• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ چند الزامات کا تحقیقی جائزہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
چند الزامات کا تحقیقی جائزہ


مولانا رفیع احمدمدنی

ناشر
فارغین جامعہ سلفیہ
(مرکزی دارالعلوم )بنارس(۲۰۱۶ ؁ء)

جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ


نام کتاب: میاں نذیر حسین محدث دہلوی :چند الزامات کا تحقیقی جائزہ
مؤلف: مولانا رفیع احمدمدنی
ناشر : فارغین جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم بنارس(۲۰۱۶ ؁ء)
سال اشاعت: مئی ۲۰۱۶ء ؁
صفحات: ۱۱۵
قیمت:


ملنے کا پتہ
مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن، یوپی
مکتبہ سلفیہ جامعہ سلفیہ ریوڑی تالاب وارانسی۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف آغاز

بر صغیر ہندو پاک میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی انقلابی تحریک کو آگے بڑھانے میں شیخ الکل فی الکل حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا کلیدی رول رہا ہے۔ شاہ اسحاق محدث دہلوی کے مکہ ہجرت کے بعدمیاں صاحب ان کی مسند تدریس پر فروکش ہوئے اور سرزمین دہلی سے کتاب وسنت کا غلغلہ بلند کیا جس کی بازگشت ملک و بیرون ملک میں واضح طور پر سنائی دی۔ میاں صاحب کی اس درس گاہ سے باکمال علما اورباوقار فضلا کی ایک مقدس جماعت نکلی جس نے ہندوستان میں علم قرآن وحدیث کی تر ویج واشاعت کو اپنا وظیفہ حیات بنا لیا اورتقلیدی جمود کو فرو کرنے اور ولی اللہی فکر کو پروان چڑھانے میں بڑی محنت وجانفشانی کا مظاہرہ کیا۔ حضرت میاں صاحب کے ارشد تلامذہ کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کے ذکر کے لیے ایک رجسٹر درکار ہے ؂

سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
برا ہو اس مسلکی تعصب اور بغض وعناد کا جس نے انیسوی صدی کے اس مرد مجاہد کی خدمات پر پردہ ڈالنے اور اس پر نیش زنی کرنے میں تمام اخلاقی حدودکوپامال کر دیا۔ وہ شخص جو تحریک آزادی فکر کا نقیب، شاہ ولی اللہ کے نظریات کا امین ، جماعت سلف کا پاسبان ونگہبان، کتاب وسنت کا داعی ، حضرت شاہ اسحاق کا شاگرد خاص.... تھا ، امت کے ایک طبقے کی نگاہ میں معتوب و مغضوب ٹھہرا، اس پر دنیا جہان کے الزامات عائد کر کے اس کی تاب ناک شخصیت کو مسخ کرنے کی ناپاک کوششیں کی گئیں۔ آپ کا ’’جرم‘‘ صرف اتنا تھا کہ آپ تقلید کے بجائے عمل بالحدیث کے قائل تھے اور کتاب وسنت ہی کو اصل مرجع ومنبع قرار دیتے تھے ؂

اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیث مصطفی بر جاں مسلم داشتن
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
زیر نظر کتاب میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی سوانح، شاہ اسحاق سے تلمذ اور آپ کے حکومت انگلشیہ کے متعلق رویہ پر مشتمل ہے۔ یہ رسالہ در حقیقت ایک مفصل مقالہ ہے جو ماہنامہ محدث بنارس کے اکتوبر ۱۹۸۵ ؁ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ مدیر مجلہ مولانا صفی الرحمن مبارک پوری صاحب نے اس کی افادیت کے پیش نظر محدث کے شمارے کو اس رسالے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ مذکورہ مقالہ بعض غلط فہمیوں کے سبب مولانا اقبال احمد سلفی کے نام سے مجلہ میں شائع ہوا تھا تاہم تحقیق حال اور بعض اساتذہ کی رہنمائیوں کے بعد اصل مصنف کی بازیافت ہوئی۔ مؤلف مولانا رفیع احمد مدنی نیز مولانا اقبال احمد سلفی صاحبان سے استفسار کے بعد یہ عقدہ حل ہوا ور دونوں حضرات نے مؤلف کی طرف صحیح نسبت فرمائی۔ اس لیے محدث کے اس شمارے کو لے کر کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم بنارس کے فضیلت سال آخر کے طلبہ یاد دگار کے طور پر ہر سال کسی کتاب کی اشاعت کا اہتمام کرتے ہیں۔ زیر نظر کتاب اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ہے جو امسال (2016ء) کے فارغین کی جانب سے پیش خدمت ہے۔ بایں موقع ہم استاذگرامی مولانا اسعد اعظمی صاحب ( مدیر مجلہ صوت الامہ) کے ممنون ومشکور ہیں جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت کی طرف توجہ مبذول کرائی ۔ علاوہ ازیں ہم استاد گرامی مولانا محمد مستقیم سلفی اور مولانا محمد ابوالقاسم فارقی صاحبان کے بھی شکر گذار ہیں جنہوں نے کتاب کے اصل مصنف کی طرف رہنمائی فرمائی ۔ فاروقی صاحب اس لحاظ سے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں

کہ آپ نے اس کتاب کے اول حصہ (میاں صاحب کی سوانح ) پر نظر ثانی کی اور ہماری و مؤلف کی فرمائش پر اس کا مراجعہ کیا نیز اپنے تاثراتی کلمات کے ذریعہ کتاب کو زینت بخشی۔ کتاب کے مؤلف نامور محقق محترم مولانا رفیع احمد مدنی حفظہ اللہ کے حضور گلہائے تشکر پیش کرتے ہیں کہ آپ نے اس کتاب کی اشاعت میں نہ صرف بھرپورمعاونت فرمائی بلکہ ہماری درخواست پر حضرت میاں صاحب کی سوانح بھی مرتب فرمائی۔ حالاں کہ آپ بہت ہی مصروف ترین شخص ہیں پھر بھی اس کام کے لیے اپنے قیمتی اوقات سے کچھ حصہ ہمارے لیے نکال ہی لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میاں صاحب کی زیر نظر سوانح عمری حالت سفر میں سرزمین حرمین شریفین میں لکھی گئی ہے ۔ شاید اسی کی برکت ہے کہ یہ چیز اب تک میاں صاحب کی سوانح پر لکھی گئی تمام تحریروں سے ہٹ کر اور تحقیقی انداز سے ایک نئے اسلوب میں لکھی گئی ہے جوکچھ غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کر رہی ہے اورچند نئے حقائق کو بھی اجاگر کر رہی ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے مؤلف کی باریک بینی اور ژرف نگاہی کابآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اللہ رب العالمین ان مخلصین کی تمام خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے، دونوں جہان میں اس کا بہترین اجر عطا فرمائے اورصحت عافیت کے ساتھ ان بزرگوں کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے۔ مادر علمی جامعہ سلفیہ بنارس کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور اسے ہر قسم کی بلاؤں اورآفتوں سے محفوظ رکھے۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عوام و خواص کے حق میں مفید بنائے۔

ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد

از فارغین جامعہ سلفیہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
از قلم: مولانا محمد ابوالقاسم فاروقی
مدیر مجلہ محدث واستاذ جامعہ سلفیہ ،بنارس


ہم نے تعلیمی اور تدریسی دونوں دور میں دیکھا کہ طلبہ کے لیے سب سے کٹھن لمحے وہ ہوتے ہیں جب وہ سند فراغت حاصل کر کے اپنے مادر علمی سے جدا ہوتے ہیں ۔ مسرت اور غم کے ملے جلے جذبات واحساسات ناقابل اظہار ہوتے ہیں، خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ وہ اپنا تعلیمی مرحلہ مکمل کر کے ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے جا رہے ہیں ، غم یہ ہوتا ہے کہ وہ چمن ان سے چھوٹ رہا ہے جس میں انہو ں نے ایک طویل عرصہ گذارا ہے، جس کے پھولوں سے اپنے دامن بھرا ہوا ہے، خوشبوؤں سے مشام جاں معطر کیا ہے۔ طالب علمی کایہ دور پوری زندگی کا سب سے سنہری دور ہوتا ہے ، نہ مسائل ہوتے ہیں ، نہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں ، کلاس ، محفلیں ، انجمنیں، مطالعہ، آگے بڑھنے کاجذبہ ،تحریر ،تقریر اور تعلیم کے میدان میں منافست اور مقابلہ آرائی ، ہدف پالینے کی لگن اور آرزو، یہی زندگی ، یہی علمی فضا طالب علم کی زندگی کا سرمایۂ حیات ہوتا ہے ، یہی اس کی کل کائنات ہوتی ہے۔ جب وہ یہاں سے جانے لگتا ہے تو اس کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کی حسین یادوں کو دیدۂ دل کا آئینہ بنالے ا ور ایک ایک نقش کو ستارہ بنا کر پلکوں میں سجا لے۔

ہمارے جامعہ کے فضیلت ثالث کے طلبہ نے وداعی لمحات کو جاوداں اور کیف آگیں بنانے کے لیے کوئی اور ہی طرز جنوں ایجاد کیا ہے۔ وہ اپنے اس تربیت کدہ سے ایک شمع فروزاں اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں ۔ یہ ان کے لیے یادوں کی حسین سوغات بھی ہوتی ہے اور شب دیجور میں مشعل راہ بھی ۔ یہ ان کے علمی ذوق کا عکاس بھی ہوتی ہے اور منہج سلف کا ترجمان بھی، اپنے مادر علمی سے محبت کااظہار بھی اور نئی راہوں میں شریک سفر بھی ہوتی ہے۔ سند فراغت حاصل کرنے والے یہ طلبہ کسی ایسی کتاب کی اشاعت کا انتظام کرتے ہیں جو ان کی کردار سازی ،تعمیر سیرت میں ممد اور معاون ہوئی ہونیز طلبہ اور عوام میں یکساں افادیت کی حامل ہو۔

امسال فضیلت سال آخر کے طلبہ نے اشاعت کے لیے ایک ایسی کتاب کا انتخاب کیا جو ماہنامہ محدث کے خاص نمبر کی شکل میں آج سے بتیس سال قبل شائع ہو کر علمی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔ کتاب ایک تحقیقی دستاویز ہے، اس کاموضوع شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی ذات گرامی سے متعلق ہے، دوبارہ اس کی اشاعت وقت کا اہم تقاضا ہے ۔

اس مقام پر میں ماضی کے دریچوں کو کھولنا چاہتا ہوں تاکہ اس کی روشی میں آپ موضوع کی اہمیت کا اندازہ لگا سکیں ۔ آج ہندوستان میں قال اللہ وقال الرسول کی جو جاں افزا صدائیں گونج رہی ہیں ، مدارس کی ہمہ ہمی ، توحید کے چرچے ، سلفیت اور اہل حدیثیت کی جو ضیا پاشیاں نگاہوں کو خیرہ کر رہی ہیں اسی عظیم شخصیت کا عکس جمیل ہیں جنہیں ہم میاں صاحب محدث دہلوی کہتے ہیں ۔ بر صغیر میں اہل حدیثیت کی نشاۃ ثانیہ آپ کے دم سے ہوئی ، تقلیدیت اور تصوف کے طلسماتی فریب کا پردہ چاک کرنے والے بھی آپ ہی تھے، ہندوستان کے مسلمان کتاب وسنت کی برکتوں سے محروم تھے ، آپ نے اس کے سوتے کو جاری کر دیا ، آپ کے بارے میں اس قدر لکھا جاچکا ہے کہ ’’نذیریات‘‘ مستقل ایک موضوع بن چکا ہے ۔ آپ ایک سید زادے تھے مگر عالی نسبی کا سہارا لے کر پیری مریدی کی دکان نہیں سجائی ، درویشی اور قلندری رگ وریشے میں سرایت تھی ،مگر کوئی خانقاہ ،تکیہ اور دائرہ بنا کر جذب ووجد کی کیفیت میں نہیں ڈوب گئے ،آپ نے ہواؤں کے رخ پر بہنا گوارہ نہ کیا ، اللہ کی مشیت تو آپ سے کچھ اور کام لینے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ آپ نے دلی کی گنجان آبادی میں شریعت مطہرہ کا ایک مرکز قائم کیا ، درس وتدریس کی بنا ڈال دی ، جس کے فیضان نے ملک وبیرون ملک کا احاطہ کر لیا۔

دعوت وعزیمت کی راہ میں بلاؤں کا آنا لازمی ہے ۔ آپ تو نبوت ورسالت کے سچے جانشین اور شریعت مطہرہ کے امین تھے، سیرت نبوی کے مشعل بردار تھے۔ جو رہبران ملت کا تمغہ لگا کر اپنی دکان چلا رہے تھے، آپ کے دشمن بن گئے ۔ تقلیدیت کے ستون لرزنے لگے تو نام نہاد پیشواؤں کی جبینیں عرق آلود ہونے لگیں ، قدم قدم پر رکاوٹیں پیدا کی جانے لگیں، الزامات ،اتہامات ، کردار کشی، وطن سے غداری، انگریزوں سے وفاداری، تکفیر وتفسیق، کے فتاووں کی یورشیں ہونے لگی، مگریہ بوریہ نشین کوہ گراں ثابت ہوا ؂

کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی

کوشش یہ تھی کہ کس طرح اس عظیم شخصیت کی شبیہ کو داغ دار کر دیا جائے، اس کے منصب ومقام کو مشکوک کر دیا جائے تاکہ ظنون واوہام کی وادیاں سر سبز وشاداب رہیں اور قیادت وسیادت کی لگام ان کے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ آپ کے شاگردوں نے تحمل ،رواداری اور صبر کا دامن کبھی نہ چھوڑا، خود آپ نے ہر سب وشتم کا استقبال مسکراہٹ کے ساتھ کیا، اہل حدیث عالم جارح نہیں ہوتا ہے مگروہ جارحیت کا جواب دلائل ،براہین، تحقیق اور تدقیق سے دینا خوب جانتا ہے۔ جھوٹ پر جھوٹ بولے جائیں اور تاریخ میں خیانت کی جائے تو حقائق کا انکشاف ضرور ی ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے میاں صاحب کی شاہ محمد اسحاق مہاجر مکی کی شاگردی کا مسئلہ کو معرکۂ کار زاربنایا گیا۔ ایک صاحب قاری عبدالرحمن پانی پتی نے ’’کشف الحجاب‘‘ نامی کتاب ہی لکھ ڈالی اور من گھڑت روایات کا طومار لگا دیا جس کا جواب مولانا محمد سعید صاحب محدث بنارسی نے ’’ہدایۃ المرتاب برد ما في کشف الحجاب‘‘ کے نام سے دندان شکن جواب دیا لیکن دیوبندی مکتبۂ فکر نے باقاعدہ محاذ بنا لیا جو آج تک جاری ہے ۔ اتحاد واتفاق کا نعرہ لگانے والے، ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں کی دعوت دینے والے ، تحفظ شریعت کی دہائی دینے دینے والے ، جبۂ ودستار ، تقدس اور عزت مآبی کی آڑ میں کیا کیا گل کھلاتے ہیں اور تاریخ سازی کی کس طرح کوششیں کرتے ہیں اس کا اندازہ ان کی کتابوں کو پڑھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

زیر نظر کتاب بھی میاں صاحب سے متعلق چند گھناؤنے الزامات کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ ہے۔ آج بھی ایک گروہ مسلسل چبائے ہوئے لقمے کو چبا رہا ہے، جھوٹی اور من گھڑت روایات کی تکرار پر تلا ہوا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دفاع عن السنت سے متعلق اسلاف کی کتابوں کی بار بار اشاعت کی جائے اور ان موضوعات پر لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے ،یہ تحفظ سنت کا فریضہ ہے ۔ اس سے اغماض برتنا دین میں مداہنت ہے ۔ مقالہ کے مرتب جامعہ سلفیہ کے فاضل شیخ رفیع احمد مدنی (مقیم حال سڈنی آسٹریلیا)ہیں۔ فضیلت ثالث کے طلبہ نے اس کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ کتاب انہیں جامعہ کے نصب العین اور اہداف و مقاصد کی ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی ۔ اللہ رب العالمین کے حضور دعا گو ہوں کہ اے اللہ! تو ہمارے ایمان اور عقیدے کی حفاظت فرما، ہمارے یہ بچے جو عملی دنیا میں قدم رکھ رہے ہیں ، انہیں دین کا سچا خادم ، داعی اور عالم با عمل بنا ، تو ان کی دینی خدمات کو ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنا ۔ ربنا آتنا في الدنیا حسنۃ وفي الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔

محمد ابوالقاسم فاروقی
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
گزارش احوال واقعی

میں نے ۱۹۷۶ء ؁ میں ایک مضمون لکھا تھا۔ یہ مضمون میاں نذیر حسین محدث دہلوی (۱۸۰۵۔۱۹۰۲ء ؁ مطابق ۱۲۲۰۔۱۳۲۰ ؁ھ) کے بارے میں تھا۔ اکتوبر ۱۹۸۵ء ؁ میں اسی کو ماہنامہ محدث میں شائع کیا گیا۔ اشاعت کے سالوں بعد مجھے اس کی اطلاع ملی۔ مولانا صفی الرحمن صاحب مبارکپور ی اس وقت محدث کے ایڈیٹر تھے۔آپ نے نہ صرف یہ کہ محدث کا پوراشمارہ اس مضمون کے لیے وقف کردیا بلکہ مبالغہ آرائی کی حد تک اس کی تعریف کی۔ انہوں نے لکھا کہ:’’......مناسب معلوم ہواکہ یہ محدث کا موجودہ شمارہ اسی مقالہ کی نذر کردیا جائے۔ آپ بھی پڑھیے اور حقائق کے علم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تحقیق وتدقیق کا بھی اندازہ لگائیے۔‘‘ اس جملہ نے مجھے خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔ یہ ایک طالب علمانہ کوشش تھی۔ میں نے پھر کبھی اس کو پڑھا نہ اس میں کوئی حک واضافہ کیا، لیکن مضمون کمپوز کرنے کے بعد عزیزم طارق اسعد نے اصرار کیا کہ میں پورا مضمون ایک بار ضرور پڑھ لوں ۔ ان کے محبت بھرے اصرار سے مجبور ہو کر مجھے یہ مضمون پڑھنا پڑا جس کے نتیجے میں کتابت کی غلطیوں کی اصلاح کے ساتھ کسی کسی جگہ زبان و بیان میں تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ ان معمولی تبدیلیوں کے علاوہ مضمون اپنی اصل شکل میں شائع ہورہا ہے۔

********
.جامعہ سلفیہ میں فضیلت کے آخری سال کے طلبہ کوئی کتاب یادگار کے طور پر شائع کرتے ہیں۔ اس سال کے طلبہ نے اسی مضمون کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس فیصلے سے مجھے حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی۔ اتفاقاً میں جامعہ سلفیہ آیا، ملاقات ہوئی تو ازراہ کرم یہ حکم ہوا کہ میاں صاحب کی زندگی پر ایک مضمون فراہم کیا جائے تاکہ وہ بھی شامل اشاعت ہوسکے۔ ان کی محبت کے سامنے میں انکار نہ کرسکا۔ مسلسل سفر میں ہونے کے باوجود حکم کی تعمیل کردی۔ کاش کہ یہ مضمون اور اطمینان سے کسی ایسی جگہ رہ کر لکھا جاتا جہاں سارے مراجع بآسانی دستیاب ہوتے۔ بہرحال یہ’’جہد مقل‘‘ پیش خدمت ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ پورا مضمون مکہ اور مدینہ میں لکھا گیا۔ یہ سطریں بھی مدینہ میں لکھی جارہی ہیں۔

********
میرا کافی دنوں سے خیال تھا کہ اس مضمون کو ازسر نو لکھوں، اور وہ سب مواد بھی سمیٹ لوں جو چالیس سال میں نظر سے گزرا ہے۔ جس وقت یہ مضمون لکھا گیا تھا اہل حدیث وسیاست اور ابوالکلام کی کہانی کے علاوہ اور کوئی خاص چیز نہیں مل سکی تھی جس سے رہنمائی لی جاسکے۔ اب صورت حال مختلف ہے۔ تحریک شہیدین سے متعلق بہت سارا مواد دستیاب ہے، قیام الدین احمد کی کتاب انگلش اور اردو میں شائع ہوکر مقبول عام ہوچکی ہے،احسن ڈیانوی اور تنزیل صدیقی کی کتاب منظر عام پر آئی ہے ، اس کا تیسرا ایڈیشن’’ بر صغیر ہندوپاک چندحقائق ‘‘ بڑا وقیع ہے، ڈاکٹر بہاء الدین نے قابل قدر کام کیا ہے۔ میری طالب علمانہ کوشش اس کے مقابل میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ مجھے ہمیشہ اس کا احساس رہا ہے کہ مزید کام کی ضرورت ہے۔ اسی لیے برابر مواد جمع کرتا رہا۔ علمائے احناف جن کتابوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ان بنیادی کتابوں کو تلاش کیا۔

گلشن آبادی کی جامع الفتاوی، نواب قطب الدین کی تحفۃ العرب والعجم، منصور علی کی فتح المبین فی تنبیہ الوہابیین، بدنام زمانہ ’’ تنبیہ الضالین‘‘، اور قاری عبدالرحمن پانی پتی کی ’’کشف الحجاب ‘‘ بتقدیم حکیم محمود احمد برکاتی وغیرہ تک رسائی ہوئی۔ ادھر احناف کے بعض دوسرے گرگے بھی کیل کانٹے سے لیس ہوکر میدان میں آگئے ہیں۔ حکیم محمود احمد برکاتی نے اپنی متعدد تحریروں میں اچھا خاصا معاندانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ اسی طرح پاکستان سے الیاس گھمن نے ایک انتہائی دل آزار کتاب شائع کرکے احناف کی ہمدردی اور چندہ حاصل کرنا چاہا ہے۔ گھمن صاحب کی زبان بھی بھی گندی ہے اور علم بھی سطحی ہے لیکن اندھوں میں کانا راجہ کی مثال صحیح ہیں۔ ان کے چیلے انہیں حکیم الاسلام کے لقب سے متعارف کرارہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان سب کا بھی جائزہ لیا جائے۔ ان شاء اللہ جلد ہی یہ کام بھی شروع کرنے کا ارادہ ہے، وباللہ التوفیق۔

میاں صاحب کی زندگی پر لکھا گیا مقالہ بھی مکمل نہیں لیکن جو کچھ ہوسکا پیش کردیا۔ میں میاں صاحب کی خانگی زندگی اور پورے خاندان سے ان کے روابط کو اور وسیع پیمانے پر پیش کرنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے مکاتیب میں اچھا خاصہ مواد موجود ہے۔ طوالت کے سبب اس کو کسی دوسرے وقت کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔ میں نے قصداً تصنیف وتالیف کو اس مضمون میں شامل نہیں کیا ہے،صرف فتاوی اور معیار کا ذکر استطراد ا آگیا ہے۔ یہی دونوں ان کی خاص تصنیفات میں شمار کی جاتی ہیں۔ اسی طرح مولانا شاہ اسحق کی جانشینی کے موضوع کو بھی نہیں چھیڑا ہے، میرا خیال تھا کہ شاگردی کے مسئلہ میں جو بحث ہے وہ کافی ہے۔ دہلی میں میاں صاحب کے سامنے نہ کسی کا چراغ جل سکتا تھا نہ جلا، اس لیے نہ بورڈ چل سکا نہ بورڈ کے ممبران، نہ ہی پانی پتی جیسے خود ساختہ جانشین کوئی کارنامہ انجام دے سکے۔ دیوبند اور بریلی حضرات کی ساری تگ ودو سلبی ہے۔ وہ میاں صاحب کا قد گھٹانا چاہتے ہیں تاکہ بونوں کو مقابل میں لایا جاسکے۔ حال ہی میں میں نے جب کشف الحجاب پڑھی تو میرا شبہ یقین میں بدل گیا۔ واقعی پانی پتی صاحب نے سارے پاپڑ اسی لیے بیلے ہیں۔ آپ بھی پڑھیں ان شاء اللہ اسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ لکھتے ہیں: ’’ پھر قطب صاحب میں سید نذیر حسین صاحب نے اپنے خسر کے پردے میں خلافت وجانشینی کی در خواست کی۔ جواب سخت سن کر ناامید ہوئے ۔‘‘ (ص:۳۱)

حاشیہ میں لکھتے ہیں:

’’ تفصیل آچکی ہے کہ جب قطب صاحب میں جناب مولانا اسحق صاحب نے ہجرت کے وقت چار روز موقف کیا، رؤسائے دہلی بھی بطور رخصت کے آئے۔ مجمع رئیسوں میں مولوی نذیر حسین صاحب نے جناب سے عرض کیا: ’’آپ دہلی کو علم سے خالی کیے جاتے ہیں۔ کسی کو اپنی جگہ اپنا جانشین فرمادیویں۔ اپنے شاگردوں خاص(کذا) جیسے مولوی عبد الخالق جو آپ کو قدیم شاگرد ہیں۔’’ اور مولوی عبد الخالق بھی موجود تھے۔ سمجھا ہوگا مولوی صاحب تو ضعیف ہیں، مجھے بھی خلیفہ فرمادیویں۔ مولوی صاحب نے غصہ سے فرمایا:’’ کونسی خدمت پادشاہی میں رکھتا تھا جو اپنا جانشین کرجاؤں۔‘‘ سید نذیر صاحب خاموش ہورہے، دوسرے دن پھر اسی مجمع میں عرض کیا: آپ کے بعد ہم کس سے پڑھا کریں؟ فرمایا جو لائق ہوگا وہ پڑھائے گا۔ پھر رئیس دہلی بھی سید نذیر حسین سے معین ہوئے اور عرض کیا اگر ہم کو آپ کے بعد کچھ شک ہوا کرے تو کس سے پوچھا کریں تو فرمایا قطب الدین خان اور عبد الرحمن کو حدیث پڑھا دی ہے۔ اگر حاجت ہو ان سے پوچھ لینا۔ جب سید نذیر نے جواب نامرادی کا سنا، ناامید ہو کر چپ ہورہے۔‘‘ میں نے قصداً یہ طویل اقتباس نقل کیا ہے کیونکہ یہ بذات خود قاری صاحب کے دعوی عدم شاگردی کو جھٹلاتا ہے۔ کیا میاں صاحب یا کوئی بھی اتنا سادہ لوح ہوگا کہ بلا شاگردی اور باقاعدہ استفادہ کے خلافت اور جانشینی کی توقع کر بیٹھے؟ یہ قول ہی شاگردی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ شاہ اسحق کا کہنا کہ جو باصلاحیت ہوگا پڑھائے گا بھی اس بات پر دلیل ہے۔ اگر مان لیں کہ آخری وقت میں قطب اور پانی پتی کے بارے میں کہا کہ ان سے شکوک کا ازالہ کر لینا۔ تو یہ عوام کی بات تھی ان کو کہا جا رہا ہے کہ یہ دونوں اتنی ہی صلاحیت رکھتے ہیں کہ عوام کو مطمئن کر لیں۔

********
کتابیات میں صرف ان مراجع کو شامل کیا گیا ہے جو اصل پرانے مضمون میں استعمال ہوئی ہیں۔ میاں صاحب کی زندگی پر لکھے گئے اضافی مضمون میں جو کتابیں استعمال ہوئی ہیں ان کی تفصیل سنہ طبع وغیرہ حاشیہ میں درج کر دی گئی ہے۔

رفیع احمد
مقیم سڈنی، آسٹریلیا ۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فصل اول


میاں نذیر حسین محدث دہلوی
(۱۲۲۰ ؁ء۔ ۱۳۲۰ ؁ھ ، ۱۸۰۵۔ ۱۹۰۲ ؁ء)

میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا نام آج بھی مانوس سا لگتا ہے، حالانکہ ان کی وفات پر۱۱۴ سال کی مدت گذر چکی ہے۔ ’’میاں صاحب‘‘ کے نام سے معروف بوریہ نشین شخصیت کا شہرہ اس کی زندگی ہی میں متحدہ ہندوستان کی حدود سے باہر تک پھیل چکا تھا ۔ میاں صاحب کی ذات نہ اس وقت محتاج تعارف تھی اور نہ آج ہے، ان کے بارے میں کچھ لکھ کر ہم اپنا ہی قد بڑا کرنا چاہتے ہیں۔

سن پیدائش :

آپ کے سن پیدائش کے بارے میں کئی اقوال منقول ہیں ، صحیح تاریخ پیدائش ۱۲۲۰ ؁ھ مطابق ۱۸۰۵ ؁ء ہے۔ (۱)

آپ کے سن پیدائش کے بارے میں دوسرے اقوال یہ ہیں ۱۲۱۱ھ ؁، ۱۲۱۲ھ ؁، اور ۱۲۱۶ھ ؁۔ (۲)

صاحب نزھۃ الخواطر نے ’’قیل ‘‘کے ساتھ ۱۲۲۵ ؁ھ کا تذکرہ کیا ہے ۔(۳) مولانا ڈیانوی نے غایۃ المقصود میں ۱۲۲۵ ؁ھ کو جزما ذکر کیا ہے ۔ (۴) تاہم عون المعبود میں بصراحت رجوع کر لیا ہے ۔ (۱)

دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا نوشہروی نے سن پیدائش کا ذکر ہی نہیں کیا ۔

جائے پیدائش:

میاں صاحب کا تعلق صوبہ بہار سے ہے جو بہت سے باکمال اہل علم کا منبع ہے ۔ صوبہ بہار کا ضلع مونگیر بہت مشہور ہے ۔ اسی ضلع میں سورج گڑھ کا قصبہ واقع ہے ۔ میاں صاحب کی پیدائش اسی قصبہ کے ایک مضافاتی گاؤں میں ہوئی ۔ اس کا نام ’’بلتھوا‘ ‘ہے جہاں آپ کے والد کا قیام تھا ۔ (۲)سورج گڑھ چوں کہ معروف جگہ تھی اس لیے اکثر تذکرہ نگاروں نے اسی کو آپ کی جائے پیدائش قرار دیا ہے ۔ (۳) ’’بہاری ‘ ‘اور ’’سورج گڑھی ‘‘ کی نسبت وطن کی مناسبت سے ہے۔

===========================================

(۱) الحیاۃ بعد المماۃ کے مؤلف نے اس تاریخ کو متعدد وجوہ سے ترجیح دی ہے، دیکھیے ص:۲۵ (طبع الکتاب انٹرنیشنل دہلی ) مولانا ڈیانوی نے عون المعبود میں ایک خاندانی نوشتہ کی بنیاد پر اس کو اختیار کیا ہے۔ (عون المعبود :۱/۵)صاحب نزہہ نے بھی اسی کو ترجیحا ذکر کیا (نزہۃ الخواطر: ۷/۱۳۹۱، طبع بیروت) مولانا سیالکوٹی نے بھی یہی تاریخ ذکر کی ہے، دیکھیے: تاریخ اہل حدیث ص: ۴۳۵۔

(۲) الحیاۃ بعد المماۃ :ص۲۵۔

(۳) نزہۃ الخواطر ۷/۱۳۹۱۔ (طبع ابن حزم )

(۴) غایۃ المقصود :۱/۵۱، انہیں کی اتباع میں صاحب البشری بسعادۃ الدارین نے یہی قول ذکر کیا ہے۔ ص:۲۷، طبع جمعیۃ التوحید کشن گنج، الہند ۔

(۱) عون المعبود :۱/۵ ، لکھتے ہیں :’’وإنما أرخث في غایۃ المقصود شرح سنن أبي داؤد سنۃ خمس وعشرین، لأن شیخنا العلامۃ لما سألتہ عن عام ولادتہ أجابني أني لم أحفظتہ بالتعیین، لکن أظن ولدت سنۃ خمس وعشرین أو قبل ذلک بقلیل‘‘ صاحب نزہۃ الخواطر نے جو قول ’’قیل ‘‘کے ساتھ ذکر کیا ہے اس کا ماخذبھی غالبا صاحب غایۃ المقصود ہی کی تحریر ہے۔

(۲) الحیاۃ بعد المماۃ ،ص: ۲۲،تراجم علمائے حدیث ہند، ص: ۱۴۹، دبستان حدیث ،ص:۲۷، حیات شمس الحق مؤلفہ عزیر شمس ،ص۲۶۷، بلتھوا سورج گڑھ سے پانچ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔

(۳)غایۃ المقصود: ۱/۵۱، عون المعبود: ۱/۵،واقعات دارالحکومت:۲/۲۶۹، نزہۃ الخواطر:۷/۱۳۹۱(طبع ابن حزم،بیروت ) گاؤں کا نام سروج گڈھاطبع ہوا ہے،ا لبشری بسعادۃ الدارین،ص:۲۷، تاریخ اہل حدیث،ص: ۴۲۵، علمائے ہند ،مترجمہ ایوب قادری ،ص:۵۹۵، مدارس اہل حدیث دہلی ،ص:۳۸۱۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نام ونسب :

آپ کا نام سید نذیر حسین بن سید جواد علی تھا ۔ آپ کا تعلق سادات کے گھرانہ سے ہے۔ ددھیال اور ننھیال دونوں نسبتوں سے حسینی سید ہیں۔ اسی نسبت سے اپنے آپ کو ’’حسینی‘ ‘ اور ’’سید ‘‘ لکھتے تھے۔ آپ کا خیال تھا کہ’ ’ میاں صاحب‘‘ کا ٹائٹل بھی آپ کی اسی نسبت سے تعلق رکھتا ہے۔ (۴)یہ لقب آپ کے لیے کب استعمال ہوامعلوم نہیں ہے۔ قیاساًشاہ محمد اسحاق کی ہجرت کے بعد لوگ اس لقب سے مخاطب کرنے لگے۔

صاحب واقعات دارالحکومت کا کہنا ہے :

’’ سارے شہر میں اسی پیارے نام سے پکارے جاتے تھے۔(۱) صاحب الحیاۃ بعد المماۃ کا خیال ہے کہ آپ کو یہ لقب ’’پبلک نے دیا اور پبلک نے پکارا۔‘‘

میاں صاحب کا لقب بظاہر کوئی جاذبیت نہیں رکھتا تاہم کم از کم دہلی میں اس کی بڑی اہمیت رہی ہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لقب صرف شاہ ولی اللہ کے خاندان کے لیے مختص تھا۔ حکیم محمود برکاتی کو ’’میاں صاحب ‘‘کے لقب سے بڑی تکلیف پہنچی ۔

ان کے خیال میں :

’’میاں نذیر حسین..خود کو میاں صاحب کہلانے لگے تھے۔‘‘ (۲)یہ بات تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ دہلی کے باہر کا شخص اپنی کوشش سے دہلی کے خاص لقب کو اپنا لے، یہ توقبول عام تو محض عوامی رجحان سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ شاہ اسحاق صاحب کے ہجرت کے بعد عوام وخواص نے آپ کو اس لقب سے پکارا تو یقیناًیہ بات سامنے رہی ہوگی کہ فن حدیث میں شاہ صاحب کے بعد آپ کا ہی مرتبہ ہے ۔ قاری عبدالرحمن پانی پتی کو شکایت ہے :’’ بعد ہجرت جناب میاں صاحب کے جو دہلی خالی پائی آپ محدث بن بیٹھے۔ (۳) اور ’’باوجودیکہ.... مخالف مذہب جناب میاں صاحب کے ہیں، اسی طرح عوام ان کو مقتدی اہل سنت جانتے ہیں۔ ‘‘ (۴)

ٍآپ کا پورا نسب نامہ ’غایۃ المقصود ‘ میں اس طرح درج ہے:

’’السید محمد نذیر حسین بن السید جواد علي، بن السید إلہ بخش،(۵) بن السید محمد بن السید ماہ رو، بن السید محبوب، بن السید قطب الدین، بن السید ہاشم، بن السید جاند(چاند)، بن السید معروف، بن السید بدھن، بن السید الحاج یونس، بن السید بزرک (بزرگ)، بن السید زیرک، بن السید رکن الدین، بن السید جمال الدین، بن السید أحمد،(۱) بن السید محمد، بن السید محمود بن السید داؤد، بن السید فضل، بن السید فضیل،(۲) بن السید أبوالفرج الإمام الحسن العسکري، بن السید الإمام محمد تقي،(۳) بن الإمام موسی الرضا، بن السید الإمام موسی الکاظم، بن السید الإمام جعفر الصادق، بن السید الإمام محمد الباقر، بن السید الإمام زین العابدین، بن الإمام الھمام حسین، بن الإمام خلیفۃ رسول اللہ علي، بن أبي طالب، بن عبد المطلب، بن ہاشم، بن عبد مناف۔إلی إسماعیل بن إبراہیم صلوات اللہ علیہما والتسلیم۔ ‘‘ (۴)

یہ نسب نامہ آپ کے والد کی طرف سے ہے، صاحب الحیاۃ بعد المماۃ نے والدہ کا شجرہ نسب بھی ذکر کیا ہے۔ (۵)

آپ کا گھرانہ سورج گڑھ اور اسی کے مضافات میں آباد تھا اور کافی معزز شمار کیا جاتا تھا۔ جب سید احمد شہید رحمہ اللہ حج کے لیے اپنے قافلہ کے ساتھ اس نواح سے گذرے تو اسی گھرانے نے آپ کی ضیافت کی ۔ بعض تذکرہ نگاروں کا خیال ہے کہ جاتے ہوئے پندرہ دن قیام رہا ۔ حج سے واپسی پر بھی یہاں ٹھہرے۔ پورے قافلہ کی ضیافت کی ذمہ داری انہیں سورج گڑھ کے سادات پر تھی ۔(۶) اس بات سے ان حضرات کی دینی اور دنیاوی وجاہت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ۳۰۰ ؍افراد پر مشتمل قافلہ کی خوردونوش کا انتظام کرنا متمول اور صاحب حیثیت گھرانہ ہی کے لیے ممکن ہو سکتا ہے۔

===========================================

(۴) الحیاۃ بعد المماۃ ، ص۲۱’’....نہایت خوش ہوں کہ ہر ایک ’’میاں صاحب‘‘ مجھے کہتا ہے، بھائی سادات کے لیے پیارا لفظ اس سے بڑھ کر نہیں ہے ۔‘‘

(۱)واقعات دارالحکومت ،۲/۲۷۰۔ (۲) حکیم محمود برکاتی تقدمہ کشف الحجاب، ص:۱۳۔

(۳) کشف الحجاب ،ص:۳۱۔ (۴) ایضا،ص:۳۲۔

(۵)الحیاۃ بعد المماۃ میں جواد علی کے والد کی حیثیت سے سید عظمت اللہ کا ذکرہے،’’الہ بخش‘‘ کو ان کا دادا قرار دیا گیا ہے،ص:۲۷۔ نزہۃ الخواطر (۷/۱۳۹۱) میں اسی طرح مذکور ہے، البتہ الہ بخش کے بجائے’’اللہ بخش ‘‘درج ہے ۔البشری بسعادۃ الدارین میں شجرہ میں سید بدھن کے بعد کئی نسلیں چھوٹ گئیں ہیں،ص:۲۶۔۲۷۔ حسنی اور حسینی دونوں نسبتوں کا بھی ذکر ہے۔

(۱) الحیاۃ بعد المماۃ ،ص:۷۔۲۶ میں سید احمد کا ذکر نہیں ہے، بلکہ سید محمد کو ان کے والد کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔

(۲) الحیاۃ بعد المماۃ میں ’’افضل ‘‘ کے نا م کا ذکر ہے، ص:۲۶،۲۷۔

(۳) الحیاۃ بعد المماۃ میں امام محمدتقی کا ذکر حسن العسکری کے والد کی حیثیت سے کیا ہے ، ص:۲۶۔

(۴) غایۃ المقصود: ۱/۵۱۔ (۵) الحیاۃ بعد المماۃ، ص: ۲۶، ۲۷۔

(۶) الحیاۃ بعد المماۃ ، ص: ۳۶۔کسی اور خارجی ماخذ سے اس کی تصدیق نہیں کر سکا ، دو ہفتہ کا قیام بعید از قیاس لگتا ہے۔سید جعفر نقوی نے اپنی کتاب ’’سید احمد شہید کا حج ‘‘اردو ترجمہ عبیداللہ السعدی میں سورج گڑھ کے قیام کا تذکرہ نہیں کیا ہے، علی میاں ’’سیرت سید احمد شہید ‘‘(۱/۳۰۷ )میں صرف ایک رات ۲۷؍محرم کے قیام کا ذکر کرتے ہیں ۔ علی میاں نے واپسی پر مونگیر میں قیام کا ذکر کیا ہے، سورج گڑھ کا تذکرہ نہیں ہے۔ (۷۱۔۳۶۹) مولانا جعفر علی نے بھی واپسی میں صرف مونگیر میں قیام کا تذکرہ کیا ہے۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تعلیم وتربیت:

میاں صاحب کی ابتدائی تعلیم کی تفاصیل معلوم نہیں ہیں، تاہم جو باتیں معلوم ہیں ان سے مدد لی جاسکتی ہے ۔ آپ کے سوانح نگار عام طور سے یہ تاثر دیتے ہیں کہ آپ کا بچپن ۱۵۔۱۶ سال کی عمر تک کھیل کودمیں گذرا۔ پڑھائی کی طرف توجہ اس کے بعد میں ہوئی۔

صاحب الحیاۃ بعد المماۃ لکھتے ہیں :

’’ بچپن کے زمانہ کو کوئی واقعہ ... قابل ذکر معلوم نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے کہ کھیلنے کا شوق حد سے زیادہ تھا تیز دوڑنے ،گھوڑا چڑھنے، میں مشاق تھے اور پڑھنے لکھنے سے سخت بدشوق۔ (۱)

صاحب تراجم علمائے حدیث ہند لکھتے ہیں :

’’ میاں صاحب کا عہد طفولت لہوو لعب میں گذرا۔ کبھی دریا میں شناوری کے جوہر دکھارہے ہیں تو کبھی اسپ شہوار کی پشت پر شہسواری کے کرتب ، مگر ابھی تک علم کا ایک قطرہ نے بھی دہن کو تر نہ کیا ۔‘‘(۲)

ایوب قادری نے لکھا :

’’۱۶ سال کے بعد علم کی طرف میلان ہوا ‘‘ (۳)

عزیر شمس کا خیال ہے :

’’ ولم یرغب في القراء ۃ حتی دخل في السنۃ السادسۃ عشرۃ من عمرہ، فتعلم من أبیہ الخط و قرأ بعض الکتب الفارسیۃ والعربیۃ ‘‘(۴)

ان تصریحات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ میاں صاحب کی ابتدائی تعلیم کافی دیر سے شروع ہوئی ۔ مجھے بوجوہ اس نتیجے کی صحت میں تامل ہے۔

زمانۂ قدیم سے شریف گھرانے بچوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرتے تھے ، میاں صاحب کا گھرانہ سادات کا معروف گھرانہ تھا ، اس کی اپنی وجاہت تھی ۔ اس لیے یہ تو ممکن نہیں کی ۴۔۵؍ سال کی عمر میں آپ کی تعلیم شروع نہ کی گئی ہو اور سولہ سال کی عمر تک آپ علم سے کورے رہے ہوں۔ عام رواج کے مطابق عربی اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم تو گھر یا گاؤں پر ہوتی تھی ۔ یہیں ناظرہ قرآن مجید بھی پڑھایا جاتا تھا ، کوئی وجہ نہیں کہ میاں صاحب اس کلیہ سے مستثنیٰ ہوں۔

مولانا ڈیانوی لکھتے ہیں :

’’نشأ بموطنہ...وقرأ القرآن وکتب الإنشاء علی معلمي بلدہ ونواحیہا‘‘(۱) یعنی اپنے وطن میں پلے بڑھے...قرآن پڑھا اور انشاء اپنے شہر اور نواحی کے معلمین سے سیکھا۔

یہی بات صاحب نزھۃ الخواطر نے اپنے الفاظ میں بیان کی ہے :’’نشأ بہا وتعلم الخط والإنشاء‘‘ (۲) یہیں نشوو نما ہوئی ، لکھنا اور انشا پردازی سیکھی۔

میرا خیال ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم اور لکھنا پڑھنا تو آپ نے ابتدا میں سیکھا ، پھر دس گیارہ سال کی عمر میں کھیل کود کی طرف رغبت ہوئی ہو گی اور علم کی طرف التفات کم ہو گیا۔ اس مرحلہ میں چند سال اسی طرح گذرے کہ ایک حادثہ کے نتیجہ میں دوبارہ علم کی طرف توجہ ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک شناسا برہمن نے میاں صاحب سے کہا :’’ میاں! تم اتنے بڑے ہوگئے اور کچھ پڑھا نہیں ، دیکھو تمہارے خاندان میں لوگ مولوی ہیں اور تم جاہل ہو۔ ‘‘(۳)

اس کے بعد میاں صاحب کے علم کی طرف رغبت اور شدید اشتیاق کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ (۴)

اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں کہ مطلقاً حصول علم کی ابتداء اس وقت ہوئی ہے، کیوں کہ اس واقعہ کے بعد فارسی کی تکمیل اور عربی کی ابتدائی کتب کا درس شروع ہوتا ہے جس سے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ پہلے مرحلہ کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی، معمولی لکھنا پڑھنا اور ناظرہ قرآن خوانی کی استعداد پید ا ہو چکی تھی ۔ اس استعداد کے بغیر فارسی اور عربی پڑھنا ناممکن ہو گا۔

اس دوسرے تعلیمی مرحلہ کی ابتدا والد صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے کیا ۔ بقول صاحب الحیاۃ بعد المماۃ :’’ آپ کے والد کو فارسی میں اچھی دستگاہ تھی ، اس لیے فارسی انہوں نے پڑھائی اور جب فارسی کی درسی کتابیں نکل گئیں تو عربی کی ابتدائی کتاب بھی شروع کرا دی۔ ‘‘ (۵)

مولانا نوشہروی لکھتے ہیں :

’’ نصیحت کار گر ہوئی ، اپنے والد ہی سے پڑھنا شروع کیا ، فارسی اور عربی کے مبادی تک آپہونچے ، سید جواد علی کی رسائی یہیں تک تھی ۔‘‘(۱)

سولہ سال کی عمر میں جب گھر سے نکلنے کا فیصلہ کیا، اس وقت تک اچھی خاصی استعداد پیدا کر لی تھی ۔ اپنے ساتھ خاص طور سے کتابوں کا بستہ لے جاتے ہیں۔(۲) اپنے شوق کتب بینی کا خود ہی ذکر کیا ہے ،۱۲۳۸ ؁ھ کے بارے میں لکھتے ہیں:’’شوق کتاب بینی اس وقت بہت زیادہ تھا‘‘ (۳) عظیم آباد پہنچ کر ’’ترجمہ قرآن ‘‘ اور ’’مشکوۃ‘‘ کی تعلیم سے ابتدا کی ۔ ان تمام باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس افسانہ میں حقیقت بہت کم ہے کہ ۱۶۔۱۷ ؍سال کی عمر تک علم کی طرف بالکل رغبت نہیں تھی ۔

خاص طور سے اگر یہ بات ذہن نشین رہے کہ ۱۲۱۶ ؁ھ میں جب آپ کی عمر سولہ سال کی تھی آپ گھر سے حصول تعلیم کے لیے نکلے تھے۔ یہ ممکن نہیں کہ صرف ایک سال کے اندر اندر فارسی کی اچھی خاصی مہارت پیدا کر کے عربی کی بھی اتنی استعداد پیدا کر لی ہو کہ ترجمہ قرآن اور مشکوۃ کے تعلیمی مرحلہ میں داخل ہو جائیں۔اس مرحلہ کے لیے کم از کم دو سے تین سال کی مدت درکار ہوتی ہے۔

صاحب الحیاۃ بعد المماۃ نے میاں صاحب کے بیان شوق کتب بینی کو بڑے وسیع پس منظر میں پیش کیا ہے ، لکھتے ہیں:

’’ اس تحریر اور نیز بعض اور تحریروں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کتب بینی کا شوق بہت تھا، مگر عربی استعداد جہاں تک تھی اس کا حال تو معلوم ہی ہو چکا ہے ، پھر وہ کتابیں دیکھتے تھے، کس قسم کی ؟ اس کا کچھ ذکر نہیں ...فارسی میں گھر ہی سے اچھی مہارت تھی، ...فارسی ہی کی کتابیں مطالعہ کرتے ہوں گے، ....ہزاروں اشعار اردو کے ان کو یاد تھے ....اردو شاعری کے نکات.... اور شاعروں کی نسبت ان کی رائے قابل وزن سمجھی جاتی تھی۔‘‘ (۴)

بہر حال میاں صاحب نے ابتدائی مراحل کی تعلیم ’’بلتھوا ‘‘ میں حاصل کی ، اس مرحلہ کے کسی مدرس کا نام کہیں مذکور نہیں ہے ۔عام طور سے گھروں اور مکتبوں میں پڑھانے والے مولوی صاحبان کے ناموں کو ذکر کرنے کا اہتمام آج بھی نہیں کیا جاتا۔ اس کے بعد سورج گڑھ اور اس کے نواح کے علما سے بھی استفادہ کیا ۔ والد صاحب کے علاوہ کسی اورشخصیت کا ذکر نہیں ملتا جس سے استفادہ کیا ہو ، تاہم یہ بات اگر صحیح ہے کہ آپ کے گھرانے میں ہی علماء موجود تھے تو ان سے استفادہ بعید نہیں ۔ ان کے علاوہ دیگر اشخاص سے بھی یقینی طور سے استفادہ کیا ہوگا ، مگر ان کے نام ہمیں نہ معلوم ہو سکے اورنہ کوئی ذریعہ ہی ہے کہ معلوم کیا جاسکے۔

===========================================
(۱)الحیاۃ بعد المماۃ،ص:۳۲ ، مولانا بھٹی مرحوم نے دبستان حدیث ص: ۲۸ میں اس کو اپنے الفاظ میں ڈھال دیا ہے۔

(۲)تراجم علمائے حدیث ہند ،ص:۱۵۰۔ (۳)علمائے ہند،ص:۵۱۵۔
(۴)حیاۃ المحدث شمس الحق وآثارہ ،ص:۲۶۷۔


(۱) غایۃ المقصود :۱/۵۱۔ یہی بیان بعینہٖ البشری بسعادۃ الدارین میں بھی موجود ہے، ص:۲۷۔

(۲) نزھۃ الخواطر:۷/۱۳۹۱۔

(۳) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۲۔۳۳، اس واقعہ کا کوئی ماخذ نہیں بیان کیا گیا ہے۔تراجم علمائے حدیث ہند ،ص:۱۵۰ میں بھی یہی واقعہ مذکور ہے۔

(۴) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۳، تراجم علمائے حدیث ہند،ص :۱۵۰، دبستان حدیث، ص:۲۸۔

(۵) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۳۔


(۱) تراجم علمائے حدیث ہند ،ص:۱۵۰۔ (۲) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۴۔

(۳) مکاتیب نذیریہ ،ص: ۶۱، خط نمبر ۵۳۔ (۴)الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۹ حاشیہ۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
طلب علم کا سفر :

میاں صاحب ۱۲۳۶ ؁ھ میں اپنے گاؤں سے نکل کر عظیم آباد آجاتے ہیں ۔ آپ کے تذکرہ نگار اس کی وجہ بتاتے ہیں کہ ان کے لیے مزید علم کا حصول گاؤں میں رہ کر ممکن نہیں تھا ، کیوں کہ جس حد تک کوئی پڑھا سکتا تھا ، اس مرحلہ تک پہنچ چکے تھے۔ (۱)

صاحب الحیاۃ بعد المماۃ نے یہ تاثر دیا ہے کہ سفر پر جانے میں ’’ ناداری اور تنگ دستی مانع تھی ‘‘ (۲) لیکن بلا اجازت چپکے سے بھاگ کر جانے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ مولانانو شہروی کا خیال ہے : ’’ گھر میں غربت مسلط تھی جس کی وجہ سے والد صاحب سے سفر کی اجازت طلب کرنا بے سود تھا ۔ ‘‘ (۳)

ان دونوں بزرگوں نے گھر سے بلااجازت نکلنے اور ’’تنگ دستی ‘‘ کے ثبوت میں کوئی حوالہ نہیں دیا ہے۔ اس لیے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ تاہم بلا کسی خارجی ثبوت کے ان کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا ہے، امکان توبہر حال دونوں کا ہے۔ کا ش کہ صاحب الحیاۃ بعد المماۃ نے ان تفاصیل کے سلسلے میں کسی حوالہ کا ذکر کیا ہوتا ۔ جہاں تک غربت کا تعلق ہے مجھے اس کے تسلیم کرنے میں شدید تامل ہے ۔ خاص طور سے اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ آپ کا خاندان صاحب جائداد تھا، ننہیال بھی باحیثیت تھا ، میاں صاحب کو ننہیالی جائداد میں والدہ کے انتقال کے بعد حصہ ملا تھاجس کو آپ نے اپنے بھائی کو ہبہ کر دیا تھا ۔ خاندان کے من جملہ تمول کا ابتدا میں ذکر ہو چکا ہے ۔ غریب خاندان اس عمر میں بچوں کو محنت مزدوری میں لگا دیتے ہیں ، اس عمر میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ نہ ہو تو مٹر گشتی ان کے بس میں نہیں ہوتی۔ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ آپ کی تعلیم کا اہتمام والد صاحب نے ہی کیا تھا ۔ آپ کے دو اور چھوٹے بھائی تھے دونوں عالم تھے ، ظاہر ہے ان کی تعلیم والد صاحب کی مرضی سے ہی ہوئی تھی۔

عظیم آباد میں قیام:

میاں صاحب اپنے دوست بشیرالدین عرف امداد علی کے ساتھ عظیم آباد پہنچتے ہیں، ساتھ میں کتابوں کی ایک گٹھری بھی لے جاتے ہیں ۔ یہ سفر ۱۲۳۶ ؁ھ میں شروع ہوتا ہے۔ (۱)

صادق پور کے محلہ ’’ ننموہیہ ‘‘میں شا ہ محمد حسین مرحوم کے مکان میں ٹھہرتے ہیں ، دوسرے طلبہ کے ساتھ قیام کر کے حصول علم میں لگ جاتے ہیں۔ (۲)

یہاں آپ کا قیام تقریبا چھ ماہ تک رہا (۳) آپ نے یہاں ترجمہ قرآن اور مشکوۃ شروع کی ۔ صاحب الحیاۃ بعد المماۃ نے ’’ غالبا ترجمہ قرآن اور مشکوۃ ‘‘ کے پڑھنے کا تذکرہ کیا ہے۔ (۴) البتہ دوسری جگہ پر بالجزم ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں : ’’پٹنہ میں ترجمہ قرآن اور ترجمہ مشکوۃ پڑھ لیا تھا... مگر ترجمہ سے تو کام نہیں چل سکتا۔ ‘‘(۵)

مجھے شک ہے کہ پٹنہ میں آپ کو ترجمہ قرآن اور مشکوۃ شریف کا ترجمہ ازبر کرایا جاتا رہا ہوگا، اس کے امکان کی کوئی شکل نظر نہیں آتی ، کیوں کہ عربی دانی کے بغیرترجمہ حفظ کرانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ، حفظ ترجمہ بعید از قیاس ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہاں کے مدرس یا مدرسین نے میاں صاحب کی عربی اور فارسی صلاحیت جانچنے کے بعد اس صف میں داخلہ دیا ہو گا۔ ترجمہ قرآن اور مشکوۃ کے علاوہ بھی کتابیں رہی ہوں گی۔تاہم میاں صاحب نے محسوس کیا کہ ان کی صرف ونحو ابھی کمزور ہے جس پر مزید مشق کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے بلوغ المرام سے تعلیم کی ابتدا نہ کرنا بذات خود ایک سوالیہ نشان قائم کرتا ہے ۔ اگر صرف ترجمہ پڑھانا مقصود تھا تو اس کی ابتدا مشکاۃ سے کیوں ہوئی۔ مولانا ڈیانوی نے پٹنہ میں ان کے کسی تعلیمی مصروفیت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ (۱)

میاں صاحب کے پٹنہ میں قیام کا ایک خاص واقعہ یہ ہے کہ سید احمد شہید رحمہ اللہ کا قافلہ حج یہیں فروکش ہوا ۔ جمعہ کی نماز پولیس لائن کے میدان میں ہوئی تھی اورسید اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے وعظ کیا تھا ۔ میاں صاحب کہتے تھے : ’’ ہم اس وعظ ونماز میں شریک تھے ، سارا میدان لین کا آدمیوں سے بھرا ہوا تھا، پہلی ملاقات سید احمد صاحب اورمولانا شہید سے یہیں پٹنہ میں ہوئی ۔(۲)

کچھ تذکرہ نگارو ں نے اس ملاقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے میاں صاحب کے ذہن میں یہیں سے دہلی جاکر تکمیل علم کی خواہش پیدا ہوئی خاص طور سے شاہ عبدالعزیز سے تعلیم کی تمنا کی ۔ یہ بات اگر چہ بعید از قیاس نہیں تاہم اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ۔ خاص طور سے جب کہ پٹنہ اور دہلی کا فاصلہ ۶؍ سالوں میں طے کیا یہ دعوی محل نظر ہو جاتا ہے۔

پٹنہ سے چل کر میاں صاحب غازی پور پہونچتے ہیں، بقول صاحب الحیاۃ بعد المماۃ یہاں پر چندے قیام کیا اور کچھ ابتدائی کتابیں مولوی احمد علی چریا کوٹی سے پڑھیں۔پھر بنارس روانہ ہوگئے ۔ بنارس میں بھی مختصر قیام کیا ، مگر کسی عالم سے استفادہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ (۳)

بنارس میں میاں صاحب نے اپنی کچھ کتابیں فروخت کیں، ۹ ؍روپیے ملے ، جس سے سواری کا ٹٹو خریدا۔(۴) پھر بنارس سے الہ آباد روانہ ہوجاتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ چند دنوں ایک مسجد میں رہنے کے بعد دائرہ شاہ اجمل میں آگئے،(۵) الہ آباد میں اپنے قیام کا میاں صاحب نے خود اپنی ایک تحریر میں ذکر کیا ہے ، اپنے ایک شاگرد عبدالعزیز صاحب کو لکھتے ہیں:

’’ جمنا کے کنارے ایک مسجد ہے ، ایام طالب علمی میں کچھ وقت یہاں گذارا ہے، مولوی زین العابدین مرحوم و مغفور کے ساتھ درس وتدریس کی صحبت گرم رہتی تھی، دوائر کے چندلوگوں کے ساتھ بھی خوب لمبی مجلس مذاکرہ ہوتی تھی۔‘‘(۱)

میاں صاحب نے یہاں دائرہ اجمل شاہ میں اپنے قیام کا تذکرہ نہیں کیا ہے، صرف مولوی زین العابدین سے اس مسجدمیں استفادہ کا ذکر ہے۔یہ بات ذہن میں رکھیں کہ الہ آباد میں چھبن دوائر اور تکیے تھے۔ اس طرح میاں صاحب نے بلاتعیین بعض کے ذمہ داروں سے اپنے بحث و مباحثہ کا تذکرہ کیا ہے۔

میاں صاحب کو الہ باد اور مولوی زین العابدین سے بڑی انسیت ہو گئی تھی ۔ عبدالعزیز الہ آباد میں تحصیل دار تھے ملنے دہلی جاتے تو میاں صاحب کہتے:’’بھئی تمہارے آنے سے مولوی زین العابدین مرحوم یاد آجاتے ہیں، اور اپنی طالب علمی کے مزے اس وقت سب سامنے ہوجاتے ہیں ۔‘‘(۲) اس لیے دائرہ شاہ اجمل شاہ میں قیام ثبوت کا مستحق ہے۔ اگر چہ نوشہروی نے لکھا ہے کہ :’’ دائرہ اجمل شاہ میں رہ کر صرف و نحوکی ابتدائی کتابیں پڑھیں، اورجب تک زندہ رہے دائرہ اجمل شاہ کی یاد زبان پر رہی۔ ‘‘(۳)

مولانا ڈیانوی نے الہ آباد میں قیام اور یہاں کے اعیان سے استفادہ کا ذکر کیا ہے۔لکھتے ہیں:

’’ وصل إلی إلہ آباد وقرأ المختصرات من فنون شتی، مثل: مراح الأرواح، والزنجاني، ونقود الصرف، والجزولي ، وشرح ماءۃ عامل، والمصباح، والضریري ، وھدایۃ النحو وغیر ذلک علی جماعۃ من أعیان إلہ آباد ‘‘ (۱)

دائرہ اجمل شاہ میں قیام کیا ہوتا تو مولانا ڈیانوی اس کا ضرور ذکر کرتے ۔

الہ آباد سے روانگی:

عام طور سے میاں صاحب کے تذکرہ نگاروں کا خیال ہے کہ الہ آباد میں آپ کا قیام صرف سات آٹھ مہینے تک رہا، اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ میاں صاحب ۱۲۳۷ ؁ھ میں پٹنہ سے نکلے اور ۵؍رجب ۱۲۳۸ ؁ھ کو خواجہ پھول پور پہنچ گئے یہاں کی قلعہ والی مسجد میں آپ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک تحریر سے اس تاریخ میں یہاں ہونا ثابت ہوتا ہے ، اس طرح یہ مدت اس سے زیادہ نہیں بنتی ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا سات آٹھ مہینے کی مدت، کم ازکم آٹھ کتا بوں کے پڑھنے کے لیے کافی ہے؟

یہ اس وقت ممکن ہے جب طالب علم کے پاس پہلے سے صلاحیت و ذہانت ہو۔ میرے خیال میں میاں صاحب کے پاس صلاحیت توموجود تھی ، تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ میاں صاحب ’’لمبے مذاکرات‘‘ کس موضوع پر کرتے رہے ہوں گے ؟معمولی صرف ونحو کے مسائل پر مذاکرات کے کیا معنی ہیں؟ پھرکیا یہ ممکن ہے کہ میاں صاحب کا الہ آباد میں قیام اس سے زیادہ رہا ہو اور اس طرح علمی ترقی کے ساتھ اصحاب دوائر سے بحث ومباحثہ کا سلسلہ بھی چلتا رہا ہو۔ مولانا ڈیانوی کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ الہ آباد کا قیام اس سے کافی لمبا تھا ۔’’ الہ آباد میں استفادہ‘‘ کے بعد لکھتے ہیں: ’’.....ثم ارتحل في سنۃ اثنتین وأربعین والمأتین إلی مدینۃ دہلي‘‘(۲) اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا ڈیانوی ۱۲۴۲ ؁ھ تک الہ آباد میں قیام کو ترجیح دے رہے ہیں۔

بعض اور باتوں کو ملاکر اس مسئلہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک الحیاۃ بعد المماۃ کے مصنف اور دوسرے تذکرہ نگاروں کی بات ہے ، وہ اس کے قائل ہیں کہ میاں صاحب موضع خواجہ پھول میں ۵؍رجب ۱۲۳۸ ؁ھ کو پہونچے اور دہلی ۱۳؍رجب ۱۲۴۳ ؁ھ کو ٹھیک پانچ برسوں کے بعد۔ یہ زمانہ آپ نے کہاں گذارا اور کیوں کر گذارا ؟ بالکل تاریکی میں ہے۔(۱) ان حضرات کا خیال ہے کہ’’ قلت زاد‘‘ اور ’’بے سرو سامانی‘‘ کے سبب سے سفر میں ایسا غیر معمولی وقفہ ہوا ہو گا۔ (۲) مولانا سیالکوٹی لکھتے ہیں: ’’ آخر آہستہ آہستہ راہ بے راہ سفر کرتے ۱۳؍رجب ۱۲۴۳ ؁ھ کو بدھ کے روز دہلی پہنچے ۔ ‘‘(۳) اس سے بہتر تو جیہ صاحب نزہۃ الخواطر کی ہے: ’’ ثم سافر إلی دھلي وأقام في مقامات عدیدۃ في أثناء السفر حتی دخل دھلي ۔‘‘(۴) اس طرح دہلی پہنچنے تک یقینی طور سے کہیں نہ کہیں قیام ہوگا ۔ مگر اس کی تفصیل معلوم نہیں۔

غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے کانپور کے مضافات سے دہلی کا فاصلہ پانچ سال میں طے کرنا کئی وجوہ سے ناقابل قبول ہے۔

(الف) میاں صاحب کے پاس ایسا لگتا ہے ضروری زاد سفر موجود تھا ، خود لکھتے ہیں (کہ جب ۵/رجب ۱۲۳۸ ؁ھ کوخواجہ پھول پہنچے تو)’’ میں ایک ٹٹو پر تھا ، ایک طالب بھی میرے ساتھ تھے ، شوق کتب بینی اس وقت زیادہ تھا اور تمہاری طرح غصہ ور اور جلد بازی مجھے بہت زیادہ تھی۔‘‘ (۵)

بتایا جاتا ہے کہ یہ ٹٹو آپ نے بنارس میں خریدا تھا ، سواری اور مصاحب کے ساتھ سفر کرنا بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ میاں صاحب کے پاس زاد راہ کی کمی نہیں تھی ، اس پر مستزاد کہ غصہ اور جلد بازی ۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وسائل کے لحاظ سے خود کفیل تھے ، کسی کی پرواہ نہیں تھی۔

(ب) پٹنہ سے دہلی کا تک کا فاصلہ ۱۰۶۰ ؍کیلو میٹر بتایا جاتا ہے ، یہ حالیہ مسافت کا تخمینہ ہے جس میں ریل اور شارع عام (ہائی وے) کا اعتبار کیا گیا ہے ۔ اگر پرانے پیدل کے راستے کا اعتبار کیا جائے تو یہ مسافت شاید کچھ کم ہی ہو، میاں صاحب پٹنہ سے چل کر ۱۲۳۸ ؁ھ میں کانپور کے قریب خواجہ پھول پہنچتے ہیں ، اس طرح آپ نے کم از کم ۵۹۰؍ کلو میٹر کا فاصلہ ایک سال کے اندر اندر طے کر لیا تھا۔دلی . اتنی دور نہیں تھی کہ وہاں تک پہنچنے میں پانچ سال لگ جائیں۔ صرف ۴۷۰ ؍کلو میٹرکا فاصلہ باقی تھا۔ آپ کی مالی یا جسمانی کیفیت میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔

(ج) الہ آباد سے چل کر میاں صاحب چھبرہ مؤ پہونچتے ہیں۔ یہ قصبہ قنوج سے قریب دہلی کے راستے لب سڑک پر واقع ہے ۔ قنوج سے اس کا فاصلہ ۱۶۔۱۷ ؍کوس ہے۔ نوا ب صدیق حسن خان صاحب کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :’’رئیس قصبہ قاضی بدرالدین صاحب مغفور بسیار مہمان نواز وکریم النفس بودند، وبرادران قاضی مرحوم ہم غنیمت بودند...فقیر بآوان شباب در آنجا رسید قاضی صاحب وبرادران عالیشان موصوف احسانہا نمودہ اند۔‘‘ (۱)

جس انداز سے میاں صاحب قاضی صاحب اور ان کے برادران کے احسان کا ذکر کررہے ہیں وہ ایک دو وقت کی دعوت نہیں ہو سکتی ہے ۔ اس جگہ اپنے جانے کا تذکرہ میاں صاحب نے اپنے چند اور خطوط میں کیا ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’نیا نزرگ ایشان ہنگام سفر بندہ.از الہ آباد حسبۃ للہ مسافر نوازی وبرادرانہ مہمانی فرمودہ بودند، ہ ہمچنین رئیس کریم النفس نیاقتہ‘‘(۲)مزید لکھتے ہیں : ’’قاضی صاحب کا انتقال باعث قلق ہے۔ فقیر نے ان کے لیے دعائے خیر ہمیشہ کی ہے اور وہ مسافر نواز دوست پرور تھے ۔ اللہ تعالی ان کو مغفرت دے کر صادقین میں شمار فرمائے گا۔‘‘(۳) قاضی صاحب جیسا رئیس جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ :’’ان سا کریم النفس کوئی اور نہ مل سکا ‘‘ اور جس کے لیے وہ زندگی بھر دعا فرمائیں ، کیا یہ ممکن ہے کہ وہ میاں صاحب کی ضروریات کا پاس نہ کرے؟

میاں صاحب کے خطوط پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ قاضی صاحب کے پورے خاندان سے ان کے مراسم استوار ہو گئے تھے ۔ عبدالعزیز صمدانی کے والد قاضی صاحب کے داماد تھے ۔ یہ اگر چہ حنفی تھے تاہم میاں صاحب کے بڑے معتقد۔ ان سے خط و کتابت کا سلسلہ بھی تھا۔انہیں کی درخواست پر عبدالعزیز کو فراغت سے پہلے نکاح کرنے پر آمادہ کیا۔ (۱) ان کے گھر صمدن بھی جانے کا ذکر کیا ہے۔ (۲) عبدالعزیزصاحب میاں صاحب سے نہ صرف خط وکتابت کرتے تھے بلکہ کئی ذاتی معاملات میں مشورہ بھی لیتے تھے ۔ ان تفاصیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ پورے خاندان سے میاں صاحب کے قریبی تعلقات استوار ہوجاتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ قاضی صاحب کے خاندان کی مساعدت غیر معمولی رہی ہوگی ، اس لیے’’ قلیل زاد راہ‘‘ ’’عسرت‘‘ اور ’’تنگ دستی ‘‘کو دہلی پہونچنے میں تاخیر کی وجہ نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔


===========================================
(۱) تراجم علمائے اہل حدیث ،ص:۱۵۰، سید جواد علی کی رسائی یہیں تک تھی۔

(۲) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۳، دو صفحہ میں گھر سے نکلنے کا پلان اور دوسری تفاصیل بھی ذکر کی ہیں۔

(۳) تراجم علمائے حدیث ہند ،ص: ۱۵۰۔

(۱) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۴میں ۱۲۳۷ ؁ھ کا ذکر ہے ،تاہم حاشیہ میں یہ لکھا ہے کہ تخمینا آپ گھر سے اس وقت نکلتے ہوں گے جب سید صاحب بریلی سے نکلتے ہوں گے۔ ص:۳۵، عزیر شمس نے ’’حیاۃ المحدث شمس الحق و آثارہ‘‘ ص:۲۶۷ میں اور مولانا سیالکوٹی نے تاریخ اہل حدیث ،ص: ۴۲۶ میں سفر کی تاریخ ۱۲۳۶ ؁ھ ذکر کی ہے ، یہی تاریخ صحیح ہے کیوں کہ سید صاحب کا قافلہ محرم ۱۲۳۷ ؁ھ میں پٹنہ میں تھا۔

(۲) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۴۔۳۵، لگتا ہے کہ بلتھرا سے عظیم آباد تک سفر کی تفاصیل کا واحدمرجع الحیاۃ بعد المماۃ ہے ، دوسرے حضرات نے یہ تفاصیل بسا اوقات لفظ بلفظ بلا حوالہ نقل کی ہیں۔

(۳) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۵۔ (۴)الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۵۔

(۵) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۴۴۔۴۵۔


(۱)غایۃ المقصود ،ص:۵۱، اس سے اندازہ ہوتا ہے پٹنہ میں آپ کی تعلیمی مصروفیات بہت معروف نہیں تھیں ۔

(۲) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۵، غالبا یہ مراد ہے کہ پہلی بار نماز جمعہ میں دیکھا ، اس کے بعد پٹنہ کے زمانہ میں متعدد بار دیکھا ہوگا۔پٹنہ کے علاوہ اور کہیں کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔

(۳)الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۷۔

(۴)الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۷، ایک کتاب کے بیچنے کا ذکر ہے، بہر حال نو روپیے کی ایک کتاب سمجھ میں نہیں آتی ، مولانا نوشہروی نے معاملہ الٹ دیا ہے اور ٹٹو بیچ کر کتاب خریدنے کا ذکر کیا ہے!!بہر حال میاں صاحب نے سفر میں سواری کے استعمال کا ذکر کیا ہے جس سے ٹٹو خریدنے والی بات کی تائید ہوتی ہے۔

(۵) الحیاۃ بعد المماۃ،ص:۳۷۔


(۱) مکاتیب نذیریہ ،ص۷۹، خط نمبر ۷۷۔ خط فارسی میں ہے ، میں نے اپنا ترجمہ درج کیا ہے، آخری جملہ کے الفاظ یہ ہیں :’’ از چند اصحاب دوایرھم جلسہ مذاکرہ بانتہا کشیدہ ام ‘‘ مترجم مکاتیب نے یہ ترجمہ کیا ہے :’’ دائرہ کے چند ہم درس اصحاب سے مذاکرہ علمی میں انتہا درجہ کی کشیدگی تھی۔‘‘یہ ترجمہ غلط ہے۔تقریبا لفظی ترجمہ یہ ہے :’’بعض اصحاب دوائر کے ساتھ ہماری مجلس مذاکرہ انجام تک چلتی تھی۔‘‘

(۲)الحیاۃ بعد المماۃ، ص: ۶۴، مولوی عبدالعزیز کی رقم شدہ یاد داشت کے حوالہ سے۔

(۳)تراجم علمائے حدیث ہند، ص:۱۵۱، طبع الکتاب انٹرنیشنل دہلی۔


۱) غایۃ المقصود : ۱/۵۱۔۵۲، اسمائے کتب کی تفصیل الحیاۃ بعد المماۃ میں بھی ہے ، ص:۳۸۔ عزیر شمس نے پٹنہ سے دہلی کے راستہ میں قیام اور تعلیم کا ذکر مجملاً کیا ہے۔ص:۲۶۷۔

(۲)غایۃ المقصود ،ص:۵۲۔ صاحب البشری بسعادۃ الدارین نے بھی یہی الفاظ نقل کیے ہیں،ص:۲۷۔

(۱) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۴۰۔ (۲)ایضا۔

(۳) تاریخ اہل حدیث ،ص:۴۲۶۔

(۴)نزہۃ الخواطر: ۷/۱۳۹۱، طبع ابن حزم بیروت۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حال ہی میں ڈاکٹر بہاء الدین صاحب نے یہ تھیوری پیش کی ہے:’’ میاں صاحب نے پٹنہ میں سید صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی ہو گی اور پھر بنارس ،الہ آباد وغیرہ ہوتے ہوئے پانچ سال تک ان کی دعوت کے سری داعی رہے ہوں گے‘‘ میرا خیال ہے کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔سید صاحب نے جہاد کی دعوت ۱۲۴۴ ؁ھ میں سفر حج سے واپسی کے بعد شروع کی تھی (سیرت سید احمد شہید :۱/۳۷۹،۴۳۹)البتہ جس طرح کا خیالی بورڈ مولانا سندھی نے بنایا ہے ہمارے ڈاکٹر صاحب کی تھیوری اس کا بہترین جواب ہے۔

ّ(۵) مکتوبات نذیریہ ،ص:۶۱، خط نمبر:۵۳۔


(۱) مکتوبات نذیریہ ،ص:۶۳، خط نمبر:۵۶، یہ جگہ ’’چھبرا مؤ ‘‘‘CHEBRAMAU کے نام سے معروف ہے ۔ مکتوبات میں ’’چھپرا ‘‘ لکھا گیا ہے۔

(۲)مکاتیب نذیریہ ،ص:۴۷، خط نمبر: ۳۸۔’’ آپ کے نانا بزرگ نے میرے الہ اباد سے سفر کے درمیان للہ فی اللہ مسافر نوازی اور برادرانہ مہمان نوازی کی ۔ ان سا کریم النفس رئیس نہیں دیکھا۔‘‘

(۳) کذا ۴۸، خط نمبر : ۳۹ ،مرقوم ۳؍شوال ۱۲۸۸ ؁ھ۔


(۱) کذا : ۴۶۔۴۷، خط نمبر : ۳۸۔

(۲) کذا:۶۳، خط نمبر ۵۶۔
 
Last edited:
Top