• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میلاد کی دلیل نہیں ملی توہمارے اوپر اعتراض کرنے لگے

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
20151209211340.jpg


(1) حجاز پہ قبضے کا دن منانا: یہ تو حماقت در حماقت ہے کہ سعودی عرب کی حکومت کو حجاز پہ قبضہ سے موسوم کرے ۔ اگر ان بریلوی کو یہ حکومت ملتی تو رضاخوانی والی حکومت کو خلافت کا نام دیتے ۔
؎جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

(2) ہرسال كعبہ شریف کو غسل دینا: کعبۃ اللہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہردور میں اس پر بہتر سے بہتر غلاف چڑھایا گیا ۔ اہل علم نے اس پر نکیر نہیں فرمائی ۔ بالخصوص سلف صالحین جن کے افعال و اقوال کو منارہ ہدایت سمجھا جاتا ہے بلکہ فعل ہذا کو بہ نظر استحسان دیکھا گیا ۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، قاضی زین الدین عبدالباسط کے بارے میں فرماتے ہیں :فبالغ فی تحیتھا بحیث یعجز الواصف عن صفۃ حسنہا جزاہ اللہ علی ذلک افضل المجازاۃ . ( فتح الباری: 460/3 )
ترجمہ:اس نے غلاف کی بے انتہا تحسین و تزیین کی کہ بیان کرنے والا اس کے بیان اور توصیف سے قاصر ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس عمل پر ان کو بہترین بدلہ سے نوازے ۔
اسی طرح غسل کعبۃ اللہ بھی عملی تواتر سے ثابت ہے ۔ بعض روایات میں تصریح موجود ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کو توڑنے اور تصاویر کو مٹانے کے بعد کعبۃ اللہ کو غسل دینے کا حکم دیا تھا ۔ دليل:
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امر بغسل الکعبۃ بعد ما کسر الاصنام وطمس التصاویر .( تاریخ الکعبۃ المعظمہ ص 327 بحوالہ حسین عبداللہ باسلامہ ۔ بخاری ، الطحاوی ( 283/4 ) معانی الآثار )
ایک حدیث ترمذی شریف میں موجودہے ۔
وسترتم بیوتکم کما تستر الکعبۃ . ( الترمذی ابواب صفۃ القیامۃ باب 35 )
ترجمه: قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم اپنے گھروں کو ایسے ڈھانکو گے جیسے کعبہ ڈھانکا جاتا ہے ۔

(3) کعبہ کے غلاف پہ آیات لکھنا: یہ کام میری نظر میں جائز نہیں ہے .نہ اس سےدلیل پکڑتے ہیں اور نہ ہی اپنی مسجدوں میں ایسا کرتے ہیں ۔ اگر اس پہ عمل ہے تو بریلوی کا ۔ کوئی مسجد ایسی نہ ہوگی جس پہ نقش ، ذیزائن ، قرآنی آیات ، لفظ جلالہ بلکہ 786 جیسالفط بھی لکھا رہتا ہے جو ہندؤں کے بگھوان ہری کرشنا کا کوڈ نمبر ہے ۔ (معاذاللہ )

(4) سیرت النبی ﷺکے جلسے کرنا: دین کی نشر و اشاعت کے لئے دینی مدارس، دعوتی ادارے ، دینی پروگرام ( لکچر، سیمنار،اجتماع، کانفرنس وغیرہ ) کرنا جائز ہے ۔ اس کے جواز کے بہت سے دلائل ہیں مگر ممانعت کی دلیل نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ہم اسے عرس و میلے کی طرح باعث ثواب سمجھ کر نہیںمنعقدکرتے بلکہ یہ صرف تبلیغ دین کا ایک ذریعہ ہے ، اس لئے عرس کی طرح پہلے سے اس کی کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوتی ۔

(5) مسجد میں محراب و مینار بنانا: دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
مسجد میں موجود محراب کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود تھا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"افضل ترین صدیوں سے لیکر اب تک مسلمان مساجد میں محراب بناتے چلے آئے ہیں؛ کیونکہ یہ مفاد عامہ میں سے ہے، جیساکہ نمایاں ترین فائدہ یہ ہے کہ اس سے جہت قبلہ معلوم ہو جاتی ہے، اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس جگہ مسجد ہے"انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء " ( 6 / 252 ، 253 )
رہی بات مینار کی تو ہم اسے مسجد کے لئے ضروری نہیں سمجھتے لیکن مسجد کے واسطے مشروع ہے کیونکہ اس مینار سے اذان کی صدا بہت دور تک جاتی ہے اوردور سے ہی ایک مسلمان مینار دیکھ کر مسجد پہچان لیتا ہے ۔

(6) مدرسے بنانا: دین کا سیکھنا سکھانا اسلام میں فرض ہے ، چاہے انفرادی طورپر سیکھے سکھائے یا اجتماعی طور پر ۔ مدرسہ دین سیکھنے سکھانے کی اجتماعی شکل ہے ۔ نبی ﷺ بھی اپنے اصحاب کو کبھی انفرادی تو کبھی اجتماعی شکل میں دین سکھاتے تھے ۔ اصحاب صفہ دین سیکھنے کی اجتماعی شکل اور صحابہ کرام کا مدرسہ تھا۔

(7) مدرسوں کے لئے چندہ لینا: اسلام میں زکوۃ کے آٹھ مصارف ہیں ، ان مصارف کی روشنی میں دینی اور فلاحی اداروں پہ زکوۃ کی رقم صرف کرنا جائز ہے ، اس لئے ہم مدارس کے لئے چندہ وصول کرتے ہیں ۔ زکوۃ کے علاوہ بھی لوگ عطیات دیتے ہیں جن کا لینا اسلام میں جائز ہے ۔

(8) تہجد کی اذان دینا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں فجر کی دو اذانیں ہوتی تھیں ، ایک طلوعِ فجر سے پہلے اور دوسری طلوع فجر کے بعدچنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الجامع الصحیح‘ میں دو ہی باب باندھے ہیں۔
پہلا باب ہے بَابُ الْاَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ اور دوسرا باب ہے ۔بَابُ الْاَذَانِ بَعْدَ الْفَجْرِ اور دوہی حدیثیں بھی ذکر فرمائی ہیں. پہلی حدیث ہے:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ : «لَا یَمْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَوْ اَحَدًا مِّنْکُمْ۔ اَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سَحُوْرِہٖ فَإِنَّہُ یُؤَذِّنُ اَوْ یُنَادِیْ بِلَیْلٍ لِیَرْجِعَ قَائِمَکُمْ ، وَلِیُنَبِّہَ نَائِمکُمْ… الخ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بلال رضی الله عنہ کی اذان سن کر سحری کھانا ترک نہ کرے کیونکہ وہ رات کو اذان کہہ دیتا ہے تاکہ تہجد پڑھنے والا(آرام کے لیے ) لوٹ جائے اورجو ابھی سویا ہوا ہے اسے بیدار کر دے۔
اور دوسری حدیث ہے:
عَنْ عَائِشَة وَابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ : اِنَّ بِلَالًا یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُؤَذِّنَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات کو اذان دیتے ہیں اس لیے تم (روزہ کے لیے ) کھاتے پیتے رہو تاآنکہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیں۔
نوٹ : یاد رہے ہم اسے اذان تہجد نہیں کہتے بلکہ فجر کی پہلی اذان کہتے ہیں اس لئے اپنی اصلاح فرمالیں ۔

(9) ختم بخاری کرنا: بخاری شریف کا درجہ اسلام میں قرآن کے فورا بعد ہے ، اس لئے اس کے پڑھنے پڑھانے ، سننے سنانے کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ یعنی جتنے اہتمام سے امام بخاریؒ نے اس کی تصنیف فرمائی ہے اتنے ہی تزک و احتشام سے بخاری شریف کا علم حاصل کیا جاتاہے۔ جو اس کتاب کو پڑھائے انہیں شیخ الحدیث کے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے ۔ اور جو اسے پڑھے انہیں بخاری شریف کی احادیث بیان کرنے کی سند اجازت دی جاتی ہے اور جب بخاری شریف ختم ہوتی ہے تو آخر میں اس کتاب کے ختم ہونے کی خوشی میں ختم بخاری کے نام سے درس ہوتا ہے ۔ یہ درس بخاری ہے ، گجیڑیوں کا عرس اور درباروں میں ہونے والے بے غیرت مسلم خواتین کا ناچ گانا نہیں ۔

(10) اہل الحدیث کانفرس کرنا : اس کا جواب وہی ہے جو 4 نمبر میں درج ہے ۔ اور اہل الحدیث کا مطلب سمجھنا ہے تو تاریخ اہل حدیث پڑھ لو سمجھ آجائے گی ۔

(11) تراویح آٹھ رکعت پڑھنا: تراویح آٹھ رکعت ہی سنت ہے ، اس سے زیادہ سنتِ رسولﷺ سے ثابت نہیں۔ دلیل ملاحظہ ہو۔
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا کَيْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا کَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَی إِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا(متفق علیہ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1887)
ترجمہ : ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ابوسلمہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز رمضان میں کیسی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ رمضان میں اور اس کے علاوہ دونوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ بڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ ان کے طول و حسن کو نہ پوچھو۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے جن کے طول و حسن کا کیا کہنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔
 
Top