کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
نوٹ:- پچھلا حصہ پڑھنے کے لئے کلک کیجئے : (میراث الخنثی)
لغوی معنی:
الغرقی یہ غریق کی جمع ہے جس کے معنی ڈوب کرمرنے والا اور الھدمی یہ ھدیم کی جمع ہے جس کے معنی عمارت گرنے سے اس کے نیچے دب کرمرنے والا۔
اصطلاحی معنی:
فرائض کی اصطلاح میں مذکورہ دونوں الفاظ یا ایک لفظ بول کر ایسی جماعت کو مراد لیا جاتا ہے جو کسی حادثہ میں ایک ساتھ فوت ہوگئے ہوں۔
قدیم زمانے میں عام طور سے اجتماعی موت سمندر میں ڈوبنے یا عمارت کے گرنے سے ہوتی تھی اس لئے اس زمانے میں ایک ساتھ مرنے والوں کو انہیں الفاظ سے تعبیرکرتے تھے ، لیکن آج کے دور میں ایک ساتھ مرنے کے بہت سارے اسباب پیدا ہوگئے ہیں مثلا روڈ حادثہ ، پلین حادثہ ، جنگی حالات وغیرہ اس لئے اس کیفیت سے واقع ہونے والی موت کو ''الموت الجماعی ''سے تعبیرکرنا زیادہ بہتر ہے۔
✿ پہلی حالت :
اجتماعی اموات میں یہ معلوم ہو کہ سب ایک ساتھ ہی فوت ہوئے ہیں۔
اس صورت میں ایک ساتھ فوت ہونے والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے ، کیونکہ وارث کے لئے ضروری ہے کہ وہ مورث کے بعد فوت ہوا ہو، جیساکہ مقدمہ میں بیان کیا جاچکا ہے لہٰذا ایسی صورت میں ہر میت کا ترکہ ان کے صرف زندہ وارثین میں عام اصول کے تحت تقسیم ہو گا۔
✿ دوسری حالت:
اجتماعی اموات میں یہ معلوم ہو کہ کون کب فوت ہوا ہے۔
ایسی صورت میں بعد میں مرنے والا پہلے مرنے والے کا وارث ہوگا ، پھر الگ الگ، یا مناسخہ کے اصول سے زندہ وارثین میں ترکہ تقسیم ہوگا، جیساکہ عام اصول ہے۔
✿ تیسری حالت:
اجتماعی اموات میں یہ معلوم ہی نہ ہو کہ کون کب فوت ہوا ہے، یا یہ معلوم ہو کہ بعض بعض کے بعد فوت ہوئے ہوں لیکن کسی کی وفات کا وقت معلوم نہ ہوسکے، یا وقت معلوم ہوا ہو لیکن بعد میں لوگ بھول گئے ہوں۔
عصرحاضر میں اس حالت کی نوبت عام طور سے نہیں آتی ہے، کیونکہ یکے بعد دیگرے واقع ہونے والی اموات کا علم لاشیں دیکھنے کے بعد ہی ہوتاہے، اور عصر حاضر میں لاشوں کی موجودگی میں میڈیکل ٹسٹ سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کون کب فوت ہوا ہے ، اور میڈیکل رپوٹ آنے کے بعد بھولنے کے بھی امکانات نہیں رہتے ہیں ۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عصر حاضر میں اس مسئلہ کو قدیم طریقے سے حل کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے ، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ لاشوں کا ٹیسٹ کئے بغیر انہیں دفنا دیا گیا ہو تو یہ صورت پیش آسکتی ہے، لہٰذا اس صورت میں مسئلہ کا حل پیش کیا جاتا ہے۔
اگراجتماعی اموات کی تیسری حالت ہو، تو ایسی صورت میں مرنے والوں کے مابین، ان کی میراث تقسیم ہوگی یا نہیں اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔
❀ پہلا قول:
مالکیہ ، شوافع اور احناف اور جمہور کا قول یہ ہے کہ اس حالت میں مرنے والے آپس میں کسی کے وارث نہیں ہوں گے کیونکہ وارث ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ مورّث کے بعد وارث کی حیات متحقق ہو اور مذکورہ صورت میں اس بات کا تحقق نہیں ہوپاتا، لہٰذا میراث جاری نہیں ہوگی ۔
❀ دوسرا قول:
حنابلہ اور بعض اہل علم کا قول یہ ہے کہ ان کے مابین میراث جاری ہوگی، لیکن اموات آپس میں دوسری میت کے صرف تلاد(پرانے مال) سے ہی حصہ پاسکتے ہیں، طریف(نئے مال) سے نہیں ؛ باقی زندہ ورثاء ہر میت کے تلاد اور طریف دونوں سے حصہ پائیں گے۔
تلاد کا مطلب میت کا وہ پرانامال جس کا مالک وہ حادثہ سے قبل تھا۔ اور طریف کا مطلب وہ نیامال جو حادثہ کے بعد دوسری میت سے اسے ملا ہے ۔
میت کے طریف میں دوسری میت کو اس لئے نہیں دیا جاتا کیونکہ اس سے دور لازم آئے گا یعنی میت اپنے ہی مال کا وارث ثابت ہوگا ، کیونکہ ہرمیت کا مال دوسری میت کو ملے گا یعنی ہرمیت کا اپنا مال بھی لوٹ کر اس کے پاس آئے گا۔اورکوئی شخص اپنے مال کا خود وارث نہیں ہوسکتا۔
باب الغرقی أوالھدمی( الموت الجماعی) (Simultaneous death)
لغوی معنی:
الغرقی یہ غریق کی جمع ہے جس کے معنی ڈوب کرمرنے والا اور الھدمی یہ ھدیم کی جمع ہے جس کے معنی عمارت گرنے سے اس کے نیچے دب کرمرنے والا۔
اصطلاحی معنی:
فرائض کی اصطلاح میں مذکورہ دونوں الفاظ یا ایک لفظ بول کر ایسی جماعت کو مراد لیا جاتا ہے جو کسی حادثہ میں ایک ساتھ فوت ہوگئے ہوں۔
قدیم زمانے میں عام طور سے اجتماعی موت سمندر میں ڈوبنے یا عمارت کے گرنے سے ہوتی تھی اس لئے اس زمانے میں ایک ساتھ مرنے والوں کو انہیں الفاظ سے تعبیرکرتے تھے ، لیکن آج کے دور میں ایک ساتھ مرنے کے بہت سارے اسباب پیدا ہوگئے ہیں مثلا روڈ حادثہ ، پلین حادثہ ، جنگی حالات وغیرہ اس لئے اس کیفیت سے واقع ہونے والی موت کو ''الموت الجماعی ''سے تعبیرکرنا زیادہ بہتر ہے۔
اجتماعی اموات کے حالات
✿ پہلی حالت :
اجتماعی اموات میں یہ معلوم ہو کہ سب ایک ساتھ ہی فوت ہوئے ہیں۔
اس صورت میں ایک ساتھ فوت ہونے والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے ، کیونکہ وارث کے لئے ضروری ہے کہ وہ مورث کے بعد فوت ہوا ہو، جیساکہ مقدمہ میں بیان کیا جاچکا ہے لہٰذا ایسی صورت میں ہر میت کا ترکہ ان کے صرف زندہ وارثین میں عام اصول کے تحت تقسیم ہو گا۔
✿ دوسری حالت:
اجتماعی اموات میں یہ معلوم ہو کہ کون کب فوت ہوا ہے۔
ایسی صورت میں بعد میں مرنے والا پہلے مرنے والے کا وارث ہوگا ، پھر الگ الگ، یا مناسخہ کے اصول سے زندہ وارثین میں ترکہ تقسیم ہوگا، جیساکہ عام اصول ہے۔
✿ تیسری حالت:
اجتماعی اموات میں یہ معلوم ہی نہ ہو کہ کون کب فوت ہوا ہے، یا یہ معلوم ہو کہ بعض بعض کے بعد فوت ہوئے ہوں لیکن کسی کی وفات کا وقت معلوم نہ ہوسکے، یا وقت معلوم ہوا ہو لیکن بعد میں لوگ بھول گئے ہوں۔
عصرحاضر میں اس حالت کی نوبت عام طور سے نہیں آتی ہے، کیونکہ یکے بعد دیگرے واقع ہونے والی اموات کا علم لاشیں دیکھنے کے بعد ہی ہوتاہے، اور عصر حاضر میں لاشوں کی موجودگی میں میڈیکل ٹسٹ سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کون کب فوت ہوا ہے ، اور میڈیکل رپوٹ آنے کے بعد بھولنے کے بھی امکانات نہیں رہتے ہیں ۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عصر حاضر میں اس مسئلہ کو قدیم طریقے سے حل کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے ، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ لاشوں کا ٹیسٹ کئے بغیر انہیں دفنا دیا گیا ہو تو یہ صورت پیش آسکتی ہے، لہٰذا اس صورت میں مسئلہ کا حل پیش کیا جاتا ہے۔
اہل علم کا اختلاف
اگراجتماعی اموات کی تیسری حالت ہو، تو ایسی صورت میں مرنے والوں کے مابین، ان کی میراث تقسیم ہوگی یا نہیں اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔
❀ پہلا قول:
مالکیہ ، شوافع اور احناف اور جمہور کا قول یہ ہے کہ اس حالت میں مرنے والے آپس میں کسی کے وارث نہیں ہوں گے کیونکہ وارث ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ مورّث کے بعد وارث کی حیات متحقق ہو اور مذکورہ صورت میں اس بات کا تحقق نہیں ہوپاتا، لہٰذا میراث جاری نہیں ہوگی ۔
❀ دوسرا قول:
حنابلہ اور بعض اہل علم کا قول یہ ہے کہ ان کے مابین میراث جاری ہوگی، لیکن اموات آپس میں دوسری میت کے صرف تلاد(پرانے مال) سے ہی حصہ پاسکتے ہیں، طریف(نئے مال) سے نہیں ؛ باقی زندہ ورثاء ہر میت کے تلاد اور طریف دونوں سے حصہ پائیں گے۔
تلاد کا مطلب میت کا وہ پرانامال جس کا مالک وہ حادثہ سے قبل تھا۔ اور طریف کا مطلب وہ نیامال جو حادثہ کے بعد دوسری میت سے اسے ملا ہے ۔
میت کے طریف میں دوسری میت کو اس لئے نہیں دیا جاتا کیونکہ اس سے دور لازم آئے گا یعنی میت اپنے ہی مال کا وارث ثابت ہوگا ، کیونکہ ہرمیت کا مال دوسری میت کو ملے گا یعنی ہرمیت کا اپنا مال بھی لوٹ کر اس کے پاس آئے گا۔اورکوئی شخص اپنے مال کا خود وارث نہیں ہوسکتا۔