اویس تبسم
رکن
- شمولیت
- جنوری 27، 2015
- پیغامات
- 382
- ری ایکشن اسکور
- 137
- پوائنٹ
- 94
عثمان شحام کہتے ہیں کہ میں ایک اندھے آدمی کو لے کر عکرمہ کے پاس گیا تو وہ ہم سے بیان کرنے لگے کہ مجھ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک نابینا آدمی تھا، اس کی ایک ام ولد (لونڈی) تھی، اس سے اس کے دو بیٹے تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت برا بھلا کہتی تھی، وہ اسے ڈانٹتا تھا مگر وہ مانتی نہیں تھی، وہ اسے روکتا تھا مگر وہ باز نہ آتی تھی (نابینا کا بیان ہے) ایک رات کی بات ہے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو اس نے آپ کو برا بھلا کہا، مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے خنجر لیا اور اس کے پیٹ پر رکھ کر اسے زور سے دبایا اور اسے مار ڈالا، وہ مر گئی، اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: ”میں قسم دیتا ہوں اس کو جس پر میرا حق ہے! جس نے یہ کیا ہے وہ اٹھ کھڑا ہو“، تو وہ نابینا گرتا پڑتا آیا اور بولا: اللہ کے رسول! یہ میرا کام ہے، وہ میری ام ولد (لونڈی) تھی، وہ مجھ پر مہربان اور رفیق تھی، میرے اس سے موتیوں جیسے دو بیٹے ہیں، لیکن وہ آپ کو اکثر برا بھلا کہتی تھی اور آپ کو گالیاں دیتی تھی، میں اسے روکتا تھا تو وہ باز نہیں آتی تھی، میں اسے ڈانٹتا تھا تو وہ اثر نہ لیتی تھی، کل رات کی بات ہے میں نے آپ کا تذکرہ کیا تو اس نے آپ کو برا بھلا کہا، میں نے خنجر لیا اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! تم لوگ گواہ رہو اس کا خون رائیگاں ہے
سنن ابی داود/الحدود ۲ (۴۳۶۱)، (تحفة الأشراف: ۶۱۵۵) (صحیح الإسناد)
یعنی اس کے خون کا قصاص یا خون بہا (دیت) نہیں ہے، معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینا، آپ پر طعن و تشنیع کرنا اور اس سے باز نہ آنے کی واجبی سزا قتل ہے اور آپ کو گالیاں دینے اور سب و شتم کرنے والا خواہ ذمی ہی کیوں نہ ہو قتل کیا جائے گا، اور یہ واضح رہے کہ یہ عمل صرف اسلامی حکومت اپنی حکومت ہی میں نافذ کر سکتی ہے کیونکہ اس کا تعلق حدود سے ہے جس کے لیے اسلامی حکومت اور حکمرانی کا ہونا ضروری ہے۔
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سخت کلامی کی تو میں نے کہا کہ کیا میں اسے قتل کر دوں؟ تو آپ نے مجھے جھڑکا اور کہا: یہ مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا نہیں ہے
سنن ابی داود/الحدود ۲ (۴۳۶۳)، (تحفة الأشراف: ۶۶۲۱)، مسند احمد (۱/۹، ۱۰)، ویأتي فیما یلي: ۴۰۷۷- ۴۰۸۲ (صحیح)
صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے اور سب و شتم پر کسی کو قتل کیا جائے گا، آپ کے سوا کسی شخص کا یہ مرتبہ و مقام نہیں کہ اس کو سب و شتم کرنے والے کو قتل کی سزا دی جائے، ہاں تعزیر کی جا سکتی ہے، جو معاملہ کی نوعیت اور قاضی (جج) کی رائے پر منحصر ہے۔
سنن ابی داود/الحدود ۲ (۴۳۶۱)، (تحفة الأشراف: ۶۱۵۵) (صحیح الإسناد)
یعنی اس کے خون کا قصاص یا خون بہا (دیت) نہیں ہے، معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینا، آپ پر طعن و تشنیع کرنا اور اس سے باز نہ آنے کی واجبی سزا قتل ہے اور آپ کو گالیاں دینے اور سب و شتم کرنے والا خواہ ذمی ہی کیوں نہ ہو قتل کیا جائے گا، اور یہ واضح رہے کہ یہ عمل صرف اسلامی حکومت اپنی حکومت ہی میں نافذ کر سکتی ہے کیونکہ اس کا تعلق حدود سے ہے جس کے لیے اسلامی حکومت اور حکمرانی کا ہونا ضروری ہے۔
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سخت کلامی کی تو میں نے کہا کہ کیا میں اسے قتل کر دوں؟ تو آپ نے مجھے جھڑکا اور کہا: یہ مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا نہیں ہے
سنن ابی داود/الحدود ۲ (۴۳۶۳)، (تحفة الأشراف: ۶۶۲۱)، مسند احمد (۱/۹، ۱۰)، ویأتي فیما یلي: ۴۰۷۷- ۴۰۸۲ (صحیح)
صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے اور سب و شتم پر کسی کو قتل کیا جائے گا، آپ کے سوا کسی شخص کا یہ مرتبہ و مقام نہیں کہ اس کو سب و شتم کرنے والے کو قتل کی سزا دی جائے، ہاں تعزیر کی جا سکتی ہے، جو معاملہ کی نوعیت اور قاضی (جج) کی رائے پر منحصر ہے۔