• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نئے عیسوی سال کا جشن

شمولیت
اپریل 24، 2014
پیغامات
158
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
77
نئے عیسوی سال کا جشن
دسمبر کا مہینہ ختم ہونے کے قریب ہے، اس کے اختتام کے ساتھ عیسوی سال مکمل ہو جاتا ہے اور نیا سال شروع ہوتا ہے۔ ایک سال کا مکمل ہونا اور دوسرے کا آغاز اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ ہماری زندگی میں سے ایک سال کم ہو گیا اور ہم اپنی زندگی کے اختتام کے اور قریب ہوگئے، لہذا ہماری فکر اور ہماری ذمہ داری اور بڑھ جانی چاہیے اور ہمیں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور اپنے وقت کو منظم کرکے اچھے اختتام کی کوشش میں لگ جانا چاہیے۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرکے کمزوریوں کو دور کرنے اور اچھائیوں کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔​
یہ دیکھا جاتا ہے کہ عیسوی سال کے اختتام اور نئے سال کے آغازکے موقع پر ہمارے ملک کے بہت سارے مسلم اور غیر مسلم بالخصوص نوجوان خوشیاں مناتے ہیں، اور یہ خوشیاں مناتے وقت وہ جائز اور مناسب حدود سے نکل کر بہت سے ایسے کام کرتے ہیں جنہیں ایک سلیم العقل انسان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا، اور نہ ہی انسانی سماج کے لیے وہ کام کسی طرح مفید ہیں بلکہ حد درجہ مضر ہیں۔ مثال کے طور پر (۳۱) دسمبر اور یکم جنوری کے بیچ کی شب میں نئے عیسوی سال کے آغاز کی خوشی مناتے ہوئے بڑی مقدار میں پٹاخے داغے جاتے ہیں اور آتش بازی کی جاتی ہے، اس کام پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ گویاہم اپنے پیسے اور اپنی محنت کی کمائی نذر آتش کرتے ہیں، اس کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس سے فضا میں بہت زیادہ آلودگی ہوتی ہے اور لوگ آلودہ ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہوتے ہیں، جس سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں، بہت سارے دمہ وغیرہ کے مریضوں کا مرض اس فضا ئی آلودگی کی وجہ سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے، بہت سارے ضعیفوں اور بیماروں کے لیے پٹاخے کی کرخت آواز دل دہلا دینے والی ہوتی ہے اوروہ بڑی مشقتوں سے دو چار ہوتے ہیں۔​
بہت سارے نوجوان اس رات میں خوشیاں مناتے ہوئے شراب وکباب کا جم کر استعمال کرتے ہیں اور اس غلط کام پر بھی بے تحاشہ پیسہ صرف کرتے ہیں، ہم نہیں سمجھتے کہ شراب نوشی کی کسی بھی مذہب میں کوئی بھی گنجائش ہوگی، یہ انسانی عقل کو سلب کر کے آدمی کو بالکل ناکارہ بنا دیتی ہے، اور اس کے نشہ میں چور آدمی قتل وغارت گری، زنا کاری وبدکاری اور بہت ساری دوسری برائیوں کا بلا جھجھک ارتکاب کرتا ہے۔​
حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام کام اور انگریزی سال کی آمد پر ہمارے مشرقی اورمہذب ملک میں اس انداز میں جشن منانا انگریزوں کی اندھی تقلید کے سوا کچھ نہیں ہے، وہ انگریز جنہوں نے ایک عرصہ تک ہمیں سیاسی غلام بنائے رکھا، ہم پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، اور ہمارے ملک کے قیمتی خزانے لوٹ لے گئے، ان کو ملک سے بے دخل کرنے کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دیں اور مشقتیں برداشت کیں، بالآخران کو یہاں سے بھگانے میں کامیاب ہوئے۔آج ہم ان انگریزوں کی سیاسی غلامی سے تو آزاد ہیں مگر ان کی ذہنی غلامی کے بندھنوں میں بری طرح جکڑے ہیں۔ ہمارے اپنے مذہبی اور قومی سال کب شروع ہوتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں ہمیں اس کا علم تک نہیں ہوتا ،مگر انگریزو ں کے مذہبی سال کے آغازو اختتام کے بارے میں ہمیں خوب معلوم رہتا ہے، اس موقع کا بے صبری سے انتظار بھی رہتا ہے، اور اس کے لیے ہم اپنی دولت، اپناوقت اور اپنی انرجی لٹانے کے لیے بیتاب رہتے ہیں۔ کیا ہمارے ملک کی تاریخ،ہمارے ملک کی تہذیب اور ہمارے ملک میں پائے جانے والے مذاہب اس کی اجازت دیتے ہیں۔کیاہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے ملک کی آبادی کا بڑا حصہ آج بھی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہا ہے، اسے اور اس کے بال بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی آسانی سے نہیں میسر ہوتی ،لباس، مکان اور علاج وغیرہ تو دور کی بات ہے ، مگر ہم غیروں کی نقالی میں ایک ہی رات میں لاکھوں کروڑوں پھونک دیتے ہیں۔​
ہمیں ہوش کے ناخن لینا چاہیے،اور اپنے ملک ،اپنی تہذیب اور اپنے مذہب کے تئیں وفادار ہونا چاہئے، ذہنی غلامی ایک ایسامرض ہے جو قوموں اور ملکوں کے لیے ناسورکی حیثیت رکھتا ہے، کاش کہ تہذیب فرنگ کے نقال اور ترجمان اس حقیقت کو سمجھتے ۔
تحریر: اسعد اعظمی
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ
 
Top