• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میری کتاب ’’ حادثہ کربلا اورسبائی سازش‘‘ سے متعلق ایک وضاحت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
کچھ لوگ میری کتاب حادثہ کربلا اورسبائی سازش سے متعلق بار بار یہ اعتراض اٹھارہے ہیں کہ میں نے اس میں بعض جگہ ضعیف اور بعض جگہ کذاب شعیہ راویوں کی روایات سے استدلال کیا ہے۔
اگر ان لوگوں نے میری کتاب کا مقدمہ بغور پڑھ لیا ہوتا تو اس طرح کا اعتراض نہ کرتے۔
سب سے پہلے میں اسی کتاب کے مقدمہ سے کچھ سطور نقل کرتاہوں:
یہ کتاب میرے پاس مخطوط تھی ،اب کچھ حذف واضافہ کے ساتھ اس کتاب کی طباعت ہورہی ہے،اس کتاب میں عام طورسے تاریخی لحاظ سے اس موضوع پربحث کی گی ہے لیکن اسی سلسلے کی ہماری ایک دوسری کتاب ہے ''حادثہ کربلا ویزید،صرف صحیح روایات کی روشنی میں'' اس کتاب میں ہم نے اصول حدیث کے لحاظ سے ہرہرروایت کوپرکھنے کے بعد ہی داخل کتاب کیا ہے اورہمارے خیال سے اس موضوع پراس انداز کی یہ پہلی کتاب ہے ان شاء اللہ ہماری کوشش ہوگی کہ یہ دوسری کتاب بھی جلد ہی طبع ہوجائے۔[حادثہ کربلا اورسبائی سازش: ص 6]۔
یہاں مقدمہ میں ہم نے صاف طور سے واضح کردیا کہ اس کتاب میں تاریخی لحاظ سے اس موضوع پربحث کی گئی ہے، اور اس کے فورا بعد ہم نے یہ بھی واضح کردیا کہ اس سلسلے کی ہمارے ایک دوسری کتاب ’’حادثہ کربلا ویزید،صرف صحیح روایات کی روشنی میں‘‘ ہے جو اصول حدیث کی روشنی میں صرف صحیح روایات پر مشتمل ہے۔
غورکیجیے کہ اگرہمارا یہ دعوی ہوتا کہ اس کتاب میں ہم نے صرف صحیح روایات ہی درج کی ہیں تو ہم مقدمہ میں اس موضوع پر اپنی دوسری ایسی کتاب کا تذکرہ کیوں کرتے جس میں صرف صحیح روایات کا التزام کیا گیا ہے؟

اسی طرح کتاب کے اندر ص 19 سے صفحہ 24 تک تاریخی روایات کی حقیقت سے متعلق ہم نے جو کچھ لکھا ہے اسے بھی پڑھ لیا جائے ۔
یہاں پر ہم نے شروع میں لکھا:
حادثہ کربلا کا مرجع تاریخی روایات ہیں جن کی جمع و تحقیق میں وہ اہتمام نہیں ہوا جو احادیث کے باب میں ہوتا ہے، مزید یہ کہ اکثرتاریخی روایات کے بیان کرنے والے ایسے رواة ہیں جو ضعیف ہی نہیں بلکہ کذاب اور شیعہ ہیں ، اورمؤرخین نے حادثہ کربلا کے بیان میں ان سب کی مرویات یکجا کردی ہیں۔
آگے مزید لکھا:
روایات کربلا کی صرف یہی ایک خصوصیت نہیں ہے کہ ان کا اکثر حصہ من گھڑت اور غیرمستندہے بلکہ اس کے ساتھ ایک دوسری مصیبت یہ بھی ہے کہ واضح تضاد اورتعارض جگہ جگہ موجودہے۔
اوراخیر میں ان روایات سے متعلق اپنا موقف درج کرتے ہوے لکھا:
لہٰذا کربلا کی وہ روایات قطعاً قابل قبول نہیں ہیں جو شان صحابیت اورتابعین کے بلند معیار پر پورا نہیں اترتیں ، خواہ ان کا تعلق حسین رضی اللہ عنہ سے ہو یا یزید رحمہ اللہ سے ، علاوہ بریں ، کربلا کی روایات میں ایک مجموعہ روایات ایسا بھی ہے جس سے نہ تو حسین رضی اللہ عنہ پر کوئی حرف آتا ہے اورنہ ہی یزید کی کردار کشی ہوتی ہے بلکہ اس مجموعہ روایات کی رو سے وہ تمام تر الزامات لغو قرار پاتے ہیں جو ایک دوسرے مجموعہ روایات کو بنیاد بناکر حسین رضی اللہ عنہ یا یزید رحمہ اللہ پر عائد کئے جاتے ہیں۔
اگر روایات کربلا کی حقیقت و نوعیت کو سمجھ کر، صحابہ و تابعین اورسلف صالحین کی عظمت و فضیلت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے غور کیا جائے توان روایات سے متعلق معتدل موقف یہی معلوم ہوتاہے کہ تاریخی اعتبارسے ان کا صرف وہ حصہ قبول کیا جائے جو شان صحابیت اورتابعین و اسلاف کے معیار پر پورا اترتاہو اوران کے مجموعی طرز عمل سے مناسبت رکھتا ہو ، قطع نظر اس بات کے کہ ان کا تعلق حسین رضی اللہ عنہ اوران کے اصحاب سے ہے یا یزید رحمہ اللہ اوران کے اصحاب سے ۔
ان سطور کو پڑھنے کے بعد ہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ ہم نے اس کتاب میں اس بات کا دعوی ہی نہیں کیا ہے کہ اس میں ہم صرف وہیں روایات درج کریں گے جو اصول حدیث کے معیار پر صحیح قرار پاتی ہوں بلکہ اس کے برعکس ہم نے یہ وضاحت کررکھی ہے اس میں عام طور سے تاریخی روایات درج ہوں گی لیکن ان روایات سے اگر کسی مسلمان شخص پر الزام عائد ہوتا ہے تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔

البتہ اس کتاب میں ہم نے بہت سے مقامات پر اصول حدیث کے معیار پر صحیح وثابت روایات بھی درج کی ہیں اور ایسے ہرمقام پر ہم نے روایت کے اخیر میں اس کی صحت بیان کردی ہے۔
اور جو روایات اصول حدیث کے معیار پر صحیح قرار نہیں پاتیں انہیں ہم نے درج تو کیا ہے لیکن ان پر صحت کا حکم نہیں لگایا ہے۔

اعتراض کرنے والوں کا اعتراض اس وقت درست ہوتا جب ہم نے اپنی کتاب سے متعلق یہ دعوی کیا ہوتا کہ اس میں ہم اصول حدیث کے معیار صرف صحیح روایات ہی درج کریں گے ۔
اسی طرح اس وقت بھی اعتراض درست ہوتا جب ہم نے ہر روایت کے بعد اس کی صحت کا فیصلہ کیا ہوتا ۔

ایک شخص ایک کتاب میں کسی مقام پربعض روایات کو صحیح کہہ کر پیش کرے اور دوسرے مقام پر دیگر روایات کو بغیرصحیح کہہ کرپیش کرے تو دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔کیونکہ دوسرے مقام پر مؤلف نے صحت کا دعوی نہیں کیا ہے۔

اب رہی یہ بات کہ اگر بعض روایات خود میری نظر میں اصول حدیث کے معیار پر پوری نہیں اترتیں تو پھر میں نے انہیں اپنی کتاب میں درج کیوں کیا؟
اس کے جواب میں عرض ہے اول تو یہ کوئی احکام پرلکھی ہوئی کتاب نہیں ہے بلکہ تاریخی واقعات پر لکھی ہوئی کتاب ہے اوردوسرے یہ کہ اسی موضوع پر لکھنے والے یزید کے مخالفین یزید کی مذمت ثابت کرتے ہوئے ہرطرح کی تاریخی روایات سے استدلال کرتے ہیں ۔
تو ان کے سامنے اسی ذخیرہ سے وہ دوسری روایات بھی نکال کر دکھا نا ہمارا حق ہے جس سے یزید کی برات ثابت ہوتی ہے۔


ہمارے ناقص علم کی حد تک یزید کی مخالفت میں لکھی گئی پوری دنیا میں کوئی ایک بھی ایسی کتاب یا تحریر یا مقالہ نہیں ہے جس میں صرف اور صرف صحیح روایات ہی سے استدلال کیا گیا ہو۔
اسی طرح کی یزید کی مخالف میں کی گئی تقاریر میں سے کوئی ایک بھی تقریر ایسی نہیں ہے جس میں صرف اور صرف صحیح روایات ہی سے استدلال کیا گیا ہو۔


حتی کہ اہل حدیث حضرات میں سے بھی ماضی میں جن لوگوں نے یزید کے خلاف کچھ کہا ہے خواہ وہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہوں یا امام ابن کثیر رحمہ اللہ ہوں یا امام ذہبی رحمہ اللہ ہوں ان میں سے کوئی بھی شخصیت ایسی نہیں ہے جس نے یزید کے خلاف بولتے ہوئے ضعیف یا کذاب راوی کی روایات سے استدلال نہ کیا ہو۔

اورمعاصرین میں بھی اہل حدیث حضرات میں جس نے بھی یزیدکے خلاف لکھا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے ضعیف یا کذاب کی روایت سے استدلال نہ کیا ہے۔
اگرکسی کے پاس یزید کے مخالفت میں کوئی ایک بھی ایسی تحریر ہو جس میں صرف صحیح روایات پیش کی گئی ہوں تو وہ ایسی تحریر دکھا ئے۔

تحریر کے علاوہ عصر حاضر میں جو یزید کے خلاف تقریری سلسلہ جاری ہے ان میں بھی یزید کی مخالفت میں کوئی ایک بھی ایسی تقریر نہیں دکھائی جاسکتی جس میں ضعیف یا کذاب راویوں کی روایات سے استدلال نہ کیا گیا ہو۔
حتی کہ ہمارے دور میں مقررین اہل حدیث میں سے دو لوگوں نے یزید کے خلاف تقریر کی ہے ایک ہمارے محترم بھائی اورہمارے دوست ابوزید ضمیر حفظہ اللہ ہیں جو ہندوستان کے ہیں اورجن سے ہم دلی محبت رکھتے ہیں ان سے بارہا مل چکے ہیں ان کے گھر بھی جاچکے ہیں، ہمارے ان فاضل بھائی اوردوست نے بھی یزید کے خلاف تقریرکی ہے لیکن کیا ہمارے فاضل بھائی یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ضعیف اورکذاب راویوں کی روایات سے استدلال نہیں کیا ہے؟؟؟
اسی طرح دوسرے پاکستان کے جناب حافظ عمرصدیق صاحب ہیں کیا یہ صاحب یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ضعیف یا کذاب راویوں کی روایات سے استدلال نہیں کیا ہے؟؟؟

اب جبکہ ہرچہار جانب یزید کی مخالفت میں ضعیف یا کذاب راویوں کی روایات سے استدلال کیا جارہا ہے اور امیریزید کو مطعون کیا جارہا ہے تو ان کا دفاع کرتے ہوئے کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم بھی ان روایات کو پیش کریں جن سے یزید کا دفاع ہوتاہے گرچہ وہ ضعیف یا کذاب شیعوں کی روایات ہوں ؟
بالخصوص جب کہ معاملہ الزام تراشی کا نہیں بلکہ دفاع کا ہو۔یزید کے ساتھ سوء ظن کا نہیں بلکہ حسن ظن کا ہو کیونکہ امیر یزید رحمہ اللہ مسلمان ہیں اور کسی بھی مسلمان پرالزام تراشی جائز نہیں بلکہ ہرمسلمان کے ساتھ حسن ظن ہی رکھنا چاہئے الایہ کہ پختہ ثبوت مل جائے۔اوریزید کے خلاف بدگمانی کے لئے کوئی پختہ ثبوت موجود نہیں ہے۔


واضح رہے کہ امیر یزید رحمہ اللہ کی شخصیت اس بات کی محتاج نہیں ہے کہ ان کا دفاع صرف اورصرف ضعیف روایات سے ہی ہوسکتا ہے لیکن چونکہ ان پرلگائے گئے الزامات کے لئے ضعیف اور کذاب شیعوں کی روایات سے استدلال کیا جاتاہے اس لئے جب اسی طرح کی روایات یزید کے دفاع میں بھی ملتی ہیں تو انہیں بھی پیش کرنے کا ہمیں حق حاصل ہے بالخصوص جبکہ یہ روایات ان کذابین کی بیان کردہ ہو جو یزید کے مخالف اوررافضی اور شیعہ ہوں کیونکہ الفضل ماشہدت بہ الاعداء۔ یعنی فضیلت وہ ہے جس کا دشمن بھی اعتراف کرے۔


خلاصہ کلام یہ کہ کربلا اور یزید کے موضوع پر ہماری دو کتاب ہوگی ایک ’’حادثہ کربلا اورسبائی سازش‘‘ اس میں ہم اصول حدیث کے معیار پر صحیح روایات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دفاع یزید میں ملنے والی وہ روایات بھی پیش کریں گے جو اصول حدیث کے معیار پرپوری نہ اترتی ہوں لیکن ان سے کسی مسلمان پر الزام بھی نہ آتاہو۔
اوردوسری کتاب ’حادثہ کربلا اور یزید صرف صحیح روایات کی روشنی میں ‘‘ ہوگی اس کتاب میں ہم صرف اورصرف انہیں روایات کو پیش کریں گے جو اصول حدیث کے معیار پر صحیح یا کم ازکم حسن ہوں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
میری کتاب سے متعلق جن حضرات کو بھی کوئی اعتراض کرنا ہو وہ اس دھاگہ میں تشریف لائیں ۔ دیگر دھاگوں میں اعتراضات نہ پیش کریں ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
جزاک اللہ خیرا
یہ سچ ہے کہ آپ سے محبت رکھنے والا ہر شخص بشمول راقم الحروف آپ پر ضعیف و موضوع روایت سے استدلال کرنے کے اس الزام سے بہت پریشان تھا۔ اگر کوئی غیراہل حدیث یہ الزام عائد کرتا تو ہمیں کوئی پرواہ نہیں تھی کہ انکا تو کام ہی جھوٹ بولنا ہے اصل پریشانی یہ تھی کہ الزام لگانے والی شخصیت بھی وہ ہیں جن کا پاکستان کے اہل حدیثوں میں ایک نام اور مقام ہے اور مسلک اہل حدیث سے محبت رکھنے والا ہر شخص انکی خدمات کی بناء پر ان سے محبت رکھتا ہے۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ یہ مسئلہ صرف اور صرف غلط فہمی یا کسی غلطی پر ہی مبنی ہے اور کفایت اللہ صاحب اتنی بڑی غلطی دانستہ نہیں کرسکتے۔ کفایت اللہ بھائی آپ نے بہت اچھا کیا جو اسکی وضاحت کردی اور اس وضاحت سے دل بالکل مطمئن ہوگیا ہے۔الحمداللہ۔ اسکے ساتھ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ عمر صدیق حفظہ اللہ نے صرف سنی سنائی بات پر یا کتاب کے کچھ خاص مقامات کو دیکھ کر ہی کفایت اللہ حفظہ اللہ پر غلطی سے اتنا بڑا الزام عائد کردیا اگر وہ خود پوری کتاب کا مطالعہ کرلیتے تو یہ نوبت ہر گز نہ آتی۔
 

قمرالزمان

مبتدی
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
6
محترم کفایت اللہ صاحب، آپ کی وضاحت دیکھی جس میں اہلسنت کے موقف کی ترجمانی بایں الفاظ کیں گئی :


اگر روایات کربلا کی حقیقت و نوعیت کو سمجھ کر، صحابہ و تابعین اورسلف صالحین کی عظمت و فضیلت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے غور کیا جائے توان روایات سے متعلق معتدل موقف یہی معلوم ہوتاہے کہ تاریخی اعتبارسے ان کا صرف وہ حصہ قبول کیا جائے جو شان صحابیت اورتابعین و اسلاف کے معیار پر پورا اترتاہو اوران کے مجموعی طرز عمل سے مناسبت رکھتا ہو ، قطع نظر اس بات کے کہ ان کا تعلق حسین رضی اللہ عنہ اوران کے اصحاب سے ہے یا یزید رحمہ اللہ اوران کے اصحاب سے ۔



تبصرہ: لیکن محترم ایک روایت ص 17 پر پیش کی جس کا پورا عربی متن و سند بایں ہے

حَدَّثَنِي عَبْد الْمَلِكِ بن نوفل بن مساحق بن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مخرمة، أن مُعَاوِيَة لما مرض مرضته الَّتِي هلك فِيهَا دعا يَزِيد ابنه، فَقَالَ: يَا بني، إني قَدْ كفيتك الرحلة والترحال، ووطأت لك الأشياء، وذللت لك الأعداء، وأخضعت لك أعناق العرب، وجمعت لك من جمع واحد، وإني لا أتخوف أن ينازعك هَذَا الأمر الَّذِي استتب لك إلا أربعة نفر من قريش: الْحُسَيْن بن علي، وعبد اللَّه بن عُمَرَ، وعبد اللَّه بن الزُّبَيْرِ، وعبد الرَّحْمَن بن أبي بكر، فأما عَبْد اللَّهِ بن عُمَرَ فرجل قَدْ وقذته العبادة، وإذا لم يبق أحد غيره بايعك، وأما الْحُسَيْن بن علي فإن أهل العراق لن يدعوه حَتَّى يخرجوه، فإن خرج عَلَيْك فظفرت بِهِ فاصفح عنه فإن لَهُ رحما ماسة وحقا عظيما، وأما ابن أبي بكر فرجل إن رَأَى أَصْحَابه صنعوا شَيْئًا صنع مثلهم، ليس لَهُ همة إلا فِي النساء واللهو، وأما الَّذِي يجثم لك جثوم الأسد، ويراوغك مراوغة الثعلب، فإذا أمكنته فرصة وثب، فذاك ابن الزُّبَيْر، فإن هُوَ فعلها بك فقدرت عَلَيْهِ فقطعه إربا إربا.

محترم آپ نے پہلا حصہ تو نقل کردیا لیکن باقی حصہ کو عمدا حذف کردیا کیونکہ اس میں جو توہین صحابہ ہے اور رافضی لحجہ ہے اس کو بالکل نقل نہیں کیا گیا، دیکھئے اس روایت میں عبدالرحمان بن ابی بکر کے لئے کیا الفاظ استعمال ہوئے اور عبداللہ بن زبیر کو ٹکڑے ٹکڑے کی بات کی۔
یہ فقط ایک مثال پیش کی ہے میں نے، اس کی وضاحت بھی کردیں یعنی آپ نے جو ایک اصول موقف دیا، یہ روایت کو نقل کرنا اس موقف کے خلاف جاتا ہے۔

باقی آپ نے جو موقف و اصول دیا ہے اس اصول پر بالفعل کسی اہلسنت عالم نے عمل نہیں کیا بلکہ اگر تابعی کی عزت ہی معیار قبول روایت ہے حارث الاعور رافضی کے بارے میں کیا کہیں گے؟ جابر الجعفی رافضی کے بارے میں کیا کہیں گے؟جو کم سے کم ضمرہ تابعی میں تو اتے تھے

اس کا ایک جواب ہم اس طرح بھی دے رہے ہیں :

جناب کفایت اللہ صاحب آپ نے ص 17 اسی صفحہ پر پیلے (yellow) رنگ سے ہائے لائیٹ‌ کردہ مضمون میں‌ یہ فرمایا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ یزید کی خلافت سے مطمئن تھے اور،


" ایسی مستند روایت نہیں‌ ملتی جس سے معلوم ہو کہ انہیں خلافت یزید پر کوئی ایک اعتراض تھا ۔ "‌


مطلب جناب نے اس بات کا رد ایسے کیا کہ کوئی مستند روایت نہیں‌ ہے پھر اپنے موقف کی تائید میں‌ آگے کہتے ہیں :

"بلکہ بعض‌ روایات بتلاتی ہیں‌ کہ یزید کے باقاعدہ خلیفہ بننے کے بعد یزید کے اصحاب جب مدینے میں‌ حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بیعت کی رسم پوری کرنے کہ لیے پہنچے تو انہوں‌ نے بلکہ انکار نہیں کیا بلکہ مجمع عام میں‌ یہ رسم پوری کرنے کا وعدہ کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ حسین بھی یزید کے خلاف نہیں‌ ہیں۔ "

پھر روایت نقل کر دی جو کذاب روایوں‌ کی نقل کردہ ہے۔ اب جناب پہلے یہ فرما تھے کہ مذمت یزید میں‌ کوئی ایک بھی مستند روایت نہیں‌ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بلکہ بعض روایتوں‌ میں‌ یہ یزید کی مدع و ثناء کا ذکر کیا ہے تو جناب دوسروں‌ پریہاں‌ اعتراض‌ کر رہے ہیں اور ان کے موقف کو ایسے رد کر رہے ہیں مستند روایت نہیں‌ ملتی پھر اسی کے ساتھ اپنے موقف کی تائید میں‌ "موضوع" روایت لے آئے ہیں۔ جب کفایت اللہ صاحب کو موضوع روایت سے ہی استدلال کرنا تھا اپنے موقف کی تائید میں‌ تو جناب نے دوسروں‌ پر یہ دوش کیون دیا یہاں‌پر کہ مذمت یزید پر کوئی مستند روایت موجود نہیں‌ ہے؟؟

خلاصہ کلام : پہلے دوسروں‌ پر اعتراض اور دوش دینے لگے کہ کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مذمت یزید میں کوئی مستند روایت نہیں پھر کہنے لگے کہ بلکہ بعض روایت میں رضامند ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
(کفایت اللہ صاحب کے جملوں‌ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ عوام الناس کے ذہنوں‌ میں‌ یہاں‌ پر یہی بات ڈالنا چاہتے تھے کہ اب جو روایت وہ نقل کر ہے ہیں مدع یزید میں‌ وہ مستند ہے)
کیونکہ انہوں نے دوسروں‌ پر دوش دے کہ ہی روایت نقل کی ہے۔

بحرکیف اگر آپ مذمت یزید میں‌ ہمیشہ صحیح‌ کی رٹ لگاتے ہیں تو جناب کو چاہئے کہ مدع یزید میں‌ بھی یہاں پر صحیح روایت لاتے۔
 

قمرالزمان

مبتدی
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
6
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
اسلام علیکم شیخ کفایت اللہ صاحب

شیخ آپ کا بھت بھت شکریہ کہ آپ نے وضآحت کردی ہم آپ کی اس وضآحت کو انشاء اللہ آگے ہر جگہ کوٹ کریں گے جھاں پر آپ کی کتاب ہر اعتراضات کئے جاچکے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھائی اسی کتاب میں ابن حنفیہ کی روایت پر بھی اعتراض کیا گیا جو اس طرح ہے

یہ روایت ابن کثیر نے بغیر سند کے بیان کی ہے اور امام ذھبی کی روایت بھی ضعیف ہے اس میں عبداللہ بن مطیع کے یہ الفاظ نہیں کہ ' ہم نے خود اسے نہیں دیکہھی

اس کا جواب عنایت کردیں
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
ایک دو دفعہ پہلے بھی محترم کفایت اللہ حفظہ اللہ کی باتیں پڑھ کر تعجب ہوا اور آج اس پوسٹ کو دیکھ کر دھنگ ہی رہ گیا۔۔۔۔۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اگر غلط کر رہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بھی غلط ہو جاؤ۔۔۔
اگر یزید سے متعلق کوئی ضعیف روایات پیش کر رہا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے کہ آپ بھی غیر ثابت اور غیر مستند روایات پیش کرنا شروع کر دیں۔۔ اور جب یہ کام وہ کرے جس کا میدان ہی تحقیق و تخریج ہے اور یہ کام اس کے مقابلے میںکرے جس کا یہ میدان نہیں تو بہت عجیب لگتا ہے۔۔۔



محترم کفایت اللہ صاحب میری اس پوسٹ پر بہت سی گزارشات تھیں لیکن ان سے قطع نظر مختصرا یہ کہ۔۔۔
محترم شیخ صاحب ماشاء اللہ آپ کا میدان تحقیق و تخریج ہے جس کے آگے بڑے بڑے کام اور لوگ مات کھا جاتے ہیں اور آپ ہیں کہ اس میدان کو چھوڑ کر وہ طریقہ اختیار کر رہے ہیں جس سے آپ کو مستقبل میں بہت پریشانی اٹھانا پڑے گی۔
میری گزارش یہ ہے کہ اگر آپ اپنے موقف اور اپنے میدان کو نا چھوڑیں تو مد مقابل کے پاس بھی آپ کی کسی بات کا جواب نہیں ہو گا اور آپ بڑی آسانی سے اس کا رد بھی کر سکتے ہیں۔۔
لیکن جس موقف کو اپناتے ہوئے آپ نے یہ کتاب لکھی مجھے تو بہت عجیب لگی اور نا ہی سلف میں سے کسی کا ایسا طریقہ رہا ہے۔۔



میری اگر کوئی بھی بات آپ کو بری لگی ہو تو اس کیلئے انتہائی معذرت
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
میری کتاب کے حوالہ سے جناب عمرصدیق صاحب کی ایک بہتان تراشی کا جواب درج ذیل لنک سے ڈاؤنلوڈ کریں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://khairulhadees.blogspot.in/search/label/عمرصدیق کے چیلنج مناظرہ پر ہمارے جوابات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://www.mediafire.com/download/ch7a5pehn60c61m/umar siddiqe ka buhtan.pdf
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.dropbox.com/s/5xmkptlzrwqt1pc/umar siddiqe ka buhtan.pdf
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اگر یزید سے متعلق کوئی ضعیف روایات پیش کر رہا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے کہ آپ بھی غیر ثابت اور غیر مستند روایات پیش کرنا شروع کر دیں۔۔ اور جب یہ کام وہ کرے جس کا میدان ہی تحقیق و تخریج ہے اور یہ کام اس کے مقابلے میںکرے جس کا یہ میدان نہیں تو بہت عجیب لگتا ہے۔۔۔
میری اگر کوئی بھی بات آپ کو بری لگی ہو تو اس کیلئے انتہائی معذرت
محترم بھائی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ امام ذہبی رحمہ اللہ یہ سب میدان تحقیق و تخریج کے تھے بلکہ اس میدان بہت اونچے مقام پرفائز تھے اس کے باوجود بھی ان حضرات نے یزید کے خلاف غیرثابت اور غیرمستند روایات سے استدلال کیا ہے۔

اور میں عرض کرچکا ہوں کہ اس موضوع پر ہماری دوکتاب ہے ۔
ایک میں ہم نے صحیح روایات کے ساتھ غیرمقبول روایات بھی درج کی ہیں اور یہ ایک طرح سے الزامی جواب ہے ۔

اوردوسری کتاب میں ہم نے صرف اورصرف صحیح روایات ہی پیش کی ہیں یہ دوسری کتاب بھی ان شاء اللہ جلد ہی منظر عام پر آجائے گی۔

واللہ آپ کی بات ہمیں بالکل بری نہیں لگی ہرشخص کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top