• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی ﷺ کا عبداللہ بن ابی (منافق )کا جنازہ پڑھنا اور مصنف کا قرآن پر جھوٹ

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

اعتراض نمبر26:۔
مصنف نے اپنی کتاب قرآن مقدس۔۔۔۔ص72-73 میں صحیح بخاری کی حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اسے قرآن کے متصادم ٹہرانے کی کوشش کی ہے اور وہ لکھتا ہے :
۔۔۔۔۔دسویں رکوع میں آیت ہے ’’استغفرلھم اولاتستغفرلھم‘‘اور آیت لاتصل علی احد منھم مات ابدا‘‘۔۔۔۔۔یہ آیت بطور پیش بندی اللہ تعالیٰ نے اتار کر یہ سبق دیا تاکہ آپ ﷺ کسی منافق کافر کے لئے کوئی سفارش یا استغفار نہ کریں اسی لئے آپ ﷺنے ابی ابن سلول کا جنازہ بھی نہ پڑھا اور نہ اس کے لئے استغفار کیا ۔۔۔۔لیکن بخاری صاحب نبی ﷺ پر صریح جھوٹ پر مبنی روایت لاتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ابن سلول کا جنازہ پڑھا تب یہ آیت نازل ہوئیں اور دوسرا جھوٹ راویوں کا یہ مان لیا کہ آپ ﷺکو استغفار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اس لئے اس کا جنازہ آپ ﷺ نے پڑھایا ۔ان الفاظ کے بعد مصنف نے اپنی عادت قبیحہ کے مطابق انتہائی غیر اخلاقی الفاظ کا اعادہ کیا ۔

جواب :۔قارئین کرام بڑی عجیب بات ہے نبی کریم ﷺ جو صاحب وحی تھے کو نعوذباللہ قرآن سمجھ میں نہ آیا لیکن مصنف کو بہترین انداز میں قرآن سمجھ میں آگیا ۔جس ذات کو اللہ تعالیٰ نے مفسر اورمعلم قرآن بنایا وہ مصنف کی نگاہ میں قبول نہیں کیا عجیب انصاف ہے ؟مصنف نے نہ صرف حدیث بلکہ قرآن کریم پر بھی الزامات عائد کئے ہیں مصنف لکھتا ہے کہ ابی ابن سلول کا جنازہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ نے روکا تھا پھر بھی نبی کریم ﷺ نے جنازہ پڑھا۔

مصنف کا یہ کہنا قرآن کریم پر افتراء ہے بلکہ قرآن کریم میں ہے :
’’ إِن تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ ۔۔۔۔۔‘‘ (التوبۃ 80/9)
’’اگر آپ ان (منافقوں )کیلئے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے اللہ ان کو معاف نہیں کر ے گا ‘‘۔

یہی آیت عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت پیش کی تھی جب نبی کریم ﷺعبداللہ بن ابی ابن سلول کا جنازہ پڑھانے کھڑے ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے جواباً مسکراتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے۔ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ سترّمرتبہ سے زیادہ استغفار اس کے گناہ معاف کراسکتا ہے تو میں یقینا سترّ مرتبہ سے زیادہ استغفار کرونگا ۔

اب قرآن کریم پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستر مرتبہ استغفار کے بارے میں فرمایا یعنی نبی کریم ﷺ نے جنازہ اس لئے پڑھایا کہ آپ ﷺ رحمت للعالمین ہیںآپ نے اپنی رحمت کو مقید نہ کیا بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے یعنی اس وقت نماز جنازہ کی ممانعت وارد نہ ہوئی تھی صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے ستر بار بھی استغفار سے یہ منافق بخشے نہ جائیں گے لیکن ابھی اختیار باقی تھا جب صحابی رسول ﷺ نے نبی ﷺ کو روکا تھا بعد میں وہ خود فرماتے ہیں (کہ انہوں نے استغفار کے لئے نبی کریم ﷺ کو کیوں روکا )مجھے اپنی گستاخی پر بہت افسوس ہونے لگا کہ اللہ اور اسکے رسول خوب جانتے ہیں میں نے ا یسی جرأت کیوں کی؟ (مسند احمد 371/3) لہٰذا اللہ کے نبی کریم ﷺ کے فہم سے کوئی شخص بھی قیامت تک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اور کسی امتی کی کیا جرأت کہ وہ پیغمبر کائنات محمد مصطفی ﷺ پر تنقید کرے مصنف کو چاہیے کہ وہ توبہ کرے اور صدق دل سے اللہ کی طرف رجوع کرے ورنہ اس حالت میں موت کفر پر ہوگی جہاں تک بات ہے نبی کریم ﷺ کے فہم دین کی توجب نبی ﷺ جنازہ پڑھاچکے تو اللہ تعالیٰ نے حکم نافذ فرمایاکہ:
’’وَلاَ تُصَلِّ عَلَی أَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ أَبَداً وَّلاَ تَقُمْ عَلَیَ قَبْرِہٖ‘‘ (التوبہ 84/9)
’’ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کے جنازے کی نماز ہر گز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا‘‘۔

عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نہ تو کسی منافق کے جنازے کی نماز آپ ﷺ نے پڑھی نہ کسی کے لئے استغفار کیا ۔
(سنن ترمذی کتاب التفسیر باب ومن سورۃ التوبہ رقم الحدیث 3097)

بقول مصنف آیت (إِن تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً۔۔۔۔التوبہ80/9) سے نماز جنازہ کی ممانعت ثابت ہوتی ہے تو سوال پیداہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ آیت کیوں نازل فرمائی کہ آپ ان پر نماز جنازہ نہ پڑھیں ۔دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نماز جنازہ سے روکا نہیں گیا تھااسی لئے نبی کریم ﷺ نے نماز جنازہ پڑھی تھی اب دوسری آیت میں واضح ممانعت فرمادی گئی اس کے بعد اللہ کے نبی ﷺ نے کبھی بھی استغفار نہیں فرمایا لہٰذا حدیث پاک پراعتراض فضول ہے ۔
 
Top