کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
نوٹ:- پچھلا حصہ پڑھنے کے لئے کلک کیجئے : (پانچواں حصہ : مناسخہ )
لغوی معنی :
مفقود باب ضرب سے مفعول کاصیغہ ہے جس کے معنی گم پانا کے ہوتے ہیں۔
اصطلاحی معنی:
فرائض کی اصطلاح میں مفقود اسے کہتے ہیں جس کے بارے میں یہ پتہ نہ ہو کہ وہ کہاں ہے اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا فوت ہوچکا ہے۔
مفقود کی دو حالتیں ہوسکتی ہیں:
✿ پہلی حالت: مفقود مورّث ہو
اگر مفقود مورّث ہو تو اسے زندہ تصور کیا جائے گااور اس کا مال تقسیم نہیں کیا جائے گا جب تک کہ اس کے موت کی یقینی خبر نہ آجائے یا قاضی اپنے اجتہاد سے اس کی موت کا فیصلہ نہ کردے ۔
قاضی کتنے سالوں بعد موت کا فیصلہ کرسکتا ہے اس بارے میں اختلاف ہے، لیکن راجح بات یہی ہے کہ اس سلسلے میں کوئی متعینہ مدت نہیںہے، بلکہ حالات و قرائن کے لحاظ سے کسی بھی مدت کے بعدفیصلہ کیا جاسکتا ہے۔تاہم عموما چارسال کی مدت انتظارسے متعلق بعض صحابہ کے آثارملتے ہیں، اس لئے کم ازکم اس مدت تک انتظار کرنا چاہئے، اس کے بعد حالات وقرائن مزید انتظار کا تقاضا کریں تو مزید انتظار کرنا چاہئے، ورنہ ظن غالب موت ہی کا ہو تو قاضی کے ذریعہ اس کا فیصلہ ہوگا۔
لیکن قاضی جس وقت اس کی موت کا فیصلہ کرے گا اس وقت مفقود کے جو ورثاء باحیات ہوں گے وہی وراثت کے حقدار ہوں گے ، اس سے قبل فوت ہو جانے والے ورثاء کا کوئی حق نہیں ہوگا ،کیونکہ وارث بننے کے لئے مورّث کی موت کا تحقق ضروری ہے اور اس سے قبل یہ بات نہیں تھی۔
✿ دوسری حالت: مفقود وارث ہو
مفقود وارث ہو تو اس کا بھی یہی معاملہ ہوگا یعنی اسے زندہ سمجھا جائے گا جب تک کہ اس کی موت کی یقینی خبر نہ آجائے یا قاضی اپنے اجتہاد سے اس کی موت کا فیصلہ نہ کردے ۔اس دوران اس کا حصہ محفوظ رکھا جائے گا،اور بعد میں درج ذیل صورتوں کے مطابق فیصلہ ہوگا۔
❀ پہلی صورت:-
بعدمیں اگر یہ خبرملتی ہے کہ مفقود اپنے مورث سے پہلے ہی مرچکا تھا، تو یہ محفوظ کردہ مال مفقود کے علاوہ مورّث کے دیگر مستحق وارثین میں تقسیم ہوگا۔
❀ دوسری صورت:-
بعد میں اگر یہ خبر ملتی ہے مفقود اپنے مورث کے بعد فوت ہوا ہے تو محفوظ کردہ مال مفقود کے حصے میں آئے گاپھر مفقود کے وارثین میں تقسیم ہوگا۔
❀ تیسری صورت:-
بعد میں مفقود کے موت کی خبرملے ،لیکن یہ معلوم نہ ہوسکے کہ وہ کب فوت ہوا ہے ، یا بعد میں مفقود کی کوئی خبر ہی نہ ملے اور قاضی اس کی موت کا فیصلہ کرے تو محفوظ کردہ مال مفقود کے حصے میں آئے گاجو اس کی موت کے فیصلہ کے وقت اس کے زندہ وارثین میں تقسیم ہوگا➊۔
❀ چوتھی صورت:-
بعد میں مفقود زندہ واپس آجائے تووہ اپنا حق لے گا ،اگر دوران انتظار ہی مفقود زندہ واپس آجائے تو محفوظ شدہ مال اس کے حوالے کریں گے ، اور اگر قاضی کی طرف سے موت کافیصلہ اور محفوظ شدہ مال تقسیم ہوجانے بعد زندہ واپس آجائے تو اس کا مال جن کوملا ہے ان سے واپس لے کر اس کودیاجائے گا۔
اب رہا مسئلہ یہ کہ مفقود کا مال کیسے محفوظ رکھا جائے گا اور ایسی صورت میں دوسرے وارثین کے مابین تقسیم کیسے ہوگی تو اس کا طریقہ حل آگے ملاحظہ ہو:
#####################################
➊ اس صورت میں یہ موقف حنابلہ کا ہے اور یہی راجح ہے، جبکہ دیگر اہل علم کا خیال ہے کہ اس صورت میں پہلی صورت جیسامعاملہ کیا جائے گا یعنی محفوظ شدہ مال کو مفقود کو نہ دیتے ہوئے اصل مورث کے جو دیگر وارثین ہیں انہیں کو واپس کریں گے ۔لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت میں وارث کا مورث سے پہلے مرنا ثابت نہیں ہے اور اصل حیاة ہے ۔
باب میراث المفقود(Lost Person)
لغوی معنی :
مفقود باب ضرب سے مفعول کاصیغہ ہے جس کے معنی گم پانا کے ہوتے ہیں۔
اصطلاحی معنی:
فرائض کی اصطلاح میں مفقود اسے کہتے ہیں جس کے بارے میں یہ پتہ نہ ہو کہ وہ کہاں ہے اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا فوت ہوچکا ہے۔
مفقود کی دو حالتیں ہوسکتی ہیں:
✿ پہلی حالت: مفقود مورّث ہو
اگر مفقود مورّث ہو تو اسے زندہ تصور کیا جائے گااور اس کا مال تقسیم نہیں کیا جائے گا جب تک کہ اس کے موت کی یقینی خبر نہ آجائے یا قاضی اپنے اجتہاد سے اس کی موت کا فیصلہ نہ کردے ۔
قاضی کتنے سالوں بعد موت کا فیصلہ کرسکتا ہے اس بارے میں اختلاف ہے، لیکن راجح بات یہی ہے کہ اس سلسلے میں کوئی متعینہ مدت نہیںہے، بلکہ حالات و قرائن کے لحاظ سے کسی بھی مدت کے بعدفیصلہ کیا جاسکتا ہے۔تاہم عموما چارسال کی مدت انتظارسے متعلق بعض صحابہ کے آثارملتے ہیں، اس لئے کم ازکم اس مدت تک انتظار کرنا چاہئے، اس کے بعد حالات وقرائن مزید انتظار کا تقاضا کریں تو مزید انتظار کرنا چاہئے، ورنہ ظن غالب موت ہی کا ہو تو قاضی کے ذریعہ اس کا فیصلہ ہوگا۔
لیکن قاضی جس وقت اس کی موت کا فیصلہ کرے گا اس وقت مفقود کے جو ورثاء باحیات ہوں گے وہی وراثت کے حقدار ہوں گے ، اس سے قبل فوت ہو جانے والے ورثاء کا کوئی حق نہیں ہوگا ،کیونکہ وارث بننے کے لئے مورّث کی موت کا تحقق ضروری ہے اور اس سے قبل یہ بات نہیں تھی۔
✿ دوسری حالت: مفقود وارث ہو
مفقود وارث ہو تو اس کا بھی یہی معاملہ ہوگا یعنی اسے زندہ سمجھا جائے گا جب تک کہ اس کی موت کی یقینی خبر نہ آجائے یا قاضی اپنے اجتہاد سے اس کی موت کا فیصلہ نہ کردے ۔اس دوران اس کا حصہ محفوظ رکھا جائے گا،اور بعد میں درج ذیل صورتوں کے مطابق فیصلہ ہوگا۔
❀ پہلی صورت:-
بعدمیں اگر یہ خبرملتی ہے کہ مفقود اپنے مورث سے پہلے ہی مرچکا تھا، تو یہ محفوظ کردہ مال مفقود کے علاوہ مورّث کے دیگر مستحق وارثین میں تقسیم ہوگا۔
❀ دوسری صورت:-
بعد میں اگر یہ خبر ملتی ہے مفقود اپنے مورث کے بعد فوت ہوا ہے تو محفوظ کردہ مال مفقود کے حصے میں آئے گاپھر مفقود کے وارثین میں تقسیم ہوگا۔
❀ تیسری صورت:-
بعد میں مفقود کے موت کی خبرملے ،لیکن یہ معلوم نہ ہوسکے کہ وہ کب فوت ہوا ہے ، یا بعد میں مفقود کی کوئی خبر ہی نہ ملے اور قاضی اس کی موت کا فیصلہ کرے تو محفوظ کردہ مال مفقود کے حصے میں آئے گاجو اس کی موت کے فیصلہ کے وقت اس کے زندہ وارثین میں تقسیم ہوگا➊۔
❀ چوتھی صورت:-
بعد میں مفقود زندہ واپس آجائے تووہ اپنا حق لے گا ،اگر دوران انتظار ہی مفقود زندہ واپس آجائے تو محفوظ شدہ مال اس کے حوالے کریں گے ، اور اگر قاضی کی طرف سے موت کافیصلہ اور محفوظ شدہ مال تقسیم ہوجانے بعد زندہ واپس آجائے تو اس کا مال جن کوملا ہے ان سے واپس لے کر اس کودیاجائے گا۔
اب رہا مسئلہ یہ کہ مفقود کا مال کیسے محفوظ رکھا جائے گا اور ایسی صورت میں دوسرے وارثین کے مابین تقسیم کیسے ہوگی تو اس کا طریقہ حل آگے ملاحظہ ہو:
#####################################
➊ اس صورت میں یہ موقف حنابلہ کا ہے اور یہی راجح ہے، جبکہ دیگر اہل علم کا خیال ہے کہ اس صورت میں پہلی صورت جیسامعاملہ کیا جائے گا یعنی محفوظ شدہ مال کو مفقود کو نہ دیتے ہوئے اصل مورث کے جو دیگر وارثین ہیں انہیں کو واپس کریں گے ۔لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت میں وارث کا مورث سے پہلے مرنا ثابت نہیں ہے اور اصل حیاة ہے ۔