• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میرا ووٹ میری گواہی : کیا کہے گے آپ اس امیج کے بارے میں :

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ووٹ فی نفسہ ،تو غلط ،صحیح نہیں ہوتا ؛
اس کے صحیح ،غلط ہونے کا مدار اس کے استعمال پر ہے ،
یعنی کس نظام کے لئے دیا جارہا ہے ،کس شخص کو دیا جا رہا ہے ۔؟
ووٹ دینے کا مقصد کیا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ٹھیک نظام ۔۔ٹھیک شخص ۔۔کو ۔۔صحیح مقصد کیلئے دیا جارہا ،تو یقیناً صحیح ہے ۔
اور اگر ان تینوں میں کوئی ایک پہلو بھی غلط ہے ،تو ووٹ بھی یقیناً غلط ہے
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ووٹ فی نفسہ ،تو غلط ،صحیح نہیں ہوتا ؛
اس کے صحیح ،غلط ہونے کا مدار اس کے استعمال پر ہے ،
یعنی کس نظام کے لئے دیا جارہا ہے ،کس شخص کو دیا جا رہا ہے ۔؟
ووٹ دینے کا مقصد کیا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ٹھیک نظام ۔۔ٹھیک شخص ۔۔کو ۔۔صحیح مقصد کیلئے دیا جارہا ،تو یقیناً صحیح ہے ۔
اور اگر ان تینوں میں کوئی ایک پہلو بھی غلط ہے ،تو ووٹ بھی یقیناً غلط ہے
شیخ توصیف الرحمن حفظ اللہ کا اس بارے میں بیان ضرور سنیں
http://www.syedtauseef.com/video/kya-jamhoori-election-se-islaah-hosakti-hai.html
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
مبتدعین حضرات جس آیت یا حدیث سے کسی اپنے باطل عقیدے یا عمل کا اثبات نکالنے کی کوشش کریں گے ۔ اسی میں ہی ان پر رد ثابت ہوئی ہوتی ہے ۔
مثلاً شیخ امین اللہ پشاوری صاحب ایک بدعتی مولوی کا واقعہ نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ " طالوت نے جب اپنی لشکرسے کہا کہ اس نہر سے پانی نہیں پینا ۔
تو ماسوائے چند کے بہت سارے لوگوں نے پانی نہیں پیا ،
جس سے تقلید ثابت ہوئی ۔ یعنی لوگوں نے طالوت کی بات بے سوچے سمجھے مان لی "
۔
حالانکہ طالوت کا واقعہ پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کو یہ پانی نہ پینے کا حکم دیا تھا ۔ اس میں تقلید ہی کی نفی ہے کیونکہ اس نے کہا کہ یہ اللہ کا حکم ہے کہ پانی نہیں پینا ۔ماسوائے ایک دو گھونٹ کے ۔
البقرۃ:۲۴۹۔ترجَمہ:(طالوت)بولا بے شک اللہ تمہیں ایک نَہَر سے آزمانے والا ہے،تو جو اس کاپانی پئے وہ میرا نہیں اورجو نہ پئے وہ میرا ہے مگروہ جو ایک چُلّو اپنے ہاتھ سے لے لے۔

الغرض جو کوئی بھی اس حدیث سے ووٹ ڈالنا ثابت کرنے کی کوشش کرے گا اسی حدیث میں ہی اس کا مخالف جواب ہے۔
یعنی یہ قیامت کے نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ لوگ ووٹ ڈال نااہل لوگوں کو منتخب کریں گے ۔
اور یہ ووٹ ڈالنا مستحسن نہیں ہے بلکہ غضب والی چیز ہے ۔ کیونکہ قیامت کے قریب لوگ برائیوں میں پھنسے ہوں گے نہ کہ اچھائیوں میں ۔
دوسری بات۔
﴿أَفَمَن كانَ مُؤمِنًا كَمَن كانَ فاسِقًا ۚ لا يَستَوۥنَ ﴿١٨﴾السجدة
بھلا جو مومن ہے وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے۔ جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔
﴿هَل يَستَوِى الَّذينَ يَعلَمونَ وَالَّذينَ لا يَعلَمونَ...٩﴾الزمر
ترجمہ: کیا عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں۔
کیا شیخ توصیف الرحمٰن صاحب اور ریمان ملک ، ایک جیسے ہوسکتے ہیں ؟ وعلی ھذالقیاس ۔
تیسری بات :
وَما يُؤمِنُ أَكثَرُ‌هُم بِاللَّهِ إِلّا وَهُم مُشرِ‌كونَ ﴿١٠٦﴾يوسف
اور اکثر لوگ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ شرک بھی کرتے ہیں۔
جمہوری قاعدے میں یہی ہوتا ہے کہ جس کے ووٹ زیادہ وہ ہی حاکم ہوگا ۔ چاہے وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو ۔
حضور اکرم ﷺ نے مجلسِ ''مشاورت متعلقہ اساریٰ .......'' کے بھرے مجمع میں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا۔
لَوِ اجتمعًا ما عصیتکما (در منثور)
اگر یہ دونوں ہم رائے ہو جاتے تو میں ان کا خلاف نہ کرتا۔
گویا آپ کے نزدیک ان دو بزرگوں کی رائے باقی سارے مجمع پر بھاری تھی اور جیش اسامہ کی روانگی اور مانعین زکوٰۃ کے بارے میں حضرت ابو بکرؓ کی رائے ساری شوریٰ پر بھاری تھی۔
فَإِن تَنازَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ...٥٩﴾النساء
ور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو۔
لیکن جمہوریت کہتی ہے کہ ایک خاص تعداد تک پہنچنے پر ہر قسم قانون لایااور لاگوکیا جاسکتا ہے ۔ چاہے وہ لارڈ منہ کالے جیسا قانون ہی کیوں نہ ہو ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت لله -

اپنی بد اعمالیوں اور دشمن کی سازشوں کی وجہ سے نظام خلافت کا بالکلیہ خاتمہ ہوگیا ؛ تو دنیا میں ایک ایسے طریقہٴ حکم رانی کو رواج ملا، جسے” جمہوریت “کہتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت اپنے اندر باوجود چند ایک خوبیوں کے- بے شمار خرابیاں رکھتی ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت "جمہور" کے فیصلے کی مرہون منّت ہے- جب کہ خالق کائنات کے نزدیک جمہور فاسق و فاجر اورکذاب ہوتی ہے -اور اس پر قرآن کی بے شمار آیات دلالت کرتی ہیں:

وَلَـكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
اور ان میں اکثریت فاسقین کی ہے
وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ
اوراسں میں اکثر جھوٹے ہیں
وَإِنْ تُطِعْ اٴَکْثَرَ مَنْ فِی الْاٴَرْضِ یُضِلُّوکَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ ہُمْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ
اور (اے نبی ) اگر تم زمین پر رہنے والے لوگوں میں سے اکثر لوگوں کی اطاعت کرو گے تووہ تمھیں الله کی راہ سے گمراہ کردیں گے، وہ تو صرف ظن اور گمان کی پیروی کرتے ہیں اور اٹکل پچو لڑاتے رہتے ہیں-

خالق کائنات جانتا ہے کہ اکثریت تنہا راہ حق کی نشاندہی نہیں کرسکتی- راہ حق صرف الله سے حاصل کرنا چاہئے چاہے حق کے طرفدار اقلیت میں ہی کیوں نہ ہوں ، وہ بہتر طور پر جانتا ہے کہ راہ ضلالت کونسی ہے اور راہ ہدایت کون سی، اور وہ گمراہوں اور ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی بہتر طور پر پہچانتا ہے-

ووٹ درصل جمہوریت کو نافذ العمل کرنے کا ایک آ لہ کار ہے - کہ اس کے ذریے حق رائے دہی کا استعمال کرنا ہوتا ہے ۔جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ اسمبلی ،کونسل ،بلدیہ یا اس جیسے اداروں کے لیے عوام کے ذریعہ نمائندہ چننے کا عمل ووٹ پر منحصر ہوتا ہے -ووٹنگ کے طریقہ کار دراصل حکومت سازی کے لیے انجام دیا جانے والا عمل ہے جو عہد سلف میں موجود نہیں تھا - اور حکومت سازی دین کا حصّہ ہے لہذا ووٹنگ ایک بدعت ہے اور کافروں (یہود و نصاریٰ) کا بنایا گیا نظام ہے جس کا اصل مقصد مسلمانوں میں افراتفری، ناقص حکومت اور کرپٹ حکمرانوں کی حاکمیت کی راہ ہموار کرنا ہے - قرآن میں الله تبارک وتعالیٰ فیصلہ کن اندازمیں فرماتا ہے :

وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ سوره البقرہ ١٢٠

اورتم سے یہود اور نصاریٰ ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک کہ تم ان ملّت کی پیروی نہیں کرو گے کہہ دو بے شک ہدایت الله ہی کی طرف سے ہے- اور اگر تم نے ان کی خواہشا ت کی پیروی کی اس کے بعد جو تمہارے پاس علم آ چکا ہے- تو تمہارے لیے الله کے ہاں کوئی دوست اور مددگار نہیں ہوگا-

ہمارے اکثر نادان دانشور اورعلماء بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ "ووٹنگ " دراصل وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ کی تفسیر ہے - جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ووٹنگ صرف ایک حق راے دہی ہے - ایک انسان کسی کے بارے میں راے دے سکتا ہے کہ فلاں اچھا ہے یا برا یا پھر حکمران بننے کے قبل ہے یا نہیں -جب کہ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ مشوره دینے والا چاہے اکثریت میں ہو یا اقلیت میں- حاکم وقت کو نامزد کرنے والی کمیٹی اس بات کی پابند نہیں کہ وہ ہر صورت اکثریتی راۓ دہندگان کے مشورے کو ہی قبول کرے گی- اور یہی دین حق کا تقاضہ ہے کیوں کہ ضروری نہیں کہ اکثریتی انسانی استبداد میں صحیح راے پیش کرنے کی صلاحیت موجود ہو - جیسا کہ اوپر دی گئی قرآنی آیات سے واضح ہے کہ الله کے نزدیک عمومی طور پر اکثریت فاسق و فاجر ہی ہوتی ہے-

ہماری اسلامی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ قرون اولیٰ میں بھی ایسی کئی ایک مثالیں موجود ہیں کہ اکثریت کو چھوڑ کر اقلیت کے فیصلے کو قبول کیا گیا -حقیقت یہ ہے کہ ووٹنگ ایک بدعت ہے- اور حاکم وقت کے تقرر سے متعلق دین اسلام میں یہود و نصاریٰ کے اصولوں نفاذ کا ذریہ ہے-

الله ہمیں اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
شیخ صاحب!
مروجہ جمہوری نظام ٹھیک ہے؟
جزاک اللہ خیرا.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ؛

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مروجہ اور موجودہ جمہوری نظام کو میں صحیح نہیں سمجھتا ،بلکہ اس کے کئی پہلو اسلام سے واضح متصادم ہیں ،
تاہم اس معاملہ میں یہ میری رائے ہے ،کوئی فتوی نہیں ،اس کیلئے اس شعبہ کے کسی باخبر عالم ہی فتوی صادر کرسکتے ہیں،
اور فورم پر بھی اہل علم موجود ہیں ،انکی تحقیق ، و مشاہدات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
وَلَـكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
اور ان میں اکثریت فاسقین کی ہے
’کثیر ‘ کا ترجمہ ’ اکثریت ‘ درست نہیں ۔ کسی چیز کی ’’ کثرت ‘‘ اور ’’ اکثریت ‘‘ میں واضح فرق ہے ۔
 
Top