• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میں ضامن ہوں

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
میں ضامن ہوں

’’میں ضامن ہوں۔‘‘ کے الفاظ کسی عام شخصیت کے نہیں، بلکہ اس عظیم ہستیﷺ کے ہیں جن کو سید ِولد ِآدم، رحمتہ اللعالمین، ساقی ٔ کوثر اور شافع ِمحشر جیسے اَلقاب سے نوازا گیا ہے، جن کو یہ سعادتِ عظمیٰ حاصل ہے کہ وہ سب سے پہلے جنت کے دروازے پر دَستک دیں گے اور جن کی صداقت ِلسانی کی گواہی خود باری تعالیٰ نے بایں الفاظ دی ہے:
’’ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الھَوَیٰ۔ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحیٌ یُوْحَیٰ ‘‘ [النّجم: ۳، ۴]
’’اور وہ اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے، وہ تو صرف وحی ہے جو اُتاری جاتی ہے۔‘‘
اور جن کی لسانِ نبوت سے بھی یہ اَلفاظ جاری ہوئے:
’’ فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ! مَا یَخْرُجُ مِنْہُ إلَّا حَقٌّ‘‘ [سنن أبي داؤد: ۳۶۴۶]
’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اس زبان سے حق کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔‘‘
کسی ملزم ومجرم کے بارے میں عام اُمتی ضمانت دے تو اس کی ضمانت کا، قانون اور معاشرے میں اَدب واِحترام کیا جاتا ہے، لیکن ’’میں ضمانت دیتا ہوں‘‘ یہ کسی عام آدمی کی ضمانت نہیں بلکہ دانائے سبل، ختم الرسل، تمام انسانوں کے رہبر ورہنما اِمامُ الانبیا محمدﷺ کی ضمانت ہے۔ جتنی شخصیت عظیم ہو، اس کے قول وفعل کو بھی اتنی ہی عظمت ورِفعت حاصل ہوتی ہے۔ ہر مسلمان کا عقیدہ ہونا چاہیے کہ پیغمبر انسانیتﷺ کی زبانِ اَطہر سے جو کچھ بھی نکلا ہے وہ پورا ہوا ہے، پورا ہو رہا ہے اور پورا ہو کر رہے گا۔ ان شاء اللہ!
آئیے! ارشاداتِ نبویہ ﷺ کے بکھرے ہوئے قیمتی موتیوں اور فرموداتِ محمدیہﷺ کے خوشبودار پھولوں کو غور وفکر اور عقل وخرد کی جھولیوں میں بھرتے ہیں کہ جن پر رحمت ِعالمﷺ نے جنت کی ضمانت دی ہے۔
نمبر1
سیدنا سہل بن سعد﷜ سے مروی ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے اِرشاد فرمایا:
’’ مَنْ یَضْمَنْ لِي مَا بَیْنَ لِحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ أَضْمَنْ لَہُ الْجَنَّۃَ ‘‘ [صحیح البخاری: ۶۴۷۴]
’’جو شخص مجھے دو جبڑوں کے درمیان چیز (زبان) اور ٹانگوں کے درمیان چیز (شرمگاہ) کی (حفاظت کی) ضمانت دے، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘
زبان کی حفاظت سے مراد ہے کہ ہر قسم کی لغویات ولہویات، جھوٹ، غیبت، چغل خوری، تہمت، گالم گلوچ، عیب جوئی، طعن وتشنیع، بد اَخلاقی وبد زبانی اور حرمت ِمسلم کی پامالی جیسے اَمراضِ خبیثہ سے مکمل اجتناب کیا جائے، جبکہ زنا، لواطت اور دیگر فحش اعمال سے مکمل اجتناب شرمگاہ کی حفاظت ہے۔ تب کہیں جا کر ہم نبوی ضمانت کے حقدار ٹھہریں گے۔
یہاں ایک بات غور طلب یہ ہے کہ جہاں زبان اور شرمگاہ کی حفاظت پر نبی کریمﷺ نے جنت کی ضمانت دی ہے، وہاں اس سوال کے جواب میں کہ کونسی چیز لوگوں کو کثرت سے جہنم کی آگ میں داخل کرے گی؟ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’ الْفَمُ وَالْفَرْجُ ‘‘ [سنن الترمذي: ۲۰۰۴] ’’منہ (زبان) اور شرمگاہ۔‘‘
نمبر2
سیدنا اَبو اُمامہ باہلی﷜ فرماتے ہیں کہ رسولِ اقدسﷺ نے اِرشاد فرمایا:
’’ أَنَا زَعِیمٌ بِبَیْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَآئَ وَإِن کَانَ مُحِقًّا، وَبِبَیْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ وَإِنْ کَانَ مَازِحًا، وَبِبَیْتٍ فِي أَعْلَی الْجَنَّۃِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَہٗ ‘‘ [سنن أبی داؤد: ۴۸۰۰]
’’میں اس شخص کے لئے جنت کی ایک طرف میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو حقدار ہو نے کے باوجود لڑائی جھگڑا چھوڑ دیتا ہے، اور اس شخص کے لئے جنت کے درمیان میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو مزاح کے طور پر بھی جھوٹ بو لنا چھو ڑ دیتا ہے، اور جنت کے اعلیٰ دَرجہ میں اُس شخص کیلئے ایک گھر کا ضامن ہوں جو اپنے اخلاق کو اَچھا کر لیتا ہے۔‘‘
اس حدیث میں تین اعمالِ صالحہ کا بیان ہوا ہے:
1۔لڑائی جھگڑا ترک کرنا۔
2۔جھوٹ بولنا چھوڑ دینا۔
3۔اَچھا اخلاق اَپنانا۔
دیکھیں ان تینوں کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے زبان کے ساتھ ہے۔ لڑائی جھگڑا اکثر زبان اور ہاتھ سے کیا جاتا ہے۔ ارشادِ نبویﷺ ہے:
’’ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ ‘‘ [صحیح مسلم: ۴۱]
’’کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہا تھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ومامون رہیں۔‘‘
جھوٹ کا تعلق بھی زبان سے ہے اور اخلاق کا زیادہ تعلق بھی زبان سے ہوتا ہے، لہٰذا زبان کی حفاظت سے آدمی اس حدیث پر بخوبی عمل کرکے ضمانت ِنبویﷺ کا حقدار ٹھہر سکتا ہے۔
نمبر3
سیدناعبادہ بن صامت﷜ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں:
’’ اِضْمَنُوا لِي سِتًّا مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَضْمَنْ لَکُمُ الْجَنَّۃَ: اصْدُقُوا إِذَا حَدَّثْتُمْ، وَأَوْفُوا إِذَا وَعَدتُّمْ، وَأَدُّوا إِذَا ائْتُمِنْتُمْ، وَاحْفَظُوا فُرُوجَکُمْ، وَغُضُّوا أَبْصَارَکُمْ، وَکُفُّوا أَیْدِیَکُمْ ‘‘ [مسند اَحمد: ۲۲۲۵۱]
’’تم مجھے اپنی طرف سے چھ چیزوں کی ضمانت دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں: بات کرو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو پورا کرو، اَمانت کو اَدا کرو، شرمگاہوں کی حفاظت کرو، نگاہیں پست رکھو اور اپنے ہا تھوں کو (ظلم وستم) سے روکے رکھو۔‘‘
صدق بیانی اور ایفائے عہد کا تعلق زبان سے، ادائیگی ٔ اَمانت اور کف ِید کا تعلق ہاتھ سے، غض ِبصر کا تعلق آنکھ سے جبکہ حفظ ِفرج کا تعلق شرمگاہ سے ہے گویا زبان، ہاتھ، آنکھ اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے سے آدمی اس حدیث پر بطریق اَحسن عمل پیرا ہوسکتا ہے۔
نمبر4
سیدنا اَبو ہریرہ﷜ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رض کی جماعت میں فرمایا:
’’ اکْفُلُوا لِي بِسِتٍّ أَکْفَلْ لَکُمُ الْجَنَّۃَ ‘ قُلْتُ: مَا ھِيَ یَا رَسُولَ اﷲ ﷺ؟ قَالَ: ’’ الصَّلَوٰۃُ وَالزَّکَوٰۃُ وَالْأَمَانَۃُ وَالْفَرْجُ وَالْبَطَنُ وَاللِّسَانُ ‘‘ [المعجم الأوسط للطبراني: ۵/۴۸۶، رقم: ۴۹۲۲]
’’تم مجھے چھ چیزوں کی (حفاظت کی) ضمانت دو، میں تم کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ میں نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! وہ کون سی چیزیں ہیں؟ فرمایا: ’’نماز، زکوۃ، اَمانت، شرمگاہ، پیٹ اور زبان۔‘‘
مطلب یہ ہے ہر قسم کی سستی وکوتاہی چھوڑ کر نماز کو باقاعدگی سے سنت کے مطابق اَدا کرنا، جب مال نصاب کو پہنچ جائے تو زکوٰۃ دینا، حق دار کو اَمانت لوٹادینا، شرمگاہ کی حفاظت کرنا، حرام کا لقمہ داخل ہونے سے پیٹ کی حفاظت کرنا اور زبان کو سنبھال کر رکھنا۔
نمبر4
رسولِ کریمﷺ کے آزاد کردہ غلام سیدنا ثوبان﷜ سے روایت ہے کہ رسولِ اَقدسﷺ نے فرمایا:
’’ مَنْ یَتَقَبَّلْ لِي بِوَاحِدَۃٍ أَتَقَبَّلْ لَہٗ بِالْجَنَّۃِ ‘‘ ، قُلْتُ: أَنَا یَا رَسُولَ اﷲِ ﷺ! قَالَ: ’’ لَا تَسْأَلِ النَّاسَ شَیْئًا ‘‘۔ قَالَ: فَرُبَّمَا سَقَطَ سَوْطُ ثَوْبَانَ وَھُوَ عَلَیٰ بَعِیرِہٖ فَمَا یَسْأَلُ أَحَدًا أَنْ یُنَاوِلَہٗ حَتَّیٰ یَنْزِلَ إِلَیْہِ فَیَأْخُذَہٗ۔ [سنن أبي داؤد: ۱۶۴۳، سنن النّسائي: ۲۵۹۰، مسند أحمد: ۲۱۹۱۷]
’’جو شخص مجھے ایک چیز کی ضمانت دے میں اُسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ضمانت دیتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کر (یعنی کچھ مت مانگ)۔‘‘ راوی (عبدالرحمن بن معاویہ) کہتے ہیں کہ اس کے بعد ثوبان﷜ کی حالت یہ ہو گئی کہ اگر وہ اونٹ پر ہوتے اور ان کا کوڑا نیچے گر جاتا تو وہ کسی کو پکڑانے کو نہ کہتے بلکہ خود اونٹ سے نیچے اُتر کر اپنا کوڑا اُٹھا لیتے تھے۔
اس حدیث مبارکہ کی رو سے لوگوں سے بغیر ضرورت وحاجت مانگنا مذموم فعل ہے، بلکہ آپﷺ نے سخت وَعید فرمائی:
’’ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ تَکَثُّرًا فَإِنَّمَا یَسْأَلُ جَمْرًا فَلْیَسْتَقِلَّ أَوْ لِیَسْتَکْثِرْ ‘‘ [مسلم: ۱۰۴۱]
’’جو لوگوں سے مال زیادہ کرنے کیلئے سوال کرتا ہے گویا کہ آگ کا انگارہ طلب کرتا ہے، پس وہ چاہے تو انگارے کم کرلے یا چاہے تو زیادہ کرلے۔‘‘
دوسری جگہ اِرشاد فرمایا:
’’ الْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَیٰ وَالْیَدُ الْعُلْیَا ہِيَ الْمُنْفِقَۃُ وَالسُّفْلَیٰ ہِيَ السَّائِلَۃُ ‘‘ [صحیح البخاري: ۱۴۲۹]
’’اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، خرچ کرنے والا (دینے والا) ہاتھ اُوپر والا ہے جبکہ مانگنے والا (لینے والا) ہاتھ نیچے والا ہے۔‘‘
قارئین ِکرام!
حفظ ِفرج، غض ِبصر، کف ِید، حفظ ِبطن، ترکِ کذب، ترکِ مرائ، حسن ِاخلاق، صدقِ حدیث، ایفائے عہد، ادائیگی اَمانت، اقامت ِصلوٰۃ، ادائے زکوٰۃ اور ترکِ سوال وہ چند اعمالِ صالحہ ہیں، جن کی تعمیل پر سرورِ کائناتﷺ نے جنت کی ضمانت دی ہے۔ سیدنا ثوبان﷜ کی طرح ہمیں بھی احساس کی شمع کو اپنے دِلوں میں روشن کرناچاہیے اور مذکورہ اَعمال کو حرزِ جان بنا لینا چاہئے تب ہم بھی نبوی ضمانت کو حاصل کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ تعلیماتِ نبویہ پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العٰلمین!

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
 
Top