• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میرے صحابہ میں 12 لوگ منافق ہیں، جن میں سے 8 جنت میں داخل نہیں ہوں گے!

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم
قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے:
وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ
اور تمہارے گرد و نواح کے بعض دیہاتی منافق ہیں اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے۔ ہم جانتے ہیں۔ ہم ان کو دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے
(التوبہ: 101)

اور ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا فِيهِمْ ثَمَانِيَةٌ لاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ وَأَرْبَعَةٌ ‏"
(صحیح مسلم 7212)

منکرین حدیث یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حدیث کی اسناد میں صحابہ کے بارے میں کوئی تحقیق نہ کرنا کیسے جائز ہے جبکہ قرآن اور اس حدیث کے مطابق صحابہ میں بھی نامعلوم منافق لوگ موجود ہیں؟ اگر ان منافق صحابہ کے نام ظاہر نہیں کیے گئے تو ہر کسی صحابی پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟
جلد از جلد اس کے جواب کی ضرورت ہے۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
منکر حدیث کو تو انکار حدیث کے ساتھ ساتھ قران کا بھی انکار کردینا چاہئے ۔
کیونکہ منکر حدیث نے جو منطق پیش کی ہے عین اسی منطق کی رو سے قرانی تعلیمات بھی مشکوک ہیں ۔

کیونکہ قران ہی میں ہے کہ :
{ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ }
اگر وه تم(صحابہ)جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منھ موڑیں تو وه صریح اختلاف میں ہیں، اللہ تعالی ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا اور وه خوب سننے اور جاننے والا ہے[البقرة: 137]۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے صحابہ کے ایمان کو معیار قرار دیا تو جب صحابہ ہی مشکوک ہیں تو پھر قران نے انہیں معیار کیسے قرار دیا ؟؟؟
اب کیا اس آیت کا انکار کردیں ؟؟


دراصل منکرین حدیث ’’صحابی‘‘ کے لغوی معنی اور اصطلاحی معنی میں فرق نہیں کرتے ۔
لغوی اعتبار سے ابن ابی بھی صحابی ہے لیکن اصطلاحی معنی میں وہ صحابی نہیں ہے۔

اصول حدیث میں جب ’’صحابی‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا تو اصطلاحی معنی میں ہوتا ہے یعنی ایسی شخصیت جس نے ایمان کی حالت میں اللہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اور ایمان ہی کی حالت میں اس کی وفات ہوئی ۔

اس تعریف کے مطابق راویان حدیث میں ان لوگوں کو صحابی کہا ہی نہیں جائے گا جو منافق ہوں گے ۔
بالفاظ دیگر احادیث کی سند میں موجود جن رواۃ کو صحابی کہا جاتا ہے انہیں اصطلاحی معنی میں صحابی کہا جاتا ہے ۔
یعنی تحقیق کے بعد صحابی کی تعریف پر جو پورا اترے اصول حدیث میں اسی کو صحابی کہا جائے گا تو اصول حدیث میں کسی کو صحابی کہہ دیا گیا تو گویا کہ اس بات کی تحقیق کی گئی ہے کہ اس نے ایمان کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہے اور ایمان ہی کی حالت میں اس کی وفات ہوئی ۔

منکرین حدیث یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ محدثین نے ’’صحابی‘‘ کی ایک خاص تعریف پیش کی ہے اور اس تعریف کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ جو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو گیا وہ صحابی ہے بلکہ ایمان کی حالت میں صحبت اور اسی پر وفات شرط ہے ۔ پھر اسی کا نام تو تحقیق ہے ۔

منکرین حدیث کا اعتراض اس وقت بجا ہوتا جب محدثین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے والے ہرشخص کو ’’صحابی‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ، لیکن معاملہ ایسا نہیں بلکہ محدثین نے ’’صحابی‘‘ کے لئے ایسے شرائط بیان کئے ہیں جن سے منافقین ان میں گڈ مڈ نہیں ہوسکتے۔ اور اسی کانام تو تحقیق ہے پھر اب اس کے بعد اور کون سی تحقیق درکار ہوگی ۔

اس کو مثال سے یوں سمجھیں محدثین ’’ثقہ‘‘ کہہ کر راوی کے عادل وضابط ہونے کو مراد لیتے ہیں۔
اب کوئی اعتراض کرے کہ ثقہ راوی کی بھی تحقیق ہونی چاہئے کیونکہ وہ بھی غیر عادل ہوسکتا ہے یا غیرضابط ہوسکتا ہے ۔ تو یہ بالکل بے تکا اعتراض ہے کیونکہ اصول حدیث کی اصطلاح میں ’’ثقہ‘‘ کہا ہی اسی شخص کو جاتا ہے جو عادل اورضابط ہو ۔

یہی معاملہ صحابی کا ہے کہ اصول حدیث میں صحابی کہا ہی اسی شخصیت کو جاتا ہے جس کا ایمان معلوم ہو۔
 
Top