• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ناشکری کے اسباب اور اس کی عبرتناک سزائیں

شمولیت
جون 25، 2014
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
59
  • ناشکری کے اسباب اور اس کی عبرت ناک سزائیں
    ابوالبیان رفعت ؔسل
  • شکر گزاری اور نا شکری دونوں ایک دوسرے کے اپوزٹ ہیں ، اگر شکر گزاری اللہ کی نعمتوں کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے تو ناشکری اللہ کے غضب اور اس کے دردناک عذاب کو واجب کرنے والی ہے ۔اللہ کا فرمان ہے:
    • {لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ}
      ’’ اگر تم شکر گزاری کروگے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘
      [ ابراہیم: ۷]
      اللہ کے بندوں میں سے شکر گزاربندو ں کی تعداد ہر زمانے میں بہت کم رہی ہے ۔اللہ کا فرمان ہے:
      { وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ}
      ’’میرے بندوں میں شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں‘‘
      [سورۃ سبا:۱۳]
      ناشکری کے چند اسباب :
      ۱۔ اپنے سے مالداروں کی طرف دیکھنا: جب انسان دنیادی نعمتوں سے متعلق اپنے سے آسودہ حال اور مالداروں کو دیکھتا ہے تو ناشکرا بن جاتا ہے اور جب اپنے سے غریبوں اور بد حال و مفلس لوگوں کو دیکھتا ہے تو اللہ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے۔
      عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَي مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي المَالِ وَالخَلْقِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَي مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ‘‘
      ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال اور شکل و صورت میں اس سے بڑھ کر ہو تو اسے چاہئے کہ ایسے شخص کی طرف دیکھ لے جو مال اور شکل و صورت میں اس سے کم درجے کا ہے‘‘
      [ صحیح بخاری:۶۴۹۰]
      ۲۔ صرف دنیا کو مقصد زندگی سمجھ لینا : جو لوگ فکر آخرت سے بالکل غافل ہوکر دنیا کی لذتوں اور رنگینیوں میں گم ہو جاتے ہیں ایسے لوگ بھی بڑے ناشکرے ہوتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافروں کے بارے میں فرماتا ہے:
      {وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًي لَهُمْ }
      ’’اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا فائدہ اٹھاتے اور کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں ان کا (اصل) ٹھکانہ جہنم ہے‘‘
      [ محمد : ۱۲]
      مذکورہ آیت کریمہ کی شرح کرتے ہوئے علامہ سمرقندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’کا فر دنیا کی زندگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں دنیا کی جو نعمتیں ملی ہیں انہی میں زندگی گزارتے ہیں اور چوپایوں کی طرح کھاتے ہیں کھانے پینے اور جماع کرنے کے سوا ان کی زندگی کا کوئی بھی مقصد نہیں ہوتا ، اور جہنم ہی ان کا ٹھکانہ ہے‘‘ [بحر العلوم للسمرقندی ]
      ۳۔ نعمتوں پر اترانا : جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ نعمتیں مجھے ملی ہیں سب میری کوششوں کا نتیجہ ہیں اس میں اللہ کا کوئی احسان نہیں ایسے لوگ کبھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے ایسے لوگ قارون صفت ہیں جس قارون کو اللہ نے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسادیا ۔
      ۴۔بخیلی اوکنجوسی کرنا : بخیلی اور کنجوسی بھی ناشکری کا ایک اہم سبب ہے کیونکہ بخیل اور کنجوس لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے تو وہ بہت جلد ختم ہوجائے گا پھر واپس نہیں ملے گا اس لئے بخیل اور کنجوس لوگ ہمیشہ اللہ کی ناشکری کرتے ہیں،اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بخیلی اور فضول خرچی دونوں سے منع فرمایا ہے ۔فرمان الٰہی ہے :
      {وَالَّذِینَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَامًا}
      ’’ اور جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیںنہ بخیلی بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں‘‘
      [الفرقان : ۶۷]
      ۵۔شیطان اور نفس کی پیروی کرنا: نفس اور شیطان کی پیروی بھی انسان کو نا شکری پر ابھارتی ہے کیونکہ نفس بہت حریص ہوتا ہے اور شیطان اللہ کا سب سے بڑا ناشکرا ہے اور اس کا مقصد انسانوں کو رب کا ناشکرا بنانا ہی ہے ،نفس کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے :
      {وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}
      ’’جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیاتو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں ‘‘
      [الحشر :۹]
      شیاطین کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے :
      {وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا۔إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا}
      ’’اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی نا شکرا ہے‘‘
      [بنی اسرائیل :۲۷،۲۶]
      ناشکری کی عبرت ناک سزائیں :
      ۱۔ بھکمری کا عذاب : ۲۔ خوف کا عذاب :
      اللہ کا فرمان ہے :
      {وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللّٰهِ فَأَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ}
      ’’اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن و اطمینان کے ساتھ تھی ، اس کی روزی اس کے پاس بآسانی فراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی ،پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزا چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا‘‘
      [سورۃ النحل : ۱۱۲]
      حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : آیت کریمہ میں قریہ سے مراد مکہ والے ہیں جو بہت چین اور اطمینان کی زندگی گزار رہے تھے ، آس پاس کے علاقوں میں لڑائیاں ہوتیںلیکن مکہ کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ سکتا تھا جو یہاں آجاتا امن و امان میں آجاتا ۔
      لیکن پھر بھی یہ اللہ کی نعمتوں کے منکر ہی رہے جن میں سب سے بڑی نعمت محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت و نبوت تھی ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس سرکشی کی سزا میں دونوں نعمتیں زحمتوںسے بدل دیں امن کو خوف سے بدل دیا اور اطمینان کو بھوک اور گھبراہٹ سے۔
      قارئین کرام ! یہ جو برا انجام اہل مکہ کو نبی ﷺ کا انکار اور ان کی نافرمانی کی وجہ سے جھیلنا پڑا ’’کہ ان کا امن خوف میں اور اطمینان بھوکمری اور گھبراہٹ میں اللہ نے بدل دیا ‘‘یہ صرف اہل مکہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اللہ کا یہ اصول قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لئے ہے ،آج بھی اگر کوئی شخص امن و اطمینان کی زندگی میں رہ کر کھلم کھلم رسول اکرم ﷺ کی نافرمانی اور آپ ﷺ کی شان اقدس میںگستاخی کرتا ہے تو اسے بھی ڈرنا چاہئے کہ کہیں اللہ اس کے امن کو خوف اور اطمینان کو بھوکمری اور گھبراہٹ میں تبدیل نہ کردے ۔
      ۳۔ سخت ترین عذاب : اللہ کا فرمان ہے:
      {لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ }
      ’’اگر تم شکر گزاری کروگے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے ‘‘
      [ابراہیم: ۷]
      اسی طرح اللہ کا فرمان ہے :
      {مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِيمًا}
      ’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیاکرے گا اگر تم شکر گزاری کرتے رہو اور صاحب ایمان رہو اللہ تعالیٰ بہت قدر کرنے والا اور پورا علم رکھنے والا ہے ‘‘
      [ النساء : ۱۴۷]
      مذکورہ آیت کریمہ میں اگر چہ منافقین سے خطاب ہے کہ اگر منافقین بھی نفاق سے باز آکر مومن اور شکر گزار بندے بن جائیں تو اللہ انہیں بھی معاف کردے گا۔لیکن آیت کریمہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لئے ہے جو لوگ بھی ایمان اور شکر گزاری کی زندگی گزاریں گے وہ ہمیشہ اللہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے ۔
      حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : شکر گزاری کا مطلب ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق برائیوںسے اجتناب اور عمل صالح کا اہتمام کرنایہ گویااللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ہے ،اور ایمان سے مراد اللہ کی توحید ربوبیت پر اور نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی رسالت پر ایمان ہے ۔[تفسیر احسن البیان :۲۶۸]
      ۴۔نعمتوں سے محرومی : اس سے متعلق صرف دو واقعہ پیش خدمت ہے ایک صحیح بخاری کا دوسرا باغ والوں کا واقعہ جو سورہ قلم میں موجود ہے ۔
      کوڑھی، اندھے اور گنجے کا نصیحت آموز واقعہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا :’’ کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ،ایک کوڑھی ، دوسرا اندھا ، تیسرا گنجا ، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان تینوں کا امتحان لے چنانچہ ان تینوں کے پاس ایک فرشتہ بھیجا،فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تمہیں سب سے زیادہ کون سی چیز پسند ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں ۔نبی ﷺ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیراتو اس کی بیماری دور ہوگئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہوگیا اور چمڑی بھی اچھی ہوگئی۔فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم پسند کرتے ہو؟اس نے جواب میں اونٹ یا گائے کہا اسحاق بن عبد اللہ کو اس میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ یا گائے کی خواہش ظاہر کی اور دوسرے نے گائے کی ، چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی ،اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا۔پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تمہیں کیا چیز پسند ہے ؟اس نے کہا کہ عمدہ بال ، اور موجودہ عیب میرا ختم ہوجائے ۔کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سرپر ہاتھ پھیرااور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے سر میں عمدہ بال آگئے ۔فرشتے نے کہاتمہیں سب سے زیادہ کون سا مال پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ گائے ، نبی ﷺ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے دے دی ، اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا ۔ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا کہ تمہیں کیا چیزپسند ہے ؟اس نے کہا اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی بینائی عطا فرمادے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں ، نبی ﷺ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اس کی ( آنکھوں) پر ہاتھ پھیرااور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس لوٹا دی ،پھر پوچھا تمہیں سب سے زیادہ کس طرح کا مال پسند ہے ، اس نے کہا کہ بکریاں فرشتے نے اسے ایک حاملہ بکری دے دی ، پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی ، گائے بیل سے گنجے کی وادی بھر گئی ، اور بکریوں سے اندھے کی وادی بھر گئی ۔
      پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین اور فقیر آدمی ہوں میرے سفر کے تمام سامان اور اسباب ختم ہو چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں ، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر ، جس نے تمہیں اچھا رنگ ، اچھا چمڑا اور اچھا مال عطا کیا ہے ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر پورا کرسکوں ، اس نے فرشتے سے کہا میرے ذمہ اور بہت سے حقوق ہیں ۔فرشتے نے کہا غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے ؟تم ایک فقیر اور قلاش انسان تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ چیزیں عطا کیں ؟ اس نے کہا یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آرہی ہے ؟ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں پہلی حالت پر لوٹادے ۔فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی،اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا ہی جواب دیا ، فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے ۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا اپنی اسی پہلی صورت میں ، اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں ، سفر کے تمام سامان ختم ہوچکے ہیں ،اور اللہ کے سوا کسی اورسے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں ، میں تم سے اس ذات کاواسطہ دے کر ، جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دے دی، ایک بکر ی مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کرسکوں ، اندھے نے جواب دیا کہا کہ واقعی میں اندھا تھا ، اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی ، اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا، تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو ،اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دے دیا تو جتنا بھی تمہاراجی چاہے لے جائو میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا، فرشتے نے کہا تم اپنا مال اپنے پاس رکھو ، یہ تو صرف امتحان تھا،اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے ،اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے ۔ [ صحیح بخاری : ۳۴۶۴]
      قارئین کرام! مذکورہ واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ناشکری بہت بڑا گناہ ہے ہمیں اندھے کی طرح ہمیشہ اللہ کی نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اپنی زندگی کے گزشتہ مشکل حالات کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے اور کبھی مصیبت آجائے تو صبر کرنا چاہئے ورنہ اگر ہم نے بھی اللہ کے نعمتوں کی قدر نہ کی ہمیشہ اللہ کی ناشکری کرتے رہے تو ہمارا انجام بھی کوڑھی اور گنجے جیسا ہوگا اللہ تعالیٰ ہماری تما م نعمتیں ہم سے چھین کر ذلیل و خوار کردے گا پھر ہم بیٹھ کر کف افسوس ملتے رہ جائیں گے ۔
      دوسرے واقعہ کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے:
      {إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ ۔وَلَا يَسْتَثْنُونَ ۔فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِنْ رَبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ ۔فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ }
      ’’بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزمایا جس طرح باغ والوں کو آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے اور ان شاء اللہ نہ کہا ، پس اس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سوہی رہے تھے ، پس وہ باغ ایسا ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی ‘‘
      [ القلم : ۱۷تا۲۰]
      علامہ الواحدی نیساپوری رحمہ اللہ مذکورہ آیتوں کی تفسیر کے تحت رقمطراز ہیں کہ : ہم نے اہل مکہ کو بھوک اور قحط سالی سے آزمایا جیسا کہ اس سے پہلے باغ والوں کو آزمایا تھا جب ان کا باغ برباد ہوگیا تھا ، وہ قوم ثقیف کے مسلمان لوگ تھے جو یمن ( صنعاء) میں رہتے تھے ،انہیں اپنے باغ کی میراث سے باغ کھیتیاں اور کھجور وغیرہ ملے تھے ، اور ان کا باپ کھیتیوں کے کٹنے اور کھجور اور باغ کا پھل توڑنے کے وقت اس میں سے مسکینوں کا حصہ بھی نکالتا تھا ، لیکن باپ کی وفات کے بعد (لالچی) بیٹوں نے کہا کہ : ہمارے پاس مال کم اور اہل وعیال زیادہ ہیں ،اب ہمارے لئے مسکینوں کو دینے کی وہ گنجائش باقی نہیں رہی جو والد محترم کے زمانے میں باقی تھی ،اس طرح انہوں نے باغ کا پھل تو ڑتے وقت مسکینوں کو بالکل محروم کرنے کا عزم کر لیا تو ان کا وہی انجام ہوا جو اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے ۔
      اللہ کا فرمان ہے:
      {ِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ ۔وَلَا يَسْتَثْنُونَ }
      ’’جب انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل کو اتار لیں گے ، اور ان شاء اللہ نہ کہا‘‘
      [القلم : ۱۷،۱۸]
      یعنی رات کی تاریکی ہی میں باغ کا پھل اتار لیں گے کہ مسکینوں کو خبر ہی نہ ہو سکے گی کہ یہ لوگ پھل توڑنے جارہے ہیں ، اور اس بات پر انہوں نے ان شاء اللہ نہیں کہا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں پھر اللہ کی طرف سے آگ آئی اور پورے باغ کو جلا کر خاکستر کر ڈالا ۔اور مقاتل فرماتے ہیں کہ: اللہ نے رات کے وقت ایک آگ بھیجی جس نے پورے باغ کو جلا ڈالا جس سے پورا باغ (راکھ) کی وجہ سے بالکل کالا ہو گیا ، اسی بات کو اللہ نے اپنے اس قول فاصبحت کالصریم میں بیان کیا ہے ،پس جب صبح ہوگئی تو بعض نے بعض کو صبح صبح جگایا کہ چلو صبح صبح باغ کا پھل توڑ لیں۔ پس وہ اپنے باغ کی طرف صبح صبح آپس میں کانا پھوسی کرتے ہوئے چل پڑے کہ آج ہر گز کوئی مسکین باغ کا پھل توڑتے وقت باغ میں داخل نہیں ہو سکے گا ،اور مسکینوں پر غصہ کرتے ہوئے باغ کی طرف لپکے کی آج ہم مسکینوں پر قابو پالیں گے ، پس جب وہ باغ کی جگہ پہنچے اور وہاں راکھ کے سوا کچھ نہیں پایا تو آپس میں کہنے لگے کہ بیشک ہم باغ کاراستہ ہی بھول گئے ہیں۔ پھر جب انہوں نے جان لیا کہ نہیں ہم راستہ نہیں بھولے ہیں بلکہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو مسکینوں کو محروم کرنے کی وجہ سے ہم پر اللہ نے بھیجا ہے ،پھر جو ان میں سب سے بہتر تھا اس نے کہا کہ کیا میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی تسبیح کیوں بیان نہیں کرتے ،یعنی تم لوگوں نے چلتے وقت ان شاء اللہ کیوں نہیں کہا ؟ پھر سب یک زبان ہوکر بولے ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم ہی ظالم تھے جو مسکینوں کو باغ کے پھل میں سے حصہ نہیں دینا چاہتے تھے ۔پھر آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے ایک کہتا مسکینوں کو دینے سے تم روک رہے تھے دوسرا کہتا مسکینوں کو دینے سے تم منع کر رہے تھے ، پھر سب کہنے لگے ہائے افسوس ہم سرکش تھے جو اپنے باپ کے مسکینوں کو ان کا حق نہیں دیا ،پھر سب اللہ کی طرف لوٹے اور اس سے کہنے لگے کہ : کیا عجب ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے ہم تو اب اپنے رب سے ہی امید رکھتے ہیں ،یوں ہی آفت آتی ہے ،اور آخرت کی آفت بہت بڑی ہے کاش وہ سمجھ لیتے ۔ [التفسیر: الوسیط للواحدی:ج:۴، ص:۳۳۶۔۳۳۷]
      قارئین کرام! مذکورہ واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنی کھیتی باغ اور تجارت وغیرہ کی آمدنی میں سے قرابت داروں ،مسکینوں بے کسوں اور بیوائوں کا بھی حق ادا کرنا چاہئے ورنہ باغ والوں نے اپنے نیک باپ کے طریقے کے خلاف مسکینوں کو صرف نہ دینے کی نیت کی تھی اور اللہ نے ان کے باغ کو ہلاک کردیا ، ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو صاحب حیثیت ہونے کے باوجود قرابت داروں اور مسکینوں کو اپنے دروازوں اور اپنی دکانوں سے دھتکار دیتے ہیں۔ ان کا انجام تو اور بھی برا ہوسکتا ہے ۔
      ٓآخر میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرما اور ناشکری و نافرمانی کے کاموں سے بچا اور خاتمہ بالخیر نصیب فرما ۔آمین یا رب العالمین
  • شکر گزاری اور نا شکری دونوں ایک دوسرے کے اپوزٹ ہیں ، اگر شکر گزاری اللہ کی نعمتوں کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے تو ناشکری اللہ کے غضب اور اس کے دردناک عذاب کو واجب کرنے والی ہے ۔اللہ کا فرمان ہے:
    {لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ}
    ’’ اگر تم شکر گزاری کروگے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘
    [ ابراہیم: ۷]
    اللہ کے بندوں میں سے شکر گزاربندو ں کی تعداد ہر زمانے میں بہت کم رہی ہے ۔اللہ کا فرمان ہے:
    { وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ}
    ’’میرے بندوں میں شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں‘‘
    [سورۃ سبا:۱۳]
    ناشکری کے چند اسباب :
    ۱۔ اپنے سے مالداروں کی طرف دیکھنا: جب انسان دنیادی نعمتوں سے متعلق اپنے سے آسودہ حال اور مالداروں کو دیکھتا ہے تو ناشکرا بن جاتا ہے اور جب اپنے سے غریبوں اور بد حال و مفلس لوگوں کو دیکھتا ہے تو اللہ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے۔
    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَي مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي المَالِ وَالخَلْقِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَي مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ‘‘
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال اور شکل و صورت میں اس سے بڑھ کر ہو تو اسے چاہئے کہ ایسے شخص کی طرف دیکھ لے جو مال اور شکل و صورت میں اس سے کم درجے کا ہے‘‘
    [ صحیح بخاری:۶۴۹۰]
    ۲۔ صرف دنیا کو مقصد زندگی سمجھ لینا : جو لوگ فکر آخرت سے بالکل غافل ہوکر دنیا کی لذتوں اور رنگینیوں میں گم ہو جاتے ہیں ایسے لوگ بھی بڑے ناشکرے ہوتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافروں کے بارے میں فرماتا ہے:
    {وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًي لَهُمْ }
    ’’اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا فائدہ اٹھاتے اور کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں ان کا (اصل) ٹھکانہ جہنم ہے‘‘
    [ محمد : ۱۲]
    مذکورہ آیت کریمہ کی شرح کرتے ہوئے علامہ سمرقندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’کا فر دنیا کی زندگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں دنیا کی جو نعمتیں ملی ہیں انہی میں زندگی گزارتے ہیں اور چوپایوں کی طرح کھاتے ہیں کھانے پینے اور جماع کرنے کے سوا ان کی زندگی کا کوئی بھی مقصد نہیں ہوتا ، اور جہنم ہی ان کا ٹھکانہ ہے‘‘ [بحر العلوم للسمرقندی ]
    ۳۔ نعمتوں پر اترانا : جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ نعمتیں مجھے ملی ہیں سب میری کوششوں کا نتیجہ ہیں اس میں اللہ کا کوئی احسان نہیں ایسے لوگ کبھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے ایسے لوگ قارون صفت ہیں جس قارون کو اللہ نے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسادیا ۔
    ۴۔بخیلی اوکنجوسی کرنا : بخیلی اور کنجوسی بھی ناشکری کا ایک اہم سبب ہے کیونکہ بخیل اور کنجوس لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے تو وہ بہت جلد ختم ہوجائے گا پھر واپس نہیں ملے گا اس لئے بخیل اور کنجوس لوگ ہمیشہ اللہ کی ناشکری کرتے ہیں،اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بخیلی اور فضول خرچی دونوں سے منع فرمایا ہے ۔فرمان الٰہی ہے :
    {وَالَّذِینَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَامًا}
    ’’ اور جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیںنہ بخیلی بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں‘‘
    [الفرقان : ۶۷]
    ۵۔شیطان اور نفس کی پیروی کرنا: نفس اور شیطان کی پیروی بھی انسان کو نا شکری پر ابھارتی ہے کیونکہ نفس بہت حریص ہوتا ہے اور شیطان اللہ کا سب سے بڑا ناشکرا ہے اور اس کا مقصد انسانوں کو رب کا ناشکرا بنانا ہی ہے ،نفس کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے :
    {وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}
    ’’جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیاتو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں ‘‘
    [الحشر :۹]
    شیاطین کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے :
    {وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا۔إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا}
    ’’اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی نا شکرا ہے‘‘
    [بنی اسرائیل :۲۷،۲۶]
    ناشکری کی عبرت ناک سزائیں :
    ۱۔ بھکمری کا عذاب : ۲۔ خوف کا عذاب :
    اللہ کا فرمان ہے :
    {وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللّٰهِ فَأَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ}
    ’’اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن و اطمینان کے ساتھ تھی ، اس کی روزی اس کے پاس بآسانی فراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی ،پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزا چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا‘‘
    [سورۃ النحل : ۱۱۲]
    حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : آیت کریمہ میں قریہ سے مراد مکہ والے ہیں جو بہت چین اور اطمینان کی زندگی گزار رہے تھے ، آس پاس کے علاقوں میں لڑائیاں ہوتیںلیکن مکہ کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ سکتا تھا جو یہاں آجاتا امن و امان میں آجاتا ۔
    لیکن پھر بھی یہ اللہ کی نعمتوں کے منکر ہی رہے جن میں سب سے بڑی نعمت محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت و نبوت تھی ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس سرکشی کی سزا میں دونوں نعمتیں زحمتوںسے بدل دیں امن کو خوف سے بدل دیا اور اطمینان کو بھوک اور گھبراہٹ سے۔
    قارئین کرام ! یہ جو برا انجام اہل مکہ کو نبی ﷺ کا انکار اور ان کی نافرمانی کی وجہ سے جھیلنا پڑا ’’کہ ان کا امن خوف میں اور اطمینان بھوکمری اور گھبراہٹ میں اللہ نے بدل دیا ‘‘یہ صرف اہل مکہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اللہ کا یہ اصول قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لئے ہے ،آج بھی اگر کوئی شخص امن و اطمینان کی زندگی میں رہ کر کھلم کھلم رسول اکرم ﷺ کی نافرمانی اور آپ ﷺ کی شان اقدس میںگستاخی کرتا ہے تو اسے بھی ڈرنا چاہئے کہ کہیں اللہ اس کے امن کو خوف اور اطمینان کو بھوکمری اور گھبراہٹ میں تبدیل نہ کردے ۔
    ۳۔ سخت ترین عذاب : اللہ کا فرمان ہے:
    {لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ }
    ’’اگر تم شکر گزاری کروگے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے ‘‘
    [ابراہیم: ۷]
    اسی طرح اللہ کا فرمان ہے :
    {مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِيمًا}
    ’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیاکرے گا اگر تم شکر گزاری کرتے رہو اور صاحب ایمان رہو اللہ تعالیٰ بہت قدر کرنے والا اور پورا علم رکھنے والا ہے ‘‘
    [ النساء : ۱۴۷]
    مذکورہ آیت کریمہ میں اگر چہ منافقین سے خطاب ہے کہ اگر منافقین بھی نفاق سے باز آکر مومن اور شکر گزار بندے بن جائیں تو اللہ انہیں بھی معاف کردے گا۔لیکن آیت کریمہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لئے ہے جو لوگ بھی ایمان اور شکر گزاری کی زندگی گزاریں گے وہ ہمیشہ اللہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے ۔
    حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : شکر گزاری کا مطلب ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق برائیوںسے اجتناب اور عمل صالح کا اہتمام کرنایہ گویااللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ہے ،اور ایمان سے مراد اللہ کی توحید ربوبیت پر اور نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی رسالت پر ایمان ہے ۔[تفسیر احسن البیان :۲۶۸]
    ۴۔نعمتوں سے محرومی : اس سے متعلق صرف دو واقعہ پیش خدمت ہے ایک صحیح بخاری کا دوسرا باغ والوں کا واقعہ جو سورہ قلم میں موجود ہے ۔
    کوڑھی، اندھے اور گنجے کا نصیحت آموز واقعہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا :’’ کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ،ایک کوڑھی ، دوسرا اندھا ، تیسرا گنجا ، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان تینوں کا امتحان لے چنانچہ ان تینوں کے پاس ایک فرشتہ بھیجا،فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تمہیں سب سے زیادہ کون سی چیز پسند ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں ۔نبی ﷺ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیراتو اس کی بیماری دور ہوگئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہوگیا اور چمڑی بھی اچھی ہوگئی۔فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم پسند کرتے ہو؟اس نے جواب میں اونٹ یا گائے کہا اسحاق بن عبد اللہ کو اس میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ یا گائے کی خواہش ظاہر کی اور دوسرے نے گائے کی ، چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی ،اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا۔پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تمہیں کیا چیز پسند ہے ؟اس نے کہا کہ عمدہ بال ، اور موجودہ عیب میرا ختم ہوجائے ۔کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سرپر ہاتھ پھیرااور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے سر میں عمدہ بال آگئے ۔فرشتے نے کہاتمہیں سب سے زیادہ کون سا مال پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ گائے ، نبی ﷺ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے دے دی ، اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا ۔ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا کہ تمہیں کیا چیزپسند ہے ؟اس نے کہا اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی بینائی عطا فرمادے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں ، نبی ﷺ نے بیان کیا کہ فرشتے نے اس کی ( آنکھوں) پر ہاتھ پھیرااور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس لوٹا دی ،پھر پوچھا تمہیں سب سے زیادہ کس طرح کا مال پسند ہے ، اس نے کہا کہ بکریاں فرشتے نے اسے ایک حاملہ بکری دے دی ، پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی ، گائے بیل سے گنجے کی وادی بھر گئی ، اور بکریوں سے اندھے کی وادی بھر گئی ۔
    پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین اور فقیر آدمی ہوں میرے سفر کے تمام سامان اور اسباب ختم ہو چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں ، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر ، جس نے تمہیں اچھا رنگ ، اچھا چمڑا اور اچھا مال عطا کیا ہے ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر پورا کرسکوں ، اس نے فرشتے سے کہا میرے ذمہ اور بہت سے حقوق ہیں ۔فرشتے نے کہا غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے ؟تم ایک فقیر اور قلاش انسان تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ چیزیں عطا کیں ؟ اس نے کہا یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آرہی ہے ؟ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں پہلی حالت پر لوٹادے ۔فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی،اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا ہی جواب دیا ، فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے ۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا اپنی اسی پہلی صورت میں ، اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں ، سفر کے تمام سامان ختم ہوچکے ہیں ،اور اللہ کے سوا کسی اورسے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں ، میں تم سے اس ذات کاواسطہ دے کر ، جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دے دی، ایک بکر ی مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کرسکوں ، اندھے نے جواب دیا کہا کہ واقعی میں اندھا تھا ، اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی ، اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا، تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو ،اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دے دیا تو جتنا بھی تمہاراجی چاہے لے جائو میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا، فرشتے نے کہا تم اپنا مال اپنے پاس رکھو ، یہ تو صرف امتحان تھا،اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے ،اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے ۔ [ صحیح بخاری : ۳۴۶۴]
    قارئین کرام! مذکورہ واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ناشکری بہت بڑا گناہ ہے ہمیں اندھے کی طرح ہمیشہ اللہ کی نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اپنی زندگی کے گزشتہ مشکل حالات کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے اور کبھی مصیبت آجائے تو صبر کرنا چاہئے ورنہ اگر ہم نے بھی اللہ کے نعمتوں کی قدر نہ کی ہمیشہ اللہ کی ناشکری کرتے رہے تو ہمارا انجام بھی کوڑھی اور گنجے جیسا ہوگا اللہ تعالیٰ ہماری تما م نعمتیں ہم سے چھین کر ذلیل و خوار کردے گا پھر ہم بیٹھ کر کف افسوس ملتے رہ جائیں گے ۔
    دوسرے واقعہ کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے:
    {إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ ۔وَلَا يَسْتَثْنُونَ ۔فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِنْ رَبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ ۔فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ }
    ’’بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزمایا جس طرح باغ والوں کو آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے اور ان شاء اللہ نہ کہا ، پس اس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سوہی رہے تھے ، پس وہ باغ ایسا ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی ‘‘
    [ القلم : ۱۷تا۲۰]
    علامہ الواحدی نیساپوری رحمہ اللہ مذکورہ آیتوں کی تفسیر کے تحت رقمطراز ہیں کہ : ہم نے اہل مکہ کو بھوک اور قحط سالی سے آزمایا جیسا کہ اس سے پہلے باغ والوں کو آزمایا تھا جب ان کا باغ برباد ہوگیا تھا ، وہ قوم ثقیف کے مسلمان لوگ تھے جو یمن ( صنعاء) میں رہتے تھے ،انہیں اپنے باغ کی میراث سے باغ کھیتیاں اور کھجور وغیرہ ملے تھے ، اور ان کا باپ کھیتیوں کے کٹنے اور کھجور اور باغ کا پھل توڑنے کے وقت اس میں سے مسکینوں کا حصہ بھی نکالتا تھا ، لیکن باپ کی وفات کے بعد (لالچی) بیٹوں نے کہا کہ : ہمارے پاس مال کم اور اہل وعیال زیادہ ہیں ،اب ہمارے لئے مسکینوں کو دینے کی وہ گنجائش باقی نہیں رہی جو والد محترم کے زمانے میں باقی تھی ،اس طرح انہوں نے باغ کا پھل تو ڑتے وقت مسکینوں کو بالکل محروم کرنے کا عزم کر لیا تو ان کا وہی انجام ہوا جو اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے ۔
    اللہ کا فرمان ہے:
    {ِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ ۔وَلَا يَسْتَثْنُونَ }
    ’’جب انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل کو اتار لیں گے ، اور ان شاء اللہ نہ کہا‘‘
    [القلم : ۱۷،۱۸]
    یعنی رات کی تاریکی ہی میں باغ کا پھل اتار لیں گے کہ مسکینوں کو خبر ہی نہ ہو سکے گی کہ یہ لوگ پھل توڑنے جارہے ہیں ، اور اس بات پر انہوں نے ان شاء اللہ نہیں کہا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں پھر اللہ کی طرف سے آگ آئی اور پورے باغ کو جلا کر خاکستر کر ڈالا ۔اور مقاتل فرماتے ہیں کہ: اللہ نے رات کے وقت ایک آگ بھیجی جس نے پورے باغ کو جلا ڈالا جس سے پورا باغ (راکھ) کی وجہ سے بالکل کالا ہو گیا ، اسی بات کو اللہ نے اپنے اس قول فاصبحت کالصریم میں بیان کیا ہے ،پس جب صبح ہوگئی تو بعض نے بعض کو صبح صبح جگایا کہ چلو صبح صبح باغ کا پھل توڑ لیں۔ پس وہ اپنے باغ کی طرف صبح صبح آپس میں کانا پھوسی کرتے ہوئے چل پڑے کہ آج ہر گز کوئی مسکین باغ کا پھل توڑتے وقت باغ میں داخل نہیں ہو سکے گا ،اور مسکینوں پر غصہ کرتے ہوئے باغ کی طرف لپکے کی آج ہم مسکینوں پر قابو پالیں گے ، پس جب وہ باغ کی جگہ پہنچے اور وہاں راکھ کے سوا کچھ نہیں پایا تو آپس میں کہنے لگے کہ بیشک ہم باغ کاراستہ ہی بھول گئے ہیں۔ پھر جب انہوں نے جان لیا کہ نہیں ہم راستہ نہیں بھولے ہیں بلکہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو مسکینوں کو محروم کرنے کی وجہ سے ہم پر اللہ نے بھیجا ہے ،پھر جو ان میں سب سے بہتر تھا اس نے کہا کہ کیا میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی تسبیح کیوں بیان نہیں کرتے ،یعنی تم لوگوں نے چلتے وقت ان شاء اللہ کیوں نہیں کہا ؟ پھر سب یک زبان ہوکر بولے ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم ہی ظالم تھے جو مسکینوں کو باغ کے پھل میں سے حصہ نہیں دینا چاہتے تھے ۔پھر آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے ایک کہتا مسکینوں کو دینے سے تم روک رہے تھے دوسرا کہتا مسکینوں کو دینے سے تم منع کر رہے تھے ، پھر سب کہنے لگے ہائے افسوس ہم سرکش تھے جو اپنے باپ کے مسکینوں کو ان کا حق نہیں دیا ،پھر سب اللہ کی طرف لوٹے اور اس سے کہنے لگے کہ : کیا عجب ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے ہم تو اب اپنے رب سے ہی امید رکھتے ہیں ،یوں ہی آفت آتی ہے ،اور آخرت کی آفت بہت بڑی ہے کاش وہ سمجھ لیتے ۔ [التفسیر: الوسیط للواحدی:ج:۴، ص:۳۳۶۔۳۳۷]
    قارئین کرام! مذکورہ واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنی کھیتی باغ اور تجارت وغیرہ کی آمدنی میں سے قرابت داروں ،مسکینوں بے کسوں اور بیوائوں کا بھی حق ادا کرنا چاہئے ورنہ باغ والوں نے اپنے نیک باپ کے طریقے کے خلاف مسکینوں کو صرف نہ دینے کی نیت کی تھی اور اللہ نے ان کے باغ کو ہلاک کردیا ، ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو صاحب حیثیت ہونے کے باوجود قرابت داروں اور مسکینوں کو اپنے دروازوں اور اپنی دکانوں سے دھتکار دیتے ہیں۔ ان کا انجام تو اور بھی برا ہوسکتا ہے ۔
    ٓآخر میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرما اور ناشکری و نافرمانی کے کاموں سے بچا اور خاتمہ بالخیر نصیب فرما ۔آمین یا رب العالمین
 
Top