• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبوت کی فلسفیانہ تشریح

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نبوت کی فلسفیانہ تشریح


تو جب ابن سینا جیسے متاخرین فلاسفہ نے نبوت کو اپنےفاسد اصول کے مطابق ثابت کرنا چاہا تو یہ خیال کیا کہ نبوت کے تین خصائص ہیں، جوشخص ان تین خصائص سے متصف ہوگا۔ وہ نبی ہوگا۔ایک یہ کہ اس میں قوت علمی ہو، جسےوہ قوت قدسی کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے سے وہ بغیر سیکھے، علم حاصل کر سکے۔دوسرے اسمیں قوت تخییلی ہو کہ جو کچھ وہ اپنے دل میں سمجھے اس کو تخیل کے قالب میں اس طرح ڈھالے کہ اس کو اپنے دل میں اس طریق پرصورتیں نظر آئیں اور آوازیں سنائی دیں جیسےکوئی خواب کی حالت میں دیکھتا اور سنتا ہے حالانکہ اس کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہی صورتیں اللہ کے فرشتے ہیں اور یہ آوازیں اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ تیسرے یہ کہ اس شخص میں قوت فعالہ ہو۔ جس سے وہ ہیولیٰ عالم میں تاثیر پیدا کرے۔ یہ لوگ انبیاءعلیہم السلام کے معجزات، اولیاء کی کرامات اور جادوگروں کے خرقِ عادات کو نفسانی قوتوں کا اثر قرار دیتے ہیں اور ان میں سے جو کچھ ان کے اصول کے موافق ہو، اس کا اقرار کر لیتے ہیں مثلاً عصائے موسوی کا اژدھا بنجانا، بخلاف چاندکے دو نیم ہوجانے اور اسی قسم کے دیگر معجزات کے کہ وہ ان کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کے متعلق ہم کئی جگہ پر تفصیل کے ساتھ کلام کرچکے ہیں اور بیان کرچکے ہیں کہ ان کا یہ کلام فاسد ترین کلام ہے اور جو خصائص ان لوگوں نے نبوت کے لیے قرار دئیے ہیں۔ اس سے بڑے خصائص عام لوگوں کو اور انبیاء کے کمترین پیروئوں کو بھی حاصل ہو سکتے ہیں اور جن فرشتوں کے متعلق انبیاء نے خبر دی ہے۔ وہ زندہ ہیں۔ باتیں کرتے ہیں اللہ کی مخلوقات میں عظیم ترین ہیں اور کثیرالتعداد ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے:
وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَرَبِّکَ اِلَّا ہُوَ ۔المدثر: ۷۴؍۳۱)
’’اور تیرے پروردگارکی فوجوں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘
وہ صرف دس نہیں ہیں اور نہ اعراض ہیں۔خاص طور پر ان لوگوں کا یہ دعویٰ تو بالکل باطل ہے کہ صادرِ اوّل، عقلِ اوّل ہے اور اسی سے وہ سب کچھ نکلا ہے جو کہ اس کے سوا ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک یہی عقل اوّل اللہ کے سوا سب کی پروردگار ہے۔ اسی طرح ہر ایک عقل اپنے ماتحت کی پروردگار ہے اور دسویں عقل فعال ان سب چیزوں کی پروردگار ہے جو کہ چاند والے آسمان کے نیچے ہیں۔ ان سب باتوں کی خرابیاں عیاں ہے اور رسولوں کے لائے ہوئے دینِ حق سے ان عقائد کا بُعد وانحراف کھلی ہوئی حقیقت ہے۔ حقیقت میں کوئی فرشتہ بھی اللہ کے ماسوا پیدا کرنے والانہیں ہے۔ یہ لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اس عقل اول اور اس کا ذکر اس حدیث میں ہے:
اِنَّ اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللہُ الْعَقْلُ فَقَالَ لَہاَقْبِلْ فَاَقْبَلَ فَقَالَ لَہ اَدْبِرْ فَاَدْبَرَ فَقَالَ وَعِزَّتِیْ مَاخَلَقْتُ خَلْقًا اَکْرَمَ عَلَیَّ مِنْکَ فَبِکَ اٰخُذُ وَبِکَ اُعْطِیْ وَلَکَالثَّوَابُ وَعَلَیْکَ الْعِقَاب۔ (موضوعات لابنالجوزی۔)
’’ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا اور اسسے فرمایا کہ سامنے آ تو وہ سامنے آگئی تو پھر اس سے فرمایا کہ پیچھے جا تو پیچھےچلی گئی تو اس پر فرمایا مجھے اپنی عزت کی قسم ہے کہ تو مجھے اپنی تمام مخلوقات سےزیادہ عزیز ہے۔ تیری وجہ سے مواخذہ کروں گا اور تیری وجہ سے عطا کروں گا، تیرے لئے ثواب ہے اور تمہیں پر عذاب۔‘‘
اس عقل کو قلم بھی کہتے ہیں کیونکہ ایک روایت یہ بھی ہے:
اِنَّ اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللہُ الْقَلَمُ۔
’’سب سے اول اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیداکیا۔‘‘
(ابوداؤد کتاب السنۃ باب القدر رقم: ۴۷۰۰، ترمذی کتاب القدر باب اعظامامرالایمان رقم: ۲۱۵۵، مسند احمد ج ۵، ص ۳۱۷۔)یہ ترمذی کی روایت ہے۔ اور عقل کےمتعلق ان کی ذکر کردہ حدیث پہچان رکھنے والوں کے نزدیک موضوع ہے جیسا کہ ابو حاتم بستی، ابوالحسن دارقطنی اور ابن جوزی وغیرہ نے ذکر کیا ہے اور یہ حدیث کی کسی معتبرکتاب میں موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر یہ حدیث ثابت بھی ہوجاتی جب بھی اس کےالفاظ خود انہی کے خلاف دلیل ہیں کیونکہ اس کے الفاظ یہ ہیں:
اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ الْعَقْلَ قَالَ لَہ اور یوں بھی روایت کیا ہے۔لَمَّا خَلَقَاللہُ الْعَقْلَ قَالَ لَہپس حدیث کا معنی یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کرنے کی ابتدائی ساعات ہی میں اس سے خطاب فرمایا۔ اس حدیث کےیہ معنی نہیں ہیں کہ عقل سب سے پہلی مخلوق ہے۔ لفظ اول ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ جیسا کہ روایت ِ ثانیہ کا لفظ لمّا ہے اور پوری حدیث پر غور کیا جائے تو معنی اور بھی واضح ہو جاتے ہیں۔
مَا خَلَقْتُ خَلْقًا اَکْرَمَ عَلَیَّ مِنْکَ۔
’’میں نے کوئی ایسی چیز پیدا نہیں کی جو مجھے تجھ سےزیادہ عزیز ہو۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بھی کچھ چیزیں پیدا کی تھیں، پھر فرمایا:
فَبِکَ اٰخُدُ وَبِکَاُعْطِیْ وَلَکَ الثَّوَابُ وَعَلَیْکَ الْعِقَابُ
’’تیری بنیاد پرمواخذہ کروں گا اور تیری وجہ سے عطا کروں گا، تیرے لئے ہی ثواب ہے اور تمہیں پر عذاب ہے‘‘۔
تو یہاں اعراض کے چار انواع بیان کیے حالانکہ ان فلسفیوں کی یہ رائےہے کہ عالمِ علوی و عالمِ سفلی کے تمام جواہر عقل سے صادر ہوئے ہیں، تو ان کا باہمی ربط کیا ہوا؟

ببیں تفاوت راہ از کجا است تابہ کُجا!

الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 
Top