• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میلاد النبیﷺ پر ثواب ؟؟ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیوخ سے گزارش ہے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی میلاد النبیﷺ کے حوالے سے ایک عبارت کو کچھ حضرات بڑے شدومد سے بیان کر رہے ہیں اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اس سے پہلے مرزا محمد علی جہلمی کا بھی ایک ویڈیو کلپ سننے کا اتفاق ہوا، جس میں وہ بھی یہ کہہ رہا تھا کہ ایک طرف بدعت کا فتویٰ اور دسری طرف اجتہاد پر ثواب۔۔۔۔؟؟ یہ کیا ماجراء ہے؟؟بہرحال وہ بریلویانہ عبارت درج زیل ہے۔
میلاد النبی ﷺ اور وھابیوں کا امام ابن تیمیہ

علامہ ابن تیمیہ (661. 728ھ)
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ (1263۔ 1328ء) اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں :

وکذلک ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصاري في ميلاد عيسي عليه السلام، وإما محبة للنبي صلي الله عليه وآله وسلم وتعظيمًا. وا قد يثيبهم علي هذه المحبة والاجتهاد، لا علي البدع، من اتخاذ مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عيدًا.
’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 404
اِسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں :
فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول ا صلي الله عليه وآله وسلم، کما قدمته لک أنه يحسن من بعض الناس ما يستقبح من المؤمن المسدد.
’’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406
ساتھ ساتھ اس بات کی بھی وضاحت فرمائیں اجتہاد کب کیا جاتا ہے؟ کیا اس کی کوئی شرائط بھی موجود ہیں؟ اور کیا مجتہد ہی اجتہاد کر سکتا ہے؟؟ میرے ناقص فہم کے مطابق جتنے فرقہ ضلالة ہیں وہ سبھی قرآن وحدیث سے استدلال کرتے ہیں لیکن وہ قرآن وحدیث سے غلط مسئلہ کا استنباط کر کے گمراہ ہوئے ہیں تو کیا انہیں بھی اجتہاد کی وجہ سے ثواب ملے گا؟ یہ چند اشکالات ہیں۔ برائے کرم کوئی صاحب علم بھائی راہنمائی کرے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیوخ سے گزارش ہے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی میلاد النبیﷺ کے حوالے سے ایک عبارت کو کچھ حضرات بڑے شدومد سے بیان کر رہے ہیں اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اس سے پہلے مرزا محمد علی جہلمی کا بھی ایک ویڈیو کلپ سننے کا اتفاق ہوا، جس میں وہ بھی یہ کہہ رہا تھا کہ ایک طرف بدعت کا فتویٰ اور دسری طرف اجتہاد پر ثواب۔۔۔۔؟؟ یہ کیا ماجراء ہے؟؟بہرحال وہ بریلویانہ عبارت درج زیل ہے۔
میلاد النبی ﷺ اور وھابیوں کا امام ابن تیمیہ

علامہ ابن تیمیہ (661. 728ھ)
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ (1263۔ 1328ء) اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں :

وکذلک ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصاري في ميلاد عيسي عليه السلام، وإما محبة للنبي صلي الله عليه وآله وسلم وتعظيمًا. وا قد يثيبهم علي هذه المحبة والاجتهاد، لا علي البدع، من اتخاذ مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عيدًا.
’’اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 404
اِسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں :
فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول ا صلي الله عليه وآله وسلم، کما قدمته لک أنه يحسن من بعض الناس ما يستقبح من المؤمن المسدد.
’’میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔‘‘
ابن تيميه، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 406
ساتھ ساتھ اس بات کی بھی وضاحت فرمائیں اجتہاد کب کیا جاتا ہے؟ کیا اس کی کوئی شرائط بھی موجود ہیں؟ اور کیا مجتہد ہی اجتہاد کر سکتا ہے؟؟ میرے ناقص فہم کے مطابق جتنے فرقہ ضلالة ہیں وہ سبھی قرآن وحدیث سے استدلال کرتے ہیں لیکن وہ قرآن وحدیث سے غلط مسئلہ کا استنباط کر کے گمراہ ہوئے ہیں تو کیا انہیں بھی اجتہاد کی وجہ سے ثواب ملے گا؟ یہ چند اشکالات ہیں۔ برائے کرم کوئی صاحب علم بھائی راہنمائی کرے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
ذیل میں ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی اصل عربی عبارت اور اس کا ترجمہ دیا جاتا ہے۔

وإنما العيد شريعة ، فما شرعه الله اتبع . وإلا لم يحدث في الدين ما ليس منه . وكذلك ما يحدثه بعض الناس ، إما مضاهاة للنصارى في ميلاد عيسى عليه السلام ، وإما محبة للنبي صلى الله عليه وسلم ، وتعظيمًا . والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد ، لا على البدع - من اتخاذ مولد النبي صلى الله عليه وسلم عيدًا . مع اختلاف الناس في مولده . فإن هذا لم يفعله السلف ، مع قيام المقتضي له وعدم المانع منه لو كان خيرًا . ولو كان هذا خيرًا محضا ، أو راجحًا لكان السلف رضي الله عنهم أحق به منا ، فإنهم كانوا أشد محبة لرسول الله صلى الله عليه وسلم وتعظيمًا له منا ، وهم على الخير أحرص .

عید شریعت کا حصہ ہے۔ تو جس (عید کو) اللہ نے مشروع کیا ہے اس پر چلو اور جسے مشروع نہیں کیا تو پھر دین میں وہ چیزیں ایجاد نہ کی جائیں جو اس میں سے نہیں ہیں۔ یہی معاملہ ان امور کا ہے جنہیں بعض لوگ ایجاد کر لیتے ہیں چاہے وہ نصاریٰ کی مشابہت کرتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام کا میلاد منانا ہو یا پھر نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کا تقاضا سمجھ کران کے یوم ولادت کو عید بنا لینا، جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ولادت کے دن کا تعین بجائے خود لوگوں کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ، میلاد النبی منانا ایسا کام ہے جس کا سلف ( صحابہ و تابعین ) سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اگر یہ کوئی اچھا یا خیر کا کام ہوتا تو صحابہ و تابعین اور تبع تابعین اس کو ضرور بجا لاتے جبکہ اس کی ضرورت بھی تھی (1) اور اسے کرنے میں کوئی رکاوٹ ان کی راہ میں حائل نہ تھی (2) اور وہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت اور تعظیم میں ہم سے بڑھ کر تھے اور خیر کے کام کرنےکے لیے (بھی ہم سے بڑھ کر ) کر خواہش مند اور پھرتیلے تھے پھر بھی انہوں نے ایسا نہیں کیا


وضاحت:

(1 ) یعنی یہ کہ وہ اپنی محبت ء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مزید اظہار کے لیے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیدائش کے دن پر خوشیاں مناتے ، اور مخلتف قوموں اور بالخصوص عیسائیوں کی رغبت حاصل کرنے کے لیے اُن کی رسموں جیسی کوئی رسم بنا تے ، لیکن اُن کی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ،اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تھی ، من مانی تاویلات کر کے دین میں نئے کام ایجاد کرنااور ان کو نشر کرنا نہیں ۔

(2 ) کہ کہیں معاشرتی طور پر انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا اور نہ ہی شرعی طور پر ان پر کوئی قدغن لگائی جا سکتی تھی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجتماعی عمل دین کے احکام جاننے اور سیکھنے میں سے ایک ہے لہذا خودصحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہی کوئی انہیں منع کرتا تو کرتا کوئی غیر صحابی ایسا نہ کر سکتا تھا کیونکہ صحابہ تو اس کے لیے دین سمجھنے کا ذریعہ اور حجت تھے ، لیکن اس کے باوجود انہوں نےیہ کام نہیں کیا کیونکہ اس بات کی خوب سمجھ تھی اور بالکل درست سمجھ تھی کہ یہ کام بدعت ہے )
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
48
JAZAK Allah
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اکتوبر 24، 2019
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
36
ذیل میں ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی اصل عربی عبارت اور اس کا ترجمہ دیا جاتا ہے۔

وإنما العيد شريعة ، فما شرعه الله اتبع . وإلا لم يحدث في الدين ما ليس منه . وكذلك ما يحدثه بعض الناس ، إما مضاهاة للنصارى في ميلاد عيسى عليه السلام ، وإما محبة للنبي صلى الله عليه وسلم ، وتعظيمًا . والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد ، لا على البدع - من اتخاذ مولد النبي صلى الله عليه وسلم عيدًا . مع اختلاف الناس في مولده . فإن هذا لم يفعله السلف ، مع قيام المقتضي له وعدم المانع منه لو كان خيرًا . ولو كان هذا خيرًا محضا ، أو راجحًا لكان السلف رضي الله عنهم أحق به منا ، فإنهم كانوا أشد محبة لرسول الله صلى الله عليه وسلم وتعظيمًا له منا ، وهم على الخير أحرص .

عید شریعت کا حصہ ہے۔ تو جس (عید کو) اللہ نے مشروع کیا ہے اس پر چلو اور جسے مشروع نہیں کیا تو پھر دین میں وہ چیزیں ایجاد نہ کی جائیں جو اس میں سے نہیں ہیں۔ یہی معاملہ ان امور کا ہے جنہیں بعض لوگ ایجاد کر لیتے ہیں چاہے وہ نصاریٰ کی مشابہت کرتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام کا میلاد منانا ہو یا پھر نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کا تقاضا سمجھ کران کے یوم ولادت کو عید بنا لینا، جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ولادت کے دن کا تعین بجائے خود لوگوں کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ، میلاد النبی منانا ایسا کام ہے جس کا سلف ( صحابہ و تابعین ) سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اگر یہ کوئی اچھا یا خیر کا کام ہوتا تو صحابہ و تابعین اور تبع تابعین اس کو ضرور بجا لاتے جبکہ اس کی ضرورت بھی تھی (1) اور اسے کرنے میں کوئی رکاوٹ ان کی راہ میں حائل نہ تھی (2) اور وہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت اور تعظیم میں ہم سے بڑھ کر تھے اور خیر کے کام کرنےکے لیے (بھی ہم سے بڑھ کر ) کر خواہش مند اور پھرتیلے تھے پھر بھی انہوں نے ایسا نہیں کیا


وضاحت:

(1 ) یعنی یہ کہ وہ اپنی محبت ء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مزید اظہار کے لیے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیدائش کے دن پر خوشیاں مناتے ، اور مخلتف قوموں اور بالخصوص عیسائیوں کی رغبت حاصل کرنے کے لیے اُن کی رسموں جیسی کوئی رسم بنا تے ، لیکن اُن کی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ،اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تھی ، من مانی تاویلات کر کے دین میں نئے کام ایجاد کرنااور ان کو نشر کرنا نہیں ۔

(2 ) کہ کہیں معاشرتی طور پر انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا اور نہ ہی شرعی طور پر ان پر کوئی قدغن لگائی جا سکتی تھی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجتماعی عمل دین کے احکام جاننے اور سیکھنے میں سے ایک ہے لہذا خودصحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہی کوئی انہیں منع کرتا تو کرتا کوئی غیر صحابی ایسا نہ کر سکتا تھا کیونکہ صحابہ تو اس کے لیے دین سمجھنے کا ذریعہ اور حجت تھے ، لیکن اس کے باوجود انہوں نےیہ کام نہیں کیا کیونکہ اس بات کی خوب سمجھ تھی اور بالکل درست سمجھ تھی کہ یہ کام بدعت ہے )
بدعت کے کام پر ثواب نہیں لیکن اس بدعت والے کام کی نیت پر ثواب ہے۔ یہ کچھ عجیب سا نہیں ہے؟
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
569
ری ایکشن اسکور
176
پوائنٹ
77
وکذلک ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصاري في ميلاد عيسي عليه السلام، وإما محبة للنبي صلي الله عليه وآله وسلم وتعظيمًا. وا قد يثيبهم علي هذه المحبة والاجتهاد، لا علي البدع، من اتخاذ مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عيدًا.
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس عبارت میں "قد يثيبهم" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو دلالت کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ ثواب والی بات جزما نہیں کہی یہ ان کا یقین نہیں بلکہ ایک شک و امکان والی بات ہے کیونکہ جب قد فعل مضارع سے پہلے آتا ہے تو یہ شاید و شک کا معنی دیتا ہے جیسا کہ علامہ الزمخشري (ت ٥٣٨هـ) نے تفسیر الكشاف میں فرمایا ہے : أن (قد) إذا دخلت على المضارع كانت بمعنى «ربما» [تفسير الكشاف، ج: ٣، ص: ٢٦٠]

تو معلوم ہوا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ ان بدعتیوں کو ثواب ملتا ہے بلکہ ان کے عبارت کا مفہوم ہے کہ ہو سکتا ہے یا شاید ان کو ثابت ملے اور اس میں یقین نہیں۔ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قد يثيبهم کے بعد یہ آگے کی عبارت علي هذه المحبة والاجتهاد ہے یعنی شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کے لئے جستجو کرنے پر انہیں ثواب مل جائے۔

اس کے آگے ہی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے واضح طور پر فرما دیا : لا على البدع- من اتخاذ مولد النبي صلى الله عليه وسلم عيدًا یعنی اس بدعت پر کوئی ثواب نہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت والے دن عید مناتے ہیں۔ پس امام صاحب کی اسی عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش والے دن کو عید کی طرح منانا ایک بدعت ہے اور اس پر کوئی ثواب نہیں ہے۔

آپ اگر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس عبارت کو آگے اور پیچھے سے سیاق وسباق کے ساتھ پڑھیں گے تو یہ شبہہ ہی پیدا نہیں ہوگا جو اہل بدعت کی جانب سے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس عبارت کے ٹکڑے کو سیاق و سباق سے کاٹ کر دیا جاتا ہے کیونکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عبارت کے شروع میں ہی فرماتے ہیں :

وإنما الغرض أن اتخاذ هذا اليوم عيدًا محدث لا أصل له، فلم يكن في السلف لا من أهل البيت ولا من غيرهم-من اتخذ ذلك اليوم عيدًا، حتى يحدث فيه أعمالًا. إذ الأعياد شريعة من الشرائع، فيجب فيها الاتباع، لا الابتداع.

اس دن کو بطور عید منانا بدعت ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے، سلف صالحین یا اہل بیت وغیرہ میں سے کسی نے بھی اس دن کو بطورِ عید نہیں منایا، اور نہ اس دن بدعتی کام انجام دئیے، جب عیدیں شریعت کا حصہ ہے تو اس میں شریعت کی اتباع کی جائے گی نئی عید کی ابتداء نہیں کی جائے گی۔


[اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم، ج: ٢، ص: ١٢٣]

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت سے معلوم ہوا کہ شریعت میں جو عید ہیں شریعت کے مطابق صرف انہیں کو منایا جائے گا کوئی نئی عید نہیں ایجاد کی جائے گی اور ان دنوں کو بطور عید منانا محدثات میں سے ہیں جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے مسند أحمد کی حدیث ہے :

فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَى بَعْدِي اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ

پس بیشک تم میں سے جو آدمی میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، پس تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اِس پر کابند رہو اور سختی کے ساتھ اس پر قائم رہو اور محدثات یعنی نئے نئے امور سے بچو، کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔


[مسند الإمام أحمد بن حنبل، حديث: ١٧١٤٤، قال الشيخ شعيب الأرنؤوط : حديث صحيح]
 
Last edited:
Top