محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:حکیم ترمذی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنی کتاب نوادر الاصول میں حضرت ذکوان رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ حدیث روایت کرتے ہیں : عن ذکوان ان رسول اللہ ﷺ لم یکن یری لہ ظل فی شمس ولاقمر۔ سرورعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سایہ مبارک نہ سورج کی دھوپ میں نظر آتاتھانہ چاندنی میں ( المواھب الدینیۃ علی الشمائل المحمدیۃ ص 30 مطبع مصر)
امام نسفی تفسیر مدارک شریف میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ حدیث نقل فرماتے ہیں : قال عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ان اللہ ما اوقطع ظلک علی الارض لئلا یضع انسان قدمہ علی ذلک الظل ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیاکہ خداوند عزوجل نے آپ کا سایہ زمین پر پڑنے نہیں دیا تاکہ اس پر کسی انسان کا قدم نہ پڑجائے ۔ (مدارک شریف ج 2 صفحہ 103۔۔۔)
وقت کے جلیل القدر امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں : وماذکر من انہ لاظل لشخصہ فی شمس ولا فی قمرلانہ کان نوراوان الذباب کان لایقع علی جسدہ ولاثیابہ ۔ یہ جو ذکرکیاگیا ہے کہ آفتاب وماہتاب کی روشنی میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے جسم مبارک کا سایہ نہیں پڑتا تھا تو اس کی وجہ یہ ہے حضور نور تھے ۔ (شفاشریف لقاضی عیاض ج 1، صفحہ 342-343)
امام علامہ احمد قسطلانی ارشاد فرماتے ہیں : قال لم یکن لہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ظل فی شمس ولاقمررواہ الترمذی عن ابن ذکوان وقال ابن سبع کان صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نورا فکان اذا مشی فی الشمس او القمر لہ الظل ۔ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتاتھا نہ ماہتاب کی چاندنی میں ۔ ابن سبع اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نور تھے اس لئے چاندنی اور دھوپ میں چلتے تو تھے جسم پاک کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔(موالب اللدنیۃ ج 1،صفحہ 180زرقانی ج 4صفحہ 220)
ابن حجرمکی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ومما یوید انہ صلی اللہ تعالی وآلہ وسلم صارنورا انہ اذا مشی فی الشمس اوالقمر لایظھرلہ ظل لانہ لایظھرالا لکشیف وھوصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم قدخلصہ اللہ تعالی من سائر الکشافات الجسمانیۃ وصیرہ نورا صرفالایظھرلہ ظل اصلا۔اس بات کی تائید میں کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سراپانور تھے اسی واقعہ کا اظہار کافی ہے کہ حضور پاک کے جسم مبارک کا سایہ نہ دھوپ میں پڑتاتھا نہ چاندنی میں ،اس لئے کہ سایہ کثیف چیز کا ہوتا ہے اور خدائے پاک نے حضور کو تمام جسمانی کثافتوں سے پاک کرکے انہیں "نورمحض" بنادیاتھااس لئے ان کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ (افضل القری ص 72)
حقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں : نبود مرآں حضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم را سایہ نہ در آفتاب ونہ درقمر۔ حضورپاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتا تھا نہ ماہتاب کی چاندنی میں ( مدراج النبوۃ ج 1 صفحہ 21)
امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سایہ نبود درعالم شہادت سایہ ہرشخص از شخص لطیف تر است ،چوں لطیف ترازدے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم درعالم نباشداور اسایہ چہ صورت دارد۔ حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہیں تھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم شہادت میں ہرچیز سے اس کا سایہ لطیف ہوتا ہے اور سرکار کی شان یہ ہے کہ کائنات میں ان سے زیادہ لطیف چیز ہے ہی نہیں پھر حضور کاسایہ کیونکر پڑتا۔ (مکتوبات امام ربانی ج 3 صفحہ 143 مطبوعہ نولکشورلکھنؤ)
امام راغب اصفہانی (م 450) ارشاد فرماتے ہیں : روی ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کان اذا مشی لم یکن لہ ظل ۔ مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم چلتے تو آپ کا سایہ نہ ہوتا تھا (المعروف الراغب)
امام المحدثین حضرت شاہ عبدالعزیز بن شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : ازخصوصیاتے کہ آں حضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم رادربدن مبارکش دادہ بودن کہ سایئہ ایشاں برزمیں نہ می افتاد۔ جو شخص خصوصتیں نبی اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے بد ن مبارک میں عطا کی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتاتھا ۔
میں نے اقوال اس لیے نقل کیے ھیں کہ ان شخصیات کو عقل کا اندھا کہنے سے گریز کیا جائے. . باقی عرض کیا کہ یہ مسئلہ عقیدت کا ھے اگر دونوں ظرف اقوال موجود ھیں بھی تو میں عدم وجود سایہ کی طرف ھوں گا. اب آپ دلائل نقل فرما لیں۔
مقبول احمد سلفی : میں نے عقل کا اندھا گنبد خضراٰء کے پس منظر میں کہا ہے جس پرہماری پوسٹ ہے ۔ ضمنا نبی ﷺ کے سایہ کی بھی بات کی ہے جو کہ نصوص صحیحہ سے ثابت ہے ۔