• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نائن الیون کا ٹوپی ڈرامہ منصف مزاج کی نظر میں

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92

القاعدہ کی قیادت کی تلاش کے بہانے امریکا خطے میں اپنے ہاتھ پاؤں مسلسل پھیلا رہا ہے۔ سات سال میں افغانستان کو کھنڈر بنادینے کے بعد پاکستان کے شمالی علاقوں کی باری آئی اور اب بلوچستان کو بھی اسی بہانے ہدف بنانے کے اعلانات کیے جارہے ہیں۔ امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ القاعدہ کی اعلیٰ قیادت بلوچستان میں روپوش ہے، اس لیے اب معدنی وسائل سے مالا مال اور رقبے میں دو تہائی پاکستان کے برابر اس صوبے تک ڈرون حملوں کے سلسلے کا پھیلایا جانا ضروری ہے۔​
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ جس طاقت کے سیٹلائٹ کیمروں کی نگاہ سے زمین کا ایک مربع انچ بھی چھپا ہوا نہیں، اُسے مبینہ طور پر ہر روز ٹھکانے بدلنے والے بن لادن اور ان کے ساتھی کیوں دکھائی نہیں دیتے!؟​
دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نائن الیون کے جن حملوں کا الزام القاعدہ کی قیادت پر عائد کرنے کے بعد افغانستان پر فوج کشی کی راہ ہموار کی گئی تھی، اگرچہ ابتدا میں القاعدہ کی قیادت نے اس اِلزام کو تسلیم کرنے سے قطعی انکار کیا تھا مگر اب اس کے بعض رہنما علیٰ الاعلان نائن الیون حملوں کے بارے میں امریکا کی اس سرکاری کہانی کی مکمل توثیق کرنے لگے ہیں ، جسے خود امریکا کے سائنس دانوں اور محققین نے مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ پہلے القاعدہ کے ایک رہنما مصطفی ابو یزید عرف شیخ سعید اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں برملا امریکا کی سرکاری کہانی میں شامل ان مبینہ ۱9؍ہائی جیکروں کو اپنا ساتھی تسلیم کرتے ہوئے اس کارنامے پر ان کے لیے دعائے خیر کرچکے ہیں جسے بش حکومت نے ان سے منسوب کیا ہے۔ حالانکہ اس کہانی کے اندر اتنے داخلی تضادات ہیں اور اس کے سو فی صد جعلی ہونے کے اتنے یقینی ثبوت سامنے آچکے ہیں کہ کوئی بھی ہوش مند شخص اسے تسلیم نہیں کرسکتا۔
اس کہانی کے بارے میں خود امریکی تحقیق کاروں نے جو سوالات اُٹھائے ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں​
سب سے بنیادی سوال تو یہی ہے کہ طیاروں کے ٹکرانے سے ٹوئن ٹاورز چند سیکنڈ میں زمین بوس کیوں ہوگئے اور ان کا فولادی ڈھانچہ بتاشے کی طرح بیٹھتا کیوں چلاگیا۔ امریکی سائنس دانوں کے مطابق کنٹرولڈ ڈیمالیشن کا طریقہ اختیار کیے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا تھا جس کے لیے ان عمارتوں میں ڈائنامیٹ رکھا جانا ضروری تھااور یہ کام امریکی ایجنسیوں کی شرکت کے بغیر ہرگز نہیں ہوسکتا تھا۔
گیارہ ستمبر کو ان عمارتوں سے ایک بلاک آگے WTC7 نامی47 منزلہ عمارت بھی ٹوئن ٹاورز کی تباہی کے سات گھنٹے بعد بالکل اسی طرح محض پانچ چھ سیکنڈ میں زمین بوس ہوگئی جبکہ اس سے کوئی طیارہ نہیں ٹکرایا تھا۔ سرکاری طور پر اس واقعے کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی حتی کہ جولائی 2004ء میں 'نائن الیون کمیشن' کی جو نام نہاد تحقیقی رپورٹ آئی، اس میں اس واقعے کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ طیاروں کی ٹکر کے بغیر ہی یہ فلک شگاف عمارت کس طرح لمحوں میں زمین بوس ہوگئی اور امریکی حکومت اور مین اسٹریم میڈیا نے اسے چھپانے کی کوشش کیوں کی؟​
امریکی انتظامیہ کو تحقیقا​
گیارہ ستمبر سے عین پہلے چھ سات اور آٹھ ستمبر کو ان دونوں امریکی فضائی کمپنیوں کے شیئرز بہت بڑی تعداد میں مارکیٹ میں متعین قیمت پر فروخت کے لیے کیوں پیش کیے گئے جن کے جہاز نائن الیون حملوں میں استعمال ہوئے؟ اس کامطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ یہ امریکا کے طاقتور حلقوں کا بنایا ہوا پیشگی منصوبہ تھا ۔​
پنٹاگون کی عمارت سے 757 جیسا دیوہیکل جہاز ٹکرایا مگر اس کی عمارت کو ٹوئن ٹاورزکے مقابلے میں برائے نام نقصان پہنچا۔ اگر جہاز ٹکرانے سے ٹوئن ٹاورز زمین بوس ہوسکتے تھے تو پنٹاگون کی عمارت کو اتنا معمولی نقصان کیوں پہنچا؟​
ت کے لیے جہازوں کے فولادی ڈھانچوں میں سے تو کچھ نہیں ملا اور کہہ دیا گیا کہ بے پناہ حرارت کے سبب وہ بخارات بن کر اُڑگئے، لیکن ڈی این اے ٹسٹ کے لیے مسافروں کے گوشت کے لوتھڑے مل گئے، یہ عجوبہ آخر کیسے رونما ہوا؟​
ریکارڈ پر موجود حقائق کے مطابق افغانستان پر فضائی حملوں کے ذریعے طالبان حکومت کے خاتمے کا منصوبہ نائن الیون سے کئی مہینے پہلے بنایا جاچکا تھا۔ امریکا کی جانب سے کئی پڑوسی ملکوں کو اس کی اطلاع بھی کی جاچکی تھی۔ اس کارروائی کے لیے وسط اکتوبر کا تعین بھی کرلیا گیا تھا۔ آخر نائن الیون حادثہ کے وقوع سے پہلے ہی یہ ساری تیاری کیوں تھی؟​
ایک مشتبہ کیسٹ کے سوا جسے ماہرین جعلی قرار دے چکے ہیں،نائن الیون حملوں میں بن لادن کی شمولیت کا کوئی ثبوت اب تک کیوں پیش نہیں کیا جاسکا ہے؟​
امریکا کیسپین کے تیل کے ذخائر تک پہنچنے کے لیے طالبان حکمرانوں سے تیل اور گیس کی پائپ لانے بچھانے کی اجازت چاہتا تھا مگر وہ اس کے لیے ارجنٹائن کی ایک فرم سے معاہدے پر کام کررہے تھے۔ چنانچہ اُنہیں نائن الیون سے کئی ہفتے پہلے سونے یا بموں کی بارش میں سے کسی ایک کو قبول کرنے کی پیشکش کی گئی اور امریکی مطالبہ نہ ماننے کی پاداش میں آخرکار ان پر بموں کی بارش کردی گئی۔​
واقعاتی حقائق پر مبنی یہ سوالات بنیادی طور پر امریکا کی بریگھم ینگ یونیورسٹی کے سابق استاد پروفیسر اسٹیون جونز اور سابق نائب وزیر خزانہ پال کریگ رابرٹس کے تحقیقی کام، پروفیسر ڈیوڈ رے گریفن کی کتاب 'ڈی بنکنگ نائن الیون ڈی بنکنگ'، فرانسیسی محققوں جین چارلس بریسارڈ اور گیلوم ڈاسکی کی کتاب' دی فاربیڈن ٹرتھ'،بی بی سی، گارڈین اور دیگر عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں اور جاپانی پارلیمنٹ کی دفاع اور اُمور خارجہ کمیٹی کو اس کے ایک رکن یوکی ہی سا فوتیجا کی جانب سے دی گئی بریفنگ سے ماخوذ ہیں ۔​
ان کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ افغانستان پر فوج کشی اور قبضے کے طے شدہ منصوبے کی تکمیل کے لیے نائن الیون کا ڈرامہ خود امریکا کے طاقتور حلقوں نے رچایا تھا۔ ان حقائق کی موجودگی میں القاعدہ کی قیادت کی جانب سے نائن الیون کی ذمہ داری قبول کرنے کے اعلان سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ امریکی افواج کو زیادہ سے زیادہ بڑی تعداد میں خطے میں مصروف رکھ کر امریکی معیشت کو بالکل ہی زمیں بوس کردینے کی حکمت ِ عملی پر کاربند ہے۔​
اس حکمت ِعملی کا ایک ثبوت چند روز پہلے امریکا میں اندھا دھند فائرنگ کے ایک واقعے کی ذمہ داری بیت اللہ محسود کی جانب سے قبول کیے جانے کی شکل میں بھی سامنے آچکا ہے مگر محسود کے اس دعوے کو ماننے سے خود امریکی حکومت نے انکار کردیا۔اس واقعاتی صورت حال سے گمان ہوتا ہے کہ اگر امریکا القاعدہ کی قیادت کی تلاش کے بہانے پاک افغان خطے میں اپنے ہاتھ پائوں پھیلا رہا ہے توالقاعدہ کی قیادت بھی اسے اُلجھائے رکھنے کے لیے کوشاں ہے، کیونکہ وہ اپنے خیال میں اس طرح امریکا کی مکمل بربادی کا سامان کررہی ہے۔ گویا القاعدہ اور امریکا دونوں ایک دوسرے کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں، آخری کامیابی کسے حاصل ہوتی ہے، یہ وقت بتائے گا۔1​
پاکستانی طالبان نے امریکہ کا کام آسان کردیا !
جنوبی اور وسطی ایشیا کی اسٹرٹیجک اہمیت اور اس کے بیش بہا قدرتی وسائل کی بنا پر اس علاقے پر تسلط کے لیے مغرب کی استعماری قوتیں امریکا کی قیادت میں ساڑھے سات سال پہلے افغانستان پر حملہ آور ہوئیں۔ یہ ایک سوچی سمجھی کارروائی تھی جس کے لیے نائن الیون واقعات کا بہانہ تخلیق کیا گیا، جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں۔ چنانچہ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر نے برطانوی دارلعوام کی لائیزن کمیٹی کے ارکان سے بات چیت کرتے ہوئے خود کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ گیارہ ستمبر کو ہوا، ہمارے پاس افغانستان کے خلاف اچانک کارروائی شروع کرنے کے لیے رائے عامہ کی رضامندی حاصل کرنے کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ جبکہ اٹلی کے سابق صدر فرانسسکو کوسیگا نے30 نومبر 2007ء کواپنے ملک کے سب سے معتبر، قدیم اور کثیر الاشاعت اخبار 'کوریئر ڈیلا سیرا' کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ امریکا اور یورپ کی تمام خفیہ ایجنسیاں اچھی طرح جانتی ہیں کہ اس ہولناک کارروائی کی منصوبہ بندی امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد نے صہیونی دنیا کے تعاون سے کی تھی تاکہ عرب ملکوں پر الزام عائد کرکے مغربی طاقتوں کے لیے مسلم ملکوں کے وسائل سے استفادے کی راہ ہموار کی جاسکے۔
اس کے علاوہ پروفیسر اسٹیون جونز ، پروفیسر ڈیوڈ رے گریفن اور سابق امریکی نائب وزیر خزانہ پال کریگ رابرٹس سمیت کئی مغربی محققین نے دلائل اور ثبوت و شواہد سے اس حقیقت کو پوری طرح بے نقاب کردیا ہے کہ افغانستان پر فوج کشی کے لیے نائن الیون واقعات، بش انتظامیہ اور امریکی ایجنسیوں کا خود ساختہ خونی ڈراما تھے تاکہ افغانستان پر حملے اور قبضے کے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے لیے جواز مہیا کیا جاسکے۔​
بڑی کھینچ تان کے باوجود نائن الیون کو عراق پر حملے کا جواز نہیں بنایا جاسکا تو اس کے لیے مہلک ہتھیاروں کا بہانہ تراشا گیا جس کے سو فی صد جھوٹ ہونے کا خود امریکی حکمران بھی اعتراف کرچکے ہیں۔ تاہم افغانستان پر اس بہانے چڑھائی کرڈالی گئی تاکہ اس وقت کی افغان حکومت کو ہٹایا جاسکے جو افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں کے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر سے کھربوں ڈالر کمانے کے لیے ترکمانستان سے پاکستان تک پائپ لائن ڈالنے کا ٹھیکہ امریکی کمپنی کو دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ افغانستان پر تسلط کے ذریعے چین کی نگرانی بھی مقصود تھی جس کی حیرت انگیز اقتصادی ترقی اور تیزی سے بڑھتی فوجی طاقت نے مغرب کو سخت تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔
اس خطے پر اپنے اثرات مستحکم کرکے اکیسویں صدی کو امریکا کے عالمی غلبے کی صدی بنانے کا خواب بھی دیکھا گیا تھا۔ یہ منصوبہ' پروجیکٹ فار دی نیو امریکن سنچری' نامی تھنک ٹینک نے بش ٹولے کے لیے اس کے اقتدار میں آنے سے چند سال پہلے تیار کیا تھا،اور افغانستان پر فوج کشی اس کے عین مطابق تھی مگر طالبان کی جس مزاحمت کے چند روز میں خاتمے کی اُمیدیں لگائی گئی تھیں ، ساڑھے سات سال میں بھی وہ ختم نہیں ہوئی۔​
افغان طالبان کی حمایت میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی تحریک اٹھی جس نے افغانستان میں قابض افواج کے لیے سخت مشکل صورت حال پیدا کردی۔پاکستان پر دبائو پڑنا شروع ہوا کہ وہ اپنی سرزمین پر ایسی کوئی سرگرمی نہ ہونے دے جو افغانستان میں قابض مغربی فوجوں کے لیے مشکل کا سبب بن سکتی ہو۔ غیر مقبول فوجی آمرجنرل مشرف سے اس دبائو کا مقابلہ نہیں کرسکے اور اُنہوں نے آخرکار فاٹا میں فوجی آپریشن شروع کردیا۔ تاہم جمہوری حکومت کے قیام کے بعد پارلیمنٹ نے طے کیا کہ پاکستانی فوج اپنے ہم وطنوں سے نہیں لڑے گی اور معاملات بات چیت سے طے کیے جائیں گے۔ بالآخر یہ حکمت ِعملی سوات امن معاہدے اور اس کے تحت نظامِ عدل کے نفاذ کی شکل میں کامیابی کی منزل تک پہنچی اور یہ اِمکان روشن ہوگیا کہ خانہ جنگی میں اُلجھا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش اب اپنی موت آپ مرجائے گی۔
لیکن پاکستانی طالبان نے معاہدے کے مطابق مسلح سرگرمیاں ختم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کرکے اور تحریک ِ نفاذِ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد نے پاکستان کے آئین اور جمہوری نظام سب کو کافرانہ قرار دے کر اس سازش کو نئی زندگی بخش دی
۔
چنانچہ آج امریکا کے خلاف مزاحمت کرنے والی قوتوں اور پاک فوج کے درمیان بھرپور جنگ کی شکل میں وہی کچھ ہورہا ہے جو امریکا چاہتا تھا۔ امریکا کی اس جنگ کو آج سب ہی 'پاکستان کی جنگ' کہہ رہے ہیں جبکہ اس میں دونوں طرف سے نقصان صرف پاکستان کا ہورہا ہے ۔ فوجیوں اور جنگجووں کی ہزاروں کی تعداد میں ہلاکت کے علاوہ، لاکھوں تباہ حال شہری گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اور یہ ملک عراق اور افغانستان کی طرح عدمِ استحکام کی راہ پر چل پڑا ہے۔ اس صورتِ حال کے نتیجے میں قابض بیرونی افواج کے خلاف افغان مزاحمت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔​
صوفی محمد اور طالبان قیادت اگر سوات امن معاہدے کے بعد محتاط رویہ اپناتے تو استعماری ایجنڈے کی تکمیل کی راہ یوں ہموار نہ ہوتی۔ اس لیے شاید یہ کہنا غلط نہیں کہ پاکستانی طالبان میں گھسے ایجنٹوں نے امریکا کا کام آسان کردیا ہے !!
مدیر 'محدث' کا مختصر تبصرہ
اس مضمون کے مصنف معروف ہفت روزہ تکبیر کے مدیر شہیر جناب صلاح الدین کے دست ِراست مشہور صحافی ہیں جو اُن کی شہادت کے بعد کافی عرصہ تکبیر کو شائع کرتے رہے ہیں۔ ان کا زیر نظر تجزیہ اور مشاہدہ خصوصیت سے قابل توجہ ہے، البتہ ان کا یہ سوال کہ​
'' القاعدہ اور امریکہ؛ کون کسے استعمال کررہا ہے؟...
کا جواب بعد کے واقعات سے بخوبی مل جاتا ہے۔اگر تو امریکہ پاکستان میں جاری جنگ میں خود شریک ہوجاتا تو اس کی ہلاکت وبربادی کے کچھ امکانات ہوسکتے ہیں، لیکن جب امریکہ محض پاکستانی حکومت اورپاکستانی طالبان ہر دو کی ڈور ہلا کر، محض ڈالروں اور کامیاب سفارتی چالبازیوں کے ذریعے پاکستانی قوم کو ہلاکت کا شکار کرنے کی سازش پر عمل پیرا ہے، جس سے نظریاتی سطح پر اسلام کا بھی شدید نقصان ہورہا ہے، تو اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے واضح طور پر کہا جاسکتاہے کہ امریکہ ہی القاعدہ اور اس کے بیانات کو اپنی جارحیت اور ہمہ نوعیت کاروائیوں کے جواز کے لئے استعمال کررہا ہے، نہ کہ القاعدہ امریکہ کو !!
موصوف کا یہ کہنا کہ امریکہ اس خطے میں قدم جما کر چین کو علاقائی مسائل میں اُلجھانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بھارت کو شہ دینے اور ایٹمی معاہدوں کا مقصد بھارت سے محض کاروباری یا نظریاتی منفعت نہیں بلکہ اس کو چین کے مقابلے میں لانے کی تیاری اور ان دونوں کے مابین کشیدگی میں اضافہ کروانا مقصود ہے اور اس قابل بنانا ہے کہ وہ چین کو اُلجھانے کی صلاحیت رکھ سکے۔ اسی مقصد سے امریکہ بھارت کی پاکستان سے ٹینشن کا خاتمہ کرنا بھی چاہتا ہے، تاکہ بھارت اس امریکی مقصد کے لئے یکسو ہوسکے۔ اسی تناظر میں بھارتی حکومت کے تازہ بیان کو دیکھنا چاہئے کہ ہمیں پاکستانی طالبان سے زیادہ چین سے خطرہ ہے!
صوفی محمد کے غیرحکیمانہ بیانات پر موصوف کے تبصرہ کے سلسلے میں واضح رہنا چاہئے کہ صوفی محمد کے یہ بے لاگ تبصرے اور کا ٹ دار خیالات سے اہل پاکستان عرصہ سے آگاہ ہیں، ان کے یہ خیالات کوئی نئے نہیں۔دراصل طالبان کے خلاف لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو تیار کرکے جب امریکہ کو مزعومہ نتائج حاصل نہیں ہوئے اور پاکستانی صدر پر معاہدئہ امن کو منظور کرنے کا دباؤ مزید بڑھ گیا تو میڈیا کے عناصر کو اسی طرح مغرب کے مہرے بنا کر صوفی محمد کے ان شدت پسندانہ خیالات کو عوام میں پھیلانے اور اس کے نتیجے میں ان کی اخلاقی حمایت ختم کرنے کا مشن سونپا گیا، جیسے اس سے قبل میڈیا کے ان غدار یا بصیرت سے عاری عناصر کو کوڑوں والی ویڈیو کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ آخر یہ سازش کامیاب ہوئی اور پاکستان کے مقبولِ عام ٹی وی چینل کے پھیلائے ہوئے ایسے سوالات ہر فرد کی زبان پر آئے، جس کے نتیجے میں معاہدئہ امن اخلاقی تائید سے محروم ہوگیا۔ میڈیا کے ذریعے ہونے والی اس سازش کا پتہ اس امر سے بھی لگتا ہے کہ صوفی محمد کے متنازعہ بیانات کو تو خوب مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا گیا، لیکن دوسری طرف انہی کے آئین پاکستان کو اسلامی قراردینے یا ملک میں حکومت کی رِٹ قائم کرنے کے مثبت اور مصدقہ بیانات کو سرسری انداز میں ذیلی سطروں میں شائع کردینے پر ہی اکتفا کیا گیا۔
ہمیں انتہائی چالاک اور مکار امریکی قوم سے واسطہ درپیش ہے جو اس قدر سفاک ہے کہ اپنے مزعومہ اہداف حاصل کرنے کے لئے اپنے اہل وطن اور افتخار کی علامتوں کو بھی نیست ونابود کرنے سے نہیں گریز کرتی تاکہ اپنے دشمن پر بہیمانہ جارحیت کا اسے جواز میسر آسکے، جیسا کہ ماضی قریب میں پرل ہاربر کے مشہور واقعہ کی بھی ایسی ہی امریکی سازش ہونے کی تحقیق سامنے آچکی ہے۔
ایسے مکار دشمن کے مقابل جب تک ہماری قوم کے تمام عناصر انتہائی ذہانت اور عقلمندی وفراست کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور مل کر ایک سیسہ پلائی دیوار نہیں بنیں گے، اس کی مکاریوں کا سامنا نہیں کیا جاسکتا۔​
یہ دشمن اب ہمارے گھر میں داخل ہوچکا ہے، اس کی ایجنسیاں ہماری گلی گلی میں دندنا رہی ہیں اور اس کے طیارے ہماری سرزمین سے پرواز کرتے ہیں۔ ماضی میں اسی دشمن نے طالبان کو افغانستان میں اپنے مقاصد کے لئے پروان چڑھایا تھا، لیکن اسلام کے نام لیواؤں کی یہ قوت آخر کار اسلام کی خادم بنی اور گذشتہ صدی کے اواخر میں اس خطے سے امریکی مفادات کا خاتمہ ہوا۔ اب اُسی نام سے طالبان نے پاکستان میں ظلم وستم کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا تو اس مکار دشمن نے ردّ عمل میں اُٹھنے والی اس تحریک میں اپنے ایجنٹ داخل کرکے ایک بار طالبان اور اسلام کے نام کو بدنام کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی سازش بڑے پیمانے پر پھیلا دی۔ ہمیں درپیش سازش کا یہ منظر نامہ ہے، جس میں اب محب دین وملت حضرات کو بھی زیادہ شبہ نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کے مقتدر وذمہ دار عناصر کو ان چالاکیوں کی سمجھ بوجھ دے اور اُنہیں فراست ِایمانی سے نوازے۔​
افغان طالبان کی حمایت میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی تحریک اٹھی جس نے افغانستان میں قابض افواج کے لیے سخت مشکل صورت حال پیدا کردی۔پاکستان پر دبائو پڑنا شروع ہوا کہ وہ اپنی سرزمین پر ایسی کوئی سرگرمی نہ ہونے دے جو افغانستان میں قابض مغربی فوجوں کے لیے مشکل کا سبب بن سکتی ہو۔ غیر مقبول فوجی آمرجنرل مشرف سے اس دبائو کا مقابلہ نہیں کرسکے اور اُنہوں نے آخرکار فاٹا میں فوجی آپریشن شروع کردیا۔ تاہم جمہوری حکومت کے قیام کے بعد پارلیمنٹ نے طے کیا کہ پاکستانی فوج اپنے ہم وطنوں سے نہیں لڑے گی اور معاملات بات چیت سے طے کیے جائیں گے۔ بالآخر یہ حکمت ِعملی سوات امن معاہدے اور اس کے تحت نظامِ عدل کے نفاذ کی شکل میں کامیابی کی منزل تک پہنچی اور یہ اِمکان روشن ہوگیا کہ خانہ جنگی میں اُلجھا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش اب اپنی موت آپ مرجائے گی۔لیکن پاکستانی طالبان نے معاہدے کے مطابق مسلح سرگرمیاں ختم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کرکے اور تحریک ِ نفاذِ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد نے پاکستان کے آئین اور جمہوری نظام سب کو کافرانہ قرار دے کر اس سازش کو نئی زندگی بخش دی۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
سب سے بنیادی سوال تو یہی ہے کہ طیاروں کے ٹکرانے سے ٹوئن ٹاورز چند سیکنڈ میں زمین بوس کیوں ہوگئے اور ان کا فولادی ڈھانچہ بتاشے کی طرح بیٹھتا کیوں چلاگیا۔ امریکی سائنس دانوں کے مطابق کنٹرولڈ ڈیمالیشن کا طریقہ اختیار کیے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا تھا جس کے لیے ان عمارتوں میں ڈائنامیٹ رکھا جانا ضروری تھااور یہ کام امریکی ایجنسیوں کی شرکت کے بغیر ہرگز نہیں ہوسکتا تھا۔

۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​

گيارہ ستمبر 2001 کے حوالے سے بے شمار مفروضے انٹرنيٹ پر موجود ہيں جن ميں سے کچھ تو اتنے غير منطقی ہيں کہ ان کو کسی سنجيدہ گفتگو کا حصہ نہيں بنايا جا سکتا۔ حيران کن بات يہ ہے يہ تمام مفروضے اور قياس آرائياں ايک ايسے واقعے کے بارے ميں ہيں جو دن کی روشنی ميں دنيا کے گنجان ترين شہر ميں ہزاروں افراد کی آنکھوں کے سامنے پيش آيا۔ درجنوں نشرياتی اداروں نے اس سارے واقعے کو کيمرے کی آنکھ ميں محفوظ کيا اور جسے کروڑوں لوگوں نے دنيا بھر ميں براہراست ديکھا۔ اس واقعے ميں ہزاروں لوگوں ہلاک ہوۓ جن کا تعلق بے شمار قوموں اور مذاہب سے تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لے کر تحقيقی کميشن کے قيام تک سينکڑوں سرکاری اور غير سرکاری اداروں کے ہزاروں ماہرين اور اہلکار کسی نہ کسی حيثيت ميں اس واقعے کی تحقيق سے منسلک رہے۔ يہ کسی جادوگر کی شعبدہ بازی نہيں تھی جو چند لوگوں کے سامنے ہاتھ کی صفائ دکھاتا ہے۔


کيا ورلڈ ٹريڈ سينٹر کی عمارات کو پہلے سے نصب شدہ ڈائنامايٹ کے ذريعے زمين بوس کيا گيا؟

امريکہ کے نيشنل انسٹيوٹ آف سٹينڈر اينڈ ٹيکنالوجی نے قريب تين سالوں تک سائنسی بنيادوں پر اس بات کی تحقي‍ق کی تھی کہ ان عمارات کے گرنے ميں کيا عوامل شامل تھے۔ اس ادارے کے 200 ماہرين جن ميں 85 نيشنل انسٹيوٹ آف سٹينڈر اينڈ ٹيکنالوجی کے اپنے اور 125 ماہرين مختلف نجی اور تعليمی اداروں سے ليے گۓ۔ ان ماہرين نے ہزاروں دستاويزات کو اپنی تحقيق ميں شامل کيا۔ اس کے علاوہ ايک ہزار سے زائد لوگوں سے انٹرويو کيا گيا۔ قريب 7000 سے زائد تصاوير اور فلمی مواد کا مطالعہ کيا گيا۔ ملبے سے حاصل کردہ 236 ٹن سٹيل کو بھی اس تحقيق ميں شامل کيا گيا۔

گيارہ ستمبر 2001 کے حوالے سے بے شمار دستاويزی فلموں ميں مختلف خستہ حال اور بوسيدہ عمارات کو ڈائنامايٹ کے ذريعے دانستہ منعدم کرنے کے مناظر دکھاۓ گۓ ہيں اور ان مناظر کے ساتھ ورلڈ ٹريڈ سينٹر کی عمارات کو زمين بوس ہوتے دکھايا جاتا ہے اور يہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان دونوں ميں مماثلت يہ ثابت کرتی ہے کہ ورلڈ ٹريڈ سينٹر ميں پہلے سے ڈائاناميٹ نصب تھے۔

سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ جب عمارات کو منہدم کرنے کے ليے ڈائنامايٹ لگاۓ جاتے ہيں تو دھماکوں کا سلسلہ ہميشہ عمارت کی سب سے نچلی منزل سے شروع ہو کر بالائ منزل کی طرف جاتا ہے جبکہ ورلڈ ٹريڈ سينٹر کی عمارات اوپر سے نيچے کی جانب منعدم ہوئيں۔

" ڈائنامايٹ تھيوری" کے حوالے سے سب سے اہم نقطہ جو ہميشہ نظر انداز کيا جاتا ہے وہ يہ ہے کہ دونوں عمارات کی توڑ پھوڑ اور گرنے کا عمل کہاں سے شروع ہوا؟

ورلڈ ٹريڈ سينٹر کی پہلی عمارت (ڈبليو – ٹی – سی 1) کی 98 ويں منزل پر جہاز ٹکرايا تھا۔ اسی طرح دوسری عمارت (ڈبليو – ٹی – سی 2) کی 82 ويں منزل پر جہاز سے حملہ کيا گيا تھا۔ اگر آپ دونوں عمارات کے گرنے سے کچھ دير پہلے کے مناظر دوبارہ ديکھيں تو يہ واضح ہے کہ دونوں عمارات کی ٹوٹ پھوٹ اور گرنے کا عمل عين انھی منازل سے شروع ہوا جہاں پر جہاز ٹکراۓ تھے


اگر ان عمارات کو ڈائنامايٹ کی مدد سے گرايا گيا تھا تو ايسا صرف دو صورتوں ميں ممکن ہے۔

1۔ (ڈبليو – ٹی – سی 1) کی 98 ويں منزل اور (ڈبليو – ٹی – سی 2) کی 82 ويں منزل پرجہازوں کے ٹکرانے سے پہلے ہی وہاں ڈائنامايٹ نصب تھے۔

يہ مفروضہ اس ليے ناکام ہو جاتا ہے کہ ايسی صورت ميں 98 ويں اور 82 ويں منازل ميں نصب ڈائنامايٹ جہازوں کے ٹکراتے ہی تباہ ہو جاتے اور عمارات کے گرنے کا عمل فوری شروع ہو جاتا۔ ليکن ايسا نہيں ہوا بلکہ حقيقت يہ ہے کہ پہلی عمارت 102 منٹ اور دوسری عمارت 56 منٹ کے بعد منعدم ہونا شروع ہوئ۔

2۔ دوسری صورت يہ ہے کہ دونوں عمارات ميں جہازوں کے ٹکرانے کے بعد ڈائنامايٹ لگاۓ گۓ۔ مگر يہ ناممکن ہے کيونکہ جہازوں کے ٹکرانے کے بعد 98 ويں اور 82 ويں منازل پر درجہ حرارت 2000 سينٹی گريٹ سے زيادہ ہو چکا تھا اس ليے وہاں تک رسائ ناممکن تھی۔ اس کے علاوہ 56 منٹ اور 102 منٹ کے عرصے ميں ڈائنامايٹ نصب کرنے جيسا پيچيدہ عمل ممکن نہيں ہے۔

سوال يہ ہے کہ اگر ان عمارات کو ڈائنامايٹ سے گرايا گيا تو پھر ان کے گرنے کا عمل عين اس مقام سے کيوں شروع ہوا جہاں جہاز ٹکراۓ تھے ؟

ورلڈ ٹريڈ سينٹر کو دنيا کے سب سے مصروف ترين کاروباری مرکز کی حيثيت حاصل تھی جس ميں سينکڑوں کی تعداد ميں کمپنيوں کے دفاتر تھے۔ کسی بھی عمارت کو ڈائنامايٹ سے تباہ کرنے کے ليے ضروری ہوتا ہے کہ اس عمارت کی ديواروں کے اندر ڈائناميٹس کا ايک نيٹ ورک بچھايا جاۓ۔ اس مقصد کے ليے عمارت ميں موجود پلمبنگ، مواصلات اور برقی نظام بند کرنا پڑتا ہے۔ اتنے بڑے پيمانے پر سارے سسٹم کو لوگوں کی نظروں ميں لاۓ بغير معطل کرنا ناممکن ہے۔

" ڈائنامايٹ تھيوری" کے ثبوت کے طور پر ايک اور دليل يہ جاتی ہے کہ دونوں عمارات کے گرنے کے دوران مختلف کھڑکيوں سے سفيد دھواں نکلتے صاف ديکھا جا سکتا ہے جس سے ان عمارات میں دھماکہ خيز مواد کی موجودگی ثابت ہوتی ہے۔

اس سوال کا مفصل جواب پروٹيک نامی ايک ادارے نے اپنی رپورٹ ميں ديا تھا۔ کمزور اور غير مستحکم عمارات کو ڈائنامايٹ سے منعدم کرنے کی فيلڈ ميں پروٹيک دنيا کا سب سے بڑا اور قابل اعتماد ادارہ ہے۔ اس ادارے کے ماہرين اور ان کی تکنيکی معلومات کا ذخيرہ سند کا درجہ رکھتے ہيں۔ اس ادارے کے ماہرين 30 سے زيادہ ممالک ميں 1000 سے زائد عمارات کو منعدم کرنے کا وسيع تجربہ رکھتے ہيں۔ اس فيلڈ کے حوالے سے سارے ورلڈ ريکارڈ اسی ادارے کے پاس ہيں۔ صرف يہی نہیں بلکہ پروٹيک کے ماہرين 20 سے زائد امريکی کمپنيوں کو تکنيکی معلومات اور دستاويز بھی فراہم کرتے ہيں۔

پروٹيک کے ماہرين کے مطابق کسی بھی ايسی عمارت کے اندر جس ميں انسان مکين ہوں 70 فيصد ہوا اور 30 فيصد ديگر مواد ہوتا ہے جس ميں فرنيچر، اسٹيل، پلاسٹک اور پائپ وغيرہ شامل ہيں۔ عمارت کے گرنے کے عمل کے دوران اس 70 فيصد ہوا کے اخراج کے ليے دباؤ شدت اختيار کر جاتا ہے۔ کشش ثقل کی قوت کے باعث جب عمارت کا حجم نيچے کی جانب سفر کرتا ہے تو ہوا اپنے اخراج کے ليے ان مقامات پر دباؤ بڑھاتی ہے جہاں کم سے کم مزاحمت ہو جيسے کہ کھڑکياں، دروازے اور ان ميں لگا ہوا شيشہ۔ ہوا کے اخراج کے اس عمل ميں لکڑی، سٹيل اور پلاسٹک پر مشتمل بے شمار مواد بھی شامل تھا جو ان دفاتر میں موجود تھا۔

"ڈائنامايٹ تھيوری" کی نفی کے ليے سب سے بڑا ثبوت خود پروٹيک نے فراہم کيا اور اس کی تصديق کولمبيا يونيورسٹی کے زمينی مشاہدات کے ادارے ايمونٹ ڈورتھی نے کی۔

گيارہ ستمبر 2001 کو ان دونوں اداروں کے مرکزی دفاتر ميں زمين کا ارتعاش محسوس کرنے اور اس سے متعلقہ اعداد وشمار کو ريکارڈ کرنے کی غرض سے کئ مشينيں کام کر رہی تھيں۔ پورٹيک کے بہت سے ماہرين اس دن نيويارک ميں زير تعمير کچھ عمارتوں کے حوالے سے زمين کے ارتعاش کے ليے اعدادوشمار اکٹھے کر رہے تھے۔ انشورنس کے پيش نظر اس قسم کی کاروائ معمول کا حصہ ہے۔

مختلف اداروں کے زير اثر ان تمام ماہرين نے زمين کے ارتعاش کے حوالے سے جو اعدادوشمار اکٹھے کيے وہ يکساں تھے

اس گراف ميں آپ صاف ديکھ سکتے ہيں کہ جہازوں کے عمارات سے ٹکرانے اور ان عمارات کے منہدم ہونے کے عمل ميں کہيں بھی ڈائنامايٹ کے استعمال کے شوائد نہيں ملتے۔ ڈائنامايٹ کے استعمال کی صورت ميں اس گراف پر بغير کسی وقفے کے عمودی لکيريں موجود ہوتیں۔ اس کی ايک مثال کرکٹ کے کھيل ميں سنکو ميٹر کے استعمال کے دوران آپ ديکھتے ہيں۔ بيٹ کے گيند سے ٹکرانے کی صورت ميں ايسی ہی عمودی لکيريں ديکھنے کو ملتی ہيں۔ ياد رہے کہ يہ اعداد وشمار مختلف اداروں کے ماہرين نے اپنی مشينوں پر حاصل کيے تھے اور ان سب کے نتائج يکساں تھے۔

يہ ايک ايسا ناقابل ترديد ثبوت ہے جس کے بعد يہ دعوی کرنا غير منطقی اور حقيقت کے منافی ہے کہ ان عمارات کو منعدم کرنے کے ليے ڈائنامايٹ کا استعمال کيا گيا۔

کچھ عرصہ قبل، مشہور زمانہ پرڈو يونيورسٹی ميں ايک ريسرچ ٹيم نے اسی پراجيکٹ پر کام کيا تھا کہ ہوائ جہاز کے ٹکرانے کے نتيجے ميں ورلڈ ٹريڈ سينٹر کی عمارات کيسے منہدم ہوئيں۔ اس ريسرچ ٹيم نے اس سارے منظر کو کمپيوٹر کے ذريعے واضح کيا ہے۔ اس ويڈيو کا ويب لنک پيش ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
گیارہ ستمبر کو ان عمارتوں سے ایک بلاک آگے WTC7 نامی47 منزلہ عمارت بھی ٹوئن ٹاورز کی تباہی کے سات گھنٹے بعد بالکل اسی طرح محض پانچ چھ سیکنڈ میں زمین بوس ہوگئی جبکہ اس سے کوئی طیارہ نہیں ٹکرایا تھا۔

۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


بلڈنگ نمبر 7 کا معمہ

بظاہر يہ دليل بڑی مضبوط محسوس ہوتی ہے کہ 11 ستمبر 2001 کو بلڈنگ نمبر 7 کيسے منعدم ہوئ جبکہ دونوں ہوائ جہاز ڈبليو – ٹی – سی 1 اور ڈبليو – ٹی – سی 2 سے ٹکراۓ تھے۔ ليکن جب آپ اس حوالے سے تحقيقی رپورٹ، تصاوير اور ديگر سائنسی مواد کا مطالعہ کريں تو حقيقت واضح ہو جاتی ہے۔

بلڈنگ نمبر 7 کی 47 منزليں تھيں۔ 11 ستمبر 2001 کی شام 5:20 منٹ پر يہ عمارت بہت سے ماہرين اور اہلکاروں کی موجودگی ميں زمين بوس ہوئ۔

اس عمارت کے مالک ليری اسٹفين نے 2002 ميں ايک ٹی – وی دستاويزی فلم "امريکہ ری بلڈز" کے دوران يہ بيان ديا تھا۔

" مجھے فائر ڈيپارٹمنٹ کے چيف کی جانب سے فون موصول ہوا جس ميں مجھے بتايا گيا کہ بلڈنگ ميں آگ پر قابو پانا ممکن نہيں رہا۔ اس وقت تک ديگر دو عمارات ميں ہونے والے بے پناہ جانی نقصان کے پيش نظر ميں نے فيصلہ کيا کہ کوئ خطرہ مول لينا مناسب نہيں ہے لہذا ميں نے فوری طور پر فائر برگيڈ کے عملے کو اس عمارت خالی کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد ہماری آنکھوں کے سامنے ڈبليو – ٹی –سی 7 کی غمارت منعدم ہو گئ۔"

نو (9) ستمبر 2005 کو سلورسٹائين پراپرٹيز کے ترجمان ڈارا ميکولئين نے يہ بيان جاری کيا

" گيارہ ستمبر 2001 کو بلڈنگ نمبر 7 شام 5:20 منٹ مسلسل 7 گھنٹے تک آگ میں جلنے کے بعد منعدم ہو گئ۔ فائر ڈيپارٹمنٹ اور سلورسٹائين پراپرٹيز کے بروقت اقدامات کی وجہ سے کوئ جانی نقصان نہيں ہوا۔ فيڈرل ايمرجنسی مينجمنٹ ايجنسی (فيما) نے تينوں عمارتوں کے منعدم ہونے کے عوامل کی جامع تحقيق کی۔ فيما کی رپورٹ نے واضح الفاظ ميں اس حقيقت کو واضح کيا کہ ڈبليو – ٹی –سی 7 بلڈنگ کی کمزوری کی وجہ ڈبليو – ٹی –سی 1 کی عمارت کے ملبے کے گرنے کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی آگ تھی"۔​

يہ کہنا کہ بلڈنگ نمبر 7 سے کوئ جہاز نہيں ٹکرايا، يہ تاثر ديتا ہے کہ يہ بلڈنگ کسی بھی قسم کی تھوڑ پھوڑ سے محفوظ رہی۔ حالانکہ يہ حقيقت کے منافی ہے۔ تصويروں اور ويڈيوز سے صاف ظاہر ہے کہ ڈبليو – ٹی –سی 1 کے گرنے کے دوران عمارت کا بالائ حصہ ڈبليو- ٹی – سی 6 اور 7 پر براہراست اثرانداز ہوا۔ يہ کوئ معمولی ملبہ نہيں تھا بلکہ اس ميں ہزاروں ٹن وزنی سلنڈر بھی شامل تھے جو کئ سو فٹ کی بلندی سے بلڈنگ نمبر 7 پر گرے۔ جس کا براہراست اثر اس عمارت کی 18ويں سے 20 منازل پر ہوا۔

يہاں يہ بات بھی واضح کر دوں کہ بلڈنگ نمبر 7 کی سب سے نچلی منزل ميں ڈيزل کے بہت بڑے ذخائر موجود تھے جن ميں فوری آگ لگ گئ۔ بلڈنگ کی سب سے نچلی سطح پر لگنے والی اس آگ کو بلڈنگ کے چاروں اطراف ميں مختلف تصاوير اور ويڈيوز ميں ديکھا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس وقت مقامی فائر برگيڈ کا سارا عملہ باقی دو عمارات پر توجہ مرکوز کيے ہوۓ تھے اس ليے اس آگ کو بروقت کنٹرول نہ کيا جا سکا۔ جس کے نتيجے ميں 7 گھنٹے تک اس عمارت کی بنيادوں پر آگ لگی رہی۔

ڈبليو – ٹی –سی 1 کا ملبہ اس عمارت پر کس طرح اثرانداز ہوا اس کا ايک ثبوت يہ تصوير ہے۔


http://files.abovetopsecret.com/files/img/pf51bb3e05.jpg


ڈبليو – ٹی –سی 7 کے منعدم ہونے کے عوامل کے حوالے سے نيشنل انسٹيٹوٹ آف سٹينڈر اور ٹيکنالوجی نے ايک مفصل رپورٹ شائع کی جو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔ اس رپورٹ ميں متعدد تصاوير، کمپيوٹر گرافکس اور اعداد وشمار کے ذريعے ڈبليو – ٹی –سی 7 کے بارے ميں بے شمار قياس آرائيوں اور مفروضوں کا جواب ديا گيا ہے۔ اس رپورٹ کے صفحہ 6 پر يہ واضح الفاظ ميں لکھا ہے کہ

"اس بات کا کوئ ثبوت موجود نہيں ہے کہ ڈبليو – ٹی –سی 7 کو بم، ميزائل يا پہلے سے نصب شدہ ڈائناميٹ کے ذريعے منعدم کيا گيا"۔

http://wtc.nist.gov/pubs/WTC Part IIC - WTC 7 Collapse Final.pdf

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74

امریکا کیسپین کے تیل کے ذخائر تک پہنچنے کے لیے طالبان حکمرانوں سے تیل اور گیس کی پائپ لانے بچھانے کی اجازت چاہتا تھا۔​


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں طالبان اور يونوکال نامی امريکی آئل کمپنی کے درميانے ممکنہ معاہدے کو بنياد بنا کر بہت سی سازشی کہانياں تخليق کی گئ ہيں۔ ايسے بہت سے دوست ہيں جو يہ دعوی کرتے ہیں 911 کا حادثہ کسی طرح اسی واقعے سے منسلک ہے۔ يہ دعوی بھی کيا گيا ہے کہ انٹرنيٹ سے ايسی تمام تصاوير ہٹانے کی کوشش کی گئ ہے جن ميں امريکی عہديداروں کو طالبان کے ساتھ ملاقات کرتے دکھايا گيا ہے۔

اس ضمن ميں کچھ حقائق کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔

دسمبر 7 1997 کو طالبان کے کچھ افسران نے امريکہ ميں يونوکال کے توسط سے ساؤتھ ايشيا کے ليے امريکی اسسٹنٹ سيکرٹری آف اسٹيٹ کارل انٹرفوتھ سے واشنگٹن ميں ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے دوران طالبان کی جانب سے امريکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش اور افغانستان ميں پوست کے متبادل کاشت کاری کے منصوبوں کی ضرورت پر زور ديا گيا۔ انٹرفوتھ کی جانب سے اس ضمن ميں ہر ممکن تعاون کی يقين دہانی کروائ گئ اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے حقوق نسواں اور دہشت گردی کے حوالے سے ان کی پاليسی کے بارے ميں وضاحت بھی مانگی گئ۔ اس کے جواب ميں طالبان کا يہ موقف تھا کہ حقوق نسواں کے حوالے سے ان کی پاليسی افغان کلچر کے عين مطابق ہے اس کے علاوہ انھوں نے اس عزم کا بھی اظہار کيا کہ افغانستان کی سرزمين کو دہشت گردی کی کاروائيوں کے ليے استعمال کرنے کی اجازت نہيں دی جاۓ گی۔

اگرچہ طالبان کا يہ موقف تھا کہ اسامہ بن لادن ان کی دعوت پر افغانستان نہيں آۓ ليکن انھوں نے دعوی کيا کہ ان کے پبلک انٹرويوز پر پابندی کے سبب ايران اور عراق ميں بے چينی پائ جاتی ہے کيونکہ وہ ان سے رابطے کی کوشش ميں ہیں۔

آپ اس ملاقات کی مکمل تفصيل اس سرکاری دستاويز ميں پڑھ سکتے ہيں۔

http://nsarchive.gwu.edu/NSAEBB/NSAEBB97/tal24.pdf

اس دستاويز سے يہ واضح ہے کہ طالبان کی جانب سے امريکی افسران کو يہ يقين دہانی کروائ گئ تھی کہ اسامہ بن لادن طالبان کے زير حکومت افغانستان کی سرزمين کو دہشت گردی کے ليے استعمال نہيں کر سکيں گے۔ ہم سب جانتے ہيں کہ طالبان کے اس وعدے کا کيا انجام ہوا۔

يہاں يہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اس معاہدے کے لیے طالبان اصرار کر رہے تھے ليکن امريکی افسران نے دو مواقع پر ان پر يہ واضح کيا تھا کہ اس معاہدے کی کاميابی کا دارومدار ان کی جانب سے خطے ميں امن وامان، سيکورٹی اور انسانی حقوق کی پاسداری کی يقين دہانی سے مشروط ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
افغان طالبان کی حمایت میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی تحریک اٹھی جس نے افغانستان میں قابض افواج کے لیے سخت مشکل صورت حال پیدا کردی۔۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ نا تو افغانستان ميں علاقوں پر قابض ہے اور نا ہی ہمارا ايسا کوئ ارادہ ہے کہ غير معينہ مدت کے ليے اپنی افواج کو وہاں پر رکھيں۔ اس وقت افغانستان ميں ہماری موجودگی افغان زير قيادت حکومت کے ايما پر ہے اور اس کا اولين مقصد قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں کو وسائل کی فراہمی اور ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے ساتھ ضروری تربيت تک رسائ بھی دينا ہے تا کہ مقامی شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنايا جا سکے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے متفقہ مينڈيٹ اور سرکردہ مسلم ممالک کی جانب سے ہر قسم کی مدد اور تعاون اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ افغانستان ميں ہماری موجودگی اور غير قانونی تسلط قرار نہيں ديا جا سکتا ہے۔

علاوہ ازيں افغانستان ميں امريکی حکومت کی امداد اور تعاون سے جاری ترقياتی منصوبوں پر ايک نظر ڈاليں۔

https://www.usaid.gov/afghanistan

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ يہ تمام منصوبے اور ہمارے ٹيکس دہندگان کی جانب سے دی گئ امداد جو ہم نے افغانستان ميں صرف کی ہے اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ہم عسکری قوت اور فوج کشی کے ذريعے اس ملک پر قبضہ کرنے کے سعی کر رہے ہيں؟

يہ استدلال کہ خطے سے ہماری افواج کے نکلنے کے بعد طالبان کی خون ريز کاروائياں اپنے آپ رک جائيں گی، خاصا کمزور اور تضادات پر مبنی ہے کيونکہ طالبان توانتقام کے نام پر انھی عام افغان شہريوں کو نشانہ بنا رہے ہيں جو ان کے مطابق "قابض"غير ملکی فوج کی ناانصافی کا شکار ہيں۔

اس دليل ميں منطق اور دانش مندی کا کوئ پہلو بھی ہے؟

کوئ بھی شخص جسے اب بھی ان خود ساختہ "مجاہدين اسلام" کی نيت اور ارادوں کے حوالے سے کسی بھی قسم کا شک يا ابہام ہے اسے ان افغان فوجيوں کی بابت سوچنا چاہيے جو طالبان کے ان حملوں کے زد ميں آ رہے ہيں اور جو نا صرف يہ کہ اپنے وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہيں اور افغانستان کے معصوم لوگوں کی جان بچانے کی سوچ رکھتے تھے۔

اس بارے میں اب کوئ شک نہيں ہونا چاہيے کہ يہ مجرم افغانستان کے حلفيہ دشمن ہيں۔ ان لوگوں نے اپنے الفاظ اور اعمال سے بارہا اس حقيقت کو واضح کيا ہے۔

طالبان کے ترجمانوں کی جانب سے دہشت گردی پر مبنی واقعات کی ذمہ داری قبول کر لينے اور واضح شواہد کے باوجود فورمز پر اب بھی کئ راۓ دہندگان بے ساختہ دہشت گردی کی اس مہم کے ليے امريکہ پر لگانے ميں دير نہيں لگاتے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
غیر مقبول فوجی آمرجنرل مشرف سے اس دبائو کا مقابلہ نہیں کرسکے اور اُنہوں نے آخرکار فاٹا میں فوجی آپریشن شروع کردیا۔ ۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں نہيں جانتا کہ آپ نے فاٹا کے حوالے سے جس راۓ کا اظہار کيا ہے وہ سنی سنائ باتوں کی بنياد پر ہے يا ايک عمومی تاثر کی بنياد پر۔ ليکن يہ واضح ہے کہ زمينی حقائق اور شواہد کی سازشی اور بے سروپا کہانيوں ميں کوئ خاص وقعت اور اہميت نہيں ہوتی۔

امريکہ پر فاٹا کو غير مستحکم کرنے کے حوالے سے آپ جو الزام لگا رہے ہيں اس ضمن ميں کچھ حقائق پيش ہيں۔

اس وقت امريکہ فاٹا کے علاقے ميں انسانی ہمدردی کی بنياد پر امداد فراہم کرنے والے ممالک ميں سرفہرست ہے اور اس نے بنيادی ڈھانچہ، صحت عامہ، تعليم، روزگار کے مواقع پيدا کرنے اور ديگر منصوبوں کے لیے پانچ برسوں کے دوران 57۔63 بلين روپے (750 ملين ڈالرز) فراہم کرنے کے معاہدے کيے ہيں۔ امريکہ وفاق کے زير انتظام قبائلی علاقوں میں سرحدی سلامتی، سويلين قانون کے نفاذ اور انسداد منشيات کے منصوبوں کے لیے تربيت، ضروری سازوسامان اور بنيادی ڈھانچہ بھی فراہم کر رہا ہے۔

اس کے علاوہ امريکہ جنوبی وزيرستان ميں بنيادی ڈھانچہ کی تعمير کے ليے 31 دسمبر 2009 کے يو ايس ايڈ پر عمل درآمد کے مراسلے کے ذريعہ کيے گۓ وعدہ کے تحت فاٹا سيکريٹريٹ کے توسط سے ٹانک تا مکين کی اہم سڑک کی تعمير کے لیے مالی امداد بھی فراہم کر رہا ہے۔ يہ سڑک وفاق کے زير انتظام قبائلی علاقوں کی عوام کی ترقياتی سرگرميوں اور تجارت کے لیے رابطہ کا کام دے گی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 
Top