• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نئے سال کی آمد پر امید قائم رکھیے....... خطبہ جمعہ حرم مکی

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
نئے سال کی آمد پر امید قائم رکھیے.......2 محرم 1434ھ

خطبہ جمعہ حرم مکی
خطیب: عبدالرحمٰن السدیس​
پہلا خطبہ
إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوب إليه، ونُثني عليه الخيرَ كلَّه.
يا ربِّ حمدًا ليس غيرُك يُحمَدُ يا مَن له كلُّ الخلائِقِ تصمُدُ
وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له شهادةً نستمنِحُ منها العزيمةَ والبأس، وأشهد أن نبيَّنا وسيدَنا محمدًا عبدُ الله ورسوله أنارَ الله به دياجيرَ الظُّلُمات والياس، صلَّى الله وبارَك عليه، وعلى آله الطيبين الآس، وصحبِه المُتفائِلين في جُملة الأغراس، والتابعين ومن تبِعهم بإحسانٍ، وسلَّم تسليمًا كثيرًا يُطيِّبُ مرائرَ الأنفاس.

اما بعد!
اللہ کے بندو! وہ بہترین چیز جس کی ہر وقت نصیحت کی جا سکتی ہے وہ اللہ کا ڈر اور تقویٰ ہے۔ اللہ کا ڈر ایک ایسا نور ہے جس سے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں۔ یہ مہلک فتنوں سے بچاؤ کا قلعہ اور پیش آنے والے حادثات سےبچاؤ کا سبب ہے۔
اے مسلمانو! امت مسلمہ نے گزشتہ ہجری سال کو الوداع کہہ دیا ہے اور اس سے سوائے اس میں ظاہر اور رونما ہونے والی یاد کے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ یہ سال ایسے گزرا ہے جیسے ہم میں سے کوئی دن کو شام کے وقت الوداع کہتا ہے۔ نئے سال کے شروع میں ضروری ہے کہ ہم امید کی زندگی گزاریں، حالانکہ امت اسلامیہ بڑے عرصے سے مشکلات و مصائب اور تکالیف میں مبتلا ہے، اس کا جسم زخموں سے چور ہے اور اس کےماننے والوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے خون بہائے جا رہے ہیں اور امت کو ہر طرف سے گھیرے میں لے لینے والے چیلنجوں کے درمیان زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے اور اس کے سالوں میں سے ایک سال اپنا دورانیہ پورا کر کے رخصت ہوا ہے۔ اس کے دن بیت گئے، اللہ تعالیٰ کا اپنی کائنات میں یہی قانون کارفرما ہے، دن گزرتے ہیں، مہینے پلٹتے ہیں، سال پر سال بیتتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [الأحزاب: 62]
’’ اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔‘‘
مسلمانان گرامی! امت مسلمہ نے ایک ہجری سال کو الوداع کہا اب اس کی صرف یادیں باقی رہ گئی ہیں اور ہم نے ایک سال کو ایسے الوداع کہا جبکہ ہم ایک دن کو اس کے اختتام پر الوداع کہتے ہیں۔ صبح سے شام تک ہم میں سے کوئی بھی اسے طویل نہیں سمجھتا۔ دعا ہے کہ ہمارے اس روشن سال ہی کے آغاز میں اللہ اسے فتح و نصرت اور خودمختاری کا پیغام بنا دے۔ ضروری ہے کہ ہم امید او ر نیک شگونی قائم رکھیں۔ اگرچہ ہماری امت اسلامیہ اندوہناک حوادث و مصائب اور آلام سے دوچار اور افتراق کا شکار ہے اس کا جسم زخموں سے لہو لہو ہے، بے شمار علاقوں میں اس کے فرزندوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور انتہائی بے رحمی کے ساتھ ان کے جسموں کے پرخچے اڑائے جا رہے ہیں، جس سے پہاڑ ریزہ ریزہ اور جگر چھلنی ہو رہے ہیں۔
اس کے باوجود یہ مناسب نہیں کہ یہ احوال ہمیں مایوسی کے غاروں میں دھکیل دیں اور ہم نامرادی کے اندھیروں میں ڈوب جائیں، اس لیے کہ مایوسی سے تاریک اندھیرے اور گہرے ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے منع کیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ [يوسف: 87]
’’اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو کہ اللہ کی رحمت سے بے ایمان لوگ نا امید ہوا کرتے ہیں۔‘‘
مزید فرمایا:
وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ [الحجر: 56]
’’اللہ کی رحمت سے میں مایوس کیوں ہونے لگا؟ اس سے مایوس ہونا گمراہوں کا کام ہے۔‘‘
جب دلوں میں مایوسی جگہ بنا لے، وسیع اور فراخ سینے اس کی وجہ سے تنگ ہو جائیں، نا مطلوب احوال مستقل ڈیرے ڈال لیں اور مصائب پے در پے آتے چلے جائیں، سو ایسے حالات میں مایوسی کی ایسی کیفیت میں تیرے لیے مدد آتی ہے اور دعائیں قبول کرنے والا اپنے لطف و کرم سے احسان فرماتا ہے۔
اے امت مسلمہ! نا امیدی اور مایوسی کی گھڑیوں میں امید کی تیغ اور نیک شگون کی ڈھال سے کار آمد چیز کوئی نہیں۔ امید سے عمل کی مشقت کم ہو جاتی ہے، مایوسی اور اکتاہٹ کا ازالہ ہوتا ہے، رات کے شدید اندھیرے کے بعد نئی صبح کی تاباں سورج طلوع ہوتا ہے۔ اگر گزرا ہوا دن واپس نہیں آیا تو کیا ہوا، ہمارے سامنے ایسا دن ہے جس سے ہم دنیا کو روشن کر دیں گے۔ رات کو راستے ہمارے لیے خلط ملط ہو جاتے ہیں، تاہم فجر کے وقت تروتازہ نسیم کے جھونکے ہمیں ترو تازہ کر دیتے ہیں۔ امید ا ور نیک شگونی سےعزیمت کی روح پھوٹتی ہے۔ خود اعتمادی انگڑائی لیتی اور آگے بڑھنے کے ولولے بیدار ہوتے ہیں اور یہی شریعت ربانی کا نور ار رسول ہدایت حضرت محمدﷺ کی سیرت طیبہ سے حاصل ہونے والی نورانی قوت ہے۔
حضورﷺ پر میرے ماں باپ قربان! آپﷺ کی حیات طیبہ مصائب و آلام کے شدید اندھیروں میں نیک شگونی کی ڈھال سے مستقید ہونے کا عملی نمونہ ہے۔ چنانچہ آپﷺ اپنے رفقا کو بشارت دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ دین پھیلتے ہوئے وہاں تک پہنچے گا جہاں تک رات اور دن ہیں۔ کوئی گھر مٹی سے بنا ہو یا اون سے، اللہ تعالیٰ اس میں دین داخل کرے گا، کوئی عزت پائے گا اور کوئی ذلیل ہو گا۔ عزت ایسی کہ اس کے ذریعے اللہ اسلام کی عزت دوبالا کرے گا اور ذلت ایسی کہ اللہ کفر کو ذلیل کر دے گا۔
حضورنبی کریمﷺ ہمارے درمیان اس وقت مبعوث ہوئے جبکہ رسولوں کی بعثت میں وقفہ آ گیا تھا، مایوسی کی فضا تھی اور زمین میں بتوں کی پرستش ہو رہی تھی تو انھوں نے روشن چراغ اور ہادی بن کر ہمیں دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ ہم اس پر اللہ کی تعریف کرتے ہیں۔ دکھوں کی اندھیری راتوں، ظلمت اور ظلم سے معمور فضا میں جہاں راستہ سجھائی نہ دیتا تھا، اہل ایمان کے گروہ فتح و نصرت کی ابتدائی شعاؤں کی طرف لپکے اور روشنیوں کے پھوٹنے اور غم کی رات چھٹنے کی خوشخبریاں حقیقت بن گئیں اور ہماری موجودہ حالت بھی اس بارے میں سچی خبر اور پختہ ترین دلیل ہے۔
بہت ساری کمزور قومیں ایسی ہیں جنھوں نے زوال کے بعد عروج پایا۔ بے نام ہونے کے بعد پھر سے نامور ہو کر اٹھیں۔ شام میں ظلم و طغیان کے شکست خوردہ لشکر اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہے ہیں۔ اگرچہ وہ مضبوط قلعوں میں بند ہیں لیکن خوشخبریاں آ رہی ہیں کہ ان کے گرد گھیرا تنگ ہو چکا ہے ۔ یہ خبریں کس قدر خوش کن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
هَذَا وَإِنَّ لِلطَّاغِينَ لَشَرَّ مَآبٍ [ص: 55]
’’یہ (نعمتیں تو فرماں برداروں کے لیے ہیں) اور سرکشوں کے لیے برا ٹھکانا ہے۔‘‘
اللہ ہمارا آقا ہے، ہم آسائش میں ہوں تب بھی اور جب شدید آزمائش میں ہوں تب بھی اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں۔ و ہ رب اپنے بندوں کے لیے غضب میں آتا ہے اور وہ جس کو سزا دینا چاہے اس کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔ فلسطین میں ثابت قدم ہمارے بھائیو! اے دشمنوں کے قبضے میں بیت المقدس! تمھیں خوشخبریاں ہوں کے ٹھوس مدد آ پہنچی ، محاصرہ کمزور ہو چکا، راستے کھل چلے جس سے نیک شگونی اور بشارات کو تقویت ملتی ہے ور ہمیں اس تنگی اور شدت کے بعد آسانی اور آسائش اور کشائش کی بھرپور امید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [الحشر: 2]
’’تمہارے خیال میں بھی نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ لوگ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ان کے قلعے ان کو اللہ (اللہ کے عذاب) سے بچا لیں گے مگر اللہ نے ان کو وہاں سے آ لیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی۔‘‘
ہم پختہ امید رکھتے ہیں کہ ہر مقام پر فتح کا سورج طلوع ہونے والا ہے، ہر پہاڑ اور ٹیلے پر فلسطین و شام میں اور برما و اراکان میں، فتح اسلام کا مقدر ہے خواہ کمینے دشمن جمع ہو جائیں اور ظلم، دہشت گردی اور جرائم کا دائرہ کتنا ہی وسیع کر لیں۔ یہ اللہ کا قانون ہے۔ تاہم یہ امتحان ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ [محمد: 31]
’’اور ہم تم لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے الے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں اور تمہارے حالات جانچ لیں۔‘‘
مایوسی میں کوئی خیر نہیں، خیر تو امید میں ہے، شجاعت اور پیش قدمی کی جڑیں تو انسان کے دل میں ہوتی ہیں۔ ہم ان امیدوں سے خود کو تسلی دے لیتے ہیں جن میں انتظار ہے، اگر امید کی وسعت نہ ہو تو زندگی کس قدر تنگ ہو جائے۔ اسے وہ امت جس سے نصرت کا وعدہ کیا گیا ہے، یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ امید خوش گمانی اور نیک شگونی کا دارومدار تجدید و ترقی کو اپنانے اور کاہلی اور اندیشہ ہائے دور دراز سے مکمل اجتناب کرنے پر ہے کہ نکما پن اور بے کاری انہی اسباب سے پیدا ہوتی ہے۔ تاہم تجدید و ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے اصول و مبادی کے ساتھ مکمل وابستگی لازم ہے اور اللہ کے حکم سے اسی راستے پر چل کر قوم منزل مراد پا سکتی ہے۔
اللہ کی رحمت تم پر سایہ فگن ہو، نیا سال شروع ہوتے ہی تم بھی اپنی جدو جہد کا آغاز کر دو، فتح و نصرت اور امت کی عزت کی امید اور نیک شگونی رکھتے ہوئے پوری قوت سے قدم آگے بڑھاؤ، اس لیے کہ بلند مقاصد اور منفرد مفادات کاہلی اور بے ہمتی سے حاصل نہیں ہوتے۔
عبداللہ بن زبیر کا قول ہے جو شخص اللہ کے ہاں سے کسی چیز کا طالب ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا، تاہم اپنے فعل سے اپنے قول کی تصدیق کرنا لازمی ہے اس لیے کہ قول کی قوت عمل سے ہوتی ہے۔
اللہ تمہارا نگہبان ہو، اس امر کا خیال رکھیں کہ وقت سانسوں سے عبارت ہے جو دوبارہ نہیں آئے گا، خواہ آپ اس پر نگران بٹھا دیں اور یہ جلد گزرنے والا بہت خود سر ہے جو از خود ختم ہو جاتا ہے۔ جو اس سے غافل ہوا اس کا وقت ختم ہوا، اور اس کی حسرتوں کا تب بھی ٹھکانا نہیں رہتا جب ضائع ہونے والی چیز کی حقیقت اس پر کھلتی ہے تو یہ اسے لوٹائے جانے کا مطالبہ کرتا ہے، لیکن اسے لوٹانا محال ہے انسان تو اپنی عمر کے گھوڑے پر سوار ایسے سفر پر رواں دواں ہے جو دنوں اور مہینوں کی صورت فنا ہو رہا ہے۔ وہ صبح و شام کرتا ہے اور ہر لمحہ دنیا سے دور اور موت سے قریب ہوتا جاتا ہے۔
مسلمانواللہ سے ڈرو! عقیدہ توحید، التزام سنت، جماعت سے وابستگی اور شریعت کے احکام کی پابندی کو اپنا شعار بناؤ، نوجوانوں پر توجہ دو، نئی نسلوں کو سنبھالو۔ میانہ روی اور اعتدال اختیار کرو۔ باہم رابطے کے لیے بہترین وسائل استعمال کرو اور ذرائع ابلاغ کو خدمت اسلام کے لیے بروئے کار لاؤ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ [الحج: 40]
’’اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے بے شک اللہ تو انا اور غالب ہے۔‘‘
بارك الله ولي ولكم في القرآن العظيم، ونفعني وإياكم بما فيه من الآياتِ والذكرِ الحكيم، أقول قولي هذا، وأستغفرُ الله العظيمَ الجليلَ لي ولكم ولسائر المسلمين من كل خطيئةٍ وإثمٍ؛ فاستغفِروه وتوبوا إليه، إن ربي لغفورٌ رحيمٌ.
دوسرا خطبہ
الحمد لله مُقدِّر الأزمان والآجال، ومُبدِع الكون على غير مِثال، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ذو الكمال والجلال والجمال، يعجَزُ عن وصفِه بليغُ البيان والمقال، وأشهد أن نبيَّنا وسيِّدَنا محمدًا عبدُ الله ورسولُه خيرُ من عبَدَ ربَّه في الغِنَى والإقلال، صَلَّى الله عليه صلاةً دائِمةً في الأسحار والآصَال، وعلى آله وصحبه خيرِ صحبٍ وآلٍ، والتابعين ومن تبِعَهم بإحسانٍ وصالحِ الأقوال والأعمال، وسلَّم تسليمًا كثيرًا.
اما بعد!
مسلمانان گرامی! نئے ہجری سال کا آغاز ہمیں ان دو واقعات کی یاد دلاتا ہے جنھوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا، ان دونوں واقعات میں انبیا و مرسلین اور ان کی اتباع کرنے والے مومنین کی فتح و نصرت کا ایسا مظاہرہ ہوا کہ یہ واقعات دلوں میں امید اور نیک شگونی پیدا کرتے ہیں۔ ان میں سے پہلا واقعہ یوم عاشوارا میں حضرت موسیؑ اور ان کی قوم کا فرعون کے ظلم و ستم سے نجات پانا ہے، اسی لیے حبیب مصطفیﷺ کی حدیث سے اس دن کا روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے۔ جب کہ صحیح مسلم میں مروی حضرت جابر کی حدیث میں ہے کہ جناب رسول اللہﷺ سے یوم عاشورہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: مجھے اللہ کے فضل سے امید ہے کہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔ دوسرا واقعہ ہمارے نبیﷺ کی ہجرت ہے اور یہ واقعہ اکر تم علم رکھو تو بہت بڑا واقعہ ہے، اس میں اس قدر فوائد اور نوادر ہیں کہ ان کا بیان کئی جلدوں پر محیط کتاب میں بھی ناممکن ہے۔ کوئی کس قدر بھی باہمت ہو اس کا پورا حق ادا نہیں کر سکتا۔ اس کی یاد دلوں کو معطر کرتی اور نبی مصطفیﷺ اور آپ کے اخلاق کریمہ اور شمائل مطہرہ کے ساتھ وابستگی کو دو چند کر دیتی ہے۔
ہجرت کا واقعہ انسانی تاریخ میں منفرد نوعیت کا واقعہ تھا، اسی لیے حضرت عمر فاروق نے اسے اقعات و حوادث کے فکر و بیان کے لیے اسلامی تاریخ کا نقطہ آغاز قرار دیا۔
اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! اور نیکیاں کرو تمہیں اس کا بدلہ ضرور ملے گا، اپنے اس سال کا آغاز سچے دل سے سخت محاسبے اور تمام برائیوں سے پکی توبہ کر کے کرو، نیک اعمال پر ہمیشگی کرو۔ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت والے اعمال زیادہ کرو اور اپنے اس سال کے اعمال ناموں میں وہ کچھ درج کراؤ جو تمہاری دنیا و آخرت کے لیے بہتر ہو۔
يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ [غافر: 39]
’’اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگی تو معمولی فائدے کے سوا کچھ نہیں اور یقیناً آخرت وہی رہنے کا گھر ہے۔‘‘
هذا، وصلُّوا وسلِّموا - رحمكم الله - على البشير النذير، والسراجِ المُنير، كما أمرَكم بذلك اللطيفُ الخبيرُ، فقال - سبحانه -: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا [الأحزاب: 56]، وقد قال - صلى الله عليه وسلم -: «من صلَّى عليَّ صلاةً واحدةً صلَّى الله عليه بها عشرًا».
أزكى صلاةٍ بتسليمٍ يُؤازِرُها على نبيٍّ كريمِ الأصلِ مُختارِ
محمدٍ خيرِ مبعوثٍ وعِترتِه وصحبِه خيرِ أصحابٍ وأنصارِ
اللهم ارضَ عن الخلفاء الراشدين: أبي بكرٍ، وعمر، وعثمانَ، وعليٍّ، وعن سائر الصحابةِ والتابعين، وعن الطاهرات أمهات المؤمنين، وعن التابعين ومن تبِعَهم بإحسانٍ إلى يوم الدين، وعنَّا معهم برحمتك يا أرحمَ الراحمين.
اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، وأذِلَّ الشركَ والمُشركين، ودمِّر أعداءَ الدين، واجعل هذا البلدَ آمنًا مُطمئنًّا، سخاءً رخاءً، وسائرَ بلاد المُسلمين.
اللهم آمِنَّا في أوطاننا، اللهم آمِنَّا في أوطاننا، وأصلِح أئمَّتَنا ووُلاةَ أمورنا، وأيِّد بالحق إمامَنا ووليَّ أمرنا، اللهم وفِّقه لما تحبُّ وترضى، وخُذ بناصيتِه للبرِّ والتقوى، وأسبِغ عليه لِباسَ الصحةِ والعافيةِ، وارزُقه البِطانةَ الصالحةَ التي تدُلُّه على الخير وتُعينُه عليه، اللهم وفِّقه ونائِبَه وإخوانَه وأعوانَه إلى ما فيه عِزُّ الإسلام وصلاحُ المسلمين، وإلى ما فيه الخيرُ للبلاد والعباد.
اللهم وفِّق جميعَ وُلاة المُسلمين لتحكيم شرعِك، واتباع سُنَّة نبيِّك - صلى الله عليه وسلم -، اللهم اجعَلهم نُصرةً لعبادك المُؤمنين يا حي يا قيوم، يا ذا الجلال والإكرام.
يا حي يا قيوم، يا حي يا قيوم، برحمتك نستغيثُ، فلا تكِلنا إلى أنفُسنا طرفةَ عينٍِ، وأصلِح لنا شأنَنا كلَّه.
اللهم انصُر إخوانَنا المُجاهدين في سبيلك في كل مكانٍ، اللهم انصُرهم في فلسطين، اللهم انصُرهم في فلسطين، اللهم انصُرهم في فلسطين على الصَّهايِنة المُعتدين المُحتلِّين، اللهم أنقِذ المسجدَ الأقصى، اللهم أنقِذ المسجدَ الأقصى، اللهم أنقِذ المسجدَ الأقصى من عُدوان المُعتدين يا حي يا قيوم، يا ذا الجلال والإكرام.
اللهم كُن لإخواننا في سوريا، اللهم كُن لإخواننا في سوريا، اللهم احقِن دماءَهم، اللهم احقِن دماءَهم، اللهم احقِن دماءَهم، اللهم كُن لإخواننا في بُورما وفي كل مكان يا ذا الجلال والإكرام، يا ذا الطَّولِ والإنعام.
اللهم إنا نسألُك من الخير كلِّه عاجِلِه وآجِلِه، ما علِمنا منه وما لم نعلَم، ونعوذُ بك من الشرِّ كلِّه ما علِمنا منه وما لم نعلَم.
اللهم فرِّج همَّ المهمومين من المُسلمين، ونفِّس كربَ المكروبين، وارفع الضُّرَّ عن المُتضرِّرين، والبأساءَ عن البائسين المُضطهَدين يا ذا الجلال والإكرام.
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [البقرة: 201].
اللهم أنت الله لا إله إلا أنت، أنت الغني ونحن الفقراء، أنزِل علينا الغيثَ ولا تجعلنا من القانِطين، اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا، اللهم إنا خلقٌ من خلقِك فلا تمنَع عنَّا بذنُوبِنا فضلَك.
اللهم إنا نستغفِرُك إنك كنتَ غفَّارًا، فأرسِلِ السماءَ علينا مِدرارًا.
ربَّنا تقبَّل منا إنك أنت السميعُ العليمُ، وتُب علينا إنك أنت التوَّابُ الرحيم، واغفِر لنا ولوالدينا ووالدِيهم وجميع المُسلمين والمسلمات، الأحياءِ منهم والأموات، إنك سميعٌ قريبٌ مُجيبُ الدعوات.
وآخرُ دعوانا أن الحمدُ لله ربِّ العالمين.


لنک
 
Top