• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نباتات اور انسان کی پیدائش سے بعث بعد الموت پر دلائل (از مولانا عبد الرحمن کیلانی)

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
ماخوذ تیسیر القرآن از مولانا عبد الرحمن کیلانی (رحمہ اللہ)



يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَكَذَلِكَ تُخْرَجُونَ
وہی زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ اسی طرح تم بھی (مرنے کے بعد زمین سے) نکالے جاؤ گے


نباتات اور انسان کی پیدائش سے بعث بعد الموت پر دلائل
جب مردہ زمین پر بارش پڑتی ہے تو اس سے نباتات، پودے اور درخت ہی نہیں اگ آتے بلکہ حیوانات بھی پیدا ہو جاتے ہیں موسم برسات آتا ہے تو ہزارہا مینڈک ٹرانے لگتے ہیں۔ جھینگر اور پپیہے درختوں پر بولنے لگتے ہیں اور بے شمار قسم کے حشرات الارض زمین کے پیٹ سے باہر آ جاتے ہیں جن کا پہلے نام و نشان تک نہ تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ جاندار مخلوق آخر کیسے اور کہاں سے وجود میں آ گئی؟ تو جیسے یہ وجود میں آ سکتی ہے خواہ تمہیں اس کی سمجھ آئے نہ آئے ویسے ہی جب صور میں پھونکا جاۓ گا جو مردہ انسانوں کے لیے موسم برسات کا حکم رکھتا ہے تو تم بھی زمین سے ایسے ہی پیدا ہو جاؤ گے جیسے ان جانوروں کو پیدا ہوتے دیکھتے ہو۔

اللہ نے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر بعث بعد الموت پر بارش کے پانی سے نباتات کے اگ آنے کو دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے چنانچہ سورة ق میں تقریبا ایسے الفاظ سے ارشاد فرمایا۔وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا كَذَلِكَ الْخُرُوجُ [FONT=traditional arabic, serif]([/FONT]١١[FONT=traditional arabic, serif]:[/FONT]٥٠[FONT=traditional arabic, serif])[/FONT]نباتات کا اگنا بعث بعد الموت پر کیسے دلیل بن سکتا ہے اس مقام پر قارئین کے غور و فکر کے لیے ایک وسیع میدان چھوڑ دیا گیا ہے۔ پھر بعض مقامات پر بعث بعد الموت یعنی انسان کی دوسری بار کی پیدائش کو پہلی بار کی پیدائش سے تشبیہ دے کر اسے آسان تر قرار دیا گیا ہے جیسے فرمایا[FONT=jameel noori nastaleeq, serif]: [/FONT]كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ [FONT=traditional arabic, serif]([/FONT]١٠٤[FONT=traditional arabic, serif]:[/FONT]٢١[FONT=traditional arabic, serif])[/FONT]گویا اب تین باتیں سامنے آ گئیں۔ ایک انسان کی پہلی بار کی پیدائش، دوسرے نباتات کی پیدائش اور ان دونوں کی تشبیہ اور دلیل کے طور پر تیسری چیز انسان کی دوسری بار کی پیدائش پر بطور دلیل لایا گیا ہے۔ ان میں سے تیسری چیز کے متعلق ہم مشاہدہ اور تجربہ سے کچھ بھی جان نہیں سکتے۔ البتہ پہلی چیز کو دوسری سے نسبتا زیادہ جان سکتے ہیں۔ اور پہلی چیز سے متعلق بھی ہمارا علم جو تجربہ اور مشاہدہ سے حاصل ہوا ہے صرف اتنا ہی ہے کہ جب رحم مادر میں ماں باپ کے نطفہ کا ملاپ ہو جاتا ہے تو عورت کا ماہواری خون آنا بند ہو جاتا ہے اور جو خون ماہواری ایام کی صورت میں عورت کے جسم سے خارج یا ضائع ہو جاتا تھا وہی خون اب اس مخلوط نطفہ کی تربیت میں صرف ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور عورت کے خون سے ماہواری خون یا حیض کا خون بننا اور اسی طرح عورت کے اصل خون سے نطفہ بننا کوئی مستقل عادی امر نہیں تھا بلکہ یہ دونوں چیزیں اس وقت بننا شروع ہوئیں جب عورت جوان اور اولاد پیدا کرنے کے قابل بن گئی۔ اس سے پیشتر اس کے اصل خون سے یہ دونوں چیزیں پیدا نہیں ہوئی تھیں حالانکہ اس کے جسم کی ساخت میں یہ صلاحیت اس کی پیدائش کے پہلے دن سے ہی اس میں ودیعت کر دی گئی تھی۔ یہی حال مرد کے نطفہ کا ہوتا ہے اس کے خون سے نطفہ یا منی صرف اس وقت بنتی ہے جب وہ جوان اور اولاد پیدا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ حالانکہ اس کے جسم کی ساخت میں منی بنانے والے آلات یعنی خصیے وغیرہ اس کی پیدائش کے پہلے دن سے ہی بنائے گئے تھے گویا عورت اور مرد کے نطفہ بنانے والے اعضاء نے اپنا اپنا کام بھی اس وقت شروع کیا جب وہ دونوں اولاد بنانے کے قابل ہو گئے۔ اور جب بڑھاپے کا دور آتا ہے تو دونوں کے جسم سے منی بنانے والے آلات موجود ہونے کے باوجود بھی اپنا اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس معاملہ میں عورت اور مرد دونوں بے بس ہوتے ہیں اگر وو چاہیں بھی کہ عورت اور مرد کے جسم میں نسب شدہ آلات بڑھاپے میں بھی منی بنانے کا کام کرتے رہیں تو وہ ایسا کر نہیں سکتے۔

مرد کے جسم میں صرف منی بنانے والے اعضاء ہوتے ہیں جو جوانی کے وقت اپنا کام شروع کرتے اور بڑھاپا آنے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن عورت کے جسم میں ایسے اعضاء تین طرح کے ہوتے ہیں ایک حیض کا خون بنانے والے، دوسرے منی بنانے والے اور یہ دونوں جوانی کے وقت اپنا کام شروع کرتے اور بڑھاپا آنے پر کام چھوڑ دیتے ہیں۔ اور تیسری قسم کے اعضاء وہ ہیں جو خون کے کچھ حصے کو دودھ میں منتقل کرتے ہیں۔ اور یہ اعضاء اس کی پستان ہیں۔ پستانوں کے نشانات عورت اور مرد دونوں کے سینے پر پہلے دن سے ہی موجود ہوتے ہیں۔ جوان ہونے پر عورت کے ان نشانات میں ابھار شروع ہو جاتا ہے تا آنکہ وو اپنی مکمل صورت اختیار کر لیتے ہیں اور یہ تبدیلی صرف عورت کے جسم میں ہوتی ہے۔ مرد کے جسم میں نہیں ہوتی۔ یہی مشینری خون کو دودھ میں منتقل کرنے کا کارخانہ ہوتا ہے اور یہ مشینری صرف اس وقت اپنا کام شروع کرتی ہے۔ جب حمل قرار پا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کام نہیں کرتی۔ خواہ عورت بلکل جوان اور اولاد پیدا کرنے کے قابل ہو۔ حمل قرار پانے کے بعد یہ مشینری حرکت میں تو آ جاتی ہے۔ مگر خون سے دودھ بننے کا عمل اس وقت مکمل ہوتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آ جاتا ہے تا کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اسے غذا میسر آ سکے اور اس کی تربیت کا سلسلہ جو پہلے حیض کے خون سے ہوتا تھا وہ جاری رہ سکے پھر کیا ان اعضاء کا صرف اپنے اپنے مقررہ وقت ہی کام کرنا اور بعد میں اپنا کام چھوڑ دینا ہی اللہ تعالی کے خلاق العليم ہونے پر زبردست دلیل نہیں؟

رحم مادر میں استقرار حمل کے بعد اس مخلوط نطفہ کی تربیت حیض کے گندے اور سیاہ رنگ کے خون سے ہوتی ہے جو اس مخلوط مادہ منویہ پر حاوی ہو کر اسے منجمد اور لمبوترے سے منجمد خون کی شکل میں تبدیل کر دیتا ہے اور مخلوط مادہ منویہ کا وجود اس میں باقی نہیں رہتا بلکہ وہ اس میں مدغم ہو جاتا ہے۔ پھر یہی جما ہوا خون گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یعنی اس جمے ہوئے خون میں سختی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ پھر اسی گوشت کے لوتھڑے سے بچہ کی صورت کے نقش و نگار بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ رحم مادر میں ایسے سات قسم کے تطورات ہوتے ہیں۔ جنہیں انسان خود بھی آلات کے ذریعہ مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ ان کا علم حاصل کر سکتا ہے۔ وہ ان چیزوں کا مشاہدہ اور علم تو حاصل کر سکتا ہے جو وقوع پذیر ہو رہی ہوتی ہیں لیکن وہ یہ نہیں جان سکتا کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟

بلکل یہی صورت کسی غلے یا درخت یا پودے کے بیج کی ہوتی ہے جو دراصل مرد یا کسی بھی نر کے نطفہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ زمین اس کے لئے رحم مادر کا درجہ رکھتی ہے۔ تو جس طرح مرد کے نطفہ کا کسی عورت کے رحم میں جا پڑنے سے استقرار حمل ضروری نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہر بیج میں جو زمین پر گر پڑے اس سے درخت بننا ضروری نہیں ہوتا۔ پھر جب ایسی زمین جس میں بیج پڑا ہو بارش کے پانی سے سیراب ہو جاتی ہے اور موسم سازگار ہوتا ہے تو یہ گویا اس بیج کے استقرار حمل کا وقت ہاتا ہے۔ پانی سے زمین کے ذرات میں حرکت پیدا ہونے لگتی ہے، وہ پھول جاتے ہیں اور زمین میں دفن شدہ بیج سے مل جاتے ہیں اور اسے اپنے اندر ڈھانپ لیتے ہیں۔ اس طرح بیج اپنا وجود ختم کر کے ایک ملغوبہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر اسی ملغوبہ سے نرم و نازک کونپل بنتی ہے۔ زمین کے اندر بیج پر بعینہ اس قسم کے تطورات آتے ہیں جس طرح انسان کے نطفہ پر رحم مادر میں آتے ہیں۔ تا آنکہ یہی نرم و نازک کونپل چند دن بعد زمین کا سینہ چیر کر زمین سے باہر نکل آتی پھر زمین ہی سے اپنی خوراک حاصل کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ باتیں ہم مشاہدہ تو کر سکتے ہیں لیکن یہ نہیں جان سکتے کہ کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟

پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مرے ہوےٴ انسان کے جسم کے ذرات بالآخر زمین میں پہنچ جاتے ہیں۔ خواہ کسی کی میت زمین میں دفن کی گئی ہو۔ یا جلا دی گئی ہو یا دریا بردار ہوئی ہو یا اسے درندوں نے پھاڑ کر کھایا ہو۔ بالآخر اس کے ذرات بلاواسطہ یا با لواسطہ زمین میں پہنچ جاتے ہیں اور یہی زمین انسان کی دوسری پیدائش کے لیے رحم مادر کا کام دیتی ہے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ انسان کی ریڑھ کی ہڈی کی دم جس کا نام عجب الذنب ہے۔ اس کے ذرات کبھی فنا نہیں ہوتے، انہیں ذرات میں سے ایک ذرہ انسان کے بیج یا نطفہ کا کام دیتا ہے، لیکن یہ زمین میں اس وقت تک بیکار پڑا رہے گا جب تک اسے مناسب موسم میسر نہ آئے۔ اور اس کا مناسب موسم وہ بارش ہے جو قیام قیامت کے بعدنفخہ صور ثانی یا حشر کے دن سے پہلے اسی زمین پر برسے گی اور یہ چیز بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ پھر اس بارش کے پانی سے زمین کے ذرات پھول کر انسان کے بیج کو ڈھانپ لیں گے پھر اس ملغوبہ پر وہی تطورات شروع ہو جائیں گے جو حیض کی صورت میں ماں کے پیٹ میں اور بیج کی صورت میں زمین کے پیٹ میں واقع ہوتے ہیں پھر معینہ مدت کے بعد تمام کے تمام انسان زمین میں سے اس طرح نکل آئیں گے جس طرح زمین کو پھاڑ کر نباتات اگ آتی ہے اور جس طرح یہ تطورات ماں کے یا زمین کےپیٹ میں طبعی طور پر واقع ہوتے ہیں جس میں انسان کا یا بیج کا اپنا عمل دخل کچھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہی تطورات دوسر ی پیدائش کی صورت میں انسان پر طبعی طور پر واقع ہوں گے۔ جس میں اس کے اپنے ارادہ و اختیار کو کچھ دخل نہ ہو گا اور معینہ مدت کے بعد وہ زمین سے باہر نکل آنے پر مجبور ہوگا۔ كَذَلِكَ تُخْرَجُونَ اور كَذَلِكَ الْخُرُوجُ سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ تطور ات بالکل ویسے ہی طبیعی طور پر واقع ہونے والے امور ہوں گے جیسا کہ ماں کے یا زمین کے پیٹ میں واقع ہوتے ہیں اور یہ تو واضح بات ہے کہ یہ دوسری بار کی پیدائش اللہ تعالی کے لئے پہلی بار کی پیدائش سے آسان تر ہو گی۔

اس آیت میں تُخْرَجُونَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی تم زمین سے نکال لئے جاؤ گے۔ اور تمہارا یہ نکالا جانا ایک اضطراری عمل ہو گا جس میں تمہاری مرضی کو کچھ عمل دخل نہ ہو گا جیسے تم جب اس دنیا میں آئے یا اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اس میں تمہاری اپنی مرضی کا کچھ عمل دخل نہ تھا اسی طرح تمہارا دوبارہ جی اٹھنا بھی ایک قہری اور اضطراری امر ہو گا۔ اس سلسلہ میں تمہاری رائے نہیں لی جائے گی نہ تمہا را کچھ عمل دخل ہو گا۔
 
Top