ناصر نواز خان
رکن
- شمولیت
- ستمبر 07، 2020
- پیغامات
- 111
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 54
ا
ملاحظه ھو:
أخبرنا البرقاني قال: قرئ على محمد بن عبد الله بن خميرويه، وأنا أسمع: أخبركم يحيى بن أحمد بن زياد، قال: وسألته، يعني يحيى بن معين، عن حديث أبي معاوية الذي رواه عبد السلام الهروي عنه عن الأعمش، حديث ابن عباس، فأنكره جدا
[تاریخ بغداد للخطیب: جزء12/صفحة315]
۔
یہ لیں جناب (انا مدینة العلم) کے الفاظ اسی عمر بن اسماعیل بن مجالد سے۔
امام العقیلی نے کہا:
وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدَّثَنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُجَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا ، فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ فَلْيَأْتِهَا مِنْ بَابِهَا " ، وَلا يَصِحُّ فِي هَذَا الْمَتْنِ حَدِيثٌ
[الضعفاء الکبیر للعقیلی:رقم/1268]
۔
تو ثابت ھوا کہ
(1) یہ دونوں الگ الگ نہیں بلکه ایک ہی روایت ہے۔ (کبھی اس کو مدینة الحكمة کہہ کر روایت کیا گیا، اور کبھی مدینة العلم کہہ کر روایت کیا گیا)
(2) اور ابن معین نے اس روایت پر جرح کر رکھی ھے۔
بن معین نے اس حدیث کو کہیں بھی صحیح نہیں کہا۔ بلکه منکر اور من گھڑت ضرور کہا ہے۔ثالثا یہ کہنا کے فلاں نے حدیث گھڑ لی ہوگی یا فلاں نے فلاں کام کر دیا ہوگا اصول حدیث سے کورے لوگ ایسی جہالت سے بھرپور باتیں کرتے ہیں، حدیث پر جرح مفروضوں کی بنیاد پر نہیں دلائل کی بنیاد پر ہوتی ہے، کیونکہ یحیی بن معین تو خود اس روایت کو صحیح مان رہے ہیں اس کو روایت کرنے والے ابو الصلت کے دفاع میں خود ہی اس کی متابعت بھی دکھا رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
عباس بن محمد الدوری کہتے ہیں : میں نے حضرت یحیی بن معین سے ابوصلت ہروی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ ثقہ ہے ۔ میں نے کہا : کیا اس نے ابومعاویہ کے واسطے سے اعمش سے یہ روایت نہیں کی ’’ انا مدینۃ العلم ‘‘ تو انہوں نے کہا : اس کو محمد بن جعفر الفیدی نے بھی روایت کیا ہے اور وہ ثقہ ہیں ، مامون ہیں ۔(1)
ملاحظه ھو:
أخبرنا البرقاني قال: قرئ على محمد بن عبد الله بن خميرويه، وأنا أسمع: أخبركم يحيى بن أحمد بن زياد، قال: وسألته، يعني يحيى بن معين، عن حديث أبي معاوية الذي رواه عبد السلام الهروي عنه عن الأعمش، حديث ابن عباس، فأنكره جدا
[تاریخ بغداد للخطیب: جزء12/صفحة315]
۔
آپ نے کہا ابن معین نے (انا مدینة الحكمة) والی روایت پر جرح کرکے عمر بن اسماعیل بن مجالد کو کذاب قرار دیا تھا۔حديث أبي معاوية عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عباس (أنا مدينة الحكمة وعلى بابها) كم من خلق قد افتضحوا فيه، ثم قال لي أبو زرعة: أتينا شيخا ببغداد يقال له عمر بن إسماعيل بن مجالد، فأخرج إلينا كراسة لأبيه فيها أحاديث جياد، عن مجالد، وبيان، والناس، فكنا نكتب إلى العصر، وقرأ علينا، فلما أردنا أن نقوم قال: حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش بهذا الحديث فقلت له: ولا كل هذا بمرة. فأتيت يحيى بن معين، فذكرت ذلك له فقال: قل له يا عدو الله متى كتبت أنت هذا عن أبي معاوية، إنما كتبت أنت عن أبي معاوية ببغداد، متى روى هذا الحديث ببغدادسؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي ت الهاشمي ؟ ۔ (10)
️ابو زرعہ کہتے ہیں ہم بغداد میں ایک شیخ سے ملے جس کا نام عمر بن اسماعیل بن مجالد تھا انہوں نے ہمیں اپنے والد کی ایک کتاب دکھائ جس میں وہ احادیث تھیں جو انہوں نے مجالد، بیان اور دیگر لوگوں سے سنی تھیں۔ ہم وہ حدیثیں لکھتے اور پڑھتے تھے پس جب ہم نے جانے کا ارادہ کیا تو اس نے وہ حدیث(باب الحکمة) ابو معاویہ عن اعمش کے طریق سے بیان کی تو میں نے اس سے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ پس میں یحیی بن معین کے پاس آیا اور انہیں اس بارے میں بتایا۔ تو انہوں نے کہا اس سے کہو کہ اے الله کے دشمن تم نے یہ ابو معاویہ سے بغداد میں کب سنی؟ انہوں نے کب یہ حدیث بغداد میں بیان کی؟
یہاں یحیی بن معین کا ابو معاویہ سے بغداد میں اس کا رویت ہونا یہ سن کر حیران ہونا اس بات کا ثبوت ہے کے یہ روایت موضوع ہے کیوں کے ابو الصلت کی متابعت والی روایت(1) جو مستدرک میں ہے اس میں محمد بن احمد بن تمیمی اور حسین بن فھم بغداد سے ہیں ممکن ہے ان میں سے کسی نے یہ روایت ابو الصلت سے سن کر گھڑی ہو۔
الجواب:
ہم یہ کہتے ہیں کے یہ اعتراض کرنے والا جاہلوں کا سردار ہے اور اصول حدیث سے بالکل ہی نابلد ہے یا پھر لوگوں کو بیوفوغ بنانے کے لیے ایسے اعتراضات اٹھاتا ہے خیر
اولا تو یہ روایت ہی الگ ہے " میں حکمت کا شہر ہوں" (11) اور جس روایت کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں وہ" میں علم کا شہر ہوں" دونوں الگ الگ روایات ہیں۔
یہ لیں جناب (انا مدینة العلم) کے الفاظ اسی عمر بن اسماعیل بن مجالد سے۔
امام العقیلی نے کہا:
وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدَّثَنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُجَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا ، فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ فَلْيَأْتِهَا مِنْ بَابِهَا " ، وَلا يَصِحُّ فِي هَذَا الْمَتْنِ حَدِيثٌ
[الضعفاء الکبیر للعقیلی:رقم/1268]
۔
تو ثابت ھوا کہ
(1) یہ دونوں الگ الگ نہیں بلکه ایک ہی روایت ہے۔ (کبھی اس کو مدینة الحكمة کہہ کر روایت کیا گیا، اور کبھی مدینة العلم کہہ کر روایت کیا گیا)
(2) اور ابن معین نے اس روایت پر جرح کر رکھی ھے۔