- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
میلاد منانے والوں میں ایک بادشاہ کا واقعہ
سعیدی: وہابیوں کے امام حافظ ابن کثیر دمشقی کی زبانی سنئے وہ لکھتے ہیں کہ ملک مظفر کو کبری نے جس انداز سے محفل میلاد کا انعقاد کیا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ چنانچہ ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
احد الاجواد والسادت الکبراء والملوک الامجاد لہ آثارٌ حسنۃٌ وکان یعمل المولد الشریف فی ربیع الاول ویحتفل احتفالاً ھائلاً وکان مع ذلک شھمًا شجاعًا فاتکًا بطلاً عالمًا عادلاً رحمہ اللہ واکرم مثواہ۔
ترجمہ: بہت بڑا سخی بہت بڑا سردار بزرگ بادشاہ، اس کے سب کام اچھے تھے… وہ ربیع الاول میں میلاد شریف کی حیران کن محفل کا انتظام کرتا تھا، وہ بہترین حاکم بہادر تھا دلیر تھانڈر تھا دانا تھا، عالم عادل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر رحمت کے پھول برسائے اور اس نے اس کو بڑی عزت والی قبر عطا فرمائی ہے۔ (البدایہ والنہایہ ج:۱۳، ص:۱۳۶)
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ الشیخ ابو الخطاب ابن دحیۃ رحمہ اللہ نے اس کیلئے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا التنویر فی مولد البشیر النذیر بادشاہ نے اس کو ایک ہزار انعام عطا کیا تھا (ایضا) (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۶)
محمدی: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ نے اول سلطان مظفر کی تعریف کی جیسا کہ سعیدی صاحب نے ترجمہ لکھا ہے پھر اس کے اچھے کاموں کی طرف اشارہ کیا جو اس نے اپنی حکومت میں کئے۔ اس کے بعد اس کے ایک خصوصی عمل کو بیان کیا کہ وہ میلاد کی حیران کن مجلس جماتا تھا۔ وہ حیران کن اس لئے تھی کہ وہ فضول خرچی سے میلاد مناتا تھا جیسا کہ علامہ ابن خلکان نے وفیات الاعیان ص:۵۵۵میں ذکر کیا ہے اور شریعت میں فضول خرچی ممنوع ہے گویا وہ :
ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین ۔ (فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں)
کے حساب سے شریعت کے خلاف عمل پیرا تھا اور راگ گانے کا بھی رسیا تھا یہ کام بھی شریعت کے خلاف کیا کرتا تھا، ان کاموں پر بے انتہا ملکی خزانہ برباد کرتا تھا بادشاہ فضول خرچ ہوتے ہیں۔ اور بادشاہوں کے ایسے بے جا خرچ اور بیت المال کے بے دریغ استعمال کے متعلق علامہ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ ابن عقیل نے فرمایا کہ ہم کو خبر پہنچی کہ حماد نے ولید بن یزید الاموی خلیفہ کی مدح میں کچھ اشعار سنائے تو اس نے خوش ہو کر بیت المال میں سے پچاس ہزار روپیہ اور دو لونڈیاں انعام کے طور پر دیں اور فرمایا ابن عقیل نے کہ عجیب بات یہ ہے کہ عوام الناس یہ بات اس کی تعریف میں بیان کرتے ہیں حالانکہ یہ اس کے حق میں انتہاء کی ملامت ہے کیونکہ اس نے مسلمانوں کے بیت المال میں اس طرح بے جا تصرف سے اسراف کیا گویا اخوان الشیاطین سے بھی بڑھ گیا (تلبیس ابلیس اُردو ص:۱۸۳، ۱۸۴)
اور یہی علامہ ابن جوزی ص:۱۸۳پر لکھتا ہے
(وجہ ششم) ابلیس ان لوگوں کو لبھاتا ہے کہ اموال سلطنت میں جس طرح چاہو اپنے حکم سے خرچ کرو کیونکہ یہ تمہارے حکم میں داخل ہے یہ تلبیس اس طرح کھل جاتی ہے کہ جو شخص اپنے مال میں مسرف (فضول خرچ) ہو اس پر شرع کے حکم میں حجر ہے یعنی قاضی حکم دے کہ اس کے سب تصرفات مالی نافذ نہ ہوں۔ تو جب ذاتی مال میں یہ حکم ہے تو خیال کرو کہ سلطان توجمیع مسلمانوں کے اموال خزانہ کا محافظ ہے تو وہ غیروں کے مال میں کس طرح خود مختاری سے بے جا خرچ کر سکتا ہے ان اموال خزانہ سلطنت میں سے سلطان کا حق فقط اس کے کام کی اجرت کے اندازہ پر ہے ۔(تلبیس ابلیس ص:۱۸۳، اُردو)
ہاں اس فضول خرچی، راگ گانے کی مجلس برپا کرنے اور بدعت کے عمل کے انعقاد کرنے کے باوجود، وہ بہترین حاکم بہادر دلیر نڈر، دانا بینا عادل بادشاہ تھا۔
جس سے واضح ہوا کہ حافظ ابن کثیر نے اس کو میلاد کی محفل جمانے پر خراج تحسین پیش نہیں کیا بلکہ دیگر اچھے کاموں پر اس کو خراج تحسین پیش کیا ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا یہ جملہ :
وکان مع ذلک شھماً فاتکاً الخ
سے واضح ہے یعنی اس فضول خرچی راگ گانہ کی مجلسیں برپا کرنے، بدعی مجلس میلاد کے انعقاد کے باوجود وہ بہادر دلیر بادشاہ تھا، اور یہ الفاظ بھی واضح ہیں:
وکان یصرف علی المولد کل سنۃٍ ثلاثمأۃ الف دینار
کہ وہ میلاد پر ہر سال تین لاکھ دینار کا خرچ کیا کرتا تھا۔ (البدایہ والنھایہ ص:۱۳۷، ج:۱۲)