طلب علم کا سفر :
میاں صاحب ۱۲۳۶ ھ میں اپنے گاؤں سے نکل کر عظیم آباد آجاتے ہیں ۔ آپ کے تذکرہ نگار اس کی وجہ بتاتے ہیں کہ ان کے لیے مزید علم کا حصول گاؤں میں رہ کر ممکن نہیں تھا ، کیوں کہ جس حد تک کوئی پڑھا سکتا تھا ، اس مرحلہ تک پہنچ چکے تھے۔ (۱)
صاحب الحیاۃ بعد المماۃ نے یہ تاثر دیا ہے کہ سفر پر جانے میں ’’ ناداری اور تنگ دستی مانع تھی ‘‘ (۲) لیکن بلا اجازت چپکے سے بھاگ کر جانے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ مولانانو شہروی کا خیال ہے : ’’ گھر میں غربت مسلط تھی جس کی وجہ سے والد صاحب سے سفر کی اجازت طلب کرنا بے سود تھا ۔ ‘‘ (۳)
ان دونوں بزرگوں نے گھر سے بلااجازت نکلنے اور ’’تنگ دستی ‘‘ کے ثبوت میں کوئی حوالہ نہیں دیا ہے۔ اس لیے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ تاہم بلا کسی خارجی ثبوت کے ان کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا ہے، امکان توبہر حال دونوں کا ہے۔ کا ش کہ صاحب الحیاۃ بعد المماۃ نے ان تفاصیل کے سلسلے میں کسی حوالہ کا ذکر کیا ہوتا ۔ جہاں تک غربت کا تعلق ہے مجھے اس کے تسلیم کرنے میں شدید تامل ہے ۔ خاص طور سے اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ آپ کا خاندان صاحب جائداد تھا، ننہیال بھی باحیثیت تھا ، میاں صاحب کو ننہیالی جائداد میں والدہ کے انتقال کے بعد حصہ ملا تھاجس کو آپ نے اپنے بھائی کو ہبہ کر دیا تھا ۔ خاندان کے من جملہ تمول کا ابتدا میں ذکر ہو چکا ہے ۔ غریب خاندان اس عمر میں بچوں کو محنت مزدوری میں لگا دیتے ہیں ، اس عمر میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ نہ ہو تو مٹر گشتی ان کے بس میں نہیں ہوتی۔ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ آپ کی تعلیم کا اہتمام والد صاحب نے ہی کیا تھا ۔ آپ کے دو اور چھوٹے بھائی تھے دونوں عالم تھے ، ظاہر ہے ان کی تعلیم والد صاحب کی مرضی سے ہی ہوئی تھی۔
عظیم آباد میں قیام:
میاں صاحب اپنے دوست بشیرالدین عرف امداد علی کے ساتھ عظیم آباد پہنچتے ہیں، ساتھ میں کتابوں کی ایک گٹھری بھی لے جاتے ہیں ۔ یہ سفر ۱۲۳۶ ھ میں شروع ہوتا ہے۔ (۱)
صادق پور کے محلہ ’’ ننموہیہ ‘‘میں شا ہ محمد حسین مرحوم کے مکان میں ٹھہرتے ہیں ، دوسرے طلبہ کے ساتھ قیام کر کے حصول علم میں لگ جاتے ہیں۔ (۲)
یہاں آپ کا قیام تقریبا چھ ماہ تک رہا (۳) آپ نے یہاں ترجمہ قرآن اور مشکوۃ شروع کی ۔ صاحب الحیاۃ بعد المماۃ نے ’’ غالبا ترجمہ قرآن اور مشکوۃ ‘‘ کے پڑھنے کا تذکرہ کیا ہے۔ (۴) البتہ دوسری جگہ پر بالجزم ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں : ’’پٹنہ میں ترجمہ قرآن اور ترجمہ مشکوۃ پڑھ لیا تھا... مگر ترجمہ سے تو کام نہیں چل سکتا۔ ‘‘(۵)
مجھے شک ہے کہ پٹنہ میں آپ کو ترجمہ قرآن اور مشکوۃ شریف کا ترجمہ ازبر کرایا جاتا رہا ہوگا، اس کے امکان کی کوئی شکل نظر نہیں آتی ، کیوں کہ عربی دانی کے بغیرترجمہ حفظ کرانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ، حفظ ترجمہ بعید از قیاس ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہاں کے مدرس یا مدرسین نے میاں صاحب کی عربی اور فارسی صلاحیت جانچنے کے بعد اس صف میں داخلہ دیا ہو گا۔ ترجمہ قرآن اور مشکوۃ کے علاوہ بھی کتابیں رہی ہوں گی۔تاہم میاں صاحب نے محسوس کیا کہ ان کی صرف ونحو ابھی کمزور ہے جس پر مزید مشق کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے بلوغ المرام سے تعلیم کی ابتدا نہ کرنا بذات خود ایک سوالیہ نشان قائم کرتا ہے ۔ اگر صرف ترجمہ پڑھانا مقصود تھا تو اس کی ابتدا مشکاۃ سے کیوں ہوئی۔ مولانا ڈیانوی نے پٹنہ میں ان کے کسی تعلیمی مصروفیت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ (۱)
میاں صاحب کے پٹنہ میں قیام کا ایک خاص واقعہ یہ ہے کہ سید احمد شہید رحمہ اللہ کا قافلہ حج یہیں فروکش ہوا ۔ جمعہ کی نماز پولیس لائن کے میدان میں ہوئی تھی اورسید اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے وعظ کیا تھا ۔ میاں صاحب کہتے تھے : ’’ ہم اس وعظ ونماز میں شریک تھے ، سارا میدان لین کا آدمیوں سے بھرا ہوا تھا، پہلی ملاقات سید احمد صاحب اورمولانا شہید سے یہیں پٹنہ میں ہوئی ۔(۲)
کچھ تذکرہ نگارو ں نے اس ملاقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے میاں صاحب کے ذہن میں یہیں سے دہلی جاکر تکمیل علم کی خواہش پیدا ہوئی خاص طور سے شاہ عبدالعزیز سے تعلیم کی تمنا کی ۔ یہ بات اگر چہ بعید از قیاس نہیں تاہم اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ۔ خاص طور سے جب کہ پٹنہ اور دہلی کا فاصلہ ۶؍ سالوں میں طے کیا یہ دعوی محل نظر ہو جاتا ہے۔
پٹنہ سے چل کر میاں صاحب غازی پور پہونچتے ہیں، بقول صاحب الحیاۃ بعد المماۃ یہاں پر چندے قیام کیا اور کچھ ابتدائی کتابیں مولوی احمد علی چریا کوٹی سے پڑھیں۔پھر بنارس روانہ ہوگئے ۔ بنارس میں بھی مختصر قیام کیا ، مگر کسی عالم سے استفادہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ (۳)
بنارس میں میاں صاحب نے اپنی کچھ کتابیں فروخت کیں، ۹ ؍روپیے ملے ، جس سے سواری کا ٹٹو خریدا۔(۴) پھر بنارس سے الہ آباد روانہ ہوجاتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ چند دنوں ایک مسجد میں رہنے کے بعد دائرہ شاہ اجمل میں آگئے،(۵) الہ آباد میں اپنے قیام کا میاں صاحب نے خود اپنی ایک تحریر میں ذکر کیا ہے ، اپنے ایک شاگرد عبدالعزیز صاحب کو لکھتے ہیں:
’’ جمنا کے کنارے ایک مسجد ہے ، ایام طالب علمی میں کچھ وقت یہاں گذارا ہے، مولوی زین العابدین مرحوم و مغفور کے ساتھ درس وتدریس کی صحبت گرم رہتی تھی، دوائر کے چندلوگوں کے ساتھ بھی خوب لمبی مجلس مذاکرہ ہوتی تھی۔‘‘(۱)
میاں صاحب نے یہاں دائرہ اجمل شاہ میں اپنے قیام کا تذکرہ نہیں کیا ہے، صرف مولوی زین العابدین سے اس مسجدمیں استفادہ کا ذکر ہے۔یہ بات ذہن میں رکھیں کہ الہ آباد میں چھبن دوائر اور تکیے تھے۔ اس طرح میاں صاحب نے بلاتعیین بعض کے ذمہ داروں سے اپنے بحث و مباحثہ کا تذکرہ کیا ہے۔
میاں صاحب کو الہ باد اور مولوی زین العابدین سے بڑی انسیت ہو گئی تھی ۔ عبدالعزیز الہ آباد میں تحصیل دار تھے ملنے دہلی جاتے تو میاں صاحب کہتے:’’بھئی تمہارے آنے سے مولوی زین العابدین مرحوم یاد آجاتے ہیں، اور اپنی طالب علمی کے مزے اس وقت سب سامنے ہوجاتے ہیں ۔‘‘(۲) اس لیے دائرہ شاہ اجمل شاہ میں قیام ثبوت کا مستحق ہے۔ اگر چہ نوشہروی نے لکھا ہے کہ :’’ دائرہ اجمل شاہ میں رہ کر صرف و نحوکی ابتدائی کتابیں پڑھیں، اورجب تک زندہ رہے دائرہ اجمل شاہ کی یاد زبان پر رہی۔ ‘‘(۳)
مولانا ڈیانوی نے الہ آباد میں قیام اور یہاں کے اعیان سے استفادہ کا ذکر کیا ہے۔لکھتے ہیں:
’’ وصل إلی إلہ آباد وقرأ المختصرات من فنون شتی، مثل: مراح الأرواح، والزنجاني، ونقود الصرف، والجزولي ، وشرح ماءۃ عامل، والمصباح، والضریري ، وھدایۃ النحو وغیر ذلک علی جماعۃ من أعیان إلہ آباد ‘‘ (۱)
دائرہ اجمل شاہ میں قیام کیا ہوتا تو مولانا ڈیانوی اس کا ضرور ذکر کرتے ۔
الہ آباد سے روانگی:
عام طور سے میاں صاحب کے تذکرہ نگاروں کا خیال ہے کہ الہ آباد میں آپ کا قیام صرف سات آٹھ مہینے تک رہا، اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ میاں صاحب ۱۲۳۷ ھ میں پٹنہ سے نکلے اور ۵؍رجب ۱۲۳۸ ھ کو خواجہ پھول پور پہنچ گئے یہاں کی قلعہ والی مسجد میں آپ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک تحریر سے اس تاریخ میں یہاں ہونا ثابت ہوتا ہے ، اس طرح یہ مدت اس سے زیادہ نہیں بنتی ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا سات آٹھ مہینے کی مدت، کم ازکم آٹھ کتا بوں کے پڑھنے کے لیے کافی ہے؟
یہ اس وقت ممکن ہے جب طالب علم کے پاس پہلے سے صلاحیت و ذہانت ہو۔ میرے خیال میں میاں صاحب کے پاس صلاحیت توموجود تھی ، تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ میاں صاحب ’’لمبے مذاکرات‘‘ کس موضوع پر کرتے رہے ہوں گے ؟معمولی صرف ونحو کے مسائل پر مذاکرات کے کیا معنی ہیں؟ پھرکیا یہ ممکن ہے کہ میاں صاحب کا الہ آباد میں قیام اس سے زیادہ رہا ہو اور اس طرح علمی ترقی کے ساتھ اصحاب دوائر سے بحث ومباحثہ کا سلسلہ بھی چلتا رہا ہو۔ مولانا ڈیانوی کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ الہ آباد کا قیام اس سے کافی لمبا تھا ۔’’ الہ آباد میں استفادہ‘‘ کے بعد لکھتے ہیں: ’’.....ثم ارتحل في سنۃ اثنتین وأربعین والمأتین إلی مدینۃ دہلي‘‘(۲) اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا ڈیانوی ۱۲۴۲ ھ تک الہ آباد میں قیام کو ترجیح دے رہے ہیں۔
بعض اور باتوں کو ملاکر اس مسئلہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک الحیاۃ بعد المماۃ کے مصنف اور دوسرے تذکرہ نگاروں کی بات ہے ، وہ اس کے قائل ہیں کہ میاں صاحب موضع خواجہ پھول میں ۵؍رجب ۱۲۳۸ ھ کو پہونچے اور دہلی ۱۳؍رجب ۱۲۴۳ ھ کو ٹھیک پانچ برسوں کے بعد۔ یہ زمانہ آپ نے کہاں گذارا اور کیوں کر گذارا ؟ بالکل تاریکی میں ہے۔(۱) ان حضرات کا خیال ہے کہ’’ قلت زاد‘‘ اور ’’بے سرو سامانی‘‘ کے سبب سے سفر میں ایسا غیر معمولی وقفہ ہوا ہو گا۔ (۲) مولانا سیالکوٹی لکھتے ہیں: ’’ آخر آہستہ آہستہ راہ بے راہ سفر کرتے ۱۳؍رجب ۱۲۴۳ ھ کو بدھ کے روز دہلی پہنچے ۔ ‘‘(۳) اس سے بہتر تو جیہ صاحب نزہۃ الخواطر کی ہے: ’’ ثم سافر إلی دھلي وأقام في مقامات عدیدۃ في أثناء السفر حتی دخل دھلي ۔‘‘(۴) اس طرح دہلی پہنچنے تک یقینی طور سے کہیں نہ کہیں قیام ہوگا ۔ مگر اس کی تفصیل معلوم نہیں۔
غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے کانپور کے مضافات سے دہلی کا فاصلہ پانچ سال میں طے کرنا کئی وجوہ سے ناقابل قبول ہے۔
(الف) میاں صاحب کے پاس ایسا لگتا ہے ضروری زاد سفر موجود تھا ، خود لکھتے ہیں (کہ جب ۵/رجب ۱۲۳۸ ھ کوخواجہ پھول پہنچے تو)’’ میں ایک ٹٹو پر تھا ، ایک طالب بھی میرے ساتھ تھے ، شوق کتب بینی اس وقت زیادہ تھا اور تمہاری طرح غصہ ور اور جلد بازی مجھے بہت زیادہ تھی۔‘‘ (۵)
بتایا جاتا ہے کہ یہ ٹٹو آپ نے بنارس میں خریدا تھا ، سواری اور مصاحب کے ساتھ سفر کرنا بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ میاں صاحب کے پاس زاد راہ کی کمی نہیں تھی ، اس پر مستزاد کہ غصہ اور جلد بازی ۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وسائل کے لحاظ سے خود کفیل تھے ، کسی کی پرواہ نہیں تھی۔
(ب) پٹنہ سے دہلی کا تک کا فاصلہ ۱۰۶۰ ؍کیلو میٹر بتایا جاتا ہے ، یہ حالیہ مسافت کا تخمینہ ہے جس میں ریل اور شارع عام (ہائی وے) کا اعتبار کیا گیا ہے ۔ اگر پرانے پیدل کے راستے کا اعتبار کیا جائے تو یہ مسافت شاید کچھ کم ہی ہو، میاں صاحب پٹنہ سے چل کر ۱۲۳۸ ھ میں کانپور کے قریب خواجہ پھول پہنچتے ہیں ، اس طرح آپ نے کم از کم ۵۹۰؍ کلو میٹر کا فاصلہ ایک سال کے اندر اندر طے کر لیا تھا۔دلی . اتنی دور نہیں تھی کہ وہاں تک پہنچنے میں پانچ سال لگ جائیں۔ صرف ۴۷۰ ؍کلو میٹرکا فاصلہ باقی تھا۔ آپ کی مالی یا جسمانی کیفیت میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔
(ج) الہ آباد سے چل کر میاں صاحب چھبرہ مؤ پہونچتے ہیں۔ یہ قصبہ قنوج سے قریب دہلی کے راستے لب سڑک پر واقع ہے ۔ قنوج سے اس کا فاصلہ ۱۶۔۱۷ ؍کوس ہے۔ نوا ب صدیق حسن خان صاحب کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :’’رئیس قصبہ قاضی بدرالدین صاحب مغفور بسیار مہمان نواز وکریم النفس بودند، وبرادران قاضی مرحوم ہم غنیمت بودند...فقیر بآوان شباب در آنجا رسید قاضی صاحب وبرادران عالیشان موصوف احسانہا نمودہ اند۔‘‘ (۱)
جس انداز سے میاں صاحب قاضی صاحب اور ان کے برادران کے احسان کا ذکر کررہے ہیں وہ ایک دو وقت کی دعوت نہیں ہو سکتی ہے ۔ اس جگہ اپنے جانے کا تذکرہ میاں صاحب نے اپنے چند اور خطوط میں کیا ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’نیا نزرگ ایشان ہنگام سفر بندہ.از الہ آباد حسبۃ للہ مسافر نوازی وبرادرانہ مہمانی فرمودہ بودند، ہ ہمچنین رئیس کریم النفس نیاقتہ‘‘(۲)مزید لکھتے ہیں : ’’قاضی صاحب کا انتقال باعث قلق ہے۔ فقیر نے ان کے لیے دعائے خیر ہمیشہ کی ہے اور وہ مسافر نواز دوست پرور تھے ۔ اللہ تعالی ان کو مغفرت دے کر صادقین میں شمار فرمائے گا۔‘‘(۳) قاضی صاحب جیسا رئیس جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ :’’ان سا کریم النفس کوئی اور نہ مل سکا ‘‘ اور جس کے لیے وہ زندگی بھر دعا فرمائیں ، کیا یہ ممکن ہے کہ وہ میاں صاحب کی ضروریات کا پاس نہ کرے؟
میاں صاحب کے خطوط پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ قاضی صاحب کے پورے خاندان سے ان کے مراسم استوار ہو گئے تھے ۔ عبدالعزیز صمدانی کے والد قاضی صاحب کے داماد تھے ۔ یہ اگر چہ حنفی تھے تاہم میاں صاحب کے بڑے معتقد۔ ان سے خط و کتابت کا سلسلہ بھی تھا۔انہیں کی درخواست پر عبدالعزیز کو فراغت سے پہلے نکاح کرنے پر آمادہ کیا۔ (۱) ان کے گھر صمدن بھی جانے کا ذکر کیا ہے۔ (۲) عبدالعزیزصاحب میاں صاحب سے نہ صرف خط وکتابت کرتے تھے بلکہ کئی ذاتی معاملات میں مشورہ بھی لیتے تھے ۔ ان تفاصیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ پورے خاندان سے میاں صاحب کے قریبی تعلقات استوار ہوجاتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ قاضی صاحب کے خاندان کی مساعدت غیر معمولی رہی ہوگی ، اس لیے’’ قلیل زاد راہ‘‘ ’’عسرت‘‘ اور ’’تنگ دستی ‘‘کو دہلی پہونچنے میں تاخیر کی وجہ نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔
===========================================
(۱) تراجم علمائے اہل حدیث ،ص:۱۵۰، سید جواد علی کی رسائی یہیں تک تھی۔
(۲) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۳، دو صفحہ میں گھر سے نکلنے کا پلان اور دوسری تفاصیل بھی ذکر کی ہیں۔
(۳) تراجم علمائے حدیث ہند ،ص: ۱۵۰۔
(۱) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۴میں ۱۲۳۷ ھ کا ذکر ہے ،تاہم حاشیہ میں یہ لکھا ہے کہ تخمینا آپ گھر سے اس وقت نکلتے ہوں گے جب سید صاحب بریلی سے نکلتے ہوں گے۔ ص:۳۵، عزیر شمس نے ’’حیاۃ المحدث شمس الحق و آثارہ‘‘ ص:۲۶۷ میں اور مولانا سیالکوٹی نے تاریخ اہل حدیث ،ص: ۴۲۶ میں سفر کی تاریخ ۱۲۳۶ ھ ذکر کی ہے ، یہی تاریخ صحیح ہے کیوں کہ سید صاحب کا قافلہ محرم ۱۲۳۷ ھ میں پٹنہ میں تھا۔
(۲) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۴۔۳۵، لگتا ہے کہ بلتھرا سے عظیم آباد تک سفر کی تفاصیل کا واحدمرجع الحیاۃ بعد المماۃ ہے ، دوسرے حضرات نے یہ تفاصیل بسا اوقات لفظ بلفظ بلا حوالہ نقل کی ہیں۔
(۳) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۵۔ (۴)الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۵۔
(۵) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۴۴۔۴۵۔
(۱)غایۃ المقصود ،ص:۵۱، اس سے اندازہ ہوتا ہے پٹنہ میں آپ کی تعلیمی مصروفیات بہت معروف نہیں تھیں ۔
(۲) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۵، غالبا یہ مراد ہے کہ پہلی بار نماز جمعہ میں دیکھا ، اس کے بعد پٹنہ کے زمانہ میں متعدد بار دیکھا ہوگا۔پٹنہ کے علاوہ اور کہیں کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
(۳)الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۷۔
(۴)الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۳۷، ایک کتاب کے بیچنے کا ذکر ہے، بہر حال نو روپیے کی ایک کتاب سمجھ میں نہیں آتی ، مولانا نوشہروی نے معاملہ الٹ دیا ہے اور ٹٹو بیچ کر کتاب خریدنے کا ذکر کیا ہے!!بہر حال میاں صاحب نے سفر میں سواری کے استعمال کا ذکر کیا ہے جس سے ٹٹو خریدنے والی بات کی تائید ہوتی ہے۔
(۵) الحیاۃ بعد المماۃ،ص:۳۷۔
(۱) مکاتیب نذیریہ ،ص۷۹، خط نمبر ۷۷۔ خط فارسی میں ہے ، میں نے اپنا ترجمہ درج کیا ہے، آخری جملہ کے الفاظ یہ ہیں :’’ از چند اصحاب دوایرھم جلسہ مذاکرہ بانتہا کشیدہ ام ‘‘ مترجم مکاتیب نے یہ ترجمہ کیا ہے :’’ دائرہ کے چند ہم درس اصحاب سے مذاکرہ علمی میں انتہا درجہ کی کشیدگی تھی۔‘‘یہ ترجمہ غلط ہے۔تقریبا لفظی ترجمہ یہ ہے :’’بعض اصحاب دوائر کے ساتھ ہماری مجلس مذاکرہ انجام تک چلتی تھی۔‘‘
(۲)الحیاۃ بعد المماۃ، ص: ۶۴، مولوی عبدالعزیز کی رقم شدہ یاد داشت کے حوالہ سے۔
(۳)تراجم علمائے حدیث ہند، ص:۱۵۱، طبع الکتاب انٹرنیشنل دہلی۔
۱) غایۃ المقصود : ۱/۵۱۔۵۲، اسمائے کتب کی تفصیل الحیاۃ بعد المماۃ میں بھی ہے ، ص:۳۸۔ عزیر شمس نے پٹنہ سے دہلی کے راستہ میں قیام اور تعلیم کا ذکر مجملاً کیا ہے۔ص:۲۶۷۔
(۲)غایۃ المقصود ،ص:۵۲۔ صاحب البشری بسعادۃ الدارین نے بھی یہی الفاظ نقل کیے ہیں،ص:۲۷۔
(۱) الحیاۃ بعد المماۃ، ص:۴۰۔ (۲)ایضا۔
(۳) تاریخ اہل حدیث ،ص:۴۲۶۔
(۴)نزہۃ الخواطر: ۷/۱۳۹۱، طبع ابن حزم بیروت۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حال ہی میں ڈاکٹر بہاء الدین صاحب نے یہ تھیوری پیش کی ہے:’’ میاں صاحب نے پٹنہ میں سید صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی ہو گی اور پھر بنارس ،الہ آباد وغیرہ ہوتے ہوئے پانچ سال تک ان کی دعوت کے سری داعی رہے ہوں گے‘‘ میرا خیال ہے کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔سید صاحب نے جہاد کی دعوت ۱۲۴۴ ھ میں سفر حج سے واپسی کے بعد شروع کی تھی (سیرت سید احمد شہید :۱/۳۷۹،۴۳۹)البتہ جس طرح کا خیالی بورڈ مولانا سندھی نے بنایا ہے ہمارے ڈاکٹر صاحب کی تھیوری اس کا بہترین جواب ہے۔
ّ(۵) مکتوبات نذیریہ ،ص:۶۱، خط نمبر:۵۳۔
(۱) مکتوبات نذیریہ ،ص:۶۳، خط نمبر:۵۶، یہ جگہ ’’چھبرا مؤ ‘‘‘CHEBRAMAU کے نام سے معروف ہے ۔ مکتوبات میں ’’چھپرا ‘‘ لکھا گیا ہے۔
(۲)مکاتیب نذیریہ ،ص:۴۷، خط نمبر: ۳۸۔’’ آپ کے نانا بزرگ نے میرے الہ اباد سے سفر کے درمیان للہ فی اللہ مسافر نوازی اور برادرانہ مہمان نوازی کی ۔ ان سا کریم النفس رئیس نہیں دیکھا۔‘‘
(۳) کذا ۴۸، خط نمبر : ۳۹ ،مرقوم ۳؍شوال ۱۲۸۸ ھ۔
(۱) کذا : ۴۶۔۴۷، خط نمبر : ۳۸۔
(۲) کذا:۶۳، خط نمبر ۵۶۔