• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میلاد النبی ﷺ کا تحقیقی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کتاب کا نام
ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب میلاد النبی ﷺ کا تحقیقی جائزہ

(ناقابلِ یقین تضادات اور علمی خیانتوں کی حیرت انگیز تفصیل)​
مؤلف
عبدالوکیل ناصر

ناشر
ادارہ فروغِ قرآن و سنت
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فہرست مضامین

  1. مقدمہ
  2. تقریظ
  3. تقریظ
  4. پیش لفظ
  5. عرض مؤلف
  6. ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب ’’میلا د النبی ﷺ ‘‘ کا تحقیقی جائزہ
  7. ایک مقلد کو استدلال کی اجازت نہیں
  8. بیان میلا دسے جلوس میلاد پر غلط استدلال
  9. جشن نزول قرآن سے میلاد پر استدلال اور اس کا جواب
  10. صوم عاشوراء سے استدلال اور اس کا جواب
  11. حدیث عقیقہ جناب کو مفید نہیں
  12. ابو لہب کے بارے میں خواب کا سہارا قابل استدلال نہیں
  13. آج اس کی سنت کیوں زندہ کی جارہی ہے؟
  14. قادری صاحب کے دلائل ائمہ و محدثین ہیں
  15. آخر کیوں؟
  16. آیئے کچھ تفصیل میں چلیں
  17. میرے مخدوم!
  18. قارئین کرام!
  19. میلاد شریف منانا ان کے نزدیک جائز اور مستحب امر تھا؟
  20. قادری صاحب کے تاریخی میلاد کی حقیقت
  21. مروجہ میلاد کو بدعت کہنے والے علماء کی ایک فہرست
  22. میلادی روایات کا تجزیہ
  23. میلاد ناموں کی بیان کردہ روایات کا جائزہ لینے کے لئے درج ذیل چند
  24. اقتباسات ملاحظہ ہوں
  25. مروجہ میلاد کے موجد کون؟
  26. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جشن میلاد نہیں منایا:
  27. اب کیا صحیح اور کیا غلط؟
  28. غم تو وفات کے بعد شروع ہوا تھا نہ ؟
  29. قادری صاحب گئے غم رسول ﷺ بھول گئے مگر غم حسین رضی اللہ عنہ
  30. قارئین کرام!
  31. قادری صاحب کی فطرت اور بدعت
  32. کلچر کی بات اور نیا دور
  33. نئے عنوانات اور اس کے جوابات
  34. قادری صاحب کی حدیث میں خرد برد؟
  35. قادری ’’قیام ‘‘ اور اس کی حقیقت
  36. خان صاحب کو دلیل کی حاجت نہیں
  37. قادری صاحب کا ’’معاذاللہ‘‘ کہنا
  38. چراغاں کی دلیل کہاں سے لائیں بجلی ہی نہیں تھی
  39. موجودہ بریلویوں کا جواب، مگر قادری صاحب!!
  40. قادری صاحب کی طولانی اور ہمارے جواب ربانی
  41. غور کریں
  42. بدعت کی بحث
  43. اپنے مذکورہ الفاظ پر غور کرلیں
  44. لکھتے ہیں: بدعت کا حقیقی تصور
  45. خود ساختہ تعریف بدعت کا علمی محاسبہ
  46. تو پھر بتائیں
  47. تقسیم بدعت پر جوابات
  48. گھر کا بھیدی
  49. جشن میلاد النبی ﷺ عید مسرت ہے عید شرعی نہیں
  50. قادری صاحب لا جواب ہوگئے!
  51. قادری صاحب کا شکوہ۔۔۔۔ میلادیوں کی خدمت میں
  52. ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنا۔۔۔ تحقیقی بحث
  53. ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے
  54. قارئین کرام!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بسم الله الرحمن الرحيم
مقدمہ
نحمدہ ونصلی علی رسوله الکريم ۔ اما بعد!
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے :
(قُلْ هلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالااً(۱۰۳) اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيهم فِی الْحَيوۃالدُّنْيَا وهم يَحْسَبُوْنَ اَنّهم يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا(۱۰۴) اُوْلَئِکَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِهم وَ لِقَآئه فَحَبِطَتْ اَعْمَالهم فَلانُقِيْمُ لهم يَوْمَ الْقِيٰمة وَزْنًا (الکھف : ۱۰۳،۱۰۵)
ترجمہ:
’’کیا ہم تمہیں خبر دیں ان لوگوں کے بارے میں جو عمل کر کر بھی سب سے زیادہ خسارہ پانے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوششیں زندگانی دنیا میں ہی رائیگاں چلی گئیں اور وہ یہی سمجھتے رہے کہ وہ کوئی اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا ۔ سو ان کے اعمال برباد ہوگئے چنانچہ ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی میزان قائم نہیں کریں گے۔ ‘‘
یہ آیات رد بدعات میں دلیل قاطع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بدعت کی شناعت ہی یہ ہے کہ اس کا کرنے والا اس خوش فہمی میں رہتا ہے کہ وہ کوئی اچھا کام کر رہا ہے جبکہ حقیقت میں اس طرح ( وہ) اللہ کی کئی آیات کا انکار کر رہا ہوتا ہے۔ بدعت دین میں نئی ایجاد کا نام ہے۔
حضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں :
’’ما ابتدع قوم بدعة فی دينهم الانزع الله من سنتهم مثها ثم لا يعيدھا اليهم الی يوم القيامة‘‘ (سنن دارمی بحوالہ مشکوة)
’’جو قوم اپنے دین میں کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح کی سنت چھین لیتا ہے ، پھر قیامت تک ان کی طرف اس سنت کو نہیں لوٹاتا۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ بدعتی خواہ زبان سے نہ کہے مگر اپنے عمل بدعت سے قرآن کی اس آیت کا انکار کر رہا ہوتا ہے
جس میں اللہ نے فرمایا: ’’اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ ‘‘ (المائدہ)
اور جس میں اللہ نے فرمایا ’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃ حَسَنةٌ ‘‘ (الاحزاب)
اور جس میں اللہ نے فرمایا: ’’قُلْ اَاٴنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اﷲُ‘‘ (بقرہ)
جس میں فرمایا: ’’اَتُنَبِّئُوْنَ اﷲَبِمَالايَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰت وَلافِی الْاَرْضِ‘‘
جس میں فرمایا ’’اَتُعَلِّمُوْنَ اﷲَ بِدِيْنِکُمْ‘‘ (الحجرات)
جس میں فرمایا ’’ وَ مَآ ٰاٰتکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہ وَ مَا نهكمْ عَننهُ فَانْتهوْا‘‘(الحشر)
جس میں اللہ نے فرمایا ’’اﷲُ اَذِنَ لَکُمْ اَمْ عَلَی اﷲِ تَفْتَرُوْنَ‘‘ (یونس)
جس میں اللہ نے فرمایا ’’ يايهاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتتهُ‘‘(المائدہ)
وغير ذلک من الآيات۔

بدعتی دراصل اپنے عمل کے ذریعے اللہ کی آیات اور اس کے رسولوں کو مذاق بنا دینے کا بھی مرتکب ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے آج سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے خبردار کر دیا تھا کہ کہ میری امت میں اپنے مقصد کی براری کے لیے آیات الٰہیہ اور فرامین رسول ﷺ کو جس طرح چاہا موڑ دینے کا عمل ہوگا۔

’’فانه من يعش منکم بعدی فيسریٰ اختلافاً کثيراً فعليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المهديين تمسکوا بها وعضوا عليهابالنواجذ واياکم ومحدثات الامور فان کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالةوکل ضلالة فی النار‘‘ (مسند احمد ، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ)
اور آپ ﷺ نے اس سے بھی آگاہ کیا تھا کہ کچھ قومیں آئیں گی جن میں خواہشات اس طرح سرایت کر جائیں گی جس طرح کتے کے کاٹے کا زہر انسان میں سرایت کر جاتا ہے کہ کوئی بدن کا جوڑ یا نس اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔

خواہش کی پیروی ایسی لعنت ہے کہ آدمی علم ہونے کے باوجود بھی گمراہ ہو جاتا ہے اور اللہ اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دیتا ہے اور آنکھوں پر پردے ڈال دیتا ہے ۔
’’اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَه هَوٰيهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِه وَقَلْبِه وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِه غِشٰوَةً فَمَنْ يَّهْدِيْهِ مِنْ بَعْدِ اللّٰهِ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ‘‘ (الجاثیة)

خواہش پرست اور ایجاد بندہ کی بے شمار مثالوں میں سے ایک مثال مروجہ جشن عید میلاد النبی ﷺ ہے ان لوگوں کی عقل پر ماتم کیجیے جو عین اس تاریخ کو ، جب آج سے ۱۴۳۲ ھ سال قبل مدینہ میں کہرام مچا ہوا تھا صحابہ كرام  روتے ہوئے پہاڑوں اور صحراؤں کی طرف نکل گئے تھے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسا مضبوط دل گردے کا مالک شخص بھی صدمہ سے چکرا کر گر پڑا تھا۔

صحابہ جب رسول اللہ ﷺ کی تدفین سے فارغ ہو کر لوٹے تو زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا :
’’يا انس کيف طابت انفسکم ان تحثوا التراب علی رسول الله‘‘

یہ نام نہاد عاشقانِ رسول ﷺ خوشیاں مناتے ہیں مٹھایاں بانٹتے ہیں جلوس نکالتے ہیں، جلسہ کرتے ہیں اچھلتے کودتے ہیں ، لٹھ بازی کرتے ہیں، کھیل تماشہ کرتے ہیں اور اس غم کے دن کو جشن عید میلاد النبی ﷺ اور آتش بازی کے طور پر مناتے ہیں۔ فليبک علی الاسلام من کان باکيا
حیرت ہے رسول اللہ ﷺ نے جس عمل کو مردود کہا ’’من احدث فی امرنا هذا ما ليس منه فهو رد‘‘ (بخاری و مسلم ) ’’ من عمل عملاً ليس عليه امرنافهو رد ‘‘(صحیح مسلم)جس کا نہ قرآن میں ذکر نہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے صدیوں بعد تک اس عمل کا کوئی وجود نہ تھا ، فاطمی شیعوں کی اختراع و ابتداع پر مبنی یہ عمل ان نام نہاد سنی مسلمانوں کے ہاں بھی معتبر ٹھہرا اور مقبول بھی۔ فيالضيعة العلم والادب

موجودہ دور کے مسلک بریلویہ سے منسلک ایک ڈاکٹر طاہر القادری نے اس موضوع پر اپنے رشحات قلم بکھیرتے ہوئے خود ساختہ دلائل کا انبار لگادیے جو’’ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ ‘ اور ’’كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ ‘‘ کا مصداق ہیں۔ اور پھر بھنحوائے ’’لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ ‘‘ اور ’’ لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ ‘‘ اللہ تعالیٰ نے ایک نوجوان کو توفیق دی کہ وہ ان بودے دلائل کا پوسٹ مارٹم کرے اور اس بیت عنکبوت کے تارو پود بکھیر کر رکھ دے یہ نوجوان میرے تلمیذ رشید ہونہار فرزند فاضل اجل ، عزیزم عبدالوکیل ناصر سلمہ اللہ ہیں۔ جنہوں نے قادری کے تمام دلائل کا علمی و تحقیقی جائزہ لے کر مسکت جواب دیا ہے۔ زیر نظر کتاب اس فاضل نوجوان کی اس تحقیق و تدقیق ، تخریج و تعلیق اور تنقیح و تصحیح کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فاضل جلیل ابن عبدالجلیل کو صحت و عافیت کے ساتھ عمر نوح، رشد ابراہیم، علم داؤد فھم سلیمان اور محبت مصطفیٰﷺ کی دولت سے مالا مال فرمائے اور ان کی اس علمی کاوش کو قبول عام عطا فرمائے اور ذخیرہ آخرت بنائے اور ہم سب کے لیے وسیلہ نجات بنادے۔ آمين يا رب العالمين
وصلی الله تعالیٰ علی خير خلقه محمد وآله وصحبه ومن تبعهم باحسان الی يوم الدين برحمتک يا ارحم الراحمين
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تقریظ
الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام علی نبينا محمد وآله واصحابه اجمعين۔
اما بعد! فاعوذبالله من الشيطان الرجيم ، قال الله تعالیٰ ! اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ ۔۔ ‘‘ (البقرة)
ایک یہودی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا! اے امیر المؤمنین اگر ہمارے یہاں سورة مائدہ کی یہ آیت نازل ہوتی کہ ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا، اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کر لیا۔‘‘تو ہم اس دن کو عید کا دن بنا لیتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی، عرفہ کے دن نازل ہوئی اور جمعہ کا دن تھا۔ (حدیث :۷۲۶۸)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ اسلام میں (اپنے طور پر) دنوں کے منانے کا کوئی تصور نہیں۔ دوسری حدیث کا مفہوم ہے اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں۔ 1۔عیدالاضحٰی
2۔عید الفطر
صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ’’من احدث فی امرنا هذاا ما ليس منه فهورد‘‘ کہیں فرمایا ’’ان الله حجب التوبة عن کل صاحب بدعة حتی يدع بدعته‘‘ (طبرانی عن انس)
معلوم ہوا کہ بدعت ایک انتہائی مذموم عمل ہے۔ جب تک انسان اس سے توبہ نہ کرے ، دوسرے گناہوں سے متعلق بھی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ صاحب بدعت کو توبہ کی توفیق کم ہی ملتی ہے ، کیونکہ بدعتی وہ عمل نیکی سمجھ کر کر رہا ہوتا ہے اور شیطان اس کے اعمال اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کر رہا ہوتا ہے۔
سید المرسلین محمد ﷺ نے یہ بات پہلے ہی فرما دی تھی کہ آخری زمانے میں ایسا گروہ وجود میں آئے گا جن کی رگ رگ میں بدعت سرایت کر جائے گی۔ سنن ابی داؤد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
’’الا ان من کان قبلکم من اھل الکتاب افترقوا۔۔۔۔ وانه سيخرج فی امتی اقوام تتجاری بهم الاھواء کما يتجاری الکلب بصاحبه ولا يبقی منه عرق ولا مفصل الادخله‘‘
آپ ﷺ کی یہ پیش گوئی عصر حاضر پر من و عن صادق آ رہی ہے ۔ دنیا میں بے شمار گروہ پیدا ہو چکے ہیں ۔ خاص کر برصغیر پاک و ہند میں طرح طرح کے بدعی عقائد و اعمال پھیلائے جا رہے ہیں۔ اسی گروہ کے (موجودہ) سرخیل ڈاکٹر طاہر قادری صاحب نے میلاد مروجہ موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ جس کی بنیادیں کمزور دلائل اور باطل تاویلات پر قائم ہیں۔ موجودہ دور میں بدعت کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی اشد ضرورت ہے۔ جو شیعت اور بریلویت کے روپ میں دن بدن زور پکڑتا جا رہا ہے۔
اس جذبے کے پیشِ نظر ، عزیز القدر فاضل محقق میرے تلمیذ رشید مولانا عبدالوکیل ناصر صاحب جنہوں نے علمی تحقیق اور جستجو کا خوب ذوق پایا ہے ، انہوں نے قادری صاحب کی کتاب کا مدلل جواب تیار کیا ہے۔ جو وقت کی اشد ضرورت تھی۔ مجھے امید ہے کہ اللہ رب العزت مؤلف کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرماتے ہوئے بدعت و ضلالت میں ڈوبے ہوئے حضرات کے لیے ذریعہ ہدایت بنائیں گے۔ ان شاء اللہ وآخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمين
( کتبہ خلیل الرحمن لکھوی رئیس معھد القرآن الکریم)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تقریظ
فاضل نوجوان برادر عزیز مولانا عبدالوکیل ناصر حفظہ اللہ نے اس رسالہ میں مروجہ میلاد پر طاہر القادری کا خوب تعاقب کیا اور مدلل و مفصل جواب دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی کاوشیں قبول فرمائے اور طاہر القادری و دیگر جشن و جلوس میلاد کے شائقین کو اتباع سنت نبوی ﷺ کی توفیق دے۔ آمین
اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر جہاں آپ ﷺ کی بعثت کے ذریعہ احسان فرمایا وہیں ’’اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ ‘‘ نازل فرما کر ایک اور بڑا احسان فرمایا۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ خاتم الانبیاء والرسل ہیں۔ آپ کی حیات مبارکہ ہی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی بعثت کے مقصد کو پورا کیا۔ اور تکمیل دین کی بشارت دی۔ آپ کے بعد نہ کوئی رسولﷺ نبی آئے گا نہ اب کوئی اور دین کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والا پیدا ہوگا۔
بعض علماء کی صفوں میں موجود ایسے ڈاکٹر پروفیسر اور علامہ جیسے القابات رکھنے والے ہیں جو دین مصطفیٰ ﷺ کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں ان کی تحریر و تقریر سے اسلام کی مخالفت اور احکامات شریعہ کا استہزاء ان کے مقاصد و عزائم کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ کسی اور کے لیے کام کر رہے ہیں، ورنہ ایک عالم جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوتا ہے وہ قرآن و حدیث میں تحریف، بے جا تاویل اور کذب و افتراء سے باطل کو ثابت کرنے کی کوشش کر ہی نہیں سکتا۔
ڈاکٹر موصوف نے تو تضاد بیانی اور ملمع سازی سے کام لیتے ہوئے متبعین سنت اور بدعات کے مخالفین سے ایسی بے سروپاباتیں منسوب کر دیں اور اپنا ہمنوا ثابت کرنا چاہا کہ ’’سبحانک هذا بهتان عظيم!‘‘
اگر موصوف اپنی تحریر پر سنجیدگی سے غور کریں تو ممکن ہے کہ انہیں احساس ندامت ہو جائے یا ایسے رسومات کو دین و ایمان اور حبِ رسول سمجھنے والا کوئی انصاف پسند ایسی خرافات سے تائب ہو جائے کہ اس تحریر کا مقصد بھی یہی ہے۔
اللهم ارنا الحق وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه وصلی الله علی نبينا محمد وآله وصحبه اجمعين
(کتبہ / ابو حمید عبدالحنان سامرودی)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پیش لفظ
عیدالفطر اور عید الاضحی کی شرعی حیثیت ثابت کرنے کے لیے کوئی کتاب کیوں نہ لکھی گئی ؟ اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ اہلسنت مکاتب فکر کے درمیان ان کی شرعی حیثیت اس قدر مسلمہ تھی کہ ضرورت ہی نہ سمجھی گئی ۔ آج ایک فرقہ عید میلاد النبی ﷺ کے نام سے ایک تیسری عید کو دین اسلام میں شامل کرنے کے لیے کوشاں ہے دراصل اس فرقے نے اپنی اس خود ساختہ عید کو اپنی گروہی شناخت بنا لیا ہے اور گروہی شناخت کا مسئلہ فرقوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے ۔ پیدائش اور موت کے سالانہ ایام منانا یہود و نصاریٰ کا کلچر ہے۔ جو بذریعہ اہل تشیع مسلمانوں میں داخل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں اور آپ ﷺ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں کسی کی موت یا پیدائش کی بنیاد پر کوئی سالانہ دن منانے کا اہتمام کرنا کوئی مائی کا لال ثابت نہیں کر سکتا، جبکہ یہی مقدس ادوار آنے والے مسلمانوں کے لیے مثال ہیں۔ عید الفطر یا عید الاضحی کی نسبت بھی کسی کی پیدائش یا موت سے نہیں۔
ایام منانا ان کی مجبوری ہوتی ہے جو کہ پورے سال اپنی ان شخصیات کو فراموش کیے رہتے ہوں جن سے محبت کے دعویدار ہیں حالانکہ سچی محبت کرنے والے تو محبوب کی یاد سے کبھی غافل ہوتے ہی نہیں۔ ایک مسلمان کے لیے نبی کریم ﷺ کی زندگی اس کی زندگی کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہے۔ مسلمان جانتا ہے کہ ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا کہ جب تک نبی رحمت ﷺ کی محبت دنیا کی تمام محبتوں پر غالب نہ آجائے اور شخصیت کی محبت دنیا کی تمام محبتوں پر غالب ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس شخصیت کو یاد کرنے کے لیے کسی دن منانے کا محتاج ہو۔ نبی رحمت ﷺ کے چاہنے والوں کے لیے ہر دن اور دن کا ہر لمحہ آپ ﷺ سے محبت کے اظہار کے لیے ہے اور وہ اپنی محبت کا اظہار پیارے نبی ﷺ کے لائے ہوئے دین کو اختیار کر کے کرتے ہیں۔ وہ خوشی و غمی، مصیبت و معاشرت، کاروبار و ملازمت بلکہ زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات اپنے محبوب نبی ﷺ کی سیرت کے مطابق انجام دیتے ہیں
اور اس طرح وہ نبی ﷺ کے سچے محب ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ کیونکہ خود نبی کریم ﷺ نے بھی عمل سے محبت کا اظہار کرنے کی ترغیب دلائی تھی فرمایا تھا: ’’من احب سنتی فقد احبنی‘‘
ترجمہ: (جس نے میرے طریقے سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی)
جب اپنا فرقہ یا گروہ اور اس کی شناخت ہر چیز سے محبوب بن جائے تو پھر محبت رسولﷺاور عشق رسولﷺ کے دعوے سیاست کے ایشو بن جاتے ہیں۔ جبکہ عملاً رسول اللہ ﷺ کی نا فرمانی وطیرہ بنی رہتی ہے۔ دلائل اور سچائی گروہی تعصبات کی گرد میں چھپ جاتے ہیں اور فرقہ پرست مذہبی قیادت اپنی لیڈری اور سیاست چمکانے کے لیے گروہی تفردات کو دین کی بنیادی تعلیمات بنا کر پیش کرتی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی 850صفحات پر مشتمل کتاب ’’میلاد النبی ﷺ ‘‘ کو اسی تناظر میں بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے ہزاروں دلائل اور ہزاروں صفحات کی ہزاروں کتابیں بھی ناکافی رہتی ہیںَ بلکہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے لکھا جانے والا ہر صفحہ اور دی جانے والی ہر دلیل جھوٹ کو مزید جھوٹ ثابت کرنے کا سبب ہوتی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی مذکورہ کتاب کا علمی پوسٹ مارٹم کر کے میرے دوست اور بھائی مولانا عبدالوکیل ناصر صاحب نے جس طرح تضادات اور علمی بددیانتیوں کو اجاگر کیا ہے اس کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ طاہر القادری کی کتاب ’’ مروجہ عید میلا دالنبی ﷺ ‘‘ کے بدعت ہونے پر دلیل ہے۔ فرقوں کی محبت اچھے خاصے صاحب علم آدمی کو علمی دنیا میں کس طرح رسوا کراتی ہے ڈاکٹر طاہر القادری اس کی مثال بن گئے ہیں۔ مولانا عبدالوکیل ناصر صاحب نے مذکورہ کتاب کا تعاقب ہفت روزہ حدیبیہ کے صفحات میں شروع کیا تھا ، حسب عادت انہوں نے اس تعاقب کو علمی اعتبار سے جاندار بنانے کے لیے بڑی محنت کی۔ حدیبیہ کے قارئین نے اس سلسلے کو بڑی پذیرائی بخشی اور اکثر قارئین نے اسے کتابی صورت میں شائع کرنے کے مشورے بھی دیے۔ مجھے امید ہے کہ مولانا عبدالوکیل ناصر صاحب کی یہ کاوش علماء اور عوام دونوں طبقوں میں مفید سمجھی جائے گی۔ اور دعوتی سعی میں ہر ایک کے لیے اعتماد کا باعث ہوگی۔
(سید عامر نجیب ایڈیٹر ہفت روزہ حدیبیہ کراچی)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عرض مؤلف
بسم الله والصلاة والسلام علی رسول الله وعلیٰ آله وصحبه اجمعين
مروجہ جشن میلاد و عید میلاد النبی ﷺ کے سلسلے میں سوالات کی کثرت اور مبتدعین کی طرف سے اس مسئلہ کے منکرین پر فتاوے دیکھ /سن کر بڑی تمنا تھی کہ اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کر کے کوئی باضابطہ تحریر قلم بند کی جائے۔
پھر بفضل اللہ تعالیٰ یہ موقعہ مجھے مل گیا اور میں نے بتوفیق اللہ کوئی تین ہزار صفات کے لگ بھگ ورق گردانی کی جس میں مختلف علماء کرام کے مضامین شامل تھے جو کہ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ کتابیں مروجہ جشن و میلاد کے اثبات میں تھیں اور کچھ اس کے انکار میں ۔
اس موضوع پر قدرے ضخیم کتاب جناب طاہر القادری صاحب کی تھی جو کہ اثبات میں لکھی گئی تھی اور بظاہر بڑی مدلل تھی۔ مگر چونکہ قادری صاحب کے بارے میں راقم کو ’’متنازعہ ترین شخصیت‘‘ طاہر القادری کی علمی خیانتیں ‘‘ ’’ خطرے کی گھنٹی‘‘ اور مولانا یحیٰی گوندلوی رحمہ اللہ کے بہت سے ’’ تعاقبات قادری‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہو چکا تھا اور علم تھا کہ ’’موصوف‘‘ اس درجہ ’’خائن‘‘ ہیں کہ کوئی مکتبہ فکر انہیں فخریہ طور پر ’’اپنا‘‘ کہنے کو تیار نہیں۔ اگرچہ جناب کا دعویٰ فکر بریلی سے منسلک ہونے کا ہے۔
بہر کیف اس تناظر میں جناب کی کتاب ’’میلاد النبی ﷺ کو ذرا غور و خوض سے پڑھا اور ایک نسخے پر حواشی وغیرہ لکھے ، مگر قدراللہ ما شاء فعل وہ نسخہ کوئی اور صاحب دبا بیٹھے اور پھر مجھے ایک اور نسخہ لے کر اس کی از سر نو قراءت کرنی پڑی اور میں یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ اس جدید نسخے میں کافی صفحات پہلے نسخہ کی نسبت کم ہیں اور مواد بھی ’’بعض جگہ سے‘‘ ہٹادیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ سوال تو شاید جناب ہی حل کر سکیں۔
بہرحال اس موضوع پر میسر تمام کتب سے جناب کی تصنیف کا تقابل کرتا رہا۔ ان کے ذکر کردہ حوالہ جات کو بھی اصل مراجعات و مصادر سے چیک کرتا رہا اور بالآخر اللہ کی مدد کے ساتھ حاصل مطالعہ کو تحریر میں ضبط کرنا شروع کیا۔ اس طرح کہ تجزیہ و تبصرہ بھی ہوتا رہے اور علمی اغلاط و خیانتوں کی نشاندہی بھی اور ’’گھر کے بھیدیوں‘‘ کی باہمی رسہ کشی بھی نظر آتی رہے۔
(میں اس میں کس قدر کامیاب ہوا یہ فیصلہ تو قارئین ہی کر سکیں گے جو انصاف پر قائم ہیں۔ ) پھر اس تحریر کو بالاقساط ہفت روزہ ’’حدیبیہ‘‘ کراچی میں بھیجتا رہا اور تقریباً دس (۱۰) اقساط میں یہ موضوع مکمل ہوا۔ یہ موضوع قلمی نام سے تحریر کیا گیا تھا۔ پھر اساتذہ کرام ، طلبہ دین اور احباب جماعت کی حوصلہ افزائی و اصرار پر اس مواد کو کتابی شکل میں بتعاون احباب جمع کیا۔ جو پیش خدمت ہے۔ اگر میں حق بات کہہ گیا تو یہ محض اللہ کی توفیق و عنایت ہے اور اگر غلط کہہ گیا تو یہ میری غلطی ہوگی۔ جس کی نشاندہی اگر کر دی گئی تو ان شاء اللہ تصحیح کی طرف توجہ دوں گا۔
ہر دلعزیز ، خواص عوام میں مقبول شخصیت شیخ الحدیث محمود احمد حسن صاحب حفظہ اللہ نے ہمیشہ ہی مشفق والد کی طرح حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور اس تحریر پر تو شیخ صاحب نے (باوجود طبیعت کی ناسازی کے) جو مقدمہ درج فرمایا ہے وہ شیخ کی مخصوص علمی خطابت کا شاہکار ہے۔ فجزاہ الله احسن الجزاء وعافاہ وتقبل جهودہ الدينيه۔ آمين
استاذی المکرم شیخ خلیل الرحمن لکھوی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ ورعاہ ، میرے مربی و شیخ الحدیث ہیں۔ ان کی مصروفیت دینیہ اظہر من الشمس ہیں اور فی الوقت شیخ کچھ بیمار بھی ہیں مگر اس کے باوجود شیخ نے مسودہ پر نظر عنایت فرما کر تقریظ ثبت فرمائی اور میرا حوصلہ بڑھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے ۔ ان کی عمر میں عافیت کے ساتھ برکت عطا فرمائے ۔ ان کی سعی کو میزان حسنات کا ذخیرہ بنائے۔
کتاب ہذا پر تقریظ لکھنے پر استاذ محترم شیخ عبدالحنان سامرودی صاحب حفظہ اللہ کا انتہائی مشکور ہوں کہ انہوں نے باوجود عدیم الفرصتی کے ناچیز کی تحریر کو لائق التفات سمجھا اور شفقت فرمائی۔ جزاہ الله خير الجزاء فی الدنيا والآخرة۔
پیش لفظ لکھنے پر برادر محترم سید عامر نجیب حفظہ اللہ (ایڈیٹر ہفت روزہ حدیبیہ) کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے کتاب کی رونق کو دو چند کیا اور ان کے مشورے ہمیشہ ہی میرے لیے کار آمد رہے ہیں۔ جزاہ الله خير الجزاء
آخر میں اجمالاً تمام شیوخ ، احباب جماعت اور کتاب ہذا کی نشر و اشاعت میں معاونین کا ایک مرتبہ پھر شکریہ۔
وآخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمين ، وصلی الله علی نبينا محمد وعلی آله وصحبه اجمعين
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب ’’میلا د النبی ﷺ ‘‘ کا تحقیقی جائزہ
ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے زیر نظر و زیر تبصرہ کتاب میں گیارہ ابواب قائم کئے ہیں جبکہ باب اول میں دو فصلیں ہیں اور باب ہشتم میں آٹھ فصلیں بنائی ہیں۔
باب اول کا عنوان ڈاکٹر صاحب تحریر کرتے ہیں
’جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شعائر اسلام ، تاریخی تناظر میں ‘
اور پھر فصل اول قائم کر کے لکھتے ہیں: کسی واقعہ کی یاد منانا شعائر اسلام سے ثابت شدہ امر ہے۔
پھر اس کے تحت ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’نماز‘ انبیاء علیہم السلام کی یادگارہے۔
فصل دوم کے تحت رقم طراز ہیں کہ ’جملہ مناسک حج انبیاء علیہم السلام کی یادگار ہیں‘ اور پھر بڑی تفصیل سے ارکان و مناسک حج کو فرداً فرداًمختلف انبیاء علیہم السلام کی یادگار ثابت کیا ہے۔قادری صاحب کا شعائر اسلام سے استدلال صحیح نہیں۔
گویاکہ اس طرح طاہر القادری صاحب ’مروجہ جشن و جلوس‘ کو شعائر اسلام اور دین اسلام کا ثابت شدہ امر ، ثابت کرنا چاہتے ہیں:
اولاً ہم کہتے ہیں کہ جناب اگر یہ جشن و جلوس اور مروجہ میلاد شعائر اسلامی اور ثابت شدہ امر ہیں تو پھر خیر القرون کے لوگ اس ’علمی نکتہ‘ سے کیوں بے بہرہ رہے؟
قادری صاحب خود فرماتے ہیں: قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے جشن میلاد کیوں نہیں منایا؟ (صفحہ 450 باب ہفتم)
اس عنوان کے تحت ’جناب‘ نے بڑی دور دراز کی تاویلات و توجیھات کا سہارا لیا ہے مگر خلاصہ کلام یہ نکلا کہ ’قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں اہم ملی اور مذہبی اہمیت کے دن بطور تہوار منانے کا کوئی رواج نہ تھا‘۔ (صفحہ 498)
گویا جناب کہنا چاہتے ہیں کہ اصحاب قرون اول ’اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘ دین اسلام کے ’ثابت شدہ امر‘ کوجان نہ سکے۔ انا لله وانا اليه راجعون ۔
ثانیاً: کیا ارکان اسلام نماز و حج وغیرہ کو انبیاء علیھم السلام کی یادگار مان کر ’مروجہ جشن و جلوس میلاد‘ ثابت ہو جاتا ہے؟
اگر ہاں! تو جناب کو اس پر مزید لکھنے کی حاجت کیوں محسوس ہوئی؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ایک مقلد کو استدلال کی اجازت نہیں:
ثالثاً: جناب قادری صاحب ’حنفی المشرب‘ اور کٹر قسم کے مقلد ہیں اور مقلد کیلئے اجتہاد و استنباط کا دروازہ بند ہے اور نہ ہی وہ اس کے اہل ہوتے ہیں بلکہ ان پر لازم ہوتاہے کہ وہ اپنے ’امام‘ (جس کے وہ مقلد ہیں) سے دلیل نقل کریں یا ’امام‘ کا قول پیش کریں۔
ذرا قادری صاحب یہی ’نکتہ قیمہ‘ (جو مذکورہ بالا ہے) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت کردیں؟
باب دوم کے تحت عنوان قائم کرتے ہیں ’واقعات مسرت و غم کی یاد ‘ اور اس عنوان کے تحت مختلف انبیاء علیہم السلام کے واقعات کی مثال ذکر کرنے کے بعد سطور اخیرہ میں فرماتے ہیں: ’اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ گزشتہ واقعات کے حوالے سے خوشی اور غمی کا اظہار کرنا اور ان کیفیات کو اپنے اوپر طاری کر لینا سنت مصطفی ہے‘۔ (صفحہ 143)
ہم اس سلسلے میں اولاً یہ سوال کرتے ہیں کہ جناب کیا اس طرح ’ مروجہ میلاد و جشن‘ بھی ’سنت مصطفیﷺ ‘ ثابت ہو جائے گا؟
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ سنت مصطفی ﷺ اختیار کرنے سے تو ’مروجہ میلاد‘ کی نفی ہوتی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے ’مروجہ میلاد‘ منایا ہی نہیں اور نہ ہی منانے کا حکم دیا یہی وجہ ہے کہ قرون مفضلہ اس سے خالی دکھائی دیتے ہیں اور اس طرح ’استنبا طات‘ کے ذریعے جناب کچھ ثابت کس طرح کرسکتے ہیں کہ موصوف تو مقلد ہیں اور اس کے اہل ہو ہی نہیں سکتے۔
ولادت کے سلسلے میں سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے۔
مگرقادری صاحب روزہ کیوں رکھیں کہ اس دن تو وہ اور انکے ہم خیال خصوصی کھانوں،شراب اور نذرانوں سے ’بطن شریف‘ کو تسکین پہنچاتے ہیں۔
ثانیاً: کیا اتنی سی بات بھی ’موصوف‘ کی عقل میں نہیں آتی کہ کہاں غم کی کیفیت طاری کرنا اور کہاں ’مروجہ جشن‘ میں شور و غوغا اور آتش بازی کا مظاہرہ ،کیا یہ برابر ہے؟
اور یہ بھی کہ کیا جناب اور جناب کے ہم مکتبہ فکر کبھی ’غم رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘ اپنے اوپر طاری کر کے سنت صحابہ زندہ کرتے ہیں۔ حاشا وکلا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بیان میلا دسے جلوس میلاد پر غلط استدلال:
باب سوم میں عنوان قائم کرتے ہیں کہ’ قرآن....تذکرہ میلاد انبیاء ‘ اس کے ذیل میں ’تذکار انبیاء سنت الھیہ ہے‘ کی ہیڈنگ لگاتے ہیں اور پھر اس میں جو اللہ تعالی نے انبیاء علیھم السلام کے واقعات بیان کئے ہیں ان کے کچھ واقعات نقل کرتے ہیں اور ’واذکر‘ کے لفظ سے استدلال کرتے ہوئے اپنے ترجمتہ العنوان یا باب سے مطابقت دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پھر آگے چل کر ایک جگہ عنوان قائم کرتے ہیں ’میلاد انبیاء علیھم السلام کی اہمیت‘ اور اس کے تحت ان آیات کو ذکر کرتے ہیں کہ جن میں انبیاء علیھم السلام کی ولادت کے مراحل یا دیگر بیان سیرت وغیرہ کے ساتھ انکی بعثت کا ذکر ہوا۔
گویااس طرح موصوف ’ مروجہ میلاد و جشن اور جلوس‘ کو سنت الھیہ بیان کرتے ہوئے اسکی اہمیت بتلاتے ہیں۔
اس پر ہم یہ کہتے ہیں کہ کیا اس طرح ’ مروجہ میلاد‘ کو ثابت کیا جاسکتا ہے؟ یقیناًنہیں۔ہاں البتہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی ولادت کی خبر ، بعثت شریفہ اور اس کا مقصد نیز انکی سیرت طیبہ بیان کی جاسکتی ہے اور ظاہر ہے اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہی تو متاع ایمان ہے۔ اور پھر کمال تو یہ ہے کہ خود قادری صاحب فرماتے ہیں کہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں فضائل ، شمائل ، خصائل اور معجزات سید المرسلین کا تذکرہ اور اسوہ حسنہ بیان ہوتاہے۔
گویا جناب میلاد کے جشن کی حقیقت کو بیان کر رہے ہیں مگر کیا جلوس و آتش بازی اور شور غوغابھی میلاد مصطفی ﷺکے حصے ہیں؟
دوسری بات یہ ہے کہ جناب’جشن میلاد مروجہ‘ کو سنت الھیہ بارور کر وا رہے ہیں مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ ’سنت الھیہ‘ کسی بھی صحابی و تابعی کو نظر نہ آئی ۔ آخر کیوں؟
جناب نے مذکورہ عنوان میں آیت ’ لقد من الله علی المومنين اذبعث فيهم رسولاً‘ کو بھی ذکر کیا ہے۔
کیا جناب کی علمی حالت اس قدر سطحی ہے کہ جناب ’بعثت‘ کی حقیقت سے بھی آشنا نہیں ہیں؟
بعثت کا تعلق نزول قرآن کے ساتھ ہے جو کہ میلاد (پیدائش نبویﷺ) کے چالیس سال کے بعد نازل ہواتھا اور ولادت کا تو یہاں ذکر ہی نہیں۔
سیدنا یحییٰ علیہ السلام اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ضمن میں آیات ذکر کی ہیں۔
وسلام عليه يوم ولد و يوم يموت ويوم يبعث حياً ...... والسلام علی يوم ولدت و يوم اموت و يوم ابعث حياً۔
اور پھر لکھا ہے: اگر ولادت کا دن قرآن و سنت اور شریعت کے نقطہ نظر سے خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو اس دن بطور خاص سلام بھیجنا اور قسم کھانے کا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟
ہم کہتے ہیں کہ جناب پوری آیت تو پڑھیں سلام تین مقامات پر بیان ہوا ہے تو کیا تین مقامات پر ’مروجہ میلاد‘ منانا ہوگا؟ (پیدائش، وفات، بعثت یوم القیامة )تو پھر مناتے کیوں نہیں؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top