ابو جماز
رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 50
- ری ایکشن اسکور
- 95
- پوائنٹ
- 64
کئ سال پہلے امریکہ میں ایک نومسلم خاتون نے مردوں اور عورتوں کی نماز میں امامت کی اور جیسا کہ عام طور پر ہوتا چلا آیا ہے پوری دنیا سے مسلمان علماء نے اسکے خلاف آواز بلند کی۔امامت کی ویڈیو اب بھی یوٹیوب پر موجود ہے جس میں عورتیں اور مرد اکٹھے ایک ہی صف میں فمنزم کا سبق دیتے نظر آتے ہیں۔ انہی لبرلز میں سے جو تھوڑا بہت دین کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے پڑھتا تھا یا پھر عربی زبان سمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا اسنے انکی ہمائیت کی اور یہ کہا کہ عورت کی امامت کے خلاف بولنے والے ملّا نے علمی خیانت کی ہے کیونکہ یہ مسئلہ ایک فقہی مسئلہ ہے جس میں اختلاف کی گنجائش ہے بھی اور تھی بھی اور دلیل کی بنا پر ایک حدیث جو کہ سندا ضعیف ہے اور اپنے معنی میں بھی واضح نہیں، پیش کی اور ساتھ کچھ فقہاء کے اقوال کا بھی سہارا لیا جن میں ابن الایٔمن المالکی وغیرہ شامل ہیں۔ بقول لبرلز کے چونکہ یہ ایک فقہی مسئلہ ہے اس لیے اسکے خلاف احتجاج کرنا درست نہیں اور یہ ان لوگوں کی کم علمی کی دلیل ہے جنکو اس مسئلہ کا پتا ہی نہیں۔
یہ بات درست ہے کہ اہل علم میں سے بعض کی ہمیں ایسی آراء مل جاتی ہیں جوکہ یا تو شاذ ہوتی ہیں یا جنکا جواز بعض قیود کے ساتھ دیا جاتا ہے مثلا بعض اہل علم کے نزدیک عورت تب امامت کروا سکتی ہے مردوں کی جبکہ مردوں میں سے کوئ نماز کا صحیح طریقہ یا سورۃ فاتحۃ ہی نہ جانتا ہوں۔ اور وہ کروائے گی بھی پیچھے سے۔ بہرحال یہ بات بھی محل نظر ہے لیکن بجائے اس مسئلہ پر علمی بحث کرنے کہ جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں تکلیف ان لبرلز کے فقہی مسئلہ کے اختیار سے نہیں بلکہ اس مسئلہ کو پیش کرنے کے پیچھے جو سوچ اور عقیدہ ہے اس سے ہے۔ علمائے ربانی میں سے یا فقہاء میں سے اگر کوئ ایسی رائے دیتا ہے تو اسکے پیچھے بنیاد اجتہاد ہوتا ہے جوکہ وہ بڑی ہی علمی دیانت کے ساتھ شریعت کی روشنی میں کرتا ہے اسی لیے اسکی بعض عجیب و غریب باتوں کو بھی شاذ رائے کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے لیکن ان لبرلز کی نہیں کیونکہ انکی اس طرح کی باتوں کے پیچھے بعض ملحد عقائد اور محرکات ہوتے ہیں جوکہ اس مسئلہ کو فقہی مسئلہ سے نکال کر نہ صرف عقیدہ کا مسئلہ بلکہ بعض اوقات کفر اور اسلام کا مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ سلف میں اسکی مثال جرابوں پر مسح کرنے کی ہے جسکو اہل علم نے عقائد میں شامل کیا حلانکہ یہ اصلا ایک فقہی مسئلہ تھا۔
اسی طرح یہی عورت کی مردوں کو امامت کا مسئلہ لے لیجیے۔ اس خاتون نے یہ امامت اس لیے نہیں کروائ کیونکہ اسنے قرآن وسنت کی روشنی میں مسئلہ کو سمجھنے کی کاوش کی (یعنی اجتہاد کیا) اور اسکو ادلۂ شرعیہ سے یہی سمجھ آئ کے عورت مردوں کی بھی امامت کروا سکتی ہے بلکہ اسکے ذہن میں اسلام مخالف فمنزم کی سوچ تھی جسکے خلاف اھل السنۃ کو بولنا پڑا۔ باقی مثالوں کو بھی اس پر قیاس کر لیجیے۔
اللہ ہمیں صحیح معنوں میں دین کی سمجھ عطافرمائے اور اس طرح کے فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین
یہ بات درست ہے کہ اہل علم میں سے بعض کی ہمیں ایسی آراء مل جاتی ہیں جوکہ یا تو شاذ ہوتی ہیں یا جنکا جواز بعض قیود کے ساتھ دیا جاتا ہے مثلا بعض اہل علم کے نزدیک عورت تب امامت کروا سکتی ہے مردوں کی جبکہ مردوں میں سے کوئ نماز کا صحیح طریقہ یا سورۃ فاتحۃ ہی نہ جانتا ہوں۔ اور وہ کروائے گی بھی پیچھے سے۔ بہرحال یہ بات بھی محل نظر ہے لیکن بجائے اس مسئلہ پر علمی بحث کرنے کہ جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں تکلیف ان لبرلز کے فقہی مسئلہ کے اختیار سے نہیں بلکہ اس مسئلہ کو پیش کرنے کے پیچھے جو سوچ اور عقیدہ ہے اس سے ہے۔ علمائے ربانی میں سے یا فقہاء میں سے اگر کوئ ایسی رائے دیتا ہے تو اسکے پیچھے بنیاد اجتہاد ہوتا ہے جوکہ وہ بڑی ہی علمی دیانت کے ساتھ شریعت کی روشنی میں کرتا ہے اسی لیے اسکی بعض عجیب و غریب باتوں کو بھی شاذ رائے کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے لیکن ان لبرلز کی نہیں کیونکہ انکی اس طرح کی باتوں کے پیچھے بعض ملحد عقائد اور محرکات ہوتے ہیں جوکہ اس مسئلہ کو فقہی مسئلہ سے نکال کر نہ صرف عقیدہ کا مسئلہ بلکہ بعض اوقات کفر اور اسلام کا مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ سلف میں اسکی مثال جرابوں پر مسح کرنے کی ہے جسکو اہل علم نے عقائد میں شامل کیا حلانکہ یہ اصلا ایک فقہی مسئلہ تھا۔
اسی طرح یہی عورت کی مردوں کو امامت کا مسئلہ لے لیجیے۔ اس خاتون نے یہ امامت اس لیے نہیں کروائ کیونکہ اسنے قرآن وسنت کی روشنی میں مسئلہ کو سمجھنے کی کاوش کی (یعنی اجتہاد کیا) اور اسکو ادلۂ شرعیہ سے یہی سمجھ آئ کے عورت مردوں کی بھی امامت کروا سکتی ہے بلکہ اسکے ذہن میں اسلام مخالف فمنزم کی سوچ تھی جسکے خلاف اھل السنۃ کو بولنا پڑا۔ باقی مثالوں کو بھی اس پر قیاس کر لیجیے۔
اللہ ہمیں صحیح معنوں میں دین کی سمجھ عطافرمائے اور اس طرح کے فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین