• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نافع بن ابی نعیم القاری (امام القراء)

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم

نام:
نافع بن عبد الرحمن بن أبى نعيم القارىء ، أبو رويم و قيل أبو عبد الرحمن ، المدنى

طبقہ:
7 - من كبار إتباع التابعين

وفات:
امام نافع رحمہ اللہ ۱۶۹ھ میں تقریباً ۹۹ سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کو جاملے۔ وفات کے وقت بیٹوں نے کہا کہ ہمیں کوئی وصیت کردیں تو انہوں نے فرمایا: ’’فَاتَّقُوْا اﷲَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ وَأطِیْعُوْا اﷲَ وَرَسُوْلَہُ إنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْنَ‘‘(الانفال:۱)’’اللہ سے ڈرو، آپس میں صلح سے رہو اور اگر مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے رہو۔‘‘

روی لہ:
ابن ماجۃ فی التفسیر - احمد فی المسند - ابن ابی شیبۃ فی المصنف - ابو القاسم الطبرانی فی المسند الشامیین - الحاکم فی المستدرک - بیھقی فی السنن وغیرہ

اساتذۃ:
امام نافع رحمہ اللہ نے تقریباً ۷۰ تابعین عظام سے علم قراء ت پڑھا جن میں ابوجعفر،شیبہ بن نصاح، یزید بن رومان، محمد بن مسلم بن شہاب الزہری،اورعبد الرحمن بن ہرمز الاعرج رحمہم اللہ جیسے مشہور تابعی بھی شامل ہیں۔

تلامیذہ:
امام نافع رحمہ اللہ سے مدینہ، شام، مصر اور دیگر ممالک کے متعدد شاگردوں نے کسب فیض کیا جن کو شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ان کے تلامذہ میں امام مالک رحمہ اللہ، امام لیث بن سعد رحمہ اللہ جیسے مشہور اَئمہ بھی شامل ہیں۔ آپ کے شاگردوں میں سے ابوعمرو بن العلاء، المسیبی، عیسیٰ بن وردان، سلیمان بن مسلم بن جماز اور جعفر کے بیٹے اسماعیل اور یعقوب قابل ذکر ہیں۔امام نافع رحمہ اللہ کے مشہور ترین شاگرد قالون اور ورش ہیں

رتبہ:
إمام الناس في القراءة؛ ثقة وصدوق في الحديث

اہل الجرح و التعدیل کی شہادتیں:

قراءۃ میں آپ کا رتبہ (از ابن بشیر الحسینوی):

1۔امام مالک نے کہا: نافع إمام الناس في القراء ۃ ’’نافع قراء ت میں لوگوں کے امام ہیں۔‘‘ (معرفۃ الکبار للذہبی: ۱؍۸۹، سیر أعلام النبلاء للذہبي: ۷؍۳۳۷)
2۔امام مالک فرماتے ہیں: نافع ثبت في القراء ۃ ’’نافع قراء ت میں پختہ ہیں۔‘‘ (میزان الإعتدال للذہبي: ۴؍۲۴، لسان المیزان لابن حجر: ۹؍۲۲۶)
3۔امام اصمعی نے کہا: کان نافع من القراء العباد الفقھاء الستۃ ’’نافع چھ فقہاء ، عبادت گزار قاریوں میں سے تھے۔‘‘ (معرفۃ القراء الکبار للذہبي: ۱؍۲۴۴)
4۔قالون نے کہا: ’’امام نافع لوگوں میں سے اخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھے تھے۔ آپ زاہد اور بہت بڑے قاری تھے آپ نے مسجد نبوی میں ساٹھ سال نماز پڑھی۔‘‘ (صبح الأعشی للقلقشندي: ۱؍۲۱۶)
5۔امام ابن سعد نے کہا: أدرکت أھل المدینۃ وھم یقولون قراء ۃ نافع سنۃ ’’میں نے مدینہ والوں کو پایا ہے وہ کہتے تھے کہ امام نافع﷫ کی قراء ت سنت ہے۔‘‘ (تہذیب التہذیب: ۱۰؍۳۶۳)
6- امام شافعی نے کہا: من أراد سنۃ فلیقرأ لنافع’’جو شخص سنت کاارادہ رکھتا ہے وہ نافع کی قراء ت حاصل کرے۔‘‘ (أحسن الأخبار: ۲۲۳۸)
7- امام احمد بن صالح المصری نے کہا: أصح القرائات عندنا قراء ۃ نافع بن أبي نعیم ’’ہمارے نزدیک سب سے بہترین قراء ت نافع کی ہے۔‘‘(أحسن الأخبار: ۲۲۳)
8- صالح بن احمد نے کہا کہ میں نے اپنے باپ امام احمد سے پوچھا کہ أي القراء ۃ أعحب إلیک؟ فقال قرائۃ نافع ’’کون سی قراء ت آپ کو زیادہ اچھی لگتی ہے انہوں نے کہا کہ نافع کی قراء ت۔‘‘ (جمال القراء: ۲؍۴۴۸، معرفۃ القراء: ۱؍۱۰۸)

امام نافع نے کہا کہ میں نے ستر تابعین سے قراء ت سیکھی ہے جس پر دو تابعی بھی جمع ہوتے اس کو میں نے لے لیا اور جس قراء ت میں کوئی مفرد ہو اس کو میں نے چھوڑدیا۔ یہاں تک کہ میں نے اسی قراء ات کو جمع کیا۔ (نحایۃ الاختصار: ۱؍۱۹)
امام نافع نے اپنی قراء ت پر مشتمل ایک کتاب لکھی تھی۔ (التذکرۃ لابن غلبون: ۱۱، قراءت القراء: ۶۲)
امام اسحق بن محمد عیسیٰ کہتے ہیں کہ جب نافع کی وفات کا وقت آپہنچا توان سے ان کے بیٹوں نے کہا ہمیں وصیت کیجئے تو انہوں نے فرمایا ’’اللہ سے ڈرجاؤ، آپس میں معاملات درست کرلو، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان لانے والے ہو۔‘‘ (معرفۃ القراء: ۱؍۱۱، غایۃ النھایۃ: ۲؍۳۳۳)
امام نافع اپنے شاگردوں سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے، انہیں آداب سکھاتے تھے اور باوضو ہوکر کلاس میں بیٹھتے تھے۔(أحسن الاخبار: ۲۲۸)
امام لیث نے کہا: نافع لوگوں کے امام تھے ان سے جھگڑا نہیں کیا جاتا تھا ۔ (أحسن الأخبار: ۲۲۹)

حدیث میں آپ کا رتبہ (از رضا حسن):

1- امام یحییٰ بن معین نے کہا: ’ثقہ‘ (تاریخ ابن معین: 3/171، الجرح والتعدیل: 8/457 اسنادہ صحیح)
2- امام علی بن عبد اللہ بن المدینی نے کہا: "لا بأس به"۔ (سوالات ابن ابی شیبہ لابن المدینی: 1/141)
3۔امام ابوحاتم نے ’صدوق صالح الحديث‘ کہا ہے۔ (الجرح والتعدیل: 8/457)
4- امام ابو الحسن العجلی نے انہیں ثقات میں ذکر کیا۔ (کتاب الثقات: 1/447)
5۔ امام ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے۔ (7/533)
امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں ان سے روایت بھی لی ہے (3/402 وغیرہ)
6- امام ابو حفص ابن شاہین نے انہیں ثقات میں ذکر کر کے امام ابن المدینی کی توثیق نقل کی۔ (1/240)
7- امام ابو احمد عبد اللہ بن عدی الجرجانی نے کہا: "ولم أر فِي أحاديثه شيئا منكرا فأذكره وأرجو أَنَّهُ لا بأس بِهِ." یعنی مجھے ان کی حدیثوں میں کوئی نکارت نظر نہیں آتی، اور مجھے امید ہے کہ ان میں کچھ خرابی نہیں۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال: 8/310)
8- امام حاکم النیسابوری نے امام نافع کی روایت کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا: "هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ" (مستدرک علی الصحیحین للحاکم: 2/256)
9- ابو عبد اللہ الجورقانی نے ان کے بارے میں امام یحیی بن معین کی توثیق نقل کی اور کوئی مخالفت نہیں کی۔ (الاباطیل والمناکیر: 1/155)
10- حافظ ابن الجزری نے کہا: "ثقة صالح" (غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء: 2/330)
11- حافظ ابن عبد البر نے ان کی بیان کردہ ایک روایت کے بارے میں فرمایا: "اسناده صالح ان شاء الله" (التمہید: 17/195)
12- امام شمس الدین الذھبی نے انہیں "حسن الحديث" قرار دیا ہے (سیر اعلام النبلاء: 7/338)
13- حافظ ابن حجر العسقلانی نے کہا: " صدوق ثبت في القراءة" (تقریب: 558)
14- مشہور حنفی عالم، علامہ بدر الدین عینی نے انہیں اپنی کتاب مغانی الاخیار میں ذکر کیا اور محدثین و ائمہ کی توثیقات و تعریفات نقل کیں اور ایک بھی جرح نقل نہیں کی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام نافع ان کے نزدیک حدیث میں ثقہ تھے۔ (مغانی الاخیار فی شرح اسامی رجال معانی الاثار: 3/109)

امام نافع پر جرح اور اس کا جواب:

مذکورہ بالا جمہور کی توثیق کا کھلے عام رد کرتے ہوئے چند مقلدین حضرات، صرف ایک امام احمد کے قول کی بنا پر امام نافع کو حدیث میں ساقط الاعتبار قرار دیتے ہیں۔

امام احمد نے نافع بن ابی نعیم کے بارے میں فرمایا: "نَافِع الَّذِي يروى عَنْهُ إِسْمَاعِيل القراءة كَانَ يؤخذ عَنْهُ القراءة وليس هو فِي الحديث بشَيْءٍ." (الکامل لابن عدی: 8/310، الجرح والتعدیل: 8/456)

یہ جرح دو وجہ سے مردود ہے:

پہلی: یہ جمہور کی توثیق کے خلاف ہے۔
دوسری: یہ جرح ہی امام احمد سے با سند صحیح ثابت نہیں۔
یہ قول الکامل اور الجرح والتعدیل میں ابو طالب سے دو راویوں نے نقل کیا ہے: (1) ابن ابی عصمۃ اور (2) محمد بن حمویہ بن الحسن۔ اور یہ دونوں راوی غیر موثق و مجہول الحال ہیں، واللہ اعلم۔

خلاصہ:

امام نافع قراءۃ اور حدیث دونوں میں ثقہ و صدوق ہیں۔ ان پر کسی قسم کی جرح ثابت نہیں لہذا وہ بالاجماع ثقہ ہیں، والحمد للہ!
 
Top