محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَلَا يَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰۗىِٕكَۃَ وَالنَّبِيّٖنَ اَرْبَابًا۰ۭ اَيَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۸۰ۧ وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَۃٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ۰ۭ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ۰ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا۰ۭ قَالَ فَاشْہَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰہِدِيْنَ۸۱
وہ جو مقصود حاصل ہے ، وہ حضورﷺ کی ذات بالشمائل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام سابقہ کتابوں میں اس محبوب اصل کے خدوخال کا ذکر پایا جاتا ہے ۔ کہیں اسے ''سرخ وسفید'' کہا گیا ہے ۔ کہیں '' فارقلیط'' کے لفظ سے تعبیر کیا گیا۔ کہیں ''آتشیں شریعت کا پیش کرنے والا'' کہا گیا۔ کہیں صاف صاف '' محمد یم'' کہہ کر ہرشبہ کو اڑادیاگیا اور ہرپردہ کو چاک کر دیامگر باوجود اس وضاحت اور صراحت کے بعض طبیعتیں ایسی ہیں جو بجز انکار اور سرکشی کے کسی چیز پر قانع نہیں ہوتیں۔ فرمایا۔ وہ لو گ جو آفتاب عقل کی درخشانی کے بعد بھی آپﷺ کو ماننے میں متامل ہیں، ان سے زیادہ بدقسمت اورفاسق کون ہے ؟
اورلائق نہیں ہے کہ تمھیں کہے کہ تم فرشتوں کو اور نبیوں کو رب بنالو۔ کیا وہ تمھیں کفرسکھائے گا بعد اس کے کہ تم مسلمان ہوچکے۔(۸۰) اورجب خدانے سب نبیوں سے اقرار لیا کہ جو کچھ میں تم کو کتاب اورحکمت سے دوں۔پھر تمھارے پاس رسول آئے اورتمھاری کتابوں کی تصدیق کرے۔ ضرور اس پر ایمان لائیو اور اس کی مدد بھی ضرور کیجیو۔ فرمایا کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور اس شرط پرمیرا بھاری عہد لیتے ہو؟ سب بولے کہ ہم اقرار کرتے ہیں۔ خدا نے کہا تو تم گواہ رہو اور میں ۱؎ بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں۔(۸۱)
۱؎ تمام نبیوں کا دائرۂ تبلیغ عام انسانوں تک ہے اور وہ صرف اس حدتک مکلف ہیں کہ وظیفۂ رشدوہدایت کو مفروضہ قوم کے لیے جاری رکھیں۔ یعنی سب کے مخاطب عام انسان ہیں جن کو ان پر ایمان لانا ضروری ہے مگر پیغمبر کون، خواجۂ عالم وعالمیان ﷺکی نبوت عام انسانوں سے گزر کر انبیاء علیہم لسلام کے لیے بھی ضروری ہے ۔ اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ جب انبیاء کو عالم برزخ میں پیدا کیا گیا تو ان سے کہا گیا کہ باوجود اس کتاب وحکمت کے جو تمھیں دی گئی ہے ، تم پر لازم ہے کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام منصہ شہود پر آئیں تو ان پر ایمان لاؤ اور ان کی نصرت میں اقدام کرو۔ سب نے کہا۔ منظور ہے اور ہم اس حقیقت نیرہ کے شاہد وگواہ ہیں۔ گویا آپ ﷺکی نبوت کے لیے سب سے عہد لیا گیا اور سب نے مل کر آپﷺ کی نبوت کو مانا جس کے معنی یہ ہیں کہ آپﷺ پیغمبروں کے پیغمبر اور نبیوں کے نبی ﷺہیں اور آپ ﷺکا پیغام تمام صداقتوں کا حامل اور آپﷺ کی نبوت تمام انبیاء کی مصدقہ ہے ۔بات یہ ہے کہ آپ ﷺسے پہلے جس قدر انجم فلک کائنات پر جلوہ گرہوئے،وہ آپﷺ کی آمد کا اعلان تھے اور اس کتاب ہدیٰ کا مقدمہ یاد یباچہ تھے جو حضرت انسان کوعنایت ہونے والی تھی۔ جس طرح سپیدئہ سحری صبح جان نواز کا پیش خیمہ ہوتی ہے ، اسی طرح سابقہ نبوتیں، پہلے پیغام، سب اس نبی اکبرﷺاورخاتم پیغمبران کی تمہید سمجھیے یاسرنامۂ خط۔نبیوں کا نبیﷺ
وہ جو مقصود حاصل ہے ، وہ حضورﷺ کی ذات بالشمائل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام سابقہ کتابوں میں اس محبوب اصل کے خدوخال کا ذکر پایا جاتا ہے ۔ کہیں اسے ''سرخ وسفید'' کہا گیا ہے ۔ کہیں '' فارقلیط'' کے لفظ سے تعبیر کیا گیا۔ کہیں ''آتشیں شریعت کا پیش کرنے والا'' کہا گیا۔ کہیں صاف صاف '' محمد یم'' کہہ کر ہرشبہ کو اڑادیاگیا اور ہرپردہ کو چاک کر دیامگر باوجود اس وضاحت اور صراحت کے بعض طبیعتیں ایسی ہیں جو بجز انکار اور سرکشی کے کسی چیز پر قانع نہیں ہوتیں۔ فرمایا۔ وہ لو گ جو آفتاب عقل کی درخشانی کے بعد بھی آپﷺ کو ماننے میں متامل ہیں، ان سے زیادہ بدقسمت اورفاسق کون ہے ؟
{اَقْرَرْتُمْ}مصدر اقرار بمعنی ماننا۔ اعتراف کرنا اور قبول کرلینا{ اِصْرٌ} عہد ۔قول۔حل لغات