دین اسلام افراط و تفریط کے درمیان معتدل ہے۔ اسکی رات بھی دن کی طرح روشن اور واضح ہے۔ قرآن کریم میں ہر چیز کا بیان موجود ہے اور اسکی تفصیل، تفسیر و تشریح احادیث نبویﷺ میں وارد ہے
جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
آج امت جس مشکل میں گھری اور پھنسی ہوئی ہے، خاص طور پر پاکستان جن پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے، جتنی قتل و غارت گری یہاں ہو رہی ہے باوجودیکہ پاکستان دارلحرب نہیں ہے۔ اس سب کچھ کے پیچھے گولی کافر کی اور کندھا مسلمان کا استعمال ہو رہا ہے۔ اور اس میں خطا کاروں اور مجرموں سے کہیں زیادہ معصوم لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے ۔ کتنی مساجد ان بے گناہ نمازیوں کے خون سے رنگیں ہوئی ہیں کہ جن کا اس جنگ و جدل سے کوئی تعلق نہیں۔ انکا خون ان بے بصیرت و عجلت پسند مفتیان کے سر ہے جو کم علم بھی ہیں اور کم فہم بھی! جبکہ،
اور اگر جان بوجھ کر قتل کرے تو اسکی سزا اسلام میں وارد ہے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’
یعنی دونوں صورتوں میں قاتل مجرم ہے!
رسو ل اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع ـ10ہجری ،9ذی الحجۃ ـکومیدان عرفات میں ایک لاکھ چو بیس ہزار کے قریب مسلمانوں کو مخاطب فرماکر نصیحت فرمائی ۔
یوم النحرـ10ذوالحجۃ کو بھی رسو ل اللہ ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:اس میں بھی آپ نے کل کی (پچھلی ) باتیں دہرائیں ۔یہ پوچھنے کے بعد کہ یہ کو نسا مہینہ ،کونسا شہر اور کونسا دن ہے ؟فرمایا:
ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں :
جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
(سورہ یوسف)’’یہ قرآن گھڑی ہوئی بات نہیں بلکہ اپنے سے پہلے کتابوں کی تصدیق اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے‘‘۔
آج امت جس مشکل میں گھری اور پھنسی ہوئی ہے، خاص طور پر پاکستان جن پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے، جتنی قتل و غارت گری یہاں ہو رہی ہے باوجودیکہ پاکستان دارلحرب نہیں ہے۔ اس سب کچھ کے پیچھے گولی کافر کی اور کندھا مسلمان کا استعمال ہو رہا ہے۔ اور اس میں خطا کاروں اور مجرموں سے کہیں زیادہ معصوم لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے ۔ کتنی مساجد ان بے گناہ نمازیوں کے خون سے رنگیں ہوئی ہیں کہ جن کا اس جنگ و جدل سے کوئی تعلق نہیں۔ انکا خون ان بے بصیرت و عجلت پسند مفتیان کے سر ہے جو کم علم بھی ہیں اور کم فہم بھی! جبکہ،
()المائدہ:۳۲)’’ایک بے گناہ جان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے‘‘
اور اگر جان بوجھ کر قتل کرے تو اسکی سزا اسلام میں وارد ہے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
(النساء:۹۳)’’اور اگر جان بوجھ کر قتل کرے تو اسکی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب ہے، اسے اللہ نے لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘
’
(النساء:۹۲)’اور اگر غلطی (قتل خطا)سے کسی بے گناہ مسلمان کو قتل کرے تو اس کا کفّارہ ادا کرنا فرض ہے۔ ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرے اور مقتول کے ورثاء کو خون بہا ادا کرے‘‘
یعنی دونوں صورتوں میں قاتل مجرم ہے!
رسو ل اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع ـ10ہجری ،9ذی الحجۃ ـکومیدان عرفات میں ایک لاکھ چو بیس ہزار کے قریب مسلمانوں کو مخاطب فرماکر نصیحت فرمائی ۔
(ابن ہشام )لوگو! میری بات سن لو ! کیونکہ میں نہیں جانتا،شاید اس سال کے بعد تمہیں اس مقام پر کبھی نہ مل سکو ں۔
(مسلم)’’تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طر ح حرام ہے جس طر ح تمہارے آج کے دن کی،رواں مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہے ‘‘
یوم النحرـ10ذوالحجۃ کو بھی رسو ل اللہ ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:اس میں بھی آپ نے کل کی (پچھلی ) باتیں دہرائیں ۔یہ پوچھنے کے بعد کہ یہ کو نسا مہینہ ،کونسا شہر اور کونسا دن ہے ؟فرمایا:
(بخاری ،مسلم)’’اچھا تو سنو کہ تمہارا خون ،تمہارامال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہے جیسے اس شہر،اس مہینے اور اس دن کی حرمت ہے۔‘‘
ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں :
(مسلم )’’مسلمان کا خون ،مال اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے‘‘
(بخاری )’’کسی کافر کا(بلاوجہ) قتل بھی جائز نہیں ،جس نے کسی ذمی (اسلامی ریاست میں معاہدے کے تحت رہنے والا کافر )کو قتل کیاوہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا‘‘