• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبوت و رسالت پرویز احمد کی نظر میں "

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
بسم الله الرحمٰن الرحیم
#فتنہ_انکار_حدیث
"نبوت و رسالت
بسم الله الرحمٰن الرحیم
#فتنہ_انکار_حدیث
"نبوت و رسالت پرویز احمد کی نظر میں "

گزشتہ دنوں پرویز احمد کی کتاب "مقام حدیث " دیکھنے میں آئی .پڑھ کر تعجب اس بات کا ہوا کہ دعوی ٰقرآن کا لیکن مطالعہ نہ صرف حدیث بلکہ قرآن کا بھی سرسری ہی لگا ،کتاب میں کئے گئے اعتراضات اس قسم کے سطحی ہیں کہ کوئی بھی عامی جو ذرا سا بھی فہم قران مجید رکھنے والاہو با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ اعتراضات کی بنیاد صرف بغض حدیث ہے نہ کہ کوئی علمی .اہل قرآن کا دعویٰ بظاھر تو قرانی علم و تحقیق پے منحصر ہوتا ہے لیکن حقیقت میں کوئی بھی قران کا علم رکھنے والا بخوبی واقف ہوتا ہے کہ جو اعتراضات حدیث پے اٹھائے جاتے ہیں ،یعنی کبھی ،عقل کی کسوٹی پے رد کرنا کبھی تجربہ کی بنیاد پر،،کبھی مشاہد کو جواز بنا کر اور کبھی ، خود ساختہ ترجمہ کر کے قرآن مجید سے متصادم کر کے اور ان تمام کی بنیاد صرف لاعلمی ،جاہلیت اور قرآن مجید سے استہزاء ہے ، اگر معیار یہ ہی ہیں تو ان معیارات کو قران مجید پر رکھیں تو یہ ہی اعتراضات قرآن مجید پے بھی لازم آتے ہیں ،تو پھر کیا بات ما نع ہے کہ اعتراضات صرف حدیث پے کیوں ؟؟
مذکورہ کتاب میں جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ سارے وہ تمام وہ ہی دہرائے گئے موضوعات یعنی حدیث وحی نہیں ،مرکز ملت ،کتابت حدیث پر اعتراض ،صرف قرآن ہی کافی ہے ،اور حدیث قرآن سے متصادم ہیں وغیرہ ہیں جن پر علمائے اسلام دندان شکن جوابات دے چکے ہیں اور الحمدللہ میں بھی اپنی استطاعت کے مطابق لکھ چکا چکا ہوں ، مگر یہ منکرین حدیث کسی صورت حق کو سمجھنے والے نہیں اور بار بار اپنے اعتراضات دہرا کر ہٹ دھرمی کا بھرپور مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ،الله ان لوگوں کو ہدایت دے -
قطع نظر کتاب کے دیگر اعتراضات کتاب کا "حرف آخر نبوت و رسالت " (فوٹو منسلک) غور طلب ہے، جو در حقیقت خلاصہ کتاب اور منکرین حدیث کے عقیدے کی اساس بھی ہے. اسلئے اس خلاصے کا علمی و عقلی محاسبہ ہی رد کتاب و منکرین کی باطل عقیدے کہ لئے کافی ہے، طوالت کے پیش نذر اس عقیدے کے جوابات کو دو حصوں میں تحریر کیا جائیگا ان شاء الله
ملاحظہ ہو پہلا حصہ :
(1) :
"قران علمی لحاظ سے ایک ایسی کتاب ہے جو وقت کے حساب سے اپنے علم کھولتا رہتا ہے ، اور ہر دور میں چوں کہ علم ترقی کررہا ہے تو کسی شخص کاعلمی فہم قرآن کسی دوسرے کے لئے دائمی نہیں ہوسکتا نہ ہی اپنے دور کے شخص کے لئے اور نہ ہی آنے والے کہ لئے حجت یا سند ہوسکتا ہے "
جواب :
بیشک قرآن مجید تمام علوم کی بنیاد ہے ،یعنی قران مجید علم کا منبع ہے ،ہمارا ایمان یہ ہے کہ اب تک ہونے والی تمام تر انسانی و علمی ترقیاں در حقیقت قران مجید کے علمی فہم سے آشنائی کی ہی بدولت ہیں ، جیسے بیش بہا آیات ایسی ہیں جس میں آج ہونے والی اس تحقیق کا اشارہ ،فہم یا نشانی کو چودہ سو سال پہلے الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمادیا ،
اسی طرح قرآن مجید کی بعض آیات ایسی بھی ہیں جیسے "ساتھ زمینون کا ذکر "وغیرہ جن کو علمی نظر سے دیکھا جائے تو تحقیق کے دروازے کھل سکتے ہی یا یوں کہیں کہ علم نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی کہ انکی تحقیق و تسخیر کا باعث ہو، ہاں ممکنات میں سے ہے کہ وقت اور علمی ترقی کے ساتھ مستقبل قریب میں ایسا ہونا کچھ مافوق العقل نہیں .جسے پچھلے زمانوں سے موازنہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے کچھ عشروں پہلے تک دنیا کہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک آواز،شکل ، اور خود کا نمودار ہونا کسی معجزے سے کم نہیں تھا .لیکن اب ایسا ہونا عام سی بات ہےیعنی ہم چاہے دنیا کہ کسی کونے میں بھی ہوں اپنے گھر والوں ،احباب ،دوستوں سے وہیں بیٹھے بیٹھے نہ صرف بات کرسکتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں براہ راست، اسی طرح انسان کا ہوا میں اڑنانا گزیر تھا لیکن یہ بھی اب کوئی بات نہیں .. یہ ہے وقت کے ساتھ علمی ترقی .اور اس علمی فہم کو کسی پر بھی مسلط اور حجت نہیں بنایا جسکتا .
، اسی طرح کسی کا بھی فہم قرآن چاہے کتنا ہہی علمی کیوں نہ ہو کسی دوسرے کہ لئے ،حجت نہیں ہوسکتا اور نہ اس علمی فہم کو کسی پے مسلط کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ہر دور ہر زمانے کا علمی معیار و علمی سطح الگ ہے ،اور ہر شخص کا فہم اپنی علمیت اور عقل کی مناسبت سے مختلف ہے ،جیسے ایک غیر مسلم سائنس دان اگر قرآن مجید کو پڑھ کر کسی چیز کو مسخر کرتا ہے ،یا کوئی تحقیق کرتا ہے یا کچھ ایجاد کرتا ہے جس کا اشارہ اس نے قرآن مجید سے لیا ہو تو یہ اس شخص کا علمی فہم جو در حقیقت قرآن مجید کا ہی علمی فہم کہلاییگا ،کیا اس کا یہ علمی فہم ہم پر حجت ہوجائیگا ؟؟ کیا اسکو اختیار مل جائیگا کہ وہ دینی احکامات کو بھی متعین کر سکے ؟؟ اگرچہ اسکی اس علمی فہم کو دنیا بھی سراہتی ہو اور تحقیق میں بھی ثابت کیا ہو ؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں ،کیوں کہ اسکا علمی فہم اس کہ اپنے دور کہ لئے تو ہوسکتا ہے مگر وہ بھی کسی دوسرے کہ لئے حجت نہیں اور آنے والوں کہ لئے تو قطعا نہیں ،
کسی انسان کے قرآن کا علمی فہم ہمارے لئے کسی طور حجت نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ بات انسانی عقل تسلیم کرسکتی کہ کسی کی علمی سطح یا معیار کو کسی دوسرے کہ لئے لازم و حرف آخربنا دیا جائے کیوں کہ ہر دور کے لوگ اور علمی معیارات مختلف ہوتے ہیں یہ تو بات تھی قرآن مجید کا علمی فہم جو یقیناً کسی بھی شخص کا مختلف ہوسکتا ہے اور وہ کسی دوسرے کہ لئے حجت بھی نہیں ،لیکن قرآن مجید علم کے منبع ہونے کے ساتھ ساتھ مشعل راہ کل انسانیت بھی ہے اور اس کا ایک دینی فہم بھی یعنی وہ احکامات جو کل انسانیت کی فلاح کا راستہ ہیں اور وہ ہر انسان کی ابدی زندگی یعنی جنت دوزخ کا فیصلہ کریں گے جو ہر دور کے انسانوں کہ لئے یکساں ہیں جس میں کسی بھی دور میں کسی بھی قسم کی رد و بدل و تبدیلی نہیں کی جا سکتی کیوں کہ الله نے فرمادیا اسی قرآن میں کہ "دین مکمل ہوگیا" اب قران مجید کے تمام دینی احکامات پر عمل ہر دور کہ انسانوں کہ لئے لازم و سر چشمہ ہدایت ہے کیوں کہ یہ کتاب کسی دور کہ لئے نہیں بلکہ کل انسانیت کہ لئے تاقیامت نازل کی گئی ہے ،اور اس قرآن مجید میں کسی دور کی تخصیص نہیں اور نہ ہی کسی انسان کو ان احکامات میں رد و بدل کا اختیار دیا سوائے رسول کے ،یہ وہ دینی احکامات ہیں جو کل انسانیت کہ لئےلازم و ملظوم ہیں اور یہ احکامات اتمام قران سے قیامت تک آنے والے ہر انسان کہ لئے فلاح کا پیغام ہیں ،تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ان دینی احکامات و مفہوم کو ہر دور کےایک انسان کے اپنے علمی فہم پے چھوڑ دیا جائے جس پے کل انسانیت کی ابدی بقاء کا انحصار ہوتا ہے اور مختلف ادوار کے حساب سے مختلف کردیا جائے ؟؟؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں دین دین فطرت ہے اسی لئے الله نے اس کا اختیار بھی صرف ایک ہی کو دیا یعنی اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کو تاکہ تاقیامت یہ ایک ہی قانون کی طرح ایک ہی دئیے گئے فہم پے رائج رہے اور یہ بات فطرت کہ تقاضوں کہ عین مطابق بھی ہے اور اسی طرح آج تک چلا آرہا ہے بلا کسی انقطاع و تواتر کے ساتھ بلفرض محال منکرین کا دیا گیا کلیہ اپنایا جائے تو سوچئے ہر کسی انسان کا اپنی عقل کی مناسبّت سے علمی فہم مختلف ہے اسلئے دینی فہم بھی ہر شخص کا فطری طور پے مختلف ہی ہوگا اور زمانے کے بدلاؤ کے ساتھ بدلتا ہی رہیگا تو اس اصول کی مناسبت سے قیامت تک دین اسلام کس شکل میں پوہچ جائیگا ،یعنی دین دین نہیں رہیگا بلکہ ایک مذاق بن کر صرف ادوار کے علمی اشخاص کا محتاج ہوجائیگا ،آج امت صرف فروعات میں الجھی ہے جب کہ فہم رسول پر ایک ہے ،کسی نے بھی فہم رسول کو انکار نہیں کیا اور پھر انسانوں کی جنّت دوزخ اور ابدی بقاء کا معاملہ کیسے کسی غیر رسول جو صاحب وحی تک نہ ہو کے سپرد کیا جسکتا ہے ؟؟؟؟؟یہ بھی محال ہے ،اسی لئے الله نے نہ صرف اس دینی فہم و احکامات کو اسی طرح پوھچانے کا ذمہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جس طرح الله نے بیان بلکہ تا قیامت اسی رسول کی اتباع کو ان احکامات دین کے معاملے ہر مسلم و مومن پر فرض کردیا یعنی جس طرح الله کے رسول نے دیا اسی طرح رائج کرنے کہ بھی حکم دیا الله اور اس کے رسول کی اطاعت کو قرآن مجید میں بیان فرما کر ،اور پھر فرما دیا کہ اگر کبھی کسی دور میں اختلاف دیکھو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اسے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ رسول سے مراد آپ صلی الله علیہ وسلم ہی ہیں کیوں وہاں امراء کا الگ سے ذکر ہے اور رسول کی طرف لوٹانے کا الگ جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول کو ہی اختیار ہے بس ،،اگر رسول سے مراد مرکز ملت ہوتی تو آیت مذکورہ میں خلیفۂ یا امراء کو منفرد نہیں کیا جاتا رسول سے ،، قرآن مجید ایک علم کا سمندر ہے اور عقل والوں کہ لئے نشانیاں بھی ہیں اسلئے علمی فہم جو چاہے لے سکتا ہے .لیکن دینی امور میں تفصیل ،تشریح ،تفسیر صرف اور صرف رسول الله کا اختیار ہے اس میں کوئی ثانی و شریک نہی ہوسکتا ،اسلئے علمی فھم قرآن کو جواز بنا کر ،احکامات و دین کے معاملے میں رسول الله کو حجت و تاقیامت نہ ماننا عقل و شریعت دونوں کے ہی خلاف ہے اسلئے یہ اعتراض علمی فہم قرآن کا جواز ہی کلعدم ہوا یہ ہے منکرین حدیث کی علمیت کی انتہاء، اسی لئے ہم اس خودساختہ جواز کو رد کرتے ہیں جسکی کوئی علمی عقلی دلیل ہی نہیں اور بقول منکرین حدیث اصولی احکامات میں وہ مفہوم قرآن جو رسول الله نے ہمیں دیا یعنی "حدیث رسول " کو من و عن تسلیم کرتے ہیں الحمدللہ .
.خلاصہ یہ کہ علمی باب میں توکسی بھی شخص کا فہم قرآن کسی بھی دور کے دوسرے انسان کے لئے حجت نہیں جیسا اپر ثابت کیا مگر دینی و احکامی باب میں صرف اور صرف رسول الله صلی الہ علیہ وسلم کا ہی فہم ہر دور کے انسان کے لئے ہی حجت حرف آخر و سند ہے الحمدللہ
(2)
،اگر اعتراض یہ کہ مفہوم قرآن(حدیث) امت کو رسول نے مرتب کرکے نہیں دیا تو پھر قرآن مجید بھی اس سے نہیں بچ سکتا کیوں کہ آپ نے قرآن مجید بھی خود مرتب نہیں کیا تھا اور اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کا ذمہ الله کا ہے تو حدیث پے بھی یہ بات ازروئے قرآن مجید "اتباع رسول " لازم آتی ہے ،اور یہ کہا جائے کہ قران یاد کروایا تو احادیث کہ لئے بھی ایسے ثبوت ہیں جس میں باقاعدہ الله کے رسول نے خود کہا لکھو ،آگے پوھچاؤ ،وغیرہ اگر قران مجید تواتر میں پوھچا تو کیا امر معنی ہے کہ حدیث ایسے نہیں پوھنچ سکتی ؟؟؟؟ .یعنی جو اعتراض حدیث پے وہ ہی قرآن مجید پے بھی ہوگا ....اور جو اس سلسلے صحیح الا لسناد ہم تک پوھچا الحمدللہ وہ ہی در حقیقت مفہوم قرآن ہے،
دوسرا اور آخری حصہ اگلی تحریر میں ان شاء الله ،
سیف علی
پرویز احمد کی نظر میں "

گزشتہ دنوں پرویز احمد کی کتاب "مقام حدیث " دیکھنے میں آئی .پڑھ کر تعجب اس بات کا ہوا کہ دعوی ٰقرآن کا لیکن مطالعہ نہ صرف حدیث بلکہ قرآن کا بھی سرسری ہی لگا ،کتاب میں کئے گئے اعتراضات اس قسم کے سطحی ہیں کہ کوئی بھی عامی جو ذرا سا بھی فہم قران مجید رکھنے والاہو با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ اعتراضات کی بنیاد صرف بغض حدیث ہے نہ کہ کوئی علمی .اہل قرآن کا دعویٰ بظاھر تو قرانی علم و تحقیق پے منحصر ہوتا ہے لیکن حقیقت میں کوئی بھی قران کا علم رکھنے والا بخوبی واقف ہوتا ہے کہ جو اعتراضات حدیث پے اٹھائے جاتے ہیں ،یعنی کبھی ،عقل کی کسوٹی پے رد کرنا کبھی تجربہ کی بنیاد پر،،کبھی مشاہد کو جواز بنا کر اور کبھی ، خود ساختہ ترجمہ کر کے قرآن مجید سے متصادم کر کے اور ان تمام کی بنیاد صرف لاعلمی ،جاہلیت اور قرآن مجید سے استہزاء ہے ، اگر معیار یہ ہی ہیں تو ان معیارات کو قران مجید پر رکھیں تو یہ ہی اعتراضات قرآن مجید پے بھی لازم آتے ہیں ،تو پھر کیا بات ما نع ہے کہ اعتراضات صرف حدیث پے کیوں ؟؟
مذکورہ کتاب میں جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ سارے وہ تمام وہ ہی دہرائے گئے موضوعات یعنی حدیث وحی نہیں ،مرکز ملت ،کتابت حدیث پر اعتراض ،صرف قرآن ہی کافی ہے ،اور حدیث قرآن سے متصادم ہیں وغیرہ ہیں جن پر علمائے اسلام دندان شکن جوابات دے چکے ہیں اور الحمدللہ میں بھی اپنی استطاعت کے مطابق لکھ چکا چکا ہوں ، مگر یہ منکرین حدیث کسی صورت حق کو سمجھنے والے نہیں اور بار بار اپنے اعتراضات دہرا کر ہٹ دھرمی کا بھرپور مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ،الله ان لوگوں کو ہدایت دے -
قطع نظر کتاب کے دیگر اعتراضات کتاب کا "حرف آخر نبوت و رسالت " (فوٹو منسلک) غور طلب ہے، جو در حقیقت خلاصہ کتاب اور منکرین حدیث کے عقیدے کی اساس بھی ہے. اسلئے اس خلاصے کا علمی و عقلی محاسبہ ہی رد کتاب و منکرین کی باطل عقیدے کہ لئے کافی ہے، طوالت کے پیش نذر اس عقیدے کے جوابات کو دو حصوں میں تحریر کیا جائیگا ان شاء الله
ملاحظہ ہو پہلا حصہ :
(1) :
"قران علمی لحاظ سے ایک ایسی کتاب ہے جو وقت کے حساب سے اپنے علم کھولتا رہتا ہے ، اور ہر دور میں چوں کہ علم ترقی کررہا ہے تو کسی شخص کاعلمی فہم قرآن کسی دوسرے کے لئے دائمی نہیں ہوسکتا نہ ہی اپنے دور کے شخص کے لئے اور نہ ہی آنے والے کہ لئے حجت یا سند ہوسکتا ہے "
جواب :
بیشک قرآن مجید تمام علوم کی بنیاد ہے ،یعنی قران مجید علم کا منبع ہے ،ہمارا ایمان یہ ہے کہ اب تک ہونے والی تمام تر انسانی و علمی ترقیاں در حقیقت قران مجید کے علمی فہم سے آشنائی کی ہی بدولت ہیں ، جیسے بیش بہا آیات ایسی ہیں جس میں آج ہونے والی اس تحقیق کا اشارہ ،فہم یا نشانی کو چودہ سو سال پہلے الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمادیا ،
اسی طرح قرآن مجید کی بعض آیات ایسی بھی ہیں جیسے "ساتھ زمینون کا ذکر "وغیرہ جن کو علمی نظر سے دیکھا جائے تو تحقیق کے دروازے کھل سکتے ہی یا یوں کہیں کہ علم نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی کہ انکی تحقیق و تسخیر کا باعث ہو، ہاں ممکنات میں سے ہے کہ وقت اور علمی ترقی کے ساتھ مستقبل قریب میں ایسا ہونا کچھ مافوق العقل نہیں .جسے پچھلے زمانوں سے موازنہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے کچھ عشروں پہلے تک دنیا کہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک آواز،شکل ، اور خود کا نمودار ہونا کسی معجزے سے کم نہیں تھا .لیکن اب ایسا ہونا عام سی بات ہےیعنی ہم چاہے دنیا کہ کسی کونے میں بھی ہوں اپنے گھر والوں ،احباب ،دوستوں سے وہیں بیٹھے بیٹھے نہ صرف بات کرسکتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں براہ راست، اسی طرح انسان کا ہوا میں اڑنانا گزیر تھا لیکن یہ بھی اب کوئی بات نہیں .. یہ ہے وقت کے ساتھ علمی ترقی .اور اس علمی فہم کو کسی پر بھی مسلط اور حجت نہیں بنایا جسکتا .
، اسی طرح کسی کا بھی فہم قرآن چاہے کتنا ہہی علمی کیوں نہ ہو کسی دوسرے کہ لئے ،حجت نہیں ہوسکتا اور نہ اس علمی فہم کو کسی پے مسلط کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ہر دور ہر زمانے کا علمی معیار و علمی سطح الگ ہے ،اور ہر شخص کا فہم اپنی علمیت اور عقل کی مناسبت سے مختلف ہے ،جیسے ایک غیر مسلم سائنس دان اگر قرآن مجید کو پڑھ کر کسی چیز کو مسخر کرتا ہے ،یا کوئی تحقیق کرتا ہے یا کچھ ایجاد کرتا ہے جس کا اشارہ اس نے قرآن مجید سے لیا ہو تو یہ اس شخص کا علمی فہم جو در حقیقت قرآن مجید کا ہی علمی فہم کہلاییگا ،کیا اس کا یہ علمی فہم ہم پر حجت ہوجائیگا ؟؟ کیا اسکو اختیار مل جائیگا کہ وہ دینی احکامات کو بھی متعین کر سکے ؟؟ اگرچہ اسکی اس علمی فہم کو دنیا بھی سراہتی ہو اور تحقیق میں بھی ثابت کیا ہو ؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں ،کیوں کہ اسکا علمی فہم اس کہ اپنے دور کہ لئے تو ہوسکتا ہے مگر وہ بھی کسی دوسرے کہ لئے حجت نہیں اور آنے والوں کہ لئے تو قطعا نہیں ،
کسی انسان کے قرآن کا علمی فہم ہمارے لئے کسی طور حجت نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ بات انسانی عقل تسلیم کرسکتی کہ کسی کی علمی سطح یا معیار کو کسی دوسرے کہ لئے لازم و حرف آخربنا دیا جائے کیوں کہ ہر دور کے لوگ اور علمی معیارات مختلف ہوتے ہیں یہ تو بات تھی قرآن مجید کا علمی فہم جو یقیناً کسی بھی شخص کا مختلف ہوسکتا ہے اور وہ کسی دوسرے کہ لئے حجت بھی نہیں ،لیکن قرآن مجید علم کے منبع ہونے کے ساتھ ساتھ مشعل راہ کل انسانیت بھی ہے اور اس کا ایک دینی فہم بھی یعنی وہ احکامات جو کل انسانیت کی فلاح کا راستہ ہیں اور وہ ہر انسان کی ابدی زندگی یعنی جنت دوزخ کا فیصلہ کریں گے جو ہر دور کے انسانوں کہ لئے یکساں ہیں جس میں کسی بھی دور میں کسی بھی قسم کی رد و بدل و تبدیلی نہیں کی جا سکتی کیوں کہ الله نے فرمادیا اسی قرآن میں کہ "دین مکمل ہوگیا" اب قران مجید کے تمام دینی احکامات پر عمل ہر دور کہ انسانوں کہ لئے لازم و سر چشمہ ہدایت ہے کیوں کہ یہ کتاب کسی دور کہ لئے نہیں بلکہ کل انسانیت کہ لئے تاقیامت نازل کی گئی ہے ،اور اس قرآن مجید میں کسی دور کی تخصیص نہیں اور نہ ہی کسی انسان کو ان احکامات میں رد و بدل کا اختیار دیا سوائے رسول کے ،یہ وہ دینی احکامات ہیں جو کل انسانیت کہ لئےلازم و ملظوم ہیں اور یہ احکامات اتمام قران سے قیامت تک آنے والے ہر انسان کہ لئے فلاح کا پیغام ہیں ،تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ان دینی احکامات و مفہوم کو ہر دور کےایک انسان کے اپنے علمی فہم پے چھوڑ دیا جائے جس پے کل انسانیت کی ابدی بقاء کا انحصار ہوتا ہے اور مختلف ادوار کے حساب سے مختلف کردیا جائے ؟؟؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں دین دین فطرت ہے اسی لئے الله نے اس کا اختیار بھی صرف ایک ہی کو دیا یعنی اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کو تاکہ تاقیامت یہ ایک ہی قانون کی طرح ایک ہی دئیے گئے فہم پے رائج رہے اور یہ بات فطرت کہ تقاضوں کہ عین مطابق بھی ہے اور اسی طرح آج تک چلا آرہا ہے بلا کسی انقطاع و تواتر کے ساتھ بلفرض محال منکرین کا دیا گیا کلیہ اپنایا جائے تو سوچئے ہر کسی انسان کا اپنی عقل کی مناسبّت سے علمی فہم مختلف ہے اسلئے دینی فہم بھی ہر شخص کا فطری طور پے مختلف ہی ہوگا اور زمانے کے بدلاؤ کے ساتھ بدلتا ہی رہیگا تو اس اصول کی مناسبت سے قیامت تک دین اسلام کس شکل میں پوہچ جائیگا ،یعنی دین دین نہیں رہیگا بلکہ ایک مذاق بن کر صرف ادوار کے علمی اشخاص کا محتاج ہوجائیگا ،آج امت صرف فروعات میں الجھی ہے جب کہ فہم رسول پر ایک ہے ،کسی نے بھی فہم رسول کو انکار نہیں کیا اور پھر انسانوں کی جنّت دوزخ اور ابدی بقاء کا معاملہ کیسے کسی غیر رسول جو صاحب وحی تک نہ ہو کے سپرد کیا جسکتا ہے ؟؟؟؟؟یہ بھی محال ہے ،اسی لئے الله نے نہ صرف اس دینی فہم و احکامات کو اسی طرح پوھچانے کا ذمہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جس طرح الله نے بیان بلکہ تا قیامت اسی رسول کی اتباع کو ان احکامات دین کے معاملے ہر مسلم و مومن پر فرض کردیا یعنی جس طرح الله کے رسول نے دیا اسی طرح رائج کرنے کہ بھی حکم دیا الله اور اس کے رسول کی اطاعت کو قرآن مجید میں بیان فرما کر ،اور پھر فرما دیا کہ اگر کبھی کسی دور میں اختلاف دیکھو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اسے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ رسول سے مراد آپ صلی الله علیہ وسلم ہی ہیں کیوں وہاں امراء کا الگ سے ذکر ہے اور رسول کی طرف لوٹانے کا الگ جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول کو ہی اختیار ہے بس ،،اگر رسول سے مراد مرکز ملت ہوتی تو آیت مذکورہ میں خلیفۂ یا امراء کو منفرد نہیں کیا جاتا رسول سے ،، قرآن مجید ایک علم کا سمندر ہے اور عقل والوں کہ لئے نشانیاں بھی ہیں اسلئے علمی فہم جو چاہے لے سکتا ہے .لیکن دینی امور میں تفصیل ،تشریح ،تفسیر صرف اور صرف رسول الله کا اختیار ہے اس میں کوئی ثانی و شریک نہی ہوسکتا ،اسلئے علمی فھم قرآن کو جواز بنا کر ،احکامات و دین کے معاملے میں رسول الله کو حجت و تاقیامت نہ ماننا عقل و شریعت دونوں کے ہی خلاف ہے اسلئے یہ اعتراض علمی فہم قرآن کا جواز ہی کلعدم ہوا یہ ہے منکرین حدیث کی علمیت کی انتہاء، اسی لئے ہم اس خودساختہ جواز کو رد کرتے ہیں جسکی کوئی علمی عقلی دلیل ہی نہیں اور بقول منکرین حدیث اصولی احکامات میں وہ مفہوم قرآن جو رسول الله نے ہمیں دیا یعنی "حدیث رسول " کو من و عن تسلیم کرتے ہیں الحمدللہ .
.خلاصہ یہ کہ علمی باب میں توکسی بھی شخص کا فہم قرآن کسی بھی دور کے دوسرے انسان کے لئے حجت نہیں جیسا اپر ثابت کیا مگر دینی و احکامی باب میں صرف اور صرف رسول الله صلی الہ علیہ وسلم کا ہی فہم ہر دور کے انسان کے لئے ہی حجت حرف آخر و سند ہے الحمدللہ
(2)
،اگر اعتراض یہ کہ مفہوم قرآن(حدیث) امت کو رسول نے مرتب کرکے نہیں دیا تو پھر قرآن مجید بھی اس سے نہیں بچ سکتا کیوں کہ آپ نے قرآن مجید بھی خود مرتب نہیں کیا تھا اور اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کا ذمہ الله کا ہے تو حدیث پے بھی یہ بات ازروئے قرآن مجید "اتباع رسول " لازم آتی ہے ،اور یہ کہا جائے کہ قران یاد کروایا تو احادیث کہ لئے بھی ایسے ثبوت ہیں جس میں باقاعدہ الله کے رسول نے خود کہا لکھو ،آگے پوھچاؤ ،وغیرہ اگر قران مجید تواتر میں پوھچا تو کیا امر معنی ہے کہ حدیث ایسے نہیں پوھنچ سکتی ؟؟؟؟ .یعنی جو اعتراض حدیث پے وہ ہی قرآن مجید پے بھی ہوگا ....اور جو اس سلسلے صحیح الا لسناد ہم تک پوھچا الحمدللہ وہ ہی در حقیقت مفہوم قرآن ہے،
دوسرا اور آخری حصہ اگلی تحریر میں ان شاء الله ،
سیف علی
 

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
بسم الله الرحمٰن الرحیم
#فتنہ_انکار_حدیث
"نبوت و رسالت پرویز احمد کی نظر میں "
دوسرا و آخری حصہ :
پچھلی تحریر میں پرویز احمد کی کتاب مقام حدیث کے خلاصہ کا ایک حصہ کا محاسبہ بیان کیا گیا تھا ،اب ملاحظہ ہو آخری حصہ (فوٹو منسلک ):
(2 )"جو احکام اصولی شکل می دیے ہیں انکی تفصیل ہر زمانے کی اسلامی حکومت یعنی خلافت منہج النبوت طے کر سکتی ہے "
جواب :
یعنی مراد یہ ہے کہ قران مجید میں ایسی باتیں جن کی کوئی تفصیل نہیں صرف اصول کے طور پر بیان کئے ہیں انکی تفاصیل خلیفۂ وقت جیسے چاہے کرسکتا ہے ،
جیسے قرآن مجید میں ،نماز،کا کئی جگہ ذکر ہے مگر اس کی کہیں کوئی تفصیل نہیں کہ کیسے ادا کی جائے ،یعنی یہ حکم اصولی ہوا،
اگر ایسا ہے تو ہر آنے والا نیا خلیفۂ وقت جیسا چاہے ویسا مقرر کردے ، یعنی آج خود ساختہ مذاہب نے ان کو پہلے ہی ٣ طریقوں میں بانٹ دیا ہے تو اس اصول کے بعد ہر حکومت میں الگ طریقہ اور کچھ عشروں میں یہ تعداد ٣ سے ٣٠ اور کچھ صدیوں میں ٤٠٠ تک پوھنچ جائیگی اور وقت و حکومت کی تبدیلی کے ساتھ طریقہ ہزاروں میں.......
خوب ہی اصول ہے ،اصول نہ ہوا مذاق ہوگیا ،کیا متشرققیں کو دعوت عام نہیں آؤ اور کھل کر مذاق بناؤ اس حکم پے جو ہمارے قرآن میں باربار ذکر تو ہے مگر طریقہ اپنی مرضی کا ..کیا یہ اصول فطرت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہوا نظر آتا ہے ؟؟؟؟ مزید برآں
قران مجید کی یہ آیت کی منشاء کہاں کے لئے ہوگی ،
ملاحظہ ہو :
"" نمازوں کی حفاظت کرو اور خاص کر بیچ والی نماز کی اور الله تعالیٰ کے سامنے ادب سے کھڑے رہو – اگر تمہیں دشمن کا خوف ہو تو پیدل بھی اور سواری پر بھی نماز ادا کرسکتے ہو – لیکن جب امن ہو جائے تو پھر الله کو اسی طرح یاد کرو جس طرح تمہیں الله نے سکھایا ہے – جس کو تم نہیں جانتے تھے "(بقرہ – ٢٣٨ ،٢٣٩ )
الله تعالیٰ فرمارہا ہے کہ "جس طرح تمہیں الله نے سکھایا" آپ کا دعویٰ بھی قران کا ہی ہے ،تو کیا ہم اسے یہ مراد لیں کے طریقہ بھی ہردور کے خلیفۂ وقت کو سکھا دیا گیا ہے بزریعہ وحی ؟؟؟؟کیا یہ تسلیم ہے ؟؟
اگر نہیں تو یقیناً طریقہ صرف ازروئے قران مجید آیت بالا کی رو سے وہ ہی نافذ ہوسکتا ہے جو پہلے سے سکھایا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ طریقہ صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ہی الله نے سکھایا اسلئے عقل و شریعت دونو کا ہی تقاضہ یہ ہے کہ طریقہ صرف وہ ہی نافذ کیا جائیگا جو الله نے اپنے رسول کو اور رسول الله نے امت کو بتایا یہ آیت نہ صرف صریح رد ہے مرکز ملت کی بلکہ ایک قرانی د لیل کہ احکامات اصولی صرف وہ ہی قابل قبول ہونگے جو رسول الله نے ہمیں دئیے ہیں .
اسی طرح قرآن مجید میں حج کا ذکر تو ہے مگر تفصیل نہیں ،جیسے
"حج کے چند مہینے معلوم ہیں "(البقرہ -١٩٧ )
کیا کہیں کوئی اس مہینے کی تفصیل موجود ہے قرآن مجید میں ؟؟؟؟
نہیں کہیں بھی قرآن میں اس کی کوئی تفصیل نہیں یعنی یہ معاملہ بھی اصولی ہوا ،یعنی آج تک حج جس مہینے چلا آرہا ہے اب اگر کوئی نیا خلیفۂ آئے تو اپنے مفہوم قرآن سے اس مہینے کو تبدیل کرسکتاہے بقول پرویز احمد کہ کسی دور کا فہم قرآن کسی آنے والے کہ لئے حجت نہیں اور مرکز ملت تفصیل کا اختیار بھی رکھتا ہے تو کیا یہ قبول ہے ؟؟؟،اگر یہ بات قبول نہیں جو یقیناً عقلا و شرعا محال ہے تو پھر اصولی احکام کا مفھوم وہ ہی تسلیم کیا جائیگا جو خود صاحب قرآن یعنی رسول نے سمجھا اورامت کو دیا اور وہ ہی حجت ہوا یعنی "حدیث" ،
اسی طرح ایک مثال اور لیجئے :
"الله کے لئے حج اور عمرہ کرو "(البقرہ -)
معلوم نہیں حج کیا چیز ہے ؟عمرہ کیا ہے ؟دونو میں کیا فرق ہے ؟ یعنی یہ بھی تفصیل کا محتاج اور وہ بھی خلیفۂ وقت کی ..مگر رحمت العالمین کی قبول نہیں کی جائیگی ،افسوس.
اور اگر یہ کام مرکز ملت کے سپرد کردیا جائے تو مختلف ادوار میں ،بلکہ ایک ہی زمانہ کہ مختلف مراکز میں حج کہ مختلف مہینے ہوں گے ،
کتنی مضحکہ خیز سوچ ہے کہ جس نبی پے کتاب کا نزول ہوا اسکا مفھوم رد کرکے محدود کردیا جائے، اور آپ کی جگہ آپ کا کوئی بھی امتی مرکز ملت بن کر آجائے اور اسکا مفہوم قرآن تسلیم کرلیا جائے یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی عظمت و عصمت اور قران مجید کے بھی خلاف ہے,
اس وضاحت ثابت سے ہوتا ہے کہ قرآن میں جو کچھ دیا گیا ہے چاہے آپ اسکو اصولی کہیں یا متعین شکل میں نفاذ صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بتائے مفہوم قرآن و طریقے پے ہی ہوسکتا ہےکیوں کہ قرآن میں الله کا ہی حکم ہے "دین کو مکمل کردیا" اس آیت میں اصولی اور متعین کی تخصیص نہیں .
اور اگر بالفرض محال اصولی و متعین کی تخصیص کر بھی دی جائے تب بھی در حقیقت الله کی منشاء ان آیات پے عمل کی ہے کہ "الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو"یعنی اصولی میں بھی حکمت ہے تاکے متعین شکل میں احکام الله کی اطاعت اور اصولی شکل میں رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم پورا ہوسکے ،
پھر لکھتے ہیں کہ:
(3)" جب تک اسلامی حکومت قائم نہیں ہوجائے جو جس طرح رائج ہے اسی طرح رہے ،اسی طرح اپنے مسلک پے کربند رہے ،اور احکامات کچھ بھی تبدیل نہ کرے کیوں کہ اختیار تبدیلی صرف اسلامی حکومت کے امیر یعنی مرکز ملت کو ہے جب وہ آئیگا تو جیسے چاہے جزئیات طے کرسکتا ،
جواب
یہ بھی کیا خوب رہی کہ اسلامی حکومت کا انتظار کرو جب تک قائم نہ ہو جسے چاہو زندگی گزارو ،اور اگر زندگی میں اسلامی حکومت نہ دیکھ سکو تو جان چھوٹی کہ الله اسلامی حکومت نہیں تھی اسلئے خود ہی ان احکام کو سمجھا جو تونے متعین شکل میں دئیے تھے ان پے عمل پیرا بھی رہا ،اور جو احکام تو نے اصولی شکل میں دیے تھے ،یعنی نماز ،حج وغیرہ تو کسی اسلامی حکومت کے نہ ہونے کی وجہ سے عمل نہیں کیا اور رسول الله تو صرف اس وقت تک تھے ،ان کی دی ہو تفاصیل بھی اس دور کہ لئے تھیں میرے لئے وہ کیسے حجت ہوسکتی تھیں ... اسلئے غلطی تو ....معا ز الله .....
(4)جزئیات کو مرکز ملت طے کرسکتا ہے ،اس کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے ،
کتنی مضحکہ خیز سوچ ہے کہ رسالت کا منصب مرکز ملت کے منصب سے کم درجے کا حامل ہے،جبکہ یہ بھی عقلا و شرعا محال ہے ، کیوں کہ تفسیر ،تشریح و مفھوم کا تعلق منصب رسالت سے ہے نہ کہ منصب مرکز ملت سے ، اگر بالفرض محال ایسا ہو بھی جائے تب بھی منکرین کہ لئے قرآن مجید کہ علاوہ ایک دوسری چیز حجت ہوئی ،تو کیا امرمانع ہے کہ مرکز ملت کی تفصیل حجت ہوسکتی ہے تو مرکز اولین یعنی رسول الله کے مفہوم کا حجت ہونا کیوں نہیں ؟ جبکہ یہ زیادہ قرین عقل بھی ہے ،
آخر میں موصوف نے حضرت ابوبکر کو اگلا مرکز ملت مانا ،یعنی حضرت ابوبکر کو خلافت منہج النبوت کا مرکز ملت کہہ کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی دائمی اطاعت کی حجت کاانکار کیا ،
.اس آخری بات پے ایک سوال
کیا حضرت ابو بکر ،یا اب تک آنے والے تمام خلافت منہج النبوت کے مرکز ملتوں نے کہیں کوئی تبدیلی کی ؟؟؟کیا جزئیات مقرر کئے ؟کوئی ایسا کام جو رسول الله کہ مفہوم سے ہٹ کر ہو ؟؟؟؟؟؟کیا منکرین حدیث کوئی ایک ایسی دلیل تاریخ سے پیش کر سکتے ہیں ؟؟؟؟
نہیں ہرگز نہیں کسی اسلامی حکومت نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا خود پرویز نے جس کی مثال دی یعنی حضرت ابوبکر آپ نے بھی اسی طرح اسی نظام کو چلایا ،یہاں تک کہ جزئیات کے منکرین سے قتال تک کیا اور فرمایا کہ جو کام الله کے رسول کے زمانے میں ہوتا تھا اسمیں سے کچھ بھی نہیں تبدیل کرسکتا ،یہ ہی نہیں بلکہ آنے والے تمام امراء اسلامی حکومت کا اس پے تواتر رہا جو حدیث کے حجت شریعہ ہونے کی صریح دلیل ہے –
فیصلہ کن جواب :
الله فرماتا ہے ،
"اس چیز کا اتباع کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمہاری طرف سے نازل (وحی )کی گئی ہے اور اس کے علاوہ ولیوں کی اتباع مت کرو "(الاعراف – ٣ )
رسول صاحب وحی ہوتا ہے ،اس بات سے کسی کو انکار نہیں ،مرکز ملت کی تفصیل و تشریحات قبول کرنے والے ،مرکز ملت کو اصولی احکام کا اختیار دینے والے ،مرکز ملت کو حجت اور اتھارٹی کہنے والے اس آیت کے بارے میں کیا کہیں گے کہ جس میں الله نے فرمادیا کہ اتباع صرف اس کی جس پے وحی کی گئی ہو ،کیا کوئی مرکز ملت ایسا ہے جس پے وحی آئ ہو ؟؟یا ان کی تفصیل بزریعہ وحی ہوئی ؟؟؟اگر وہ یہ کہیں کہ وحی ہوتی ہے تو گویا ہر مرکز ملت ،یعنی خلفہ صاحب وحی ہوا ،اور یہ باطل ہے ،اور اگر کہ وحی نہیں ہوتی تو پھر آیت کی رو سے اس کا اتباع حرام ہوا ،اور حرام کو حلال سمجھنا بلکہ اسکی تفصیل کو اس دور کے لئے لازم سمجھنا کفر کے سواء کچھ نہیں ،لہٰذا قرآن مجید کے اصولی احکام ،اس کی تشریح ،تفصیل کا وحی ہونا بھی ضروری ہے ،جیسا کہ آیات میں ہے اور رسول ہی صاحب وحی ہوتا ہے اور ہمارااسلئے ثابت ہوا کہ احکامت اصولی ، مفہوم قرآن،تشریح ،تفسیر صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہی حجت ہوگی..
اعتراض کرنے والے آج کی پیداوار اسی طرح رسواء ہوتے رہیں گے ان شاء الله
سیف علی

https://plus.google.com/113185394251954963301/posts/A64Ekysr9Yp
 
Top