طارق جمیل صاحب کے بیان کردہ اس واقعے کی حقیقت کیا ہے؟
مولوی صاحب بھیڑیوں کی بیان تفصیل تو وہی جانیں، البتہ میرے علم کے مطابق، اصل قصہ اور روایت درج ذیل ہے :
أخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الأعمش، عن شمر بن عطية، عن رجل من مزينة، أو جهينة، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الفجر فإذا هو بقريب من مائة ذئب قد أقعين وفود الذئاب، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ترضخون لهم شيئا من طعامكم وتأمنون على ما سوى ذلك؟» فشكوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الحاجة قال: «فآذنوهن» قال: فآذنوهن فخرجن ولهن عواء
سنن الدارمي 22[تعليق المحقق] رجاله ثقات
شمر بن عطیہ، مزینہ یا جہینہ کے ایک آدمی سے روایت بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نمازِ فجر ادا فرمائی۔ اچانک تقریباً ایک سو بھیڑئیے پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر اور اگلی ٹانگوں کو اٹھائے ہوئے اپنی سرینوں پر بیٹھے ہوئے (باقی) بھیڑیوں کی طرف سے وفد بن کر بیٹھے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (اے گروہ صحابہ!) تم اپنے کھانے پینے کی اشیاء میں سے تھوڑا بہت ان کا حصہ بھی نکالا کرو اور باقی ماندہ کھانے کو (ان بھیڑیوں سے) محفوظ کر لیا کرو۔ تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اپنی حاجت کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: انہیں اجازت دو۔ راوی بیان کرتے ہیں انہوں نے ان (بھیڑیوں) کو اجازت دی پھر وہ تھوڑی دیر بعد اپنی مخصوص آواز نکالتے ہوئے چل دیے۔
أخرجه الدارمي في السنن، 1 /25، الرقم: 22، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4: 376.والبدایہ والنہایہ )