بسم الله الرحمن الرحيم
مقدمہ
نحمدہ ونصلی علی رسوله الکريم ۔ اما بعد!
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے :
(قُلْ هلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالااً(۱۰۳) اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيهم فِی الْحَيوۃالدُّنْيَا وهم يَحْسَبُوْنَ اَنّهم يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا(۱۰۴) اُوْلَئِکَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِهم وَ لِقَآئه فَحَبِطَتْ اَعْمَالهم فَلانُقِيْمُ لهم يَوْمَ الْقِيٰمة وَزْنًا (الکھف : ۱۰۳،۱۰۵)
ترجمہ:
’’کیا ہم تمہیں خبر دیں ان لوگوں کے بارے میں جو عمل کر کر بھی سب سے زیادہ خسارہ پانے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوششیں زندگانی دنیا میں ہی رائیگاں چلی گئیں اور وہ یہی سمجھتے رہے کہ وہ کوئی اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا ۔ سو ان کے اعمال برباد ہوگئے چنانچہ ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی میزان قائم نہیں کریں گے۔ ‘‘
یہ آیات رد بدعات میں دلیل قاطع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بدعت کی شناعت ہی یہ ہے کہ اس کا کرنے والا اس خوش فہمی میں رہتا ہے کہ وہ کوئی اچھا کام کر رہا ہے جبکہ حقیقت میں اس طرح ( وہ) اللہ کی کئی آیات کا انکار کر رہا ہوتا ہے۔ بدعت دین میں نئی ایجاد کا نام ہے۔
حضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں :
’’ما ابتدع قوم بدعة فی دينهم الانزع الله من سنتهم مثها ثم لا يعيدھا اليهم الی يوم القيامة‘‘ (سنن دارمی بحوالہ مشکوة)
’’جو قوم اپنے دین میں کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح کی سنت چھین لیتا ہے ، پھر قیامت تک ان کی طرف اس سنت کو نہیں لوٹاتا۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ بدعتی خواہ زبان سے نہ کہے مگر اپنے عمل بدعت سے قرآن کی اس آیت کا انکار کر رہا ہوتا ہے
جس میں اللہ نے فرمایا:
’’اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ ‘‘ (المائدہ)
اور جس میں اللہ نے فرمایا
’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃ حَسَنةٌ ‘‘ (الاحزاب)
اور جس میں اللہ نے فرمایا:
’’قُلْ اَاٴنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اﷲُ‘‘ (بقرہ)
جس میں فرمایا:
’’اَتُنَبِّئُوْنَ اﷲَبِمَالايَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰت وَلافِی الْاَرْضِ‘‘
جس میں فرمایا
’’اَتُعَلِّمُوْنَ اﷲَ بِدِيْنِکُمْ‘‘ (الحجرات)
جس میں فرمایا
’’ وَ مَآ ٰاٰتکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہ وَ مَا نهكمْ عَننهُ فَانْتهوْا‘‘(الحشر)
جس میں اللہ نے فرمایا
’’اﷲُ اَذِنَ لَکُمْ اَمْ عَلَی اﷲِ تَفْتَرُوْنَ‘‘ (یونس)
جس میں اللہ نے فرمایا
’’ يايهاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتتهُ‘‘(المائدہ)
وغير ذلک من الآيات۔
بدعتی دراصل اپنے عمل کے ذریعے اللہ کی آیات اور اس کے رسولوں کو مذاق بنا دینے کا بھی مرتکب ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے آج سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے خبردار کر دیا تھا کہ کہ میری امت میں اپنے مقصد کی براری کے لیے آیات الٰہیہ اور فرامین رسول ﷺ کو جس طرح چاہا موڑ دینے کا عمل ہوگا۔
’’فانه من يعش منکم بعدی فيسریٰ اختلافاً کثيراً فعليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المهديين تمسکوا بها وعضوا عليهابالنواجذ واياکم ومحدثات الامور فان کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالةوکل ضلالة فی النار‘‘ (مسند احمد ، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ)
اور آپ ﷺ نے اس سے بھی آگاہ کیا تھا کہ کچھ قومیں آئیں گی جن میں خواہشات اس طرح سرایت کر جائیں گی جس طرح کتے کے کاٹے کا زہر انسان میں سرایت کر جاتا ہے کہ کوئی بدن کا جوڑ یا نس اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔
خواہش کی پیروی ایسی لعنت ہے کہ آدمی علم ہونے کے باوجود بھی گمراہ ہو جاتا ہے اور اللہ اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دیتا ہے اور آنکھوں پر پردے ڈال دیتا ہے ۔
’’اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَه هَوٰيهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِه وَقَلْبِه وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِه غِشٰوَةً فَمَنْ يَّهْدِيْهِ مِنْ بَعْدِ اللّٰهِ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ‘‘ (الجاثیة)
خواہش پرست اور ایجاد بندہ کی بے شمار مثالوں میں سے ایک مثال مروجہ جشن عید میلاد النبی ﷺ ہے ان لوگوں کی عقل پر ماتم کیجیے جو عین اس تاریخ کو ، جب آج سے ۱۴۳۲ ھ سال قبل مدینہ میں کہرام مچا ہوا تھا صحابہ كرام روتے ہوئے پہاڑوں اور صحراؤں کی طرف نکل گئے تھے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسا مضبوط دل گردے کا مالک شخص بھی صدمہ سے چکرا کر گر پڑا تھا۔
صحابہ جب رسول اللہ ﷺ کی تدفین سے فارغ ہو کر لوٹے تو زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا :
’’يا انس کيف طابت انفسکم ان تحثوا التراب علی رسول الله‘‘
یہ نام نہاد عاشقانِ رسول ﷺ خوشیاں مناتے ہیں مٹھایاں بانٹتے ہیں جلوس نکالتے ہیں، جلسہ کرتے ہیں اچھلتے کودتے ہیں ، لٹھ بازی کرتے ہیں، کھیل تماشہ کرتے ہیں اور اس غم کے دن کو جشن عید میلاد النبی ﷺ اور آتش بازی کے طور پر مناتے ہیں۔
فليبک علی الاسلام من کان باکيا
حیرت ہے رسول اللہ ﷺ نے جس عمل کو مردود کہا
’’من احدث فی امرنا هذا ما ليس منه فهو رد‘‘ (بخاری و مسلم ) ’’ من عمل عملاً ليس عليه امرنافهو رد ‘‘(صحیح مسلم)جس کا نہ قرآن میں ذکر نہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے صدیوں بعد تک اس عمل کا کوئی وجود نہ تھا ، فاطمی شیعوں کی اختراع و ابتداع پر مبنی یہ عمل ان نام نہاد سنی مسلمانوں کے ہاں بھی معتبر ٹھہرا اور مقبول بھی۔
فيالضيعة العلم والادب
موجودہ دور کے مسلک بریلویہ سے منسلک ایک ڈاکٹر طاہر القادری نے اس موضوع پر اپنے رشحات قلم بکھیرتے ہوئے خود ساختہ دلائل کا انبار لگادیے جو
’’ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ ‘ اور
’’كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ ‘‘ کا مصداق ہیں۔ اور پھر بھنحوائے
’’لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ ‘‘ اور
’’ لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ ‘‘ اللہ تعالیٰ نے ایک نوجوان کو توفیق دی کہ وہ ان بودے دلائل کا پوسٹ مارٹم کرے اور اس بیت عنکبوت کے تارو پود بکھیر کر رکھ دے یہ نوجوان میرے تلمیذ رشید ہونہار فرزند فاضل اجل ، عزیزم عبدالوکیل ناصر سلمہ اللہ ہیں۔ جنہوں نے قادری کے تمام دلائل کا علمی و تحقیقی جائزہ لے کر مسکت جواب دیا ہے۔ زیر نظر کتاب اس فاضل نوجوان کی اس تحقیق و تدقیق ، تخریج و تعلیق اور تنقیح و تصحیح کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فاضل جلیل ابن عبدالجلیل کو صحت و عافیت کے ساتھ عمر نوح، رشد ابراہیم، علم داؤد فھم سلیمان اور محبت مصطفیٰﷺ کی دولت سے مالا مال فرمائے اور ان کی اس علمی کاوش کو قبول عام عطا فرمائے اور ذخیرہ آخرت بنائے اور ہم سب کے لیے وسیلہ نجات بنادے۔
آمين يا رب العالمين
وصلی الله تعالیٰ علی خير خلقه محمد وآله وصحبه ومن تبعهم باحسان الی يوم الدين برحمتک يا ارحم الراحمين