا کہ آپ کو دنیاوی امور کی طرف نظر ڈالنے سے فارغ کرکے جووحی وباررسالت آپ پر ڈالا جارہا ہے، اس کے کلی طور پر قبول کرنے کے لیے آپ کو تیار کردیاجائے۔ اس واقعہ سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ معلّم کے لیے مناسب ہے کہ بوقت ضرورت اگرمتعلّم کو مارنا ہی ہو توتین دفعہ سے زیادہ نہ مارے۔ بعض لوگوں نے اس واقعہ “ غطہ ” کوآنحضرت کے خصائص میں شمار کیا ہے۔ اس لیے کہ دیگر انبیاءکی ابتداءوحی کے وقت ایسا واقعہ کہیں منقول نہیں ہوا۔ حضرت ورقہ بن نوفل نے آپ کے حالات سن کر جو کچھ خوشی کا اظہار کیا۔ اس کی مزید تفصیل علامہ قسطلانی یوں نقل فرماتے ہیں۔ ( فقال لہ ورقۃ ابشرثم ابشر فانااشہدانک الدی بشربہ ابن مریم وانک علی مثل ناموس موسیٰ وانک نبی مرسل ) یعنی ورقہ نے کہا کہ خوش ہوجائیے، خوش ہوجائیے، میں یقینا گواہی دیتاہوں کہ آپ وہی نبی ورسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ ابن مریمعلیہ السلام نے دی تھی اور آپ پر وہی ناموس نازل ہوا ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا کرتا تھا اور آپ بے شک اللہ کے فرستادہ سچے رسول ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ بن نوفل کو مرنے کے بعدجنتی لباس میں دیکھا تھا۔ اس لیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ کی تصدیق کی، اس لیے جنتی ہوا۔ ورقہ بن نوفل کے اس واقعہ سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ اگرکوئی شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے اور اس کو دوسرے اسلامی فرائض ادا کرنے کا موقع نہ ملے، اس سے پہلے ہی وہ انتقال کرجائے، اللہ پاک ایمانی برکت سے اسے جنت میں داخل کرے گا۔
حضرت مولاناثناءاللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ: بذیل تفسیر سورۃ مدثر “ وثیابک فطہر ” فرماتے ہیں کہ عرب کے شعراءثیاب سے مراد دل لیا کرتے ہیں۔ امرالقیس کہتا ہے۔ وان کنت قد ساتک منی خلیقۃ فسلی ثیابی من ثیابک تنسلی اس شعر میں ثیاب سے مراد دل ہے۔یہاں مناسب یہی ہے کیونکہ کپڑوں کا پاک رکھنا صحت صلوٰۃ کے لیے ضروری ہے مگردل کا پاک صاف رکھنا ہرحال میں لازمی ہے۔ حدیث شریف میں وارد ہے ( ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسدالجسد کلہ الا وہی القلب ) یعنی انسان کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو توسارا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے توسارا جسم بگڑ جاتا ہے، سووہ دل ہے۔ ( اللہم اصلح قلبی وقلب کل ناظر ) ( تفسیر ثنائی )

عجیب لطیفہ: قرآن کی کون سی سورۃ پہلے نازل ہوئی، اس بارے میں قدرے اختلاف ہے مگر سورۃ اقراءباسم ربک الذی پر تقریباً اکثرکا اتفاق ہے، اس کے بعد فترۃ وحی کا زمانہ اڑھائی تین سال رہا اور پہلی سورۃ یاایہا المدثر نازل ہوئی۔ مسلکی تعصب کا حال ملاحظہ ہوکہ اس مقام پر ایک صاحب نے جو بخاری شریف کا ترجمہ باشرح شائع فرما رہے ہیں۔اس سے سورۃ فاتحہ کی نماز میں عدم رکنیت پر دلیل پکڑی ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں: “ سب سے پہلے سورۃ اقرانازل ہوئی اور سورۃ فاتحہ کا نزول بعد کو ہوا ہے تو جب تک اس کا نزول نہیں ہوا تھا، اس زمانے کی نمازیں کس طرح درست ہوئیں؟ جب کہ فاتحہ رکن نماز ہے کہ بغیر اس کے نماز درست نہیں ہوسکتی قائلین رکنیت فاتحہ جواب دیں۔ ” ( انوارالباری، جلد: اولص40 )
نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا صحت نماز کے لیے ضروری ہے، اس پر یہاں تفصیل سے لکھنے کا موقع نہیں نہ اس بحث کا یہ محل ہے ہاں حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے لفظوں میں اتنا عرض کردینا ضروری ہے کہ فان قراءتہا فریضۃ وہی رکن تبطل الصلوۃ بترکہا ( غنیہ الطالبین، ص: 53 ) یعنی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا بطور رکن نماز فرض ہے جس کے ترک کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے، موصوف کے جواب میں ہم سردست اتنا عرض کردینا کافی سمجھتے ہیں کہ جب کہ ابھی سورۃ فاتحہ کا نزول ہی نہیں ہوا تھا جیسا کہ موصوف نے بھی لکھا ہے تواس موقع پر اس کی رکنیت یافرضیت کا سوال ہی کیا ہے؟ ابتدائے رسالت میں بہت سے اسلامی احکام وجود میں نہیں آئے تھے جو بعد میں بتلائے گئے۔ پھر اگر کوئی کہنے لگے کہ یہ احکام شروع زمانہ رسالت میں نہ تھے تو ان کا ماننا ضروری کیوں؟ غالباً کوئی ذی عقل انسان اس بات کو صحیح نہیں سمجھے گا۔ پہلے صرف دو نمازیں تھیں بعد میں نماز پنج وقتہ کا طریقہ جاری ہوا، پہلے اذان بھی نہ تھی بعدمیں اذان کا سلسلہ جاری ہوا۔ مکی زندگی میں رمضان کے روزے فرض نہیں تھے، مدنی زندگی میں یہ فرض عائد کیاگیا۔ پھر کیا موصوف کی اس نازک دلیل کی بنا پر ان جملہ امور کا انکار کیاجا سکتا ہے؟ ایک ادنیٰ تامل سے یہ حقیقت واضح ہوسکتی تھی، مگرجہاں قدم قدم پر مسلکی وفقہی جمود کام کررہا ہو وہاں وسعت نظری کی تلاش عبث ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب بھی سورۃ فاتحہ کا نزول ہوا اور نماز فرض باجماعت کا طریقہ اسلام میں رائج ہوا، اس سورۃ شریفہ کو رکن نماز قرار دیاگیا۔ نزول سورہ وفرض نمازجماعت سے قبل ان چیزوں کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا۔ باقی مباحث اپنے مقام پر آئیں گے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
حدیث قدسی میں سورۃ فاتحہ کو “ نماز ” کہا گیا ہے۔ شاید معترض صاحب اس پر بھی یوں کہنے لگیں کہ جب سورۃ فاتحہ ہی اصل نماز ہے تو اس کے نزول سے قبل والی نمازوں کو نمازکہنا کیوں کر صحیح ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ سورۃ فاتحہ نماز کا ایک ضروری رکن ہے اور معترض کا قول صحیح نہیں۔ یہ جواب اس بنا پر ہے کہ سورہ فاتحہ کا نزول مکہ میں نہ ماناجائے لیکن اگر مان لیا جائے جیسا کہ کتب تفاسیر سے ثابت ہے کہ سورہ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی تومکہ شریف ہی میں اس کی رکنیت نماز کے لیے ثابت ہوگی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : (وحی کی علامات، وحی کا محفوظ کرنا)

حدیث نمبر : 5
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا أبو عوانة، قال حدثنا موسى بن أبي عائشة، قال حدثنا سعيد بن جبير، عن ابن عباس، في قوله تعالى ‏{‏لا تحرك به لسانك لتعجل به‏}‏ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعالج من التنزيل شدة، وكان مما يحرك شفتيه ـ فقال ابن عباس فأنا أحركهما لكم كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحركهما‏.‏ وقال سعيد أنا أحركهما كما رأيت ابن عباس يحركهما‏.‏ فحرك شفتيه ـ فأنزل الله تعالى ‏{‏لا تحرك به لسانك لتعجل به* إن علينا جمعه وقرآنه‏}‏ قال جمعه له في صدرك، وتقرأه ‏{‏فإذا قرأناه فاتبع قرآنه‏}‏ قال فاستمع له وأنصت ‏{‏ثم إن علينا بيانه‏}‏ ثم إن علينا أن تقرأه‏.‏ فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك إذا أتاه جبريل استمع، فإذا انطلق جبريل قرأه النبي صلى الله عليه وسلم كما قرأه‏.
موسیٰ بن اسماعیل نے ہم سے حدیث بیان کی، ان کو ابوعوانہ نے خبر دی، ان سے موسیٰ ابن ابی عائشہ نے بیان کی، ان سے سعید بن جبیر نے انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کلام الٰہی لا تحرک الخ کی تفسیر کے سلسلہ میں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن کے وقت بہت سختی محسوس فرمایا کرتے تھے اور اس کی ( علامتوں ) میں سے ایک یہ تھی کہ یاد کرنے کے لیے آپ اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح آپ ہلاتے تھے۔ سعید کہتے ہیں میں بھی اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما کو میں نے ہلاتے دیکھا۔ پھر انھوں نے اپنے ہونٹ ہلائے۔ ( ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ) پھر یہ آیت اتری کہ اے محمد! قرآن کو جلد جلد یاد کرنے کے لیے اپنی زبان نہ ہلاؤ۔ اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یعنی قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جما دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر جب ہم پڑھ چکیں تو اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ( اس کا مطلب یہ ہے ) کہ آپ اس کو خاموشی کے ساتھ سنتے رہو۔ اس کے بعد مطلب سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر یقینا یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آپ اس کو پڑھو ( یعنی اس کو محفوظ کر سکو ) چنانچہ اس کے بعد جب آپ کے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام ( وحی لے کر ) آتے تو آپ ( توجہ سے ) سنتے۔ جب وہ چلے جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ( وحی ) کو اسی طرح پڑھتے جس طرح حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اسے پڑھا تھا۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی ابتدائی کیفیت کے بیان میں اس حدیث کا نقل کرنا بھی مناسب سمجھا جس سے وحی کی عظمت اور صداقت پر بھی روشنی پڑتی ہے، اس لیے کہ اللہ پاک نے ان آیاتِ کریمہ لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ ( القیامۃ: 16 ) میں آپ کو پورے طور پر تسلی دلائی کہ وحی کا نازل کرنا، پھر اسے آپ کے دل میں جما دینا، اس کی پوری تفسیر آپ کو سمجھا دینا، اس کا ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنا یہ جملہ ذمہ داریاں صرف ہماری ہیں۔ ابتداءمیں آپ کو یہ کھٹکا رہتا تھا کہ کہیں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے جانے کے بعد میں نازل شدہ کلام کو بھول نہ جاؤں۔ اس لیے آپ ان کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پڑھنے اور یاد کرنے کے لیے اپنی زبانِ مبارک ہلاتے رہتے تھے، اس سے آپ کو روکا گیا اور بغور وتوجہ ِ کامل سننے کے لیے ہدایتیں کی گئیں، جس کے بعد آپ کا یہی معمول ہوگیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت ِ کریمہ لاتحرک بہ الخ کے نزول کے وقت عالم وجود میں نہ تھے۔ مگر بعد کے زمانوں میں جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے ابتدائی حالات بیان فرماتے تب ابتدائے نبوت کی پوری تفصیل بیان فرمایا کرتے تھے، ہونٹ ہلانے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ایسا ہی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں دیکھا اور فعل نبوی کی اقتدا میں اپنے ہونٹ ہلاکر اس حدیث کونقل فرمایا۔ پھر حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے بھی اپنے عہد میں اسے روایت کرتے وقت اپنے ہونٹ ہلائے۔ اسی لیے اس حدیث کو “ مسلسل بتحریک الشفتین ” کہا گیا ہے۔ یعنی ایسی حدیث جس کے راویوں میں ہونٹ ہلانے کا تسلسل پایا جائے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ وحی کی حفاظت کے لیے اس کے نزول کے وقت کی حرکات وسکنات نبویہ تک کو بذریعہ نقل در نقل محفوظ رکھا گیا۔ آیتِ شریفہ ثم ان علینا بیانہ میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قرآن مجید کی عملی تفسیر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیا ن فرمائی اور اپنے عمل سے دکھلائی یہ بھی سب اللہ پاک کی وحی کے تحت ہے، اس سے حدیث نبوی کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ جو لوگ حدیث نبوی میں شکوک وشبہات پیدا کرتے اور ان کو غلط قرار دینے کی مذموم کوشش کرتے ہیں ان کے خیالاتِ باطلہ کی بھی یہاں پوری تردید موجود ہے۔ صحیح مرفوع حدیث یقینا وحی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قرآنی وحی کو وحی متلو اور حدیث کو وحی غیرمتلو قرار دیا گیا ہے۔ حدیث مذکورہ سے معلم ومتعلّم کے آداب پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک متعلّم کی حیثیت میں استماع اور انصات کی ہدایت فرمائی گئی۔ استماع کانوں کا فعل ہے اور انصات بقول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ آنکھوں سے ہوتا ہے۔ پس متعلّم کے لیے ضروری ہے کہ درس کے وقت اپنے کانوں اور آنکھوں سے معلّم پر پوری توجہ سے کام لے۔ اس کے چہرے پر نظر جمائے رکھے، لب ولہجہ کے اشارات سمجھنے کے لیے نگاہ استاد کی طرف اٹھی ہوئی ہو۔ قرآن مجید وحدیث شریف کی عظمت کا یہی تقاضا ہے کہ ان ہردو کا درس لیتے وقت متعلّم ہمہ تن گوش ہوجائے اور پورے طور پر استماع اور انصات سے کام لے۔ حالتِ خطبہ میں بھی سامعین کے لیے اسی استماع وانصات کی ہدایت ہے۔ نزول وحی کے وقت آپ پر سختی اور شدت کا طاری ہونا اس لیے تھا کہ خود اللہ پاک نے فرمایا ہے اناسنلقی علیک قولا ثقیلا بے شک ہم آپ پر بھاری باعظمت کلام نازل کرنے والے ہیں۔ پچھلی حدیث میں گزر چکا ہے کہ سخت سردی کے موسم میں بھی نزول وحی کے وقت آپ پسینہ پسینہ ہوجاتے تھے۔ وہی کیفیت یہاں بیان کی گئی ہے۔ آیت شریفہ میں زبان ہلانے سے منع کیا گیا ہے اور حدیث ہذا میں آپ کے ہونٹ ہلانے کا ذکر ہے۔ یہاں راوی نے اختصار سے کام لیا ہے۔ کتاب التفسیر میں حضرت جریرنے موسیٰ بن ابی عائشہ سے اس واقعہ کی تفصیل میں ہونٹوں کے ساتھ زبان ہلانے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ ( کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم اذا نزل جبرئیل بالوحی فکان ممایحرک بلسانہ وشفتیہ ) اس صورت میں آیت وحدیث میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔

راویانِ حدیث: حضرت موسیٰ بن اسماعیل منقری۔ منقر بن عبید الحافظ کی طرف منسوب ہیں۔ جنھوں نے بصرہ میں 223 ھ ماہِ رجب میں انتقال فرمایا۔ غفر اللہ لہ۔ ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ ہیں جن کا 196 ھ میں انتقال ہوا۔ موسیٰ بن ابی عائشہ ( الکوفی الہمدانی ) ہیں۔ سعید بن جبیربن ہشام الکوفی الاسدی ہیں۔ جن کو 96 ھ میں مظلومانہ حالت میں حجاج بن یوسف ثقفی نے نہایت ہی بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔ جن کی بددُعا سے حجاج پھر جلد ہی غارت ہوگیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ترجمان القرآن کہا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے ان کے لیے فہم قرآن کی دعا فرمائی تھی۔68ھ میں طائف میں ان کا انتقال ہوا۔ صحیح بخاری شریف میں ان کی روایت سے 217احادیث نقل کی گئی ہیں۔ ( قسطلانی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : (رمضان المبارک میں جبرئیل علیہ السلام کا وحی لانا)

حدیث نمبر : 6
حدثنا عبدان، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا يونس، عن الزهري، ح وحدثنا بشر بن محمد، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا يونس، ومعمر، عن الزهري، نحوه قال أخبرني عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أجود الناس، وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل، وكان يلقاه في كل ليلة من رمضان فيدارسه القرآن، فلرسول الله صلى الله عليه وسلم أجود بالخير من الريح المرسلة‏.
ہم کو عبدان نے حدیث بیان کی، انھیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، ان کو یونس نے، انھوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ ( دوسری سند یہ ہے کہ ) ہم سے بشر بن محمد نے یہ حدیث بیان کی۔ ان سے عبداللہ بن مبارک نے، ان سے یونس اور معمر دونوں نے، ان دونوں نے زہری سے روایت کی پہلی سند کے مطابق زہری سے عبیداللہ بن عبداللہ نے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد ( سخی ) تھے اور رمضان میں ( دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب ) جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔

تشریح : اس حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ رمضان شریف میں حضرت جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تو معلوم ہوا کہ قرآن یعنی وحی کا نزول رمضان شریف میں شروع ہوا۔ جیسا کہ آیت شریفہ شہررمضان الذی انزل فیہ القرآن ( البقرۃ: 185 ) میں مذکور ہے۔یہ نزول قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں سماءدنیا کی طرف تھا۔ پھر وہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول بھی رمضان شریف ہی میں شروع ہوا۔ اسی لیے رمضان شریف قرآن کریم کے لیے سالانہ یادگار مہینہ قرار پایا اور اسی لیے اس مبارک ماہ میں آپ اور حضرت جبرئیل ں قرآن مجید کا باقاعدہ دور فرمایا کرتے تھے۔ساتھ ہی آپ کے “ جود ” کا ذکر خیر بھی کیاگیا۔ سخاوت خاص مال کی تقسیم کا نام ہے اور جود کے معنی “ اعطاءما ینبغی لمن ینبغی ” کے ہیں جو بہت زیادہ عمومیت لئے ہوئے ہے۔پس جود مال ہی پر موقوف نہیں۔بلکہ جوشے بھی جس کے لئے مناسب ہودے دی جائے،اس لئے آپ اجودالناس تھے۔حاجت مندوں کے لئے مالی سخاوت،تشنگان علوم کے لئے علمی سخاوت،گم راہوں کے لئے فیوض روحانی کی سخاوت،الغرض آپ ہر لحاظ سے تمام بنی نوع انسان میں بہترین سخی تھے۔آپ کی جملہ سخاوتوں کی تفصیلات کتب احادیث وسیرمیں منقول ہیں۔آپ کی جودوسخاوت کی تشبیہ بارش لانے والی ہواؤں سے دی گئی جوبہت ہی مناسب ہے۔باران رحمت سے زمین سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے۔آپ کی جودوسخاوت سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہو گئی۔ ہر طرف ہدایات کے دریا بہنے لگے۔خداشناسی اور اخلاق فاضلہ کے سمندرموجیں مارنے لگے۔آپ کی سخاوت اور روحانی کمالات سے ساری دنیائے انسانیت نے فیض حاصل کئے اور یہ مبارک سلسلہ تا قیام دنیا قائم رہے گا۔کیوں کہ آپ پر نازل ہونے والا قرآن مجید وحی متلو اور حدیث شریف وحی غیرمتلوتاقیام دنیا قائم رہنے والی چیزیں ہیں۔ پس دنیا میں آنے والے انسان ان سے فیوض حاصل کرتے ہی رہیں گے۔اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہے اور یہ بھی کہ قرآن وحدیث کے معلمین ومتعلمین کوبہ نسبت دوسرے لوگوں کے زیادہ سخی،جوادووسےع القلب ہونا چاہئیے کہ ان کی شان کا یہی تقاضہ ہے۔خصوصاً رمضان شریف کا مہینہ جودوسخاوت ہی کا مہینہ ہے کہ اس میں ایک نیکی کاثواب کتنے ہی درجات حاصل کرلیتا ہے۔جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک میں خصوصیت کے ساتھ اپنی ظاہری وباطنی سخاوتوں کے دریا بہا دیتے تھے۔

سند حدیث: پہلا موقع ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سند حدیث میں تحویل فرمائی ہے۔ےعنی امام زہری تک سند پہنچا دینے کے بعد پھر آپ دوسری سندکی طرف لوٹ آئے ہیں اور عبدان پہلے استادکے ساتھ اپنے دوسرے استاد بشر بن محمد کی روایت سے بھی اس حدیث کونقل فرمایا ہے اور زہری پر دونوں سندوں کو یکجا کردیا۔محدثین کی اصطلاح میں لفظ ح سے یہی تحویل مرادہوتی ہے۔اس سے تحویل سند اور سند میں اختصارمقصود ہوتا ہے۔آگے اس قسم کے بہت سے مواقع آتے رہیں گے۔بقول علامہ قسطلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی سند میں روایت حدیث کی مختلف اقسام تحدیث،اخبار،عنعنہ،تحویل سب جمع ہوگئی ہیں۔جن کی تفصیلات مقدمہ میں بیان کی جائیں گی۔ان شاءاللہ تعالیٰ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : (ابوسفیان اور ہرقل کا مقالمہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرقل کو خط مبارک)

حدیث نمبر : 7
حدثنا أبو اليمان الحكم بن نافع، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، أن عبد الله بن عباس، أخبره أن أبا سفيان بن حرب أخبره أن هرقل أرسل إليه في ركب من قريش ـ وكانوا تجارا بالشأم ـ في المدة التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ماد فيها أبا سفيان وكفار قريش، فأتوه وهم بإيلياء فدعاهم في مجلسه، وحوله عظماء الروم ثم دعاهم ودعا بترجمانه فقال أيكم أقرب نسبا بهذا الرجل الذي يزعم أنه نبي فقال أبو سفيان فقلت أنا أقربهم نسبا‏.‏ فقال أدنوه مني، وقربوا أصحابه، فاجعلوهم عند ظهره‏.‏ ثم قال لترجمانه قل لهم إني سائل هذا عن هذا الرجل، فإن كذبني فكذبوه‏.‏ فوالله لولا الحياء من أن يأثروا على كذبا لكذبت عنه، ثم كان أول ما سألني عنه أن قال كيف نسبه فيكم قلت هو فينا ذو نسب‏.‏ قال فهل قال هذا القول منكم أحد قط قبله قلت لا‏.‏ قال فهل كان من آبائه من ملك قلت لا‏.‏ قال فأشراف الناس يتبعونه أم ضعفاؤهم فقلت بل ضعفاؤهم‏.‏ قال أيزيدون أم ينقصون قلت بل يزيدون‏.‏ قال فهل يرتد أحد منهم سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه قلت لا‏.‏ قال فهل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال قلت لا‏.‏ قال فهل يغدر قلت لا، ونحن منه في مدة لا ندري ما هو فاعل فيها‏.‏ قال ولم تمكني كلمة أدخل فيها شيئا غير هذه الكلمة‏.‏ قال فهل قاتلتموه قلت نعم‏.‏ قال فكيف كان قتالكم إياه قلت الحرب بيننا وبينه سجال، ينال منا وننال منه‏.‏ قال ماذا يأمركم قلت يقول اعبدوا الله وحده، ولا تشركوا به شيئا، واتركوا ما يقول آباؤكم، ويأمرنا بالصلاة والصدق والعفاف والصلة‏.‏ فقال للترجمان قل له سألتك عن نسبه، فذكرت أنه فيكم ذو نسب، فكذلك الرسل تبعث في نسب قومها، وسألتك هل قال أحد منكم هذا القول فذكرت أن لا، فقلت لو كان أحد قال هذا القول قبله لقلت رجل يأتسي بقول قيل قبله، وسألتك هل كان من آبائه من ملك فذكرت أن لا، قلت فلو كان من آبائه من ملك قلت رجل يطلب ملك أبيه، وسألتك هل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال فذكرت أن لا، فقد أعرف أنه لم يكن ليذر الكذب على الناس ويكذب على الله، وسألتك أشراف الناس اتبعوه أم ضعفاؤهم فذكرت أن ضعفاءهم اتبعوه، وهم أتباع الرسل، وسألتك أيزيدون أم ينقصون فذكرت أنهم يزيدون، وكذلك أمر الإيمان حتى يتم، وسألتك أيرتد أحد سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه فذكرت أن لا، وكذلك الإيمان حين تخالط بشاشته القلوب، وسألتك هل يغدر فذكرت أن لا، وكذلك الرسل لا تغدر، وسألتك بما يأمركم، فذكرت أنه يأمركم أن تعبدوا الله، ولا تشركوا به شيئا، وينهاكم عن عبادة الأوثان، ويأمركم بالصلاة والصدق والعفاف‏.‏ فإن كان ما تقول حقا فسيملك موضع قدمى هاتين، وقد كنت أعلم أنه خارج، لم أكن أظن أنه منكم، فلو أني أعلم أني أخلص إليه لتجشمت لقاءه، ولو كنت عنده لغسلت عن قدمه‏.‏ ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي بعث به دحية إلى عظيم بصرى، فدفعه إلى هرقل فقرأه فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم‏.‏ من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم‏.‏ سلام على من اتبع الهدى، أما بعد فإني أدعوك بدعاية الإسلام، أسلم تسلم، يؤتك الله أجرك مرتين، فإن توليت فإن عليك إثم الأريسيين و‏{‏يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون‏}‏ قال أبو سفيان فلما قال ما قال، وفرغ من قراءة الكتاب كثر عنده الصخب، وارتفعت الأصوات وأخرجنا، فقلت لأصحابي حين أخرجنا لقد أمر أمر ابن أبي كبشة، إنه يخافه ملك بني الأصفر‏.‏ فما زلت موقنا أنه سيظهر حتى أدخل الله على الإسلام‏.‏ وكان ابن الناظور صاحب إيلياء وهرقل سقفا على نصارى الشأم، يحدث أن هرقل حين قدم إيلياء أصبح يوما خبيث النفس، فقال بعض بطارقته قد استنكرنا هيئتك‏.‏ قال ابن الناظور وكان هرقل حزاء ينظر في النجوم، فقال لهم حين سألوه إني رأيت الليلة حين نظرت في النجوم ملك الختان قد ظهر، فمن يختتن من هذه الأمة قالوا ليس يختتن إلا اليهود فلا يهمنك شأنهم واكتب إلى مداين ملكك، فيقتلوا من فيهم من اليهود‏.‏ فبينما هم على أمرهم أتي هرقل برجل أرسل به ملك غسان، يخبر عن خبر رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما استخبره هرقل قال اذهبوا فانظروا أمختتن هو أم لا‏.‏ فنظروا إليه، فحدثوه أنه مختتن، وسأله عن العرب فقال هم يختتنون‏.‏ فقال هرقل هذا ملك هذه الأمة قد ظهر‏.‏ ثم كتب هرقل إلى صاحب له برومية، وكان نظيره في العلم، وسار هرقل إلى حمص، فلم يرم حمص حتى أتاه كتاب من صاحبه يوافق رأى هرقل على خروج النبي صلى الله عليه وسلم وأنه نبي، فأذن هرقل لعظماء الروم في دسكرة له بحمص ثم أمر بأبوابها فغلقت، ثم اطلع فقال يا معشر الروم، هل لكم في الفلاح والرشد وأن يثبت ملككم فتبايعوا هذا النبي، فحاصوا حيصة حمر الوحش إلى الأبواب، فوجدوها قد غلقت، فلما رأى هرقل نفرتهم، وأيس من الإيمان قال ردوهم على‏.‏ وقال إني قلت مقالتي آنفا أختبر بها شدتكم على دينكم، فقد رأيت‏.‏ فسجدوا له ورضوا عنه، فكان ذلك آخر شأن هرقل‏.‏ رواه صالح بن كيسان ويونس ومعمر عن الزهري‏.
ہم کو ابوالیمان حکم بن نافع نے حدیث بیان کی، انھیں اس حدیث کی شعیب نے خبر دی۔ انھوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ انھیں عبیداللہ ابن عبداللہ ابن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس سے ابوسفیان بن حرب نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ہرقل ( شاہ روم ) نے ان کے پاس قریش کے قافلے میں ایک آدمی بلانے کو بھیجا اور اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا۔ جب ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیا پہنچے جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا تھا۔ اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ ( علماء وزراء امراء ) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں۔ ( یہ سن کر ) ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو ( ابوسفیان کو ) میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کے ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ) حالات پوچھتا ہوں۔ اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا، ابوسفیان کا قول ہے کہ ) خدا کی قسم! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی وہ یہ کہ اس شخص کا خاندان تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ تو بڑے اونچے عالی نسبت والے ہیں۔ کہنے لگا اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟ میں نے کہا نہیں کہنے لگا، اچھا اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر اس نے کہا، بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟ میں نے کہا نہیں کمزوروں نے۔ پھر کہنے لگا، اس کے تابعدار روز بڑھتے جاتے ہیں یا کوئی ساتھی پھر بھی جاتا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ کہنے لگا کہ کیا اپنے اس دعوائے ( نبوت ) سے پہلے کبھی ( کسی بھی موقع پر ) اس نے جھوٹ بولا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ اور اب ہماری اس سے ( صلح کی ) ایک مقررہ مدت ٹھہری ہوئی ہے۔ معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ ( ابوسفیان کہتے ہیں ) میں اس بات کے سوا اور کوئی ( جھوٹ ) اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔ ہرقل نے کہا کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی بھی ہوتی ہے؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ بولا پھر تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوتا ہے؟ میں نے کہا، لڑائی ڈول کی طرح ہے، کبھی وہ ہم سے ( میدان جنگ ) جیت لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے جیت لیتے ہیں۔ ہرقل نے پوچھا۔ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا وہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ اور اپنے باپ دادا کی ( شرک کی ) باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ ( یہ سب سن کر ) پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ ہم میں عالی نسب ہے اور پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی بھیجے جایا کرتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ ( دعوی نبوت کی ) یہ بات تمہارے اندر اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی، تو تم نے جواب دیا کہ نہیں، تب میں نے ( اپنے دل میں ) کہا کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں سمجھتا کہ اس شخص نے بھی اسی بات کی تقلید کی ہے جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے، تم نے کہا کہ نہیں۔ تو میں نے ( دل میں ) کہا کہ ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو کہہ دوں گا کہ وہ شخص ( اس بہانہ ) اپنے آباء و اجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک ( دوبارہ ) حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے ( یعنی پیغمبری کا دعویٰ کرنے ) سے پہلے تم نے کبھی اس کو دروغ گوئی کا الزام لگایا؟ تم نے کہا کہ نہیں۔ تو میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص آدمیوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے لوگ اس کے پیرو ہوتے ہیں یا کمزور آدمی۔ تم نے کہا کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے، تو ( دراصل ) یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں۔ تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ کامل ہو جاتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس کے دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے تم نے کہا نہیں، تو ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے جن کے دلوں میں اس کی مسرت رچ بس جائے وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ کبھی عہد شکنی کرتے ہیں۔ تم نے کہا نہیں، پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے، وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے کہا کہ وہ تم سے کس چیز کے لیے کہتے ہیں۔ تم نے کہا کہ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتے ہیں۔ سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا کہ جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ ( پیغمبر ) آنے والا ہے۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو گا۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔ ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ خط منگایا جو آپ نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حاکم بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور اس نے ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا۔ پھر اس کو پڑھا تو اس میں ( لکھا تھا ) :

اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔
اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خط ہے شاہِ روم کے لیے۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوتِ اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو ( دین و دنیا میں ) سلامتی نصیب ہو گی۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ ( میری دعوت سے ) روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب ( اس بات سے ) منہ پھیر لیں تو ( مسلمانو! ) تم ان سے کہہ دو کہ ( تم مانو یا نہ مانو ) ہم تو ایک خدا کے اطاعت گزار ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں : جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے ارد گرد بہت شور و غوغہ ہوا، بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا ( دیکھو تو ) اس سے بنی اصفر ( روم ) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے۔ حتیٰ کہ اللہ نے مجھے مسلمان کر دیا۔ ( راوی کا بیان ہے کہ ) ابن ناطور ایلیاء کا حاکم ہرقل کا مصاحب اور شام کے نصاریٰ کا لاٹ پادری بیان کرتا تھا کہ ہرقل جب ایلیا آیا، ایک دن صبح کو پریشان اُٹھا تو اس کے درباریوں نے دریافت کیا کہ آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں۔ ( کیا وجہ ہے؟ ) ابن ناطور کا بیان ہے کہ ہرقل نجومی تھا، علم نجوم میں وہ پوری مہارت رکھتا تھا۔ اس نے اپنے ہم نشینوں کو بتایا کہ میں نے آج رات ستاروں پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آ گیا ہے۔ ( بھلا ) اس زمانے میں کون لوگ ختنہ کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی ختنہ نہیں کرتا۔ سو ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ سلطنت کے تمام شہروں میں یہ حکم لکھ بھیجئے کہ وہاں جتنے یہودی ہوں سب قتل کر دیا جائے۔ وہ لوگ انہی باتوں میں مشغول تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا۔ جسے شاہِ غسان نے بھیجا تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کئے۔ جب ہرقل نے ( سارے حالات ) سن لیے تو کہا کہ جا کر دیکھو وہ ختنہ کئے ہوئے ہے یا نہیں؟ انھوں نے اسے دیکھا تو بتلایا کہ وہ ختنہ کیا ہوا ہے۔ ہرقل نے جب اس شخص سے عرب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ تب ہرقل نے کہا کہ یہ ہی ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو رومیہ خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم میں ہرقل کی طرح ماہر تھا۔ پھر وہاں سے ہرقل حمص چلا گیا۔ ابھی حمص سے نکلا نہیں تھا کہ اس کے دوست کا خط ( اس کے جواب میں ) آ گیا۔ اس کی رائے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہرقل کے موافق تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی ) پیغمبر ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے آدمیوں کو اپنے حمص کے محل میں طلب کیا اور اس کے حکم سے محل کے دروازے بند کر لیے گئے۔ پھر وہ ( اپنے خاص محل سے ) باہر آیا اور کہا “ اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لیے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہو تو اس نبی کی بیعت کرلو اور مسلمان ہو جاؤ ” ( یہ سننا تھا کہ ) پھر وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے ( مگر ) انھیں بند پایا۔ آخر جب ہرقل نے ( اس بات سے ) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ ( جب وہ دوبارہ آئے ) تو اس نے کہا میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی سو وہ میں نے دیکھ لی۔ تب ( یہ بات سن کر ) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے۔ بالآخر ہرقل کی آخری حالت یہ ہی رہی۔ ابو عبداللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صالح بن کیسان، یونس اور معمر نے زہری سے روایت کیا ہے۔

تشریح : وحی، نزول وحی،اقسام وحی، زمانِ وحی، مقام وحی ان جملہ تفصیلات کے ساتھ ساتھ ضرورت تھی کہ جس مقدس شخصیت پر وحی کا نزول ہورہا ہے ان کی ذاتِ گرامی کا تعارف کراتے ہوئے ان کے حالات پر بھی کچھ روشنی ڈالی جائے۔ مشہور مقولہ ہے “ الحق ماشہدت بہ الاعداء” حق وہ ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں۔ اسی اصول کے پیش نظر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ قدس سرہ العزیز نے یہاں اس تفصیلی حدیث کو نقل فرمایاجو دواہم ترین شخصیتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہے جس کا موضوع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اور آپ کی نبوت ورسالت ہے۔ یہ دونوں شخصیتیں اس وقت غیرمسلم تھیں۔ باہمی طور پر دونوں کے قوم ووطن، تہذیب وتمدن میں ہر طرح سے بعدالمشرقین ہے۔ امانت ودیانت اور اخلاق کے لحاظ سے ہردو اپنی اپنی جگہ پر ذمہ دار ہستیاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا مکالمہ بہت ہی جچاتلا ہوگا اور ان کی رائے بہت ہی اعلیٰ و ارفع ہوگی، چنانچہ اس حدیث میں پورے طور پر یہ چیز موجود ہے۔ اس لیے علامہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “ لما کان المقصود بالذات من ذکرالوحی ہو تحقیق النبوۃ واثباتہا وکان حدیث ہرقل اوفرتادیۃ لذلک المقصود ادرجہ فی باب الوحی واللہ اعلم۔ ” اس عبارت کا مفہوم وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اس مقام کے علاوہ کتاب الجہاد وکتاب التفسیر وکتاب الشہادات وکتاب الجزیۃ وادب وایمان وعلم واحکام ومغازی وغیرہ وغیرہ میں بھی نقل فرمایا ہے۔ اور ہر جگہ اسی مقام کے باب سے اس کی مطابقت پیدا کرتے ہوئے اس سے بہت سے احکام ومسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ بعض متعصبین ومتجددین کہتے ہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین محض ناقلین روایت تھے، اجتہاد واستنباط مسائل میں ان کو درک نہیں تھا۔ یہ محض جھوٹ اور محدثین کرام کی کھلی ہوئی توہین ہے۔جو ہرپہلو سے لائق صدمذمت ہے۔
بعض حضرات محدثین کرام خصوصاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو مسلک شافعی کا مقلد بتلایا کرتے ہیں۔ مگر اس بارے میں مزید تفصیلات سے قطع نظر ہم صاحب ایضاح البخاری کا ایک بیان یہاں نقل کردیتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوجائے گاکہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مقلد ہرگز نہ تھے بلکہ آپ کو مجتہد مطلق کا درجہ حاصل تھا۔
“ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی شافعی یا حنبلی سے تلمذ اور تحصیل علم کی بناء پر کسی کو شافعی یا حنبلی کہنا مناسب نہیں۔ بلکہ امام کے تراجم بخاری کے گہرے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ایک مجتہد ہے، انھوں نے جس طرح سے احناف رحمہم اللہ سے اختلاف کیا ہے وہاں حضرات شوافع سے اختلاف کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اجتہاد اور تراجم ابواب میں ان کی بالغ نظری کے پیش نظر ان کو کسی فقہ کا پابند نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ( ایضاح البخاری جزءاوّلص: 30 )
صحیح بخاری شریف کے عمیق مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے استنباط مسائل وفقہ الحدیث کے بارے میں بہت ہی غوروخوض سے کام لیا ہے اور ایک ایک حدیث سے بہت سے مسائل ثابت کئے ہیں۔ جیسا کہ اپنے اپنے مقامات پر ناظرین مطالعہ کریں گے۔
علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مقدمہ کی فصل ثانی میں فرماتے ہیں: تقرر انہ التزم فیہ الصحۃ وانہ لا یورد فیہ الا حدیثا صحیحا ( الی قولہ ) ثم رای ان لا یخلیہ من الفوائد الفقہیۃ والنکت الحکمیۃ فاستخرج بفہمہ من المتون معانی کثیرۃ فرقہا فی ابواب الکتاب بحسب تناسبہا۔ ( الی قولہ ) قال الشیخ محی الدین نفح اللہ بہ لیس مقصود البخاری الاقتصار علی الاحادیث فقط، بل مرادہ الاستنباط منھا والاستدلال لابواب ارادھا ( الی قولہ ) وقد ادعی بعضہم انہ صنع ذالک عمدا ( ہدی الساری، ص: 8، بیروت )
یہ بات ثابت ہے کہ امام نے التزام کیا ہے کہ اس میں سوائے صحیح حدیث کی اور کسی قسم کی روایت نہیں ذکر کریں گے اور بایں خیال کہ اس کو فوائد فقہی اور حکمت کے نکات سے خالی نہ رہنا چاہئیے، اپنی فہم سے متن حدیث سے بہت بہت معانی استخراج کئے۔ جن کو مناسبت کے ساتھ ابواب میں علیحدہ علیحدہ بیان کردیا۔ شیخ محی الدین نے کہا کہ امام کا مقصود حدیث ہی کا ذکر کردینا نہیں ہے بلکہ اس سے استدلال واستنباط کرکے باب مقرر کرنا ہے۔ ( انھیں وجوہات سے ) بعض نے دعویٰ کیا ہے کہ امام نے یہ سب کچھ خود اور قصداً کیا ہے۔ ” ( حل مشکلات بخاری رحمہ اللہ حضرت مولانا سیف بنارسی قدس سرہ ص: 16 )
7ھ ماہ محرم کی پہلی تاریخ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان عالم کے نام دعوت اسلام کے خطوط مبارک اپنے معزز سفراءکے ہاتھوں روانہ فرمائے جوسفیر جس قوم کے پاس بھیجا گیاوہ وہاں کی زبان جانتا تھا کہ تبلیغی فرائض بحسن وخوبی انجام دے سکے۔ ایسی ہی ضروریات کے لیے آپ کے واسطے چاندی کی مہرتیار کی گئی تھی۔ تین سطور میں اس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کندہ تھا۔ ہرقل شاہ قسطنطنیہ یاروما کی مشرقی شاخ سلطنت کا نامور شہنشاہ عیسائی المذہب تھا۔ حضرت دحیہ کلبی ص اس کے پاس نامہ مبارک لے کرگئے۔یہ بادشاہ سے بیت المقدس کے مقام پر ملے۔ جسے یہاں لفظ ایلیا سے یاد کیا گیا ہے۔ جس کے معنی بیت اللہ کے ہیں، ہرقل نے سفیر کے اعزاز میں بڑا ہی شان دار دربار منعقد کیا۔ اور سفیر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت سی باتیں دریافت کرتا رہا۔ اس کے بعد ہرقل نے مزید تحقیق کے لیے حکم دیا کہ اگر ملک میں کوئی مکہ کا آدمی آیا ہو تو اسے پیش کیا جائے۔ اتفاق سے ان دنوں ابوسفیان مع دیگر تاجران مکہ ملک شام آئے ہوئے تھے، ان کو بیت المقدس بلاکر دربار میں پیش کیا گیا۔ ان دنوں ابوسفیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا۔ مگر قیصر کے دربار میں اس کی زبان سوائے حق وصداقت کے کچھ نہ بول سکی۔ ہرقل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ابوسفیان سے دس سوال کئے جو بہت گہرے حقائق اپنے اندر رکھتے تھے۔ ان کے جوابات میں ابوسفیان نے بھی جن حقائق کا اظہار کیا۔ ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ہرقل کے دل میں نقش ہوگئی مگر اپنی قوم وحکومت کے خوف سے وہ ایمان نہ لاسکا۔ بالآخر کفرہی کی حالت میں اس کا خاتمہ ہوا۔ مگر اس نے جوپیش گوئی کی تھی کہ ایک دن آئے گا کہ عرب مسلمان ہمارے ملک وتخت پر قابض ہوجائیں گے وہ حرف بہ حرف ثابت ہوئی اور وہ دن آیا کہ مسیحیت کا صدر مقام اور قبلہ ومرکز اچانک عیسائی دنیا کے ہاتھ سے نکل کر ایک نئی قوم کے ہاتھوں میں چلا گیا۔
مشہور مؤرخ گبن کے لفظوں میں تمام مسیحی دنیا پر سکتہ کی حالت طاری ہوگئی۔ کیونکہ مسیحیت کی اس سب سے بڑی توہین کو نہ تومذہب کا کوئی متوقع معجزہ ہی روک سکا نہ عیسائی شہنشاہی کا لشکرجرار۔ پھر یہ صرف بیت المقدس ہی کی فتح نہ تھی بلکہ تمام ایشیاوافریقہ میں مسیحی فرمانروائی کا خاتمہ تھا۔ ہرقل کے یہ الفاظ جو اس نے تختہ جہاز پر لبنان کی چوٹیوں کومخاطب کرکے ک ہے تھے آج تک مؤرخین کی زبانوں پر ہیں “ الوداع سرزمین شام ہمیشہ کے لیے الوداع ”

فدائے رسول حضرت قاضی محمدسلیمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ پٹیالوی: مناسب ہوگا کہ اس مکالمہ کو مختصراً فدائے رسول حضرت قاضی محمدسلیمان صاحب منصورپوری رحمۃ اللہ علیہ کے لفظوں میں بھی نقل کردیا جائے۔ جس سے ناظرین اس مکالمہ کو پورے طور پر سمجھ سکیں گے۔
قیصر: محمد کا خاندان اور نسب کیسا ہے؟
ابوسفیان تاجر: شریف وعظیم۔
قیصر: سچ ہے نبی شریف گھرانے کے ہوتے ہیں، تاکہ ان کی اطاعت میں کسی کو عار نہ ہو۔
قیصر: محمدسے پہلے بھی کسی نے عرب میں یاقریش میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟
ابوسفیان: نہیں۔
یہ جواب سن کر ہرقل نے کہا اگرایسا ہوتا تو میں سمجھ لیتا کہ اپنے سے پہلے کی تقلید اور ریس کرتا ہے۔
قیصر: نبی ہونے سے پہلے کیایہ شخص جھوٹ بولا کرتا تھا یا اس کو جھوٹ بولنے کی کبھی تہمت دی گئی تھی؟
ابوسفیان: نہیں۔
ہرقل نے اس جواب پر کہا یہ نہیں ہوسکتا کہ جس شخص نے لوگوں پر جھوٹ نہ بولا “ وہ خدا پر جھوٹ باندھے۔
قیصر: اس کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟
ابوسفیان: نہیں۔
ہرقل نے اس جواب پر کہا اگر ایسا ہوتا تومیں سمجھ لیتا کہ نبوت کے بہانے سے باپ دادا کی سلطنت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
قیصر: محمد کے ماننے والے مسکین غریب لوگ زیادہ ہیں یا سردار اور قوی لوگ؟
ابوسفیان: مسکین حقیر لوگ۔
ہرقل نے اس جواب پر کہا ہرنبی کے پہلے ماننے والے مسکین غریب لوگ ہی ہوتے رہے ہیں۔
قیصر: ان لوگوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یا کم ہورہی ہے؟
ابوسفیان: بڑھ رہی ہے۔
ہرقل نے کہا ایمان کا یہی خاصہ ہے کہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور حد کمال تک پہنچ جاتا ہے۔
قیصر: کوئی شخص اس کے دین سے بیزار ہوکر پھر بھی جاتا ہے؟
ابوسفیان: نہیں۔
ہرقل نے کہا لذت ایمانی کی یہی تاثیرہے کہ جب دل میں بیٹھ جاتی اور روح پر اپنا اثرقائم کرلیتی ہے تب جدا نہیں ہوتی۔
قیصر: یہ شخص کبھی عہدوپیمان کوتوڑ بھی دیتا ہے؟
ابوسفیان: نہیں۔ لیکن امسال ہمارا معاہدہ اس سے ہوا ہے دیکھئے کیا انجام ہو۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں صرف اس جواب میں اتنا فقرہ زیادہ کرسکا تھا۔ مگرقیصرنے اس پر کچھ توجہ نہ دی اور یوں کہا کہ بے شک نبی عہد شکن نہیں ہوتے، عہدشکنی دنیادار کیا کرتے ہیں، نبی دنیا کے طالب نہیں ہوتے۔
قیصر: کبھی اس شخص کے ساتھ تمہاری لڑائی بھی ہوئی ہے؟
ابوسفیان: ہاں۔
قیصر: جنگ کا نتیجہ کیارہا؟
ابوسفیان: کبھی وہ غالب رہا ( بدرمیں ) اور کبھی ہم ( احد میں ) ۔
ہرقل نے کہا خدا کے نبیوں کا یہی حال ہوتا ہے لیکن آخر کارخدا کی مدد اور فتح ان ہی کو حاصل ہوتی ہے۔
قیصر: اس کی تعلیم کیا ہے؟
ابوسفیان: ایک خدا کی عبادت کرو، باپ دادا کے طریق ( بت پر ستی ) چھوڑدو۔ نماز، روزہ، سچائی، پاک دامنی اور صلہ رحمی کی پابندی اختیار کرو۔
ہرقل نے کہا نبی موعود کی یہی علامتیں ہم کو بتائی گئی ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ نبی کا ظہور ہونے والا ہے لیکن یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ عرب میں سے ہوگا۔ ابوسفیان! اگر تم نے سچ مچ جواب دئیے ہیں تو وہ ایک روز اس جگہ جہاں میں بیٹھا ہوا ہوں ( شام وبیت المقدس ) کا ضرور مالک ہوجائے گا۔ کاش! میں اس کی خدمت میں پہنچ سکتا اور نبی علیہ السلام کے پاؤں دھویا کرتا۔
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پڑھا گیا۔ اراکین دربار اسے سن کر چیخے چلائے اور ہم کو دربار سے نکال دیا گیا۔ اسی روز سے اپنی ذلت کا نقش اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا یقین ہوگیا۔ ( رحمۃ للعالمین، جلد: اولص: 152, 154 )
ابوسفیان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ابوکبشہ کا لفظ استعمال کیاتھا۔ کیونکہ کفار مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوطنز اور تحقیر کے طور پر ابن ابوکبشہ کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ ابوکبشہ ایک شخص کا نام تھا جو بتوں کی بجائے ایک ستارہ شعریٰ کی پوجا کیا کرتا تھا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابوکبشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی باپ تھے۔
ہرقل کو جب یہ اندازہ ہوگیا کہ یہ لوگ کسی طرح بھی اسلام قبول نہیں کریں گے تواس نے بھی اپنا پینترا بدل دیا اور کہا کہ اس بات سے محض تمہارا امتحان مقصود تھا۔توسب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گرپڑے،جو گویا تعظیم اور اطاعت کا اظہار تھا۔
ہرقل کے بارے میں بعض لوگ اسلام کے بھی قائل ہیں۔ مگرصحیح بات یہی ہے کہ باوجود رغبت کے وہ اسلام قبول نہ کرسکا۔
علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ان کے عہدیعنی گیارہویں صدی ہجری تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کانامہ مبارک ہرقل کی اولاد میں محفوظ تھا اور اس کو تبرک سمجھ کر بڑے اہتمام سے سونے کے صندوقچے میں رکھا گیا تھا۔ ان کا اعتقاد تھا کہ: واوصانا آباءنا مادام ہذا الکتاب عندنا لایزال الملک فینا نحن نحفظہ غایۃ الحفظ ونعظمہ ونکتمہ عن النصاریٰ لیدوم الملک فینا انتہی۔ ( فتح الباری )
ابوسفیان آخری وقت میں جب کہ مکہ فتح ہوچکا تھا۔ اسلام قبول کرکے فدائیاں اسلام میں داخل ہوگئے تھے۔ اس وقت کے چنداشعار ملاحظہ ہوں:
لعمرک انی یوم احمل رایۃ
لتغلب خیل اللات خیل محمد
فکا لمدلج الحیران اظلم لیلۃ
فہذا اوانی حین اہدی فاہتدے
ہدانی ہاد غیر نفسی و ولنی
الی اللہ من طردتہ کل مطرد
“ قسم ہے کہ جن دنوں میں نشان جنگ اس لیے اٹھایا کرتا تھا کہ لات ( بت ) کا لشکرمحمد ( ا ) کے لشکر پر غالب آجائے ان دنوں میں خارپشت جیسا تھا جو اندھیری رات میں ٹکریں کھاتا ہو۔ اب وہ وقت آگیا کہ میں ہدایت پاؤں اور سیدھی راہ اختیار کرلوں، مجھے ہادی نے نہ کہ میرے نفس نے ہدایت دی ہے اور خدا کا راستہ مجھے اس شخص نے بتلایا ہے جسے میں نے پورے طور پر دھتکار دیا اور چھوڑدیا تھا۔ ”


متفرقات: ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے جس مدت صلح کا ذکر کیاتھا۔ اس سے صلح حدیبیہ کی دس سالہ مدت مراد ہے۔
ہرقل نے کہا تھا کہ وہ آخری نبی عرب میں سے ہوگا۔ یہ اس لیے کہ یہود ونصاریٰ یہی گمان کئے ہوئے تھے کہ آخری نبی بھی بنی اسرائیل ہی سے ہوگا۔ انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اس قول کو بھلادیا تھا کہ تمہارے بھائیوں میں سے خدا ایک پیغمبر میری طرح پیدا کرے گا۔
اور اشعیاءنبی کی اس بشارت کو بھی فراموش کر دیا تھا کہ فاران یعنی مکہ کے پہاڑوں سے اللہ ظاہر ہوا۔ نیز حضرت مسیح علیہ السلام کی اس بات کو بھی وہ بھول چکے تھے کہ جس پتھر کومعماروں نے کونے میں ڈال دیا تھا، وہی محل کا صدر نشین ہوا۔
نیز حضرت سلیمان علیہ السلام اس مقدس گیت کو بھی وہ فراموش کرچکے تھے کہ “ وہ توٹھیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے، میراخلیل، میراحبیب یہی ہے۔ وہ دس ہزار قدوسیوں کے درمیان جھنڈے کے مانند کھڑا ہوتا ہے اے یروشلم کے بیٹو!
یہ جملہ بشارات یقینا حضرت سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تھیں۔مگر یہود ونصاریٰ ان کو عناداً بھول چکے تھے۔ اسی لیے ہرقل نے ایسا کہا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نامہ مبارک میں آیت کریمہ ولایتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ ( آل عمران: 64 ) کا استعمال اس لیے فرمایا کہ یہودونصاریٰ میں اور بہت سے امراض کے ساتھ تقلید جامد کا مرض بھی بری طرح داخل ہوگیا تھا۔ وہ اپنے مولویوں اور درویشوں کی تقلید میں اتنے اندھے ہوگئے تھے کہ ان ہی کا فتویٰ ان کے لیے آسمانی وحی کا درجہ رکھتا تھا۔
ہمارے زمانے کے مقلدین جامدین کا بھی یہی حال ہے کہ ان کو کتنی ہی قرآنی آیات یااحادیث نبوی دکھلاؤ، قول امام کے مقابلہ میں ان سب کو رد کردیں گے۔ اسی تقلید جامد نے امت کا بیڑہ غرق کردیا۔ اناللہ ثم انا للہ حنفی شافعی نامو ں پر جنگ وجدال اسی تقلید جامدہی کا ثمرہ ہے۔
علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ہرقل اور اس کے دوست ضغاطر نے اسلام قبول کرنا چاہا تھا۔ مگرہرقل اپنی قوم سے ڈر گیا اور ضغاطر نے اسلام قبول کرلیا اور روم والوں کو اسلام کی دعوت دی مگر رومیوں نے ان کوشہید کردیا۔
ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے رومیوں کے لیے بنواصفر ( زردنسل ) کا لفظ استعمال کیاتھا۔ کہتے ہیں کہ روم کے جدا علیٰ نے جوروم بن عیص بن اسحاقعلیہ السلام تھے ایک حبشی شہزادی سے شادی کی تھی۔ جس سے زرد یعنی گندم گوں اولاد پیدا ہوئی۔ اسی لیے ان کو بنوالاصفر کہا گیا۔ اس حدیث سے اور بھی بہت سے مسائل پر روشنی پڑتی ہے۔
آداب مراسلت وطریق دعوت اسلام کے لیے نامہ مبارک میں ہمارے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی تبلیغ کے لیے تحریری کوشش کرنا بھی سنت نبوی ہے۔
دعوت حق کو مناسب طور پر اکابر عصر کے سامنے رکھنا بھی مسلمانوں کا ایک اہم فریضہ ہے۔ یہ بھی ظاہرہوا کہ مختلف الخیال اقوام و ملل اگر مسائل مشترکہ میں اتحاد وعمل سے کام لیں تو یہ بھی عین منشائے اسلام ہے۔
ارشاد نبوی ( فان علیک اثم الیریسین ) سے معلوم ہوا کہ بڑوں کی ذمہ داریاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ یریسین کاشتکاروں کو کہتے ہیں۔ ہرقل کی رعایا کاشتکاروں ہی پر مشتمل تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آپ نے دعوت اسلام قبول نہ کی اور آپ کی متابعت میں آپ کی رعایا بھی اس نعمت عظمیٰ سے محروم رہ گئی توساری رعایا کا گناہ آپ کے سرہوگا۔
ان تفصیلی معلومات کے بعدہرقل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک منگایا جو عظیم بصریٰ کی معرفت ہرقل کے پاس پہنچا تھا۔ جس کا مضمون اس طرح شروع ہوتا تھا۔
( بسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی ہرقل عظیم الروم ) اسے سن کر ہرقل کا بھتیجا بہت ناراض ہوا اور چاہا کہ نامہ مبارک کوچاک کردیا جائے۔ کیونکہ اس میں شہنشاہ روم کے نام پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو فوقیت دی گئی ہے اور شہنشاہ کو بھی صرف عظیم الروم لکھا گیا ہے۔ حالانکہ آپ مالک الروم وسلطان الروم ہیں۔
ہرقل نے اپنے بھتیجے کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ خط میں جو لکھا ہے وہ صحیح ہے۔ میں مالک نہیں ہوں، مالک توصرف خدا وند کریم ہے۔ رہا اپنے نام کا تقدم سو اگروہ واقعتا نبی ہیں توواقعی ان کے نام کو تقدیم کا حق حاصل ہے۔ اس کے بعدنامہ مبارک پڑھا گیا۔
ابن ناطور شام میں عیسائی لاٹ پادری اور وہاں کا گورنربھی تھا۔ ہرقل جب حمص سے ایلیا آیا تو ابن ناطور نے ایک صبح کو اس کی حالت متغیر ومتفکر دیکھی۔ سوال کرنے پر ہرقل نے بتایا کہ میں نے آج رات ستاروں پر نظر کی تو معلوم ہواکہ میرے ملک پر ملک الختان ( ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ) کاغلبہ ہوچکا ہے۔ ہرقل فطری طور پر کاہن تھا اور علم نجوم میں مہارت تام رکھتا تھا۔ منجمین کاعقیدہ تھا کہ برج عقرب میں قران السعدین کے وقت آخری نبی کا ظہور ہوگا۔ برج عقرب وہ ہے جب اس میں چاند اور سورج دونوں مل جاتے ہیں تو یہ وقت منجمین کے نزدیک قران السعدین کہلاتا ہے اور مبارک سمجھا جاتا ہے۔ یہ قران ہربیس سال کے بعد ہوتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت بھی قران السعدین میں ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک پر نبوت کاتاج بھی جس وقت رکھا گیا وہ قران السعدین کا وقت تھا۔ فتح مکہ کا وقت بھی سعدین برج عقرب میں جمع تھے۔ ایسے موقع پر ہرقل کا جواب اس کے نزدیک بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ چنانچہ اس نے مصاحبین سے معلوم کیا کہ ختنے کا رواج کس ملک اور کس قوم میں ہے؟ چنانچہ یہودیوں کا نام لیا گیا اور ساتھ ہی ان کے قتل کا بھی مشورہ دیا گیا کہ حاکم غسان حارث بن ابی تامر نے ایک آدمی ( یہ شخص خود عرب کا رہنے والا تھا جو غسان کے بادشاہ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خبردینے گیا، اس نے اس کو ہرقل کے پاس بھجوادیا،یہ مختون تھا ) کی معرفت ہرقل کوتحریری خبردی کہ عرب میں ایک نبی پیدا ہوئے ہیں۔ جب یہ معزز قاصد ہرقل کے پاس پہنچا توہرقل نے اپنے خواب کی بنا پر معلوم کیاکہ آنے والا قاصد فی الواقع مختون ہے۔ ہرقل نے اسی کو اپنے خواب کی تعبیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مدعی رسالت میری راجدھانی تک جلدہی سلطنت حاصل کرلے گا۔
اس کے بعدہرقل نے بطور مشورہ ضغاطر کواٹلی میں خط لکھا اور ساتھ میں مکتوب نبوی بھی بھیجا۔ یہ ہرقل کا ہم سبق تھا۔ضغاطر کے نام یہ مکتوب حضرت دحیہ کلبی ص ہی لے کر گئے تھے اور ان کوہدایت کی گئی تھی کہ یہ خط ضغاطر کو تنہائی میں دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیاگیا۔ اس نے نامہ مبارک کو آنکھوں سے لگایا اور بوسہ دیا اور جواب میں ہرقل کولکھا کہ میں ایمان لاچکاہوں۔ فی الواقع حضرت محمدانبی ورسول موعود ہیں۔ درباری لوگوں نے ضغاطر کا اسلام معلوم ہونے پر ان کو قتل کردیا۔ حضرت دحیہ کلبی ص واپس ہرقل کے دربار میں گئے اور ماجرا بیان کیا۔ جس سے ہرقل بھی اپنی قوم سے ڈر گیا۔ اس لیے دروازوں کوبندکرکے دربار منعقد کیا تاکہ ضغاطر کی طرح اس کو بھی قتل نہ کردیاجائے۔ دربایوں نے نامہ مبارک اور ہرقل کی رائے سن کر مخالفت میں شور وغوغا برپا کردیا۔ جس پر ہرقل کو اپنی رائے بدلنی پڑی اور بالآخر کفرہی پر دنیا سے رخصت ہوا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کو حدیث انما الاعمال بالنیات اور آیت کریمہ انا اوحینا الیک سے شروع فرمایا تھا اور اس باب کو ہرقل کے قصہ اور نامہ نبوی پر ختم فرمایا اور ہرقل کی بابت لکھا کہ فکان ذلک اٰخرشان ہرقل۔یعنی ہرقل کا آخری حال یہ ہوا۔
اس میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ اشارتاً فرماتے ہیں کہ ہرشخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی نیت کی درستگی کے ساتھ اپنی آخری حالت کودرست رکھنے کی فکر کرے کہ اعمال کا اعتبار نیت اور خاتمہ پر ہے۔ شروع کی آیت شریفہ انا اوحینا الیک الایۃ میں حضرت محمدا اور آپ سے قبل جملہ انبیاء ورسل صلی اللہ علیہم کی وحی کا سلسلہ عالیہ ایک ہی رہا اور سب کی دعوت کا خلاصہ صرف اقامت دین اور اتفاق باہمی ہے۔ اسی دعوت کو دہرایا گیا اور بتلایاگیا کہ عقیدہ توحید پر جملہ ملل وادیان کو جمع ہونے کی دعوت پیش کرنا یہی اسلام کا اوّلین مقصد ہے اور بنی نوع انسان کو انسانی غلامی کی زنجیروں سے نکال کر صرف ایک خالق مالک فاطر السموات والارض کی غلامی میں داخل ہونے کا پیغام دینا تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا لب لباب ہے۔اقامت دین یہ کہ صرف خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت، بندگی، اطاعت، فرمانبرداری کی جائے اور جملہ ظاہری وباطنی معبودان باطلہ سے منہ موڑلیا جائے۔ اقامت دین کا صحیح مفہوم کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کیا گیا ہے۔
ہرقل کافر تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نامہ مبارک میں اس کو ایک معزز لقب “ عظیم الروم ” سے مخاطب فرمایا۔ معلوم ہوا کہ غیرمسلموں کے ساتھ بھی اخلاق فاضلہ وتہذیب کے دائرہ میں خطاب کرنا سنت نبوی ہے۔ ( ا )
الحمدللہ باب بدءالوحی کے ترجمہ وتشریحات سے فراغت ہوئی۔ والحمدللہ اولاً وآخراً ربنا لاتواخذنا ان نسینا اواخطانا آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الایمان


باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی تشریح سے متعلق ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے
وهو قول وفعل، ويزيد وينقص‏.‏ قال الله تعالى ‏{‏ليزدادوا إيمانا مع إيمانهم‏}‏‏.‏ ‏{‏وزدناهم هدى‏}‏ ‏{‏ويزيد الله الذين اهتدوا هدى‏}‏ ‏{‏والذين اهتدوا زادهم هدى وآتاهم تقواهم‏}‏ ‏{‏ويزداد الذين آمنوا إيمانا‏}‏ وقوله ‏{‏أيكم زادته هذه إيمانا فأما الذين آمنوا فزادتهم إيمانا‏}‏‏.‏ وقوله جل ذكره ‏{‏فاخشوهم فزادهم إيمانا‏}‏‏.‏ وقوله تعالى ‏{‏وما زادهم إلا إيمانا وتسليما‏}‏‏.‏ والحب في الله والبغض في الله من الإيمان‏.‏ وكتب عمر بن عبد العزيز إلى عدي بن عدي إن للإيمان فرائض وشرائع وحدودا وسننا، فمن استكملها استكمل الإيمان، ومن لم يستكملها لم يستكمل الإيمان، فإن أعش فسأبينها لكم حتى تعملوا بها، وإن أمت فما أنا على صحبتكم بحريص‏.‏
اور ایمان کا تعلق قول اور فعل ہر دو سے ہے اور وہ بڑھتا ہے اور گھٹتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ تاکہ ان کے پہلے ایمان کے ساتھ ایمان میں اور زیادتی ہو۔ ” ( سورہ فتح : 4 ) اور فرمایا کہ ہم نے ان کو ہدایت میں اور زیادہ بڑھا دیا ( سورہ کہف : 13 ) اور فرمایا کہ جو لوگ سیدھی راہ پر ہیں ان کو اللہ اور ہدایت دیتا ہے ( سورہ مریم : 76 ) اور فرمایا کہ جو لوگ ہدایت پر ہیں اللہ نے اور زیادہ ہدایت دی اور ان کو پرہیزگاری عطا فرمائی ( سورہ محمد :17 ) اور فرمایا کہ جو لوگ ایماندار ہیں ان کا ایمان اور زیادہ ہوا ( سورہ مدثر : 31 ) اور فرمایا کہ اس سورہ نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا؟ فی الواقع جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا ( سورہ توبہ : 124 ) اور فرمایا کہ منافقوں نے مومنوں سے کہا کہ تمہاری بربادی کے لیے لوگ بکثرت جمع ہو رہے ہیں، ان کا خوف کرو۔ پس یہ بات سن کر ایمان والوں کا ایمان اور بڑھ گیا اور ان کے منہ سے یہی نکلا حسبنا اللہ ونعم الوکیل ( سورہ آل عمران :173 ) اور فرمایا کہ ان کا اور کچھ نہیں بڑھا، ہاں ایمان اور اطاعت کا شیوہ ضرور بڑھ گیا۔ ( سورہ احزاب : 22 ) اور حدیث میں وارد ہوا کہ اللہ کی راہ میں محبت رکھنا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے دشمنی کرنا ایمان میں داخل ہے ( رواہ ابوداود عن ابی امامہ ) اور خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عدی بن عدی کو لکھا تھا کہ ایمان کے اندر کتنے ہی فرائض اور عقائد ہیں۔

حضرت عمربن عبدالعزیز بن مروان اموی قرشی خلفائے راشدین میں خلیفہ خامس ہیں جن کو مطابق حدیث مجدد اسلام میں پہلا مجدد تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ 99ھ میں مسندخلافت پر اس وقت متمکن ہوئے کہ بنوامیہ کے دورخلافت نے ہرچہار اطراف میں مظالم و مفاسد کا دروازہ کھول رکھا تھا۔ آپ نے گدی نشین ہوتے ہی جملہ مظالم کا خاتمہ کرکے شیروبکری کو ایک گھاٹ پر جمع فرمادیا۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ایک دن چروا ہے نے شور کیا۔ اس سے وجہ دریافت کی گئی تو اس نے آہ بھر کر کہا کہ خلیفہ وقت حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا آج انتقال ہو گیا ہے اسی لیے میں دیکھ رہا ہوں کہ بھیڑیے نے میری بکری پر حملہ کردیا۔ تحقیق کی گئی تو جو وقت بھیڑیے کے بکری پر حملہ کرنے کا تھا وہی وقت حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ خامس راشد کے انتقال کا تھا۔
آپ کا سن وفات101ھ ہے۔ آپ نے اپنی خلافت کے قلیل عرصہ میں اسلام اور ملت کی وہ تعمیری خدمات انجام دی ہیں جو رہتی دنیا تک یادگار رہیں گی۔ احادیث نبوی ( فداہ روحی ) کی جمع وترتیب کے لیے آپ نے ایک منظم اقدام فرمایا۔ بعد میں جو کچھ اس فن شریف میں ترقیاں ہوئیں وہ سب آپ ہی کی مساعی جمیلہ کے نتائج ہیں۔ آپ نے اپنے دورحکومت میں بنوامیہ کی وہ جائیدادیں بحق بیت المال ضبط کرلیں جوانھوں نے ناجائز طریقوں سے حاصل کی تھیں اور وہ جملہ اعلیٰ سامان بھی بیت المال میں داخل کردئیے جو لوگوں نے ظلم وجور کی بنا پر جمع کئے تھے۔ حتیٰ کہ ایک دن اپنی اہلیہ محترمہ کے گلے میں ایک قیمتی ہاردیکھ کر فرمایاکہ تم بھی اسے بیت المال کے حوالہ کردو۔وہ کہنے لگیں کہ یہ تو مجھ کو میرے باپ عبدالملک بن مروان نے دیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میرا فیصلہ اٹل ہے اگر میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو۔ چنانچہ اطاعت شعارنیک خاتون نے خود ہی اپنا وہ ہار بھی بیت المال میں داخل کردیا۔
ایک دفعہ ایک خواب دیکھنے والے نے آپ کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے حد قریب د یکھا حتیٰ کہ سیدنا ابوبکر صدیق حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ قریب دیکھا دریافت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدیق رضی اللہ عنہ وفاروق رضی اللہ عنہ نے ایسے وقتوں میں انصاف سے حکومت کی جب کہ وہ انصاف ہی کا دور تھا اور عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایسے وقت میں انصاف کو پھیلایا جب کہ انصاف کا دور دورہ بالکل ختم ہوچکا تھا۔ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ اپنے دور خلافت میں ہررات سجدہ ریزرہتے اور رو رو کر دعا کرتے کہ خداوند قدوس! اے قادر قیوم مولا! جو ذمہ داری تونے مجھ پر ڈالی ہے اس کو پورا کرنے کی بھی توفیق فرما کہتے ہیں کہ بنوامیہ میں سے کسی ظالم نے آپ کو زہرکھلا دیا تھا، یہی آپ کی وفات کا سبب ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

وقال إبراهيم ‏{‏ولكن ليطمئن قلبي‏}‏‏.‏ وقال معاذ اجلس بنا نؤمن ساعة‏.‏ وقال ابن مسعود اليقين الإيمان كله‏.‏ وقال ابن عمر لا يبلغ العبد حقيقة التقوى حتى يدع ما حاك في الصدر‏.‏ وقال مجاهد ‏{‏شرع لكم‏}‏ أوصيناك يا محمد وإياه دينا واحدا‏.‏ وقال ابن عباس ‏{‏شرعة ومنهاجا‏}‏ سبيلا وسنة‏.
اور حدود ہیں اور مستحب و مسنون باتیں ہیں جو سب ایمان میں داخل ہیں۔ پس جو ان سب کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا کر لیا اور جو پورے طور پر ان کا لحاظ رکھے نہ ان کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا نہیں کیا۔ پس اگر میں زندہ رہا تو ان سب کی تفصیلی معلومات تم کو بتلاؤں گا تاکہ تم ان پر عمل کرو اور اگر میں مر ہی گیا تو مجھ کو تمہاری صحبت میں زندہ رہنے کی خواہش بھی نہیں۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسلی ہو جائے۔ ” اور معاذ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایک صحابی ( اسود بن بلال نامی ) سے کہا تھا کہ ہمارے پاس بیٹھو تاکہ ایک گھڑی ہم ایمان کی باتیں کر لیں۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ یقین پورا ایمان ہے اور صبر آدھا ایمان ہے۔ ( رواہ الطبرانی ) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ بندہ تقویٰ کی اصل حقیقت یعنی کہنہ کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ جو بات دل میں کھٹکتی ہو اسے بالکل چھوڑ نہ دے۔ اور مجاہد رحمہ اللہ نے آیت کریمہ شرع لکم من الدین الخ کی تفسیر میں فرمایا کہ ( اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ ٹھہرایا جو حضرت نوح علیہ السلام کے لیے ٹھہرایا تھا ) اس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد! ہم نے تم کو اور نوح کو ایک ہی دین کے لیے وصیت کی ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے آیت کریمہ شرعۃ و منھاجا کے متعلق فرمایا کہ اس سے سبیل سیدھا راستہ اور سنت ( نیک طریقہ ) مراد ہے۔ اور سورہ فرقان کی آیت میں لفظ دعاءکم کے بارے میں فرمایا کہ ایمانکم اس سے تمہارا ایمان مراد ہے۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کو وحی اور اس کی تفصیل اور اس کی عظمت وصداقت کے ساتھ شروع فرمایا جس کے بعد ضروری تھا کہ دین وشریعت کی اوّلین بنیاد پر روشنی ڈالی جائے جس کا نام شرعی اصطلاح میں “ ایمان ” ہے۔ جو خدا اور بندے کے درمیان ایک ایسی کڑی ہے کہ اس کو دین کا اوّلین درجہ اور آخری درجہ دیا جا سکتا ہے۔ ایمان ہی دارین میں کامیابی کی کنجی ہے۔ حقیقی عزت ورفعت اس کے ساتھ وابستہ ہے۔
صاحب مشکوٰۃ نے بھی اپنی کتاب کو کتاب الایمان ہی سے شروع فرمایا ہے۔ اس پر حضرت مولاناشیخ الحدیث مبارک پوری مدظلہ فرماتے ہیں: “ وقدمہ لانہ افضل الامورعلی الاطلاق واشرفہا ولانہ اول واجب علی المکلف ولانہ شرط لصحۃ العبادات المتقدمۃ علی المعاملات۔ یعنی “ ذکر ایمان کو اس لیے مقدم کیا کہ ایمان جملہ امور پر مطلقاً افضلیت کا درجہ رکھتا ہے اور ہرمکلف پر یہ پہلا واجب ہے اور عبادات کی صحت اور قبولیت کے لیے ایمان بمنزلہ شرط اوّل کے ہے۔ ”
اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی باب بدءالوحی کے بعد کتاب الایمان سے اپنی جامع صحیح کا افتتاح کیا ہے۔ فتح الباری میں ہے۔ ولم یستفتح المصنف بدءالوحی بکتاب الایمان لان المقدمۃ لاتستفتح بما یستفتح بہ غیرھا لانھا تنطوی علی مایتعلق بما بعدھا۔
لفظ “ ایمان ” امن سے مشتق ہے۔ جس کے لغوی معنی سکون اور ایمان کے ہیں۔ امن لغوی حیثیت سے اس کو کہا جائے گا کہ لوگ اپنی جانوں اور مالوں اور عزت آبرو کے بارے میں سکون اور اطمینان وامن محسوس کریں جیسا کہ حدیث نبوی ہے المومن من امنہ الناس علی دماءہم واموالہم مومن وہ ہے کہ جس سے لوگ اپنی جان ومال کے بارے میں امن میں رہیں۔ ایمان کے لغوی معنی تصدیق کے بھی ہیں جیسا کہ سورۃ یوسف میں حضرت یعقوب علیہ السلام بیٹوں کے ذکرمیں وارد ہوا ہے۔ وماانت بمومن لنا ولوکنا صٰدقین ( یوسف: 17 ) یعنی اے اباجان! ہم جو کچھ بھی ( بن یامین ) کے بارے میں عرض کررہے ہیں آپ ( اپنے سابقہ تجربہ کی بنا پر ) ا س کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں اگرچہ ہم کتنے ہی سچے کیوں نہ ہوں۔ یہاں ایمان تصدیق کے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ کسی کی بات پر ایمان لانا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کو اپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کردیتے ہیں اور اس کی امانت ودیانت پر پورااعتماد ثابت کردیتے ہیں۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں: والایمان لغۃ التصدیق وشرعا تصدیق الرسول بماجاءبہ عن ربہ وہذا المقدر متفق علیہ یعنی ایمان لغت میں تصدیق کا نام ہے اور شریعت میں ایمان کے معنی یہ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول واحکام وارکان لے کر آئے ان سب کی تصدیق کرنا سب کی سچائی دل میں بٹھانا۔ یہاں تک ایمان کے لغوی معنی وشرعی معانی پر سب کا اتفا ق ہے۔ تفصیلات میں جواختلافات پیدا ہوئے ہیں ان کی تفصیل مشہور مؤرخ اسلام محمدابوزہرہ پر وفیسرلاءکالج فوادیونیورسٹی مصر کے لفظوں میں یہ ہے جس کا اردو ترجمہ “ سیرت امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ ” سے درج ذیل ہے :
ایمان کی حقیقت ایسا مسئلہ ہے جو اپنے اندر متعدد اختلافی پہلو رکھتا ہے اور یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ اس نے متعدد فرقے پیدا کردئیے، جہمیہ کا خیال ہے کہ ایمان معرفت کا نام ہے، اگرچہ وہ عمل سے ہم آہنگ نہ ہو۔ انھوں نے یہ تصریح نہیں کی ہے کہ معرفت کے ساتھ اذعان بھی واجب ہے۔ معتزلہ کا یہ خیال ہے کہ اعمال ایمان کا جزو ہیں۔ ان کے نزدیک جو شخص کبائر کا ارتکاب کرتا ہے، وہ مومن نہیں رہتا اگرچہ وحدانیت خداوندی پر عقیدہ رکھتاہو اور محمداکوخدا کا رسول مانتاہو۔ لیکن وہ کافر بھی نہیں ہوتا۔ یعنی نہ پورا مومن نہ پورا کافربلکہ ان دونوں کے بین بین۔ خوارج کا خیال ہے کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا مومن نہیں رہتا کافر ہو جاتا ہے، اس لیے کہ عمل ایمان کا جزو ہے۔ ضروری تھا کہ محدثین اور فقہاءاپنے اپنے انداز میں اس مسئلہ پر گفتگو کرتے اور ظاہر ہے ان کی روش یہی ہوسکتی تھی کہ وہ عقل مجرد پر اعتماد کرنے کے بجائے کتاب وسنت پر بھروسا کریں، پھر اس بارے میں ان کی آراءباہم ایک دوسرے سے گوزیادہ بعید نہیں ہیں تاہم کسی نہ کسی حد تک مخالف ضرورہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ایمان غیرمتزلزل اعتقاد کا نام ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس اعتقاد کی علامت صرف یہ ہے کہ آدمی خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کا اقرار کرے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک عمل ایمان کا حصہ نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک ایمان ایک ایسی مجرد حقیقت کا نام ہے جو بجائے خود کامل ہوتی ہے اور کمی زیادتی قبول نہیں کرتی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان بھی ویسا ہی ہے جیسا تمام مسلمانوں کا۔ حضرت ابوبکر کوجوفضیلت حاصل ہے وہ عمل کی بنا پر ہے ( نہ کہ ایمان کی بنا پر ) اور اس بنا پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو منجملہ دس لوگوں کے جنت کی بشارت دی تھی۔ اب اس کے بعد مسلمانوں کے اقدار کا باہمی تفاوت صرف عمل اور تعمیل حکم الٰہی اور اجتناب نواہی کی بنا پر رہ گیا۔
امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ایمان نام ہے تصدیق واذعان کا لیکن ان کے نزدیک ایمان میں زیادتی ممکن ہے اس لیے کہ قرآن میں بعض مسلمانوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ان کا ایمان بڑھتا ہے۔ جس طرح مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ایمان میں اضافہ ہو سکتا ہے، اسی طرح کبھی وہ اس کی کمی کی صراحت بھی کردیتے ہیں، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کمی کی صراحت سے وہ رک گئے کیوں کہ انھوں نے اس کا اظہارفرمایا ہے کہ ایمان نام ہے قول وعمل کا وہ گھٹ بھی سکتا ہے اور بڑھ بھی سکتا ہے۔ حافظ ابن الجوزی کی کتاب المناقب میں وارد ہوا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے، ایمان نام ہے قول وعمل کا، وہ گھٹ بھی سکتا ہے اور بڑھ بھی سکتا ہے۔ نیکوکاری تمام ترایمان ہی ہے اور معاصی سے ایمان میں کمی ہو جاتی ہے۔ نیز وہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے، اہل سنت والجماعت مومن کی صفت یہ ہے کہ اس امر کی شہادت دے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ یکتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں۔ نیز یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ نیزدوسرے انبیاء ورسل جو کچھ لائے ہیں ان کا اقرار کرے۔ اور جو کچھ اس کی زبان سے ظاہر ہووہ اس کے قلب سے ہم آہنگ ہو۔ پس ایسے آدمی کے ایمان میں کوئی شک نہیں ( حیات امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ، ص: 216,217 )

مسلک محدثین وجمہورائمہ اہل سنت والجماعت:
ایمان کے بارے میں جمہورائمہ اہل سنت وجملہ محدثین کرام سب کا مسلک یہی ہے جسے علامہ نے حضرت امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے نقل فرمایا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایمان مدلل طور پر اسی کو بیان فرمایا ہے۔
امام ابن عبدالبر “ تمہید ” میں فرماتے ہیں:
اجمع اہل الفقہ والحدیث علی ان الایمان قول وعمل ولا عمل الابنیۃ قال والایمان عندھم یزید بالطاعۃ وینقص بالمعصیۃ والطاعات کلہا عندہم ایمان الا ما ذکر عن ابی حنیفۃ واصحابہ فانہم ذہبوا الی ان الطاعات لاتسمی ایمانا قالوا انماالایمان تصدیق والاقرار ومنہم من زادالمعرفۃ وذکر مااحتجوابہ الی ان قال واماسائرالفقہاءمن اکمل الرای والاثار بالحجاز والعراق والشام ومصر منہم مالک بن انس واللہث بن سعد وسفیان الثوری والاوزاعی والشافعی واحمدبن حنبل واسحق بن راہویہ وابوعبیدالقاسم بن سلام وداؤد بن علی ومن سلک سبیلہم قالوا الایمان قول وعمل قول باللسان وہوالاقرار واعتقاد بالقلب وعمل بالجوارح مع الاخلاص بالنیۃ الصادقۃ وقالوا کل مایطاع اللہ بہ من فریضۃ ونافلۃ فہو من الایمان قالو والایمان یزید بالطاعات وینقص باالمعاصی وہذا مذہب الجماعۃ من اہل الحدیث والحمد للہ۔
علامہ ابن عبدالبر کی اس جامع تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل فقہ اور اہل سنت سب کا اجماع ہے کہ ایمان قول اور عمل پر مشتمل ہے اور عمل کا اعتبار نیت پر ہے۔ ایمان نیکیوں سے بڑھتا ہے اور گناہوں سے گھٹتا ہے اور نیکیاں جس قدر بھی ہیں وہ سب ایمان ہیں، ہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا قول یہ ہے کہ طاعات کا نام ایمان نہیں رکھا جاسکتا، ایمان صرف تصدیق اور اقرار کا نام ہے بعض نے معرفت کو بھی زیادہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ جملہ فقہائے اہل الرائے واہل حدیث حجازی، عراقی وشامی ومصری ہیں۔ سب یہی کہتے ہیں، ( جن میں سے کچھ بزرگوں کے اسمائے گرامی علامہ نے یہاں نقل بھی فرمائے ہیں ) کہ ایمان زبان سے اقرار کرنا اور دل میں اعتماد رکھنا اور جوراح سے نیت صادقہ کے ساتھ عمل کرنا ہے اور عبادات وطاعات فرض ہوں یا نفل سب ایمان ہیں۔ اور ایمان نیکیوں سے بڑھتا ہے اور برائیوں سے گھٹتا ہے۔ جماعت اہل حدیث کا بھی یہی مسلک ہے والحمدللہ۔ سلف امت سے اس قسم کی تصریحات اس قدر منقول ہیں کہ ان سب کے لیے ایک مستقل دفتر کی ضرورت ہے۔ یہاں مزید طوالت کی گنجائش نہیں۔ وفیہ کفایۃ لمن لہ درایۃ۔
فرقہ مرجیہ ایمان کے متعلق جملہ محدثین کرام وائمہ ثلاثہ اہل سنت والجماعت سے اگرچہ فرقہ خوارج اور معتزلہ نے کافی اختلافات کئے ہیں۔ مگر سب سے بدترین اختلاف وہ ہے جو فرقہ مرجیہ نے کیا۔
صاحب ایضاح البخاری لکھتے ہیں “ بسیط ماننے والوں کی دوجماعتیں ہیں۔ایک جماعت کہتی ہے کہ ایمان کی حقیقت صرف تصدیق ہے۔ اعمال اور اقرار ایمان کی حقیقت میں داخل نہیں۔ امام اعظم اور فقہاءعلیہم الرحمۃ کہتے ہیں کہ ایمان صرف تصدیق کا نام ہے۔ لیکن اعمال ایمان کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اور مرجیہ کہتے ہیں کہ اعمال بالکل غیرضروری ہیں۔ ایمان لانے کے بعد نماز ادا کرنا اور کھانا کھانا دونوں برابر ہیں۔ بسیط ماننے والوں میں دوسری جماعت مرجیہ اور کرامیہ کی ہے۔ جو صرف اقرار کو ایمان کی حقیقت بتلاتے ہیں۔ تصدیق اور اعمال اس کا جزو نہیں۔ صرف یہ شرط کہ اقرار لسانی کے ساتھ دل میں انکار نہ ہونا چاہئیے۔ ( ایضاح البخاری، ج 2، ص: 132 )
اس لیے اسلاف امت نے فرقہ مرجیہ کے خلاف بڑے ہی سخت بیانات دئیے ہیں۔ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں المرجیۃ اخوف علی ہذہ الامۃ من الخوارج۔ یعنی امت کے لیے مرجیہ کا فتنہ، فتنہ خوارج سے بھی بڑھ کر خطرناک ہے۔
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ماابتدع فی الاسلام بدعۃ اضرعلی اہلہ من الارجاءیعنی اسلام میں فتنہ ارجاءسے بڑھ کر نقصان رساں اور کوئی بدعت پیدا نہیں ہوئی۔ یحییٰ ابن ابی کثیر اور قتادہ فرماتے ہیں لیس شیی من الاہواءاشدعندہم علی الامۃ من الارجاء یعنی مرجیہ سے بڑھ کر خواہش پر ستی کا اور کوئی فتنہ جو انتہائی خطرناک ہو امت میں پیدا نہیں ہوا۔ قاضی شریک نے کہا ہے المرجیۃ اخبت قوم حسبک بالرافضۃ ولکن المرجیۃ یکذبون علی اللہ یعنی فرقہ مرجیہ بہت ہی گندی قوم ہے جو روافض سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ جوخدا پر جھوٹ باندھنے میں ذرا بھی باک نہیں محسوس کرتے۔ امام سفیان ثوری، امام وکیع، امام احمدبن حنبل، امام قتادہ، امام ایوب سختیانی اور بھی بہت سے ائمہ اہل سنت رحمہم اللہ اجمعین نے ایسے ہی خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔
مرجیہ میں جوبہت ہی غالی قسم کے لوگ ہیں ان کا کہنا یہاں تک ہے کہ جس طرح حالت کفر میں کوئی نیکی نفع بخش نہیں اسی طرح حالت ایمان میں کوئی بھی گناہ مضر نہیں اور یہ بدترین قول ہے جواسلام میں کہا گیا ہے۔ ( لوامع انوار البہیہ )
ایمان کے بسیط اور مرکب کی بحث میں علامہ سندھی کا یہ قول آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ آپ فرماتے ہیں: والسلف کانوا یتبعون الوارد ولا یلتفتون الی نحوتلک المباحث ولاکلام الکلامیۃ استخرجہا المتاخرون یعنی سلف صالحین صرف ان آیات واحادیث کی اتباع کو کافی جانتے تھے جوایمان سے متعلق وارد ہوئی ہیں۔ اور وہ ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہیں کرتے تھے جن کومتاخرین نے ایجاد کیا ہے۔
ایمان بہرحال تصدیق قلبی اور اقرار لسانی وعمل بدنی ہرسہ سے مرکب ہے اور یہ تینوں باہمی طور پر اس قدر لازم وملزوم ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی اگر الگ کردیاجائے توایمان حقیقی جس سے عنداللہ نجات ملنے والی ہے وہ باقی نہیں رہ جاتا۔

حضرت العلامہ مولاناشیخ الحدیث صاحب مبارک پوری رحمہہ اللہ:
حضرت العلامہ مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمہ اللہ نے “ ایمان ” سے متعلق ایک بہترین جامع تبصرہ فرمایا ہے، جو جستہ جستہ درج ذیل ہے :
فرماتے ہیں: وانما عنون بہ مع ذکرہ الاسلام ایضا لانہما بمعنی واحد فی الشرع یعنی کتاب الایمان کے عنوان کے تحت اسلام کا بھی ذکر آیا ہے۔ اس لیے کہ ایمان اور اسلام شریعت میں ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔ اختلفوا فیہ علی اقوال کے تحت حضرت شیخ الحدیث فرماتے ہیں: فقال الحنفیۃ الایمان ہومجردتصدیق النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیماعلم مجیئہ بہ بالضرورۃ تفصیلا فی الامور التفصیلیۃ واجمالا فی الامور الاجمالیۃ تصدیقا جازما ولوبغیردلیل فالایمان بسیط عندھم غیرمرکب لایقبل الزیادۃ والنقصان من حیث الکمیۃ الخ یعنی حنیفہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق مجرد کا نام ایمان ہے۔ تفصیلی امور میں تفصیلی طور پر اور اجمالی امور میں اجمالی طور پر جو کچھ آپ احکام ضروریہ لے کر تشریف لائے سب کی تہہ دل سے تصدیق کرنا ایمان ہے۔ احناف کے نزدیک ایمان مرکب نہیں بلکہ بسیط ہے اور وہ کمیت کے اعتبار سے زیادتی اور کمی کو قبول نہیں کرتا۔ ہاں فرقہ مرجیہ ضالہ کی زد سے بچنے کے لیے وہ بھی اہل سنت و جملہ محدثین کی طرح اعمال کو تکمیل ایمان کی شرط قرار دیتے اور کمال ایمان کے لیے ضروری اجزا تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اور دیگراہل سنت کے درمیان اس بارے میں صرف نزاع لفظی ہے۔ ( رسالہ ایمان وعمل مولانا حسین احمدمدنی رحمہ اللہ ص: 23 )
حضرت شیخ الحدیث آگے مرجیہ سے متعلق فرماتے ہیں: وقال المرجیۃ ہو اعتقاد فقط والاقرار باللسان لیس برکن فیہ ولاشرط فجعلوا العمل خارجا من حقیقۃ الایمان کالحنیفۃ وانکروا اجزئیتہ الاان الحنفیۃ اہتموا بہ وحرضوا علیہ وجعلوہ سببا ساریافی نماءالایمان واماالمرجیۃ فہدروہ وقالوا لاحاجۃ الی العمل ومدار النجاۃ ہوالتصدیق فقط فلایضرالمعصیۃ عندہم مع التصدیق۔
اور فرقہ ضالہ مرجیہ نے کہا کہ ایمان فقط اعتقاد کا نام ہے۔اس کے لیے زبانی اقرار نہ رکن ہے نہ شرط ہے۔ حنفیہ نے بھی عمل کو حقیقت ایمان سے خارج کیا ہے اور اس کی جزئیت کا انکار کیا ہے۔مگر حنفیہ نے عمل کی اہمیت کو مانا ہے اور اس کے لیے رغبت دلائی اور ایمان کے نشوونما میں عمل کو ایک موئثر سبب تسلیم کیا ہے۔ مرجیہ نے عمل کو بالکل باطل قرار دیا اور کہا کہ عمل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نجات کا دارومدار فقط تصدیق پر ہے جس کے بعد کوئی بھی گناہ مضر نہیں ہے۔ ( غالبا حضرت مولانا مدنی صاحب مرحوم کے حوالہ مذکور کا بھی یہی منشا ہے ) آگے کرامیہ کے متعلق حضرت شیخ الحدیث فرماتے ہیں۔ وقال الکرامیۃ ھو نطق فقط فالاقرار باللسان یکفی للنجاۃ عندھم سواءوجد التصدیق ام لا یعنی مرجیہ کے خلاف کرامیہ کہتے ہیں کہ ایمان فقط زبان سے اقرار کر لینے کا نام ہے جو نجات کے لیے کافی ہے۔ تصدیق کی جائے یا نہ۔
آگے حضرت شیخ الحدیث فرماتے ہیں: وقا ل السلف من الائمۃ الثلاثۃ مالک والشافعی احمد وغیرھم من اصحاب الحدیث ھو اعتقاد بالقلب ونطق باللسان وعمل بالارکان فالایمان عندھم مرکب ذواجزاءوالاعمال داخلۃ فی حقیقۃ الایمان ومن ھھنا نشالھم القول بالزیادۃ والنقصان بحسب الکمیۃالخ۔
یعنی سلف امت ائمہ ثلاثہ مالک وشافعی و احمد بن حنبل اور دیگر اصحاب الحدیث کے نزدیک ایمان دل کے اعتقاد اور زبان کے اقرار اور ارکان کے عمل کا نام ہے۔اس لیے ان کے نزدیک ایمان مرکب ہے جس کے لئے مذکورہ اجزاءضروری ہیں اور اعمال حقیقت ایمان میں داخل ہیں۔اسی بنا پر ان کے نزدیک ایمان میں کمی وبیشی ہوتی ہے۔ اس دعویٰ پر ا ن کے یہاں بہت سی آیات قرآنی واحادیث نبوی دلیل ہیں۔ جن کو امام بخاری نے اپنی جامع میں اور ابن تیمیہ نے کتاب الایمان میں بیان فرمایا ہے اور مذہب حق یہی ہے۔ ( مرعاۃ،جلد اول،ص: 23 ملخصاً )
اس تفصیل کی روشنی میں حضرت علامہ مبارکپوری دامت برکاتہم آگے فرماتے ہیں۔ وقد ظھرمن ھذا ان الاختلاف بین الحنفیۃ واصحاب الحدیث اختلاف معنوی حقیقی لا لفظیۃ کما توھم بعض الحنفیۃ ( مرعاۃ ) یعنی ایمان کے بارے میں حنفیہ اور اہلحدیث کا اختلاف معنوی حقیقی ہے لفظی نہیں ہے جیسا کہ بعض حنفیہ کو وہم ہوا ہے۔
معتزلہ کے نزدیک ایمان عمل اور قول واعتقاد کا مجموعہ ہے۔ ان کے نزدیک کبائر کا مرتکب نہ کافر ہے نہ مومن بلکہ کفر وایمان کے درمیان ایک درجہ قرار دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کبائر کا مرتکب بلاتوبہ مرے گا تو وہ مخلد فی النار یعنی ہمیشہ کے لئے دوزخی ہوگا۔ ان کے برخلاف خوارج کہتے ہیں کہ کبیرہ وصغیرہ ہر دو گناہوں کا مرتکب کافر ہو جاتا ہے۔کفر اور ایمان کے درمیان اور کوئی درجہ نہیں ہے۔یہ دونوں فرقے گمراہ ہیں۔ان کے برخلاف اہل سنت ایمان کوجہاں اجزائے ثلاثہ سے مرکب اور قابل زیادت ونقصان مانتے ہیں وہاں ان کے نزدیک اعمال کو کمال ایمان کے لیے شرط بھی قرار دیتے ہیں۔لہذا ان کے نزدیک مرتکب کبائر وتارک فرائض کافر مطلق اور محروم الایمان نہ ہوں گے ( فتح الباری وغیرہ )
مناسب ہوگا کہ ا پنے محترم قارئین کرام کی مزید تفہیم کے لئے ہم ایمان سے متعلق ایک مختصر خاکہ اور پیش کردیں:
( 1 ) ایمان بسیط ہے صرف دل سے تصدیق کرنا اور زبان سے اقرارکرنا جس کے بعد کوئی گناہ مضر نہیں اور کوئی نیکی مفید نہیں ہے۔ ( مرجیہ )
( 2 ) ایمان فقط زبان سے اقرار کرلینے کا نام ہے دل کی تصدیق ہو یا نہ ہو۔زبانی اقرار نجات کے لیے کافی ہے ( کرامیۃ )
( 3 ) ایمان بسیط ہے اور وہ صرف تصدیق کا نام ہے۔ اعمال اس میں داخل نہیں ہیں نہ وہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے۔ہاں اعمال ایمان کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ ( حنفیہ ) ( دیکھو ایضاح البخاری،ص132 )
( 4 ) ایمان اعتقاد اور عمل اور قول کا ایسا مجموعہ ہے جس کو علیحدہ علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ہے اس صورت میں گناہ کبیرہ کا مرتکب اگر بلا توبہ مرے گا تو وہ ہمیشہ کے لیے دوزخی ہے۔ گویا اللہ پر مطیع کا ثواب اور عاصی کا عذاب واجب ہے۔ ( معتزلہ )
( 5 ) ایمان اعتقاد وعمل دونوں کا مجموعہ ہے جس کے بعد صرف کفر ہی کا درجہ ہے۔ لہٰذا کبیرہ وصغیرہ ہر دو قسم کے گناہوں کا مرتکب جو توبہ نہ کرے وہ کافر ہے۔ ( خوارج )
( 6 ) ایمان قول وعمل کا ایک مجموعہ ہے جس کے لیے تصدیق قلبی اور اقرارلسانی وعمل بالارکان ضروری ہے اور وہ ان اجزائے ثلاثہ سے مرکب ہے۔ وہ گھٹتا اور بڑھتا ہے۔ گناہ کبیرہ کا مرتکب بشرط صحت ایمان اللہ چاہے تو اسے بخش دے یا دوزخ میں سزا دینے کے بعد جنت میں داخل کردے۔ پس مرتکب کبائر کافر مطلق اور محروم الایمان نہ ہوگا۔ ( اہل سنت والجماعت ) اور یہی مذہب حق اور صائب ہے۔
علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ والسلف قالوا ھو اعتقاد بالقلب ونطق باللسان وعمل بالارکان وارادوابذالک ان الاعمال شرط فی کمالہ ومن ھنا نشالھم القول بالزیادۃ والنقص کما سیاتی والمرجئیۃ قالوا ھو اعتقاد ونطق فقط والکرامیۃ قالوا ھو نطق فقط والمعتزلۃ قالوا ھو العمل والنطق والاعتقاد والفارق بینھم وبین السلف انھم جعلوا الاعمال شرطا فی صحتہ والسلف جعلوھا شرطا فی کمالہ الخ ( فتح الباری ) خلاصہ اس عبارت کا وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا۔

ایک لطیف مکالمہ:
ہمارے محترم مولانا الفاضل المناظر مولوی عبدالمبین منظر صاحب بستوی نے شیخ ابو الحسن اشعری اور ان کے استاد جبائی معتزلی کاوہ لطیف مکالمہ “ عقائد اسلام ” میں درج فرمایا ہے۔ جسے ایک لطیف مکالمہ ہی کہا جا سکتا ہے ( یہ مکالمہ بہت سی کتب عقائد میں مذکور ہے ) جس کا خلاصہ یہ کہ ایک دن شیخ ابوالحسن اشعری نے جبائی سے پوچھا کہ آپ ان تین بھائیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں جن میں سے ایک مطیع تابعدار مرا۔ دوسرا عاصی نافرمان اور تیسرا بچپن ہی میں مر گیا۔ جبائی نے جوابا ً کہا کہ پہلا شخص جنت میں دوسرا دوزخ میں اور تیسرا دونوں سے الگ نہ جنت میں نہ دوزخ میں، اس پر ابوالحسن نے پوچھا کہ اگرتیسرا شخص اللہ سے عرض کرے کہ مجھے کیوں نہ زندگی عطا ہوئی کہ بڑا ہوکر نیکی کرتا اور جنت پاتا۔تو اللہ کیا جواب دے گا۔جبائی صاحب نے کہا کہ اللہ فرمایے گا کہ میں جانتا تھا تو بڑا ہوگا تو نافرمانی کرکے جہنم میں داخل ہوگا۔ لہٰذا تیرے لیے بچپن ہی میں مر جانا بہتر تھا۔ ابوالحسن اشعری نے کہا اگر دوسرا عرض کرے کہ میرے رب تو نے مجھ کو کیوں نہ بچپن ہی میں موت دی کہ میں تیری نافرمانیوں سے بچ کر دوزخ سے نجات پاتا۔تو آپ کے مذہب کے مطابق اللہ پاک کی طرف سے اس کو کیاجواب ملے گا؟
اس سوال کے بعد ابو علی جبائی ( معتزلی ) لا جواب ہوگیا اور ابوالحسن اشعری نے اپنے استاد جبائی کا مذہب ترک کرکے معتزلہ کی تردید اور ظاہر سنت کی تائید اور اثبات میں اپنی پوری زندگی صرف کردی۔ کیا خوب کہا گیا ہے
ماتریدی وا شعری ہمہ خوب
لیک طور سلف بود مرغوب
چیست دانی عقائد ایشا ں
انتخاب فوائد ایشاں
پائے برپائے مصطفی رفتن
بسر خویش نے ز پا رفتن
پشت پا برزون بفہم جمیل
بر قیا سات وایں ہمہ تاویل
نسال اللہ النجاۃ یوم المعاد وان یطھر قلوبنا عن قبائح الاعتقاد ونستغفر اللہ لنا ولکافۃ المسلمین من اھل الحدیث والقرآن واصحاب التوحید والایمان۔آمین

چونکہ مذکورہ بالاتفصیلات میں کئی جگہ ایمان کے متعلق “ حنفیہ ” کا ذکر آیا ہے۔اس لیے مناسب ہوگا کہ اس سلسلے کی کچھ تفصیلات ہم موجود اکابر علمائے احناف ہی سے نقل کردیں۔ جس سے ناظرین کو مسلک محدثین کرام اور موجودہ اکابر علمائے احناف کے خیالات کے سمجھنے میں کافی مدد مل سکے گی۔
دیوبند سے بخاری شریف کا ایک ترجمہ معہ شرح ایضاح البخاری کے نام سے بھی شائع ہو رہا ہے۔ جو حضرت مولانا فخرالدین صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند وصدر جمعیت علمائے ہند کے افادات پر مشتمل ہیں ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ مستند بیان اور نہیں ہوسکتا۔ مندرجہ ذیل تفصیلات ہم لفظ بلفظ اسی ایضاح البخاری سے نقل کررہے ہیں:

ایمان میں کمی زیادتی کا بیان:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جس انداز سے مسئلہ شروع فرمایا ہے، اس کے نتیجہ میں یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ ایمان تین چیزوں سے مرکب ہے۔ اعتقاد قلبی، قول لسانی، افعال جوارح۔ کیونکہ جملہ وہوقول وفعل میں قول وفعل دونوں میں تعمیم ہوسکتی ہے۔ یاتوقول کوقول ہی پر بولا جاتا ہے۔ لیکن اس کو بایں معنی قول قلبی پر بھی عام کیا جا سکتا ہے کہ دل میں تصدیق کا پیدا ہوجانا ایمان نہیں ہے بلکہ پیدا کرنا ایمان ہے اور جب قول دل اور زبان دونوں پر عام ہوگیا تو فعل سے مراد فعل جوارح ہو ہی جائے گا، ورنہ اگر قول کو صرف قول لسانی پر محدود کردیا جائے تو لفظ فعل میں تعمیم کردی جائے گی جوفعل قلبی اور فعل جوارح پر عام ہوجائے گا۔
اور بعض حضرات نے کہا کہ تصدیق واعتقاد کا مسئلہ تواہل فن کے نزدیک مسلم تھا۔ اختلاف صرف زبان اور جوارح کے سلسلہ میں تھا۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ادھرہی توجہ مبذول فرمائی اور جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایمان میں تین چیزیں داخل ہیں تو اس کے نتیجہ میں ایمان میں کمی زیادتی ممکن ہوگی۔ یہ کمی وبیشی بظاہر امام بخاری علیہ الرحمہ کی قائم کردہ ترتیب کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اجزا کے اعتبار سے ہے۔ یعنی چونکہ ایمان ایک ذی اجزاءچیز ہے اور تین چیزوں سے مرکب ہے۔ اس لیے ضروری کمی زیادتی کی قابلیت ہونی چاہئیے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دعویٰ کے مطابق سلف کا مذہب بھی یہی ہے۔ کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جملہ اساتذہ سے یزیدولاینقص ہی نقل کیا ہے اور اگر اس سلسلہ میں کچھ اختلاف نظر آتا ہے تووہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے کیونکہ صرف امام ہی کی طرف لایزید ولاینقص کی نسبت کی گئی ہے۔ اور جمہور یزید وینقص کے قائل ہیں گویا امام بساطت ایمان کے قائل ہیں اور جمہور ترکیب کے۔ اس لیے بہ ظاہر تردید امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہی کی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ان قائلین تردید نے اس پر غور نہیں کیا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا لایزیدولاینقص جمہور کے یزیدوینقص سے متعارض بھی ہے یا نہیں۔ اگر یہ حضرات اس حقیقت کو سمجھ لیتے تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو ہدف بنانے کی نوبت نہ آتی۔ لیکن کیا کیاجائے کہ ہوتا ہی ایسا آیا ہے۔
اس لیے اصل تو یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے لایزید ولاینقص کا ثبوت ہی دشوارہے۔ کیونکہ جن تصانیف پر اعتماد کرکے اس قول کی نسبت امام رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کی گئی ہے۔ تحقیق کی روشنی میں امام علیہ الرحمۃ کی جانب غلط ہے۔ مثلاً فقہ اکبر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب ہے۔ لیکن سچ ہے کہ یہ امام کے تلمیذ ابومطیع البلخی کی تصنیف ہے۔ جو فقہاءکے نظرمیں بلندمرتبت سہی مگر محدثین کی نگاہ میں کمزور ہیں۔اسی طرح العالم والمتعلم،الوصیۃ اور وسطین امام ابوحنیفہ رحمۃ للہ علیہ کی طرف منسوب ہیں۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ امام رحمۃ اللہ علیہ تک ان کی نسبت کی صحت میں کلام ہے۔ اور حضرت علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کا رخ ہی یہ نہیں ہے کہ جس کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سمجھ رہے ہیں۔نیز ابراہیم بن یوسف تلمیذ امام ابویوسف رحمہ اللہ اور احمدبن عمران کا قول طبقات الحنفیہ میں موجود ہے کہ وہ ایمان کی کمی بیشی کے قائل تھے۔ الخ ( ایضاح البخاری،ص: 147وص: 148 )
آگے اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ بالفرض لایزیدولاینقص امام علیہ الرحمۃ ہی کا قول مان لیا جائے توا س کی صحیح توجیہہ کیا ہے۔ اس تفصیل سے چندامور روشنی میں آجاتے ہیں۔

( 1 ) ایمان کی کمی وبیشی کے متعلق یزیدوینقص ہی کا نظریہ جمہورکا نظریہ ہے اور یہی صحیح ہے۔
( 2 ) حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بابت لایزیدولاینقص جن کتابوں میں نقل ہے وہ کتابیں امام صاحب کی تصنیف نہیں ہیں۔ اور ان کو حضرت امام کی طرف منسوب کرنا ہی غلط ہے، جیسا فقہ اکبروغیرہ۔
( 3 ) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی ایمان میں کمی وبیشی کے قائل تھے۔ فنعم الوفاق وحبذا الاتفاق۔
اس تفصیل کے بعد مسلک محدثین کی تغلیط میں اگرکوئی صاحب لب کشائی کرتے ہیں تو یہ خود ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ جمہور سلف اور خودامام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے متعلق صحیح موقف یہی ہے جو تفصیل بالا میں پیش کیاگیا۔ اللہ پاک سب مسلمانوں کومسلک حق محدثین کرام پر زندہ رکھے اور اس پر موت نصیب کرے اور اس پر حشر فرمائے تاکہ قیامت کے دن شفاعت نبوی سے حصہ وافر نصیب ہو آمین یارب العالمین۔

مقصدترجمہ
: حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بنی الاسلام علی خمس سے شروع فرمایا۔ جس میں اشارہ ہے کہ اگرچہ ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے اور اسلام عمل جوارح کا۔ مگر بطور عموم خصوص مطلق حقیقت میں دونوں ایک ہی ہیں اور نجات اخروی کے لیے باہمی طور پر لازم ملزوم ہیں۔اسی لیے آپ نے دوسرا جملہ ایمان کے لیے یہ استعمال فرمایا وھو قول وفعل یعنی وہ قول ( زبان سے اقرار ) اور فعل ( یعنی اعمال صالحہ ) ہے۔ تیسرا جملہ فرمایا ویزیدو ینقص یعنی وہ زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی ہو جاتا ہے۔ ان تینوں جملوں میں ہرپہلا جملہ دوسرے کے لیے بہ منزلہ علت یاہردوسرا جملہ پہلے کے لیے بہ منزلہ نتیجہ کے ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان قول وفعل کا نام ہے جسے دوسرے لفظوں میں اسلام کہنا چاہئیے اور اس میں کمی وزیادتی کی صلاحیت ہے۔
کتاب الایمان والاسلام میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الایمان والاسلام احدھما مرتبطۃ بالاخر فہما کشی واحد لاایمان لمن لا اسلام لہ ولااسلام لمن لا ایمان لہ اذلایخلو المسلم من ایمان بہ یصحح اسلامہ ولایخلو المومن من اسلام بہ بحقق ایمانہ یعنی ایمان واسلام آپس میں مربوط ہیں اور وہ ایک ہی چیز کی طرح ہیں۔ کیونکہ جو اسلام کا پابند نہیں اس کا ایمان کا دعویٰ غلط ہے اور جس کے پاس ایمان نہیں اس کا اسلام غلط ہے۔ مسلمان جو حقیقی معنوں میں مسلمان ہوگا وہ کبھی بھی ایمان سے خالی نہیں ہوسکتا اور مومن جو حقیقی مومن ہوگا، اس کو اسلام کے بغیرچارہ نہیں۔ اس لیے کہ اسی سے اس کا ایمان متحقق ہوگا۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے مقاصد کو بایں طور متعین کیا جا سکتا ہے :
( 1 ) ایمان واسلام آپس میں مربوط ہیں۔
( 2 ) ایمان میں قول وفعل داخل ہیں۔
( 3 ) ایمان میں کمی وزیادتی ہوسکتی ہے۔

امام برحق نے جو کچھ فرمایا ہے یہی جملہ سلف امت کا مسلک ہے۔ صحابہ وتابعین وتبع تابعین وجملہ امامانِ اسلام سب ان پر بالاتفاق عقیدہ رکھتے ہیں۔ ہاں مرجیہ وکرامیہ وجہمیہ ومعتزلہ وخوارج وروافض کو ان سے اختلاف ضرورہے اور ان ہی کی تردید حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے۔
ضرورت تھی کہ اپنے دعاوی کو پہلے کتاب اللہ ال مجید سے ثابت کیاجائے۔ چنانچہ آپ نے اس مقام پر قرآن شریف سے استدلال کے لیے آیات ذیل کو نقل فرمایا ہے۔ جن میں ایمان کو ہدایت ودعا وغیرہ سے تعبیر کرتے ہوئے اس کے بڑھنے اور زیادہ ہونے کا صراحتاً ذکر موجود ہے۔
( 1 ) ہوالذی انزل السَّکینۃ فی قلوب المؤمنین لیزدادوا ایمانا مع ایمانہم وللہ جنود السموٰت والارض وکان اللہ علیما حکیما ( الفتح: 4 )
وہ اللہ ہی تھا جس نے ایمان والوں کے دلوں میں ( صلح حدیبیہ کے موقع پر ) تسکین نازل فرمائی۔ تاکہ وہ اپنے ایمان میں اور زیادتی حاصل کرلیں۔ اور زمین وآسمانوں کے سارے لشکرخدا ہی کے قبضے میں ہیں اور وہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ ”
اس آیت میں واضح طور پر ایمان کی زیادتی کا ذکر ہے۔
( 2 ) نحن نقص علیک نباہم بالحق انہم فتیۃ آمنوا بربہم وزدنہم ہدی ( الکہف: 13 )
“ اصحاب کہف کی ہم صحیح صحیح خبریں آپ کوسناتے ہیں بلاشک وہ چند نوجوان تھے۔ جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے ہم نے ان کو ہدایت میں زیادتی عطا فرمائی۔ ”
یہ آیت کریمہ بھی صاف بتلارہی ہے کہ ایمان وہدایت میں بفضل اللہ تعالیٰ زیادتی ہواکرتی ہے۔
( 3 ) ویزیداللہ الذین اہتدوا ہدی والبٰقیت الصٰحلت خیرعندربک ثوابا وخیرمردا ( مریم: 76 )
“ جولوگ ہدایت پر ہیں خدا ان کو ہدایت میں اور زیادتی عطا کرتا ہے اور نیک اعمال ( بعدموت ) پیچھے رہنے والے ہیں۔ تمہارے رب کے نزدیک ثواب اور انجام کے لحاظ سے وہی اچھے ہیں۔ ”
یہاں بھی ہدایت میں زیادتی کا ذکر ہے۔ جس سے ایمان کی زیادتی مراد ہے۔
( 4 ) والذین اہتدوا زادہم ہدی وآتاہم تقوٰہم ( محمد: 17 )
اور جو لوگ ہدایت یاب ہیں خدا ان کو ہدایت اور زیادہ دیتا ہے اور ا ن کو تقویٰ پرہیز گاری کی توفیق بخشتا ہے۔
اس آیت شریفہ میں بھی ہدایت ( ایمان ) کی زیادتی کا ذکر ہے۔ اور یہی مقصود ہے کہ ایمان کی زیادتی ہوتی ہے۔
( 5 ) وماجعلنا اصحٰب النار الاملئکۃ وماجعلنا عدتہم الا فتنۃ للذین کفروا لیستیقن الذین اوتوا الکتب ویزداد الذین آمنوا ایمانا۔الایۃ ( المدثر: 31 )
“ ہم نے دوزخ کے محافظ فرشتے ہی بنائے ہیں اور ہم نے ان کی گنتی اتنی مقرر کی ہے کہ وہ کافروں کے لیے فتنہ ہو اور اہل کتاب اس پر یقین کرلیں۔ اور جو ایمان دار مسلمان ہیں وہ اپنے ایمان میں زیادتی اور ترقی کریں۔ ”
اس آیت شریفہ میں بھی ایمان والوں کے ایمان کی زیادتی کا ذکر فرمایا گیا ہے۔
( 6 ) واذا انزلت سورۃ فمنہم من یقول ایکم زادتہ ہذہ ایمانا فامّاالذین آمنوا فزادتہم ایمانا وہم یستبشرون ( التوبہ: 124 )
“ یعنی جب کوئی سورۃ شریفہ قرآن کریم میں نازل ہوتی ہے تومنافق لوگ باہمی طور پر کہتے ہیں کہ اس سورۃ نے تم میں سے کس کا ایمان تازہ کردیا ہے؟ ہاں جولوگ ایمان دار ہیں ان کا ایمان یقینا زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں۔ ”
اس آیت شریفہ میں نہایت ہی صراحت کے ساتھ ایمان کی زیادتی کا ذکر ہے۔
( 7 ) الذین قال لہم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوہم فزادہم ایمانا وقالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل ( آل عمران: 173 )
“ وہ راسخ الایمان لوگ ( انصار ومہاجرین ) جن کولوگوں نے ڈراتے ہوئے کہا کہ لوگ بکثرت تمہارے خلاف جمع ہوگئے ہیں، تم اس سے ڈرو توان کا ایمان بڑھ گیا اور انھوں نے فوراً کہا کہ ہم کو اللہ ہی کافی وافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ ”
اس آیت شریفہ میں بھی ایمان کی زیادتی کا ذکر واضح لفظوں میں موجود ہے۔
( 8 ) ولمارای المومنون الاحزاب قالوا ہذا ماوعدنا اللہ ورسولہ وصدق اللہ ورسولہ وما زادہم الا ایمانا وتسلیما ( احزاب: 22 )
“ ایمان داروں نے ( جنگ خندق میں ) جب کفار کی فوجوں کو دیکھا تو کہا یہ تو وہی واقعہ ہے جس کا وعدہ اللہ اور سول نے ہم سے پہلے ہی کیاہوا ہے اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا اور ا س سے بھی ان کے ایمان وتسلیم میں زیادتی ہی ہوئی۔ ”
اس آیت میں بھی ایمان کی زیادتی کا صاف ذکر موجود ہے۔
قرآن شریف کے بعد سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے استدلال کرنے کے لیے آپ نے مشہور حدیث الحب فی اللہ الخ کو ذکر فرمایا کہ اللہ کے لیے محبت رکھنا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے بغض رکھنا یہ بھی داخل ایمان ہے۔ محبت اور دشمنی ہر دو گھٹنے اور بڑھنے والی چیزیں ہیں۔ اس لیے ایمان بھی حسب مراتب گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے۔ خلیفہ خامس حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا فرمان بھی آپ نے استدلالا نقل فرمایا جس سے ظاہر ہے کہ خیرالقرون میں فرائض اور شرائع اور حدود اور سنن سب داخل ایمان سمجھے جاتے تھے اور ایمان کے کامل یا ناقص ہونے کا تصور ان جملہ امور کی ادائیگی وعدم ادائیگی پر موقوف سمجھا جاتا تھا اور مسلمانوں میں عام طور پر ایمان کی کمی وبیشی کی اصطلاحات مروج تھیں۔ حضرت سیدنا خلیل اللہ کا قول لیطمئن قلبی بھی اسی لیے نقل فرمایا کہ ایمان کی کمی وبیشی کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔ اوامرالٰہی پر جس قدر بھی اطمینان قلب حاصل ہوگا، ایمان میں ترقی ہوگی۔ علم الیقین عین الیقین کے ساتھ حق الیقین کے لیے آپ نے یہ درخواست کی تھی۔ جیسا کہ شہد کی مٹھاس صرف خبرسننے والا اور دوسرا اس کو آنکھوں سے دیکھنے والا اور تیسرا اسے دیکھنے والا اور پھر چکھنے والا۔ ظاہر ہے کہ ان تینوں میں کافی فرق ہے۔ حق الیقین اسی آخری مقام کا نام ہے۔ حضرت معاذ نے اپنے ساتھی سے جو کچھ فرمایا جسے حضرت امام نے یہاں نقل فرمایا ہے اس سے بھی ایمان کی ترقی مراد ہے۔ بقول حضرت عبداللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ یقین کل ( اپنی جملہ قسموں کے ساتھ ) ایمان ہی میں داخل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حقیقت تقویٰ کے بارے میں جوفرمایا اس سے بھی ایمان کی کمی وبیشی پر روشنی پڑتی ہے۔مشہور مفسرقرآن مجید حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے آیت شریفہ شرع لکم من الدین الخ کے بارے میں جو فرمایا۔و ہ وضاحت سے بتلارہا ہے کہ ایمان اور دین کے بارے میں جملہ انبیاءکرام کا اصولاً اتحاد رہا ہے۔
آیت کریمہ لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنہاجا ( المائدہ: 148 ) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ شرعۃ سے مراد ہدایت ( سنت طریقہ ) اور منہاجا سے ( سبیل ) یعنی دینی راستہ مراد ہے۔ مقصد یہ کہ ایمان ان سب کو شامل ہے۔ اسی طرح آیت کریمہ قل مایعبؤبکم ربی لولادعاؤکم فقد کذبتم فسوف یکون لزاما ( الفرقان: 77 ) یعنی کہہ دیجیے کہ اگرتم خدا کی عبادت نہیں کرتے توخدا کو بھی تمہاری پر واہ نہیں۔ سوتم نے تکذیب پر کمر باندھی ہوئی ہے۔ پس عنقریب وہ ( عذاب الٰہی ) بھی تم کو چمٹ جانے والا ہے۔ یہاں دعاؤکم میں حقیقتاً ایمان باللہ اور ایمان بالرسول ہی مراد ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اہل مکہ اپنے طورطریق پر عبادت بھی کرتے تھے۔ پس ایمان ہی اصل بنیاد نجات ہے اور عبادات اور جملہ اعمال صالحہ اس کے اندر داخل ہیں۔ آیت کریمہ وماکان اللہ لیضیع ایمانکم ( البقرہ: 143 ) میں اللہ پاک نے خود نماز کو لفظ ایمان سے تعبیر فرمایا ہے۔ ان جملہ نصوص قطعیہ کے بعد بھی اعمال نماز روزہ وغیرہ کو ایمان سے علیحدہ کہنا صریحا غلطی ہے۔ اللہ نیک سمجھ دے۔ آمین
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور جملہ محدثین کرام اور امامان ہدیٰ کا بھی یہی مسلک ہے۔ ونقل علی ذلک الاجماع وقال البخاری لقیت اکثر من الف رجل من العلماءبالامصار فمارایت احدا منہم یختلفہ فی ان الایمان قول وعمل ویزید وینقص ( لوامع الانوار البھیہ،ص: 431 ) یعنی امام شافعی رحمہ اللہ نے اس مسلک پر اجماع نقل کیا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اسلامی ممالک کے مختلف شہروںمیں ایک ہزار سے زائد اہل علم وفضل وکمال سے ملا۔ ان میں سے میں نے کسی کو اس بارے میں مختلف نہیں پایا کہ ایمان قول وعمل کا نام ہے اور وہ بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا فمنہم ظالم لفنسہ ومنہم مقتصد ومنہم سابق بالخیرات باذن اللہ ذلک ہوالفضل الکبیر ( فاطر: 32 ) یعنی ( اہل کتاب کے بعد ) ہم نے اپنی کتاب قرآن پاک کا وارث ان لوگوں کو بنایا جن کو ہم نے اس کے لیے چن لیاتھا۔ پس بعض ان میں سے اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ بعض درمیانی راستہ چلنے والے اور بعض نیکیوں کے لیے سبقت کرنے والے اللہ کے حکم سے اور یہی بڑا فضل ہے۔
اس آیت کریمہ میں نمبراول پر وہ مسلمان مراد ہے جو مسلمان تو ہے مگراس نے ایمانی اور اسلامی فرائض کو کماحقہ ادا نہ کرکے اپنے نفس پر ظلم کیا اور دوسرے نمبر پر وہ ہے جس نے دینی واجبات کو ادا کیا اور محرمات سے بچا وہ مومن مطلق ہے اور تیسرا سابق بالخیرات وہ محسن ہے جس نے اللہ کی عبادت بایں طور کی گویا وہ اس کود یکھ رہا ہے۔ حاصل یہ کہ دین کے یہی تین مدارج ہیں۔ اول اسلام، اوسط ایمان، اعلیٰ احسان، اسلام انقیاد ظاہری اور ایمان تصدیق خدا اور رسول کے ساتھ انقیاد باطن کا نام ہے۔ اس لحاظ سے اسلام و ایمان میں جوفرق ہے وہ بھی ظاہر ہے۔ پھر ایمان مجمل تو یہ کہ اللہ ورسول کی تصدیق کی جائے اور قیامت وتقدیر وجملہ رسل انبیاءکرام وفرشتوں پر ایمان لایا جائے اور ایمان مفصل کی کچھ اوپر ساٹھ یا سترشاخیں ہیں۔ جن میں سے کچھ کے متعلق وہ احادیث ہیں جن کو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتاب الایمان میں روایت فرما رہے ہیں۔ ہرحدیث کے مطالعہ کے ساتھ اس حقیقت کو سامنے رکھنے سے بہت سے علمی وروحانی فوائد حاصل ہوں گے۔ وباللہ التوفیق۔

حدیث نمبر : 8
حدثنا عبيد الله بن موسى، قال أخبرنا حنظلة بن أبي سفيان، عن عكرمة بن خالد، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والحج، وصوم رمضان‏"‏‏.
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ حدیث بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کی بابت حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی۔ انھوں نے عکرمہ بن خالد سے روایت کی انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مرفوع حدیث کو یہاں اس مقصد کے تحت بیان فرمایا کہ ایمان میں کمی وبیشی ہوتی ہے اور جملہ اعمال صالحہ وارکان اسلام ایمان میں داخل ہیں۔ حضرت امام کے دعاوی بایں طور ثابت ہیں کہ یہاں اسلام میں پانچ ارکان کو بنیاد بتلایاگیا اور یہ پانچوں چیزیں بیک وقت ہرایک مسلمان مردوعورت میں جمع نہیں ہوتی ہیں۔ اسی اعتبار سے مراتب ایمان میں فرق آ جاتا ہے عورتوں کو ناقص العقل والدین اسی لیے فرمایا گیا کہ وہ ایک ماہ میں چندایام بغیرنماز کے گزارتی ہیں۔ رمضان میں چند روزے وقت پر نہیں رکھ پاتیں۔ اسی طرح کتنے مسلمان نمازی بھی ہیں جن کے حق میں واذا قامواالی الصلوۃ قاموا کسالیٰ ( النساء: 142 ) کہا گیا ہے کہ وہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں توبہت ہی کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پس ایمان کی کمی وبیشی ثابت ہے۔
اس حدیث میں اسلام کی بنیادی چیزوں کو بتلایا گیا ہے۔ جن میں اوّلین بنیادتوحید ورسالت کی شہادت ہے اور قصراسلام کے لیے یہی اصل ستون ہے جس پر پوری عمارت قائم ہے۔ اس کی حیثیت قطب کی ہے جس پر خیمہ اسلام قائم ہے باقی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ بہ منزلہ اوتاد کے ہیں۔ جن سے خیمے کی رسیاں باندھ کر اس کو مضبوط ومستحکم بنایا جاتا ہے، ان سب کے مجموعہ کا نام خیمہ ہے جس میں درمیانی اصل ستون ودیگر رسیاں واوتاد چھت سب ہی شامل ہیں۔ ہوبہو یہی مثال اسلام کی ہے۔ جس میں کلمہ شہادت قطب ہے۔ باقی اوتاد وارکان ہیں جن کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔
اس حدیث میں ذکر حج کو ذکرصوم رمضان پر مقدم کیا گیا ہے۔ مسلم شریف میں ایک دوسرے طریق سے صوم رمضان حج پر مقدم کیا گیا ہے۔ یہی روایت حضرت سعید بن عبیدہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ذکر کی ہے، اس میں بھی صوم رمضان کا ذکر حج سے پہلے ہے اور انھیں حنظلہ سے امام مسلم نے ذکرصوم کو حج پر مقدم کیا ہے۔ گویا حنظلہ سے دونوں طریق منقول ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طرح سنا ہے۔ کسی موقع پر آپ نے حج کا ذکر پہلے فرمایا اور کسی موقع پر صوم رمضان کا ذکر مقدم کیا۔
اسی طرح مسلم شریف کی روایت کے مطابق وہ بیان بھی صحیح ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمانے جب والحج و صوم رمضان فرمایا تو راوی نے آپ کو ٹوکا اور صوم رمضان والحج کے لفظوں میں آپ کو لقمہ دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ہکذا سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے “ والحج و صوم رمضان ” سنا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسلم شریف والے بیان کو اصل قرار دیا ہے اور بخاری شریف کی اس روایت کو بالمعنی قراردیا ہے۔ لیکن خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع تصنیف میں ابواب حج کو ابواب صوم پر مقدم کیا ہے۔ اس ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہی روایت اصل ہے جس میں صوم رمضان سے حج کا ذکر مقدم کیا گیا ہے۔
صیام رمضان کی فرضیت 2ھ میں نازل ہوئی اور حج 6ھ میں فرض قراردیا گیا۔ جوبدنی ومالی ہردوقسم کی عبادات کا مجموعہ ہے۔ اقرار توحید ورسالت کے بعد پہلارکن نماز اور دوسرا رکن زکوۃ قرار پایا جوعلیحدہ علیحدہ بدنی ومالی عبادات ہیں، پھر ان کا مجموعہ حج قرار پایا، ان منازل کے بعد روزہ قرار پایا جس کی شان یہ ہے۔ الصیام لی وانا اجزی بہ ( بخاری کتاب الصوم ) یعنی روزہ خاص میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں ہی دے سکتا ہوں۔ فرشتوں کو تاب نہیں کہ اس کے اجروثواب کو وہ قلم بندکرسکیں۔ اس لحاظ سے روزے کا ذکر آخر میں لایاگیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے غالباً ایسے ہی پاکیزہ مقاصد کے پیش نظر ابواب صیام کو نماز، حج کے بعد قلم بندفرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے ان ارکان خمسہ کو اپنی اپنی جگہ پر ایسا مقام حاصل ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ سب کی تفصیلات اگرقلم کی جائیں توایک دفتر تیارہوجائے۔ یہ سب مراتب باہم ارتباط تام رکھتے ہیں۔ ہاں زکوٰۃ وحج ایسے ارکان ہیں جن سے غیرمستطیع مسلمان مستثنیٰ ہوجاتے ہیں۔ جو لایکلف اللہ نفسا الاوسعہا کے تحت اصول قرآنی کے تحت ہیں۔
حضرت علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں ارکان خمسہ میں جہاد کا ذکر اس لیے نہیں آیا کہ وہ فرض کفایہ ہے جو بعض مخصوص احوال کے ساتھ متعین ہے۔ نیز کلمہ شہادت کے ساتھ دیگر انبیاءوملائکہ پر ایمان لانے کا ذکر اس لیے نہیں ہوا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہی ان سب کی تصدیق ہے۔ فیستلزم جمیع ماذکر من المعتقدات اقامت صلوٰۃ سے ٹھہرٹھہر کرنماز ادا کرنا اور مداومت ومحافظت مراد ہے۔ ایتاءزکوٰۃ سے مخصوص طریق پر مال کاایک حصہ نکال دینا مقصود ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومن لطائف اسناد ہذا الحدیث جمعہ للتحدیث والاخبار والعنعنۃ وکل رجالہ مکیون الا عبیداللہ فانہ کوفی وہومن الرباعیات واخرج متنہ المولف ایضا فی التفسیر ومسلم فی الایمان خماسی الاسناد۔ یعنی اس حدیث کی سند کے لطائف میں سے یہ ہے کہ اس میں روایت حدیث کے مختلف طریقے تحدیث واخبار و عنعنہ سب جمع ہوگئے ہیں۔ ( جن کی تفصیلات مقدمہ بخاری میں ہم بیان کریں گے ان شاءاللہ ) اور اس کے جملہ راوی سوائے عبیداللہ کے مکی ہیں، یہ کوفی ہیں اور یہ رباعیات میں سے ہے ( اس کے صرف چارراوی ہیں جو امام بخاری اور آنحضرت کے درمیان واقع ہوئے ہیں ) اس روایت کے متن کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التفسیر میں بھی ذکر فرمایا ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے کتاب الایمان میں اسے ذکرکیا ہے۔ مگروہاں سند میں پانچ راوی ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ایمان کے کاموں کا بیان
وقول الله تعالى ‏{‏ليس البر أن تولوا وجوهكم قبل المشرق والمغرب ولكن البر من آمن بالله واليوم الآخر والملائكة والكتاب والنبيين وآتى المال على حبه ذوي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل والسائلين وفي الرقاب وأقام الصلاة وآتى الزكاة والموفون بعهدهم إذا عاهدوا والصابرين في البأساء والضراء وحين البأس أولئك الذين صدقوا وأولئك هم المتقون‏}‏‏.‏ وقوله ‏{‏قد أفلح المؤمنون‏}‏ الآية‏.‏

اور اللہ پاک کے اس فرمان کی تشریح کہ نیکی یہی نہیں ہے کہ تم ( نماز میں ) اپنا منہ پورب یا پچھم کی طرف کر لو بلکہ اصلی نیکی تو اس انسان کی ہے جو اللہ ( کی ذات و صفات ) پر یقین رکھے اور قیامت کو برحق مانے اور فرشتوں کے وجود پر ایمان لائے اور آسمان سے نازل ہونے والی کتاب کو سچا تسلیم کرے۔ اور جس قدر نبی رسول دنیا میں تشریف لائے ان سب کو سچا تسلیم کرے۔ اور وہ شخص مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں اپنے ( حاجت مند ) رشتہ داروں کو اور ( نادار ) یتیموں کو اور دوسرے محتاج لوگوں کو اور ( تنگ دست ) مسافروں کو اور ( لاچاری ) میں سوال کرنے والوں کو اور ( قیدی اور غلاموں کی ) گردن چھڑانے میں اور نماز کی پابندی کرتا ہو اور زکوٰۃ ادا کرتا ہو اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے جب وہ کسی امر کی بابت وعدہ کریں۔ اور وہ لوگ جو صبر و شکر کرنے والے ہیں تنگ دستی میں اور بیماری میں اور ( معرکہ ) جہاد میں یہی لوگ وہ ہیں جن کو سچا مومن کہا جا سکتا ہے اور یہی لوگ درحقیقت پرہیزگار ہیں۔ یقینا ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کرنے والے ہیں اور جو لغو باتوں سے برکنار رہنے والے ہیں اور وہ جو زکوٰۃ سے پاکیزگی حاصل کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے کیونکہ ان کے ساتھ صحبت کرنے میں ان پر کوئی الزام نہیں۔ ہاں جو ان کے علاوہ ( زنا یا لواطت یا مشت زنی وغیرہ سے ) شہوت رانی کریں ایسے لوگ حد سے نکلنے والے ہیں۔ اور جو لوگ اپنی امانت و عہد کا خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی کامل طور پر حفاظت کرتے ہیں یہی لوگ جنت الفردوس کی وراثت حاصل کر لیں گے پھر وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔


حدیث نمبر : 9
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا أبو عامر العقدي، قال حدثنا سليمان بن بلال، عن عبد الله بن دينار، عن أبي صالح، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ الإيمان بضع وستون شعبة، والحياء شعبة من الإيمان‏"‏‏.
ہم سے بیان کیا عبداللہ بن محمد جعفی نے، انھوں نے کہا ہم سے بیان کیا ابو عامر عقدی نے، انھوں نے کہا ہم سے بیان کیا سلیمان بن بلال نے، انھوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے روایت کیا ابوصالح سے، انہوں نے نقل کیا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نقل فرمایا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیا ( شرم ) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔

تشریح : حضرت ا میرالمحدثین علیہ الرحمۃ سابق میں بنیادی چیزیں بیان فرما چکے اب فروع کی تفصیل پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے باب میں “ امور الایمان ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مرجیہ کی تردید کرنا بھی مقصود ہے۔ کیونکہ پیش کردہ قرآنی آیات کریمہ میں سے پہلی آیت میں بعض امور ایمان گنائے گیے ہیں اور دوسری آیتوں مین ایمان والوں کی چند صفات کا ذکر ہے۔ پہلی آیت سورۃ بقرہ کی ہے جس میں دراصل اہل کتاب کی تردید مقصود ہے۔ جنہوں نے تحویل قبلہ کے وقت مختلف قسم کی آواز یں اٹھائی تھیں۔ نصاریٰ کا قبلہ مشرق تھا اور یہود کا مغرب۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کو قبلہ قراردیا، پھر مسجد الحرام کو آپ کا قبلہ قرار دیاگیا اور آپ نے ادھر منہ پھیر لیا۔ اس پر مخالفین نے اعتراضات شروع کئے۔ جن کے جواب میں اللہ پاک نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی اور بتلایا کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرکے عبادت کرنا ہی بالذات کوئی نیکی نہیں ہے۔اصل نیکیاں تو ایمان راسخ، عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ معاشرتی پاک زندگی اور اخلاق فاضلہ ہیں۔

حافظ ابن حجر نے عبدالرزاق سے بروایت مجاہد حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ انہو ں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا تھا۔ آپ نے جواب میں آیت شریفہ لیس البر ان تولو ا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من آمن باللہ والیوم الآخرہ والملائکۃوالکتٰب والنبیین واٰتی المال علی حبہ ذوی القربی ٰ والیتمی والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب واقام الصلٰوۃ واتٰی الزکٰوۃ والموفون بعھدھم اذا عاھدوا والصٰبرین فی الباساءوالضراءو حین الباس اولٰئک الذین صدقوا واولٰئک ھم المتقون ( البقرہ : 177 ) ترجمہ اوپر باب میں لکھا جا چکا ہے۔
آیات میں عقائد صحیحہ وایمان راسخ کے بعد ایثار، مالی قربانی، صلہ رحمی، حسن معاشرت، رفاہ عام کو جگہ دی گئی ہے۔ اس کے بعد اعمال اسلام نماز، زکوٰۃ کا ذکر ہے۔ پھر اخلاق فاضلہ کی ترغیب ہے۔ اس کے بعد صبر واستقلال کی تلقین ہے۔ یہ سب کچھ “ بر ” کی تفسیرہے۔ معلوم ہوا کہ جملہ اعمال صالحہ واخلاق فاضلہ ارکان اسلام میں داخل ہیں۔ اور ایمان کی کمی وبیشی بہر حال وبہر صورت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ مرجیہ جو اعمال صالحہ کو ایمان سے الگ اور بیکا ر محض قرار دیتے ہیں اور نجات کے لیے صرف “ ایمان ” کو کافی جانتے ہیں۔ ان کا یہ قول سراسر قرآن وسنت کے خلاف ہے۔
سورۃ مومنون کی آیات یہ ہیں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم قد افلح المومنون الذین ھم فی صلاتھم خٰشعون والذین ھم عن اللغومعرضون والذین ھم للزکوۃ فٰعلون والذین ھم لفروجھم حٰفظون الا علیٰ ازواجھم اوما ملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین فمن ابتغیٰ وراءذلک فاولٰئک ھم العٰدون والذین ہم لامٰنٰتھم وعھدھم رٰعون والذین ھم علیٰ صلاتھم یحافظون اولٰئک ھم الوارثون الذین یرثون الفردوس ھم فیھا خٰلدون ( المؤمنون: 11-1 )
اس پیرایہ میں یہ بیان دوسر ااختیار کیا گیا ہے۔ مقصد ہر دو آیات کا ایک ہی ہے۔ ہاں اس میں بذیل اخلاق فاضلہ، عفت۔عصمت شرم وحیا کو بھی خاص جگہ دی گئی ہے۔ اس جگہ سے آیت کا ارتباط اگلی حدیث سے ہو رہا ہے جس میں حیا کو بھی ایمان کی ایک شاخ قرار دیا گیا ہے۔
حضرت امام نے یہاں ہر دو آیت کے درمیان واؤ عاطفہ کا استعمال نہیں فرمایا۔ مگر بعض نسخوں میں واؤ عاطفہ اور بعض میں و قول اللہ کا اضافہ بھی ملتا ہے۔ اگران نسخوں کو نہ لیا جائے تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ وجہ بیان فرمائی کہ حضرت الامام پہلی آیت کی تفسیر میں المتقون کے بعد اس آیت کو بلا فصل اس لیے نقل کر رہے ہیں۔ تاکہ متقون کی تفسیر اس آیت کو قرار دے دیا جائے۔ مگر ترجیح واؤ عاطفہ اور و قول اللہ کے نسخوں کو حاصل ہے۔
آیات قرآنی کے بعد حضرت امام نے حدیث نبوی کو نقل فرمایا اور اشارتاً بتلایا کہ امور ایمان ان ہی کو کہا جاناچاہیے جو پہلے کتاب اللہ سے اور پھر سنت رسول سے ثابت ہوں۔ حدیث میں ایمان کو ایک درخت سے تشبیہ دیکر اس کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں بتلائی گئی ہیں۔ اس میں بھی مرجیہ کی صاف تردید مقصود ہے جو ایمان سے اعمال صالحہ کو بے جوڑ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ کی درخت کی جڑمیں اور اس کی ڈالیوں میں ایک ایسا قدرتی ربط ہے کہ ان کو باہمی طور پر بے جوڑ بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ جڑ قائم ہے تو ڈالیاں اور پتے قائم ہیں۔ جڑ سوکھ رہی ہے تو ڈالیاں اور پتے بھی سوکھ رہے ہیں۔ ہو بہو ایمان کی یہی شان ہے۔ جس کی جڑ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ ہے۔ اور جملہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ وعقائد راسخہ اس کی ڈالیاں ہیں۔ اس سے ایمان واعمال صالحہ کا باہمی لازم ملزوم ہونا اور ایمان کا گھٹنا اور بڑھنا ہر دو امور ثابت ہیں۔
بعض روایت میں بضع وستون کی جگہ بضع وسبعون ہے اور ایک روایت میں اربع وستون ہے۔ اہل لغت نے بضع کا اطلاق تین اور نو کے درمیان عدد پر کیا ہے۔ کسی نے اس کا اطلاق ایک اور چار تک کیا ہے، روایت میں ایمان کی شاخون کی تحدید مراد نہیں بلکہ کثیر مراد ہے۔ علامہ طیبی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔ بعض علماءتحدید مراد لیتے ہیں۔ پھر ستون ( 60 ) اور سبعون ( 70 ) اور زائد سبعون کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ زائد میں ناقص بھی شامل ہو جاتا ہے۔بعض حضرات کے نزدیک ستون ( 60 ) ہی متیقن ہے۔ کیونکہ مسلم شریف میں بروایت عبداللہ بن دینار جہاں سبعون کا لفظ آیا ہے بطریق شک واقع ہوا ہے۔
والحیاءشعبۃ من الایمان میں تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ حیا طبیعت کے انفعال کو کہتے ہیں۔ جو کسی ایسے کام کے نتیجہ میں پیدا ہو جو کام عرفاً شرعاً مذموم، برا، بےحیائی سے متعلق سمجھا جاتا ہو۔ حیا وشرم ایمان کا اہم ترین درجہ ہے۔ بلکہ جملہ اعمال خیرات کا مخزن ہے۔اسی لیے فرمایا گیا اذا لم تستحی فاصنع ما شئت جب تم شرم وحیا کو اٹھا کر طاق پر رکھ دو پھر جو چاہو کرو۔ ” کوئی پابندی باقی نہیں رہ سکتی۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث ہذا کی تشریح میں مستقل ایک کتاب شعب الایمان کے نام سے مرتب فرمائی ہے۔ جس میں ستر سے کچھ زائد امور ایمان کو مدلل ومفصل بیان فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ امام ابو عبداللہ حلیمی نے فوائد المنہاج میں اور اسحاق ابن قرطبی نے کتاب النصائح میں اور امام ابو حاتم نے وصف الایمان وشعبہ میں اور دیگر حضرات نے بھی اپنی تصنیفات میں ان شاخوں کو معمولی فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان سب کو اعمال قلب ( دل کے کام ) اعمال لسان ( زبان کے کام ) اعمال بدن ( بدن کے کام ) پر تقسیم فرماکر اعمال قلب کی 24شاخیں اور اعمال لسان کی سات شاخیں اور اعمال بدن کی 38شاخیں بالتفصیل ذکر کی ہیں۔ جن کا مجموعہ 69بن جاتا ہے۔ روایت مسلم میں ایمان کی اعلیٰ شاخ کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ اور ادنیٰ شاخ اماطۃ الاذی عن الطریق بتلائی گئی ہے۔ اس میں تعلق باللہ اور خدمت خلق کا ایک لطیف اشارہ ہے۔ گویا دونوں لازم وملزوم ہیں۔ تب ایمان کامل حاصل ہوتا ہے۔ خدمت خلق میں راستوں کی صفائی، سڑکوں کی درستگی کو لفظ ادنیٰ سے تعبیر کیا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خدمت خلق کا مضمون بہت ہی وسیع ہے۔ یہ توایک معمولی کام ہے جس پر اشارہ کیا گیا ہے۔ ایمان باللہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے شروع ہوکر اس کی مخلوق پر رحم کرنے اور مخلوق کی ہرممکن خدمت کرنے پر جاکر مکمل ہوتا ہے۔ اس شعر کے یہی معنی ہیں
خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر

 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان بچے رہیں ( کوئی تکلیف نہ پائیں )

حدیث نمبر : 10
حدثنا آدم بن أبي إياس، قال حدثنا شعبة، عن عبد الله بن أبي السفر، وإسماعيل، عن الشعبي، عن عبد الله بن عمرو ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله وقال أبو معاوية حدثنا داود عن عامر قال سمعت عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال عبد الأعلى عن داود عن عامر عن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے یہ حدیث بیان کی، ان کو شعبہ نے وہ عبداللہ بن ابی السفر اور اسماعیل سے روایت کرتے ہیں، وہ دونوں شعبی سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا۔ ابو عبداللہ امام بخاری نے فرمایا اور ابو معاویہ نے کہ ہم کو حدیث بیان کی داؤد بن ابی ہند نے، انھوں نے روایت کی عامر شعبی سے، انھوں نے کہا کہ میں نے سنا عبداللہ بن عمرو بن عاص سے، وہ حدیث بیان کرتے ہیں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( وہی مذکورہ حدیث ) اور کہا کہ عبدالاعلیٰ نے روایت کیا داؤد سے، انھوں نے عامر سے، انھوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

تشریح : امیر المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں یہ بات ثابت کی ہے کہ اسلام کی بنیاد اگرچہ پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ مگر اس سے آگے کچھ نیک عادات، پاکیزہ خصائل بھی ایسے ہیں جو اگرحاصل نہ ہوں تو انسان حقیقی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ نہ پورے طور پر صاحب ایمان ہو سکتا ہے اور اسی تفصیل سے ایمان کی کمی وبیشی وپاکیزہ اعمال ونیک خصائل کا داخل ایمان ہونا ثابت ہے۔ جس سے مرجیہ وغیرہ کی تردید ہوتی ہے۔ جوایمان کی کمی وبیشی کے قائل نہیں۔نہ اعمال صالحہ واخلاق حسنہ کو داخل ایمان مانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا قول نصوص صریحہ کے قطعاً خلاف ہے۔ زبان کو ہاتھ پر اس لیے مقدم کیا گیا کہ یہ ہر وقت قینچی کی طرح چل سکتی ہے اور پہلے اسی کے وارہوتے ہیں۔ ہاتھ کی نوبت بعد میں آتی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے۔
جراحات السنان لہا التیام
ولایلتام ماجرح اللسان

“ یعنی نیزوں کے زخم بھرجاتے ہیں اور زبانوں کے زخم عرصہ تک نہیں بھرسکتے۔ ”

“ من سلم المسلمون ” کی قید کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیرمسلمانوں کو زبان یاہاتھ سے ایذا رسانی جائز ہے۔ اس شبہ کو رفع کرنے کے لیے دوسری روایت میں “ من امنہ الناس ” کے لفظ آئے ہیں۔ جہاں ہر انسان کے ساتھ صرف انسانی رشتہ کی بنا پر نیک معاملہ واخلاق حسنہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام کا ماخذ ہی سلم ہے جس کے معنی صلح جوئی، خیرخواہی، مصالحت کے ہیں۔ زبان سے ایذارسانی میں غیبت، گالی گلوچ، بدگوئی وغیرہ جملہ عادات بدداخل ہیں اور ہاتھ کی ایذارسانی میں چوری، ڈاکہ، مارپیٹ، قتل وغارت وغیرہ وغیرہ۔ پس کامل انسان وہ ہے جو اپنی زبان پر، اپنے ہاتھ پر پورا پورا کنٹرول رکھے اور کسی انسان کی ایذا رسانی کے لیے اس کی زبان نہ کھلے، اس کا ہاتھ نہ اٹھے۔ اس معیار پر آج تلاش کیا جائے تو کتنے مسلمان ملیں گے جو حقیقی مسلمان کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ غیبت، بدگوئی، گالی گلوچ توعوام کا ایسا شیوہ بن گیا ہے گویا یہ کوئی عیب ہی نہیں ہیں۔ استغفراللہ! شرعاً مہاجر وہ جودارالحرب سے نکل کر دارالسلام میں آئے۔ یہ ہجرت ظاہر ی ہے۔ ہجرت باطنی یہ ہے جو یہاں حدیث میں بیان ہوئی اور یہی حقیقی ہجرت ہے جو قیامت تک ہر حال میں ہرجگہ جاری رہے گی۔

حضرت امام قدس سرہ نے یہاں دوتعلیقات ذکر فرمائی ہیں۔ پہلی کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ عامر اور شعبی ہردو سے ایک ہی راوی مراد ہے۔ جس کا نام عامر اور لقب شعبی ہے۔ دوسرا مقصد یہ کہ ابن ہندہ کی روایت سے شبہ ہوتا تھا کہ عبداللہ بن عمروبن عاص سے شعبی نے براہِ راست اس روایت کو نہیں سنا۔ اس شبہ کے دفعیہ کے لیے عن عامر قال سمعت عبداللہ بن عمرو کے الفاظ نقل کئے گئے۔ جن سے براہ ِ راست شعبی کا عبداللہ بن عمروبن عاص سے سماع ثابت ہوگیا۔

دوسری تعلیق کا مقصد یہ کہ عبدالاعلیٰ کے طریق میں “ عبداللہ ” کو غیرمنتسب ذکر کیاگیا جس سے شبہ ہوتا تھا کہ کہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مراد نہ ہوں جیسا کہ طبقہ صحابہ میں یہ اصطلاح ہے۔ اس لیے دوسری تعلیق میں “ عن عبداللہ بن عمرو ” کی صراحت کردی گئی۔ جس سے حضرت عبداللہ بن عمرو عاص مراد ہیں۔
 
Top