• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی ﷺ کے فیصلہ کو تسلیم نہ کرنے والے منافق کا سر عمر رضی اللہ عنہ قلم کردیا

شمولیت
نومبر 07، 2013
پیغامات
76
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
47
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
اس قصے کی سندوں کی تحقیق درکار ہے۔
سورۃ النساء کی آیت نمبر 60 کی تفسیر میں بعض مفسرین نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک یہودی اور منافق ایک تنازعہ کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ سے فیصلہ کرواتے ہیں،آپ ﷺ نے فیصلہ صادر فرمادیا جو اس نام نہاد مسلمان کے خلاف تھا، اس نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کروانا چاہا، چناچہ وہ دونوں ان کی خدمت میں پہنچ گئے، جب انہیں معلوم ہوا کہ اس مسئلہ میں نبی ﷺ فیصلہ فرماچکے ہیں تو شدید غضب کے عالم میں تلوار نکال لائے اور منافق کی گردن پہ یہ کہہ کر وار کیا: "من لم یرض بقضاء رسول اللہ ﷺ فھذا قضاء عمر" جو رسول اللہ ﷺ کے فیصلے سے راضی نہیں تو عمر اس کا فیصلہ تلوار سے کرتا ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
قال ابن أبي حاتم: حدثنا يونس بن عبد الأعلى قراءة، أخبرنا ابن وهب، أخبرني عبد الله بن لَهِيعة، عن أبي الأسود قال : اختصم رجلان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقضى بينهما، فقال الذي قضى عليه: ردنا إلى عمر بن الخطاب فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "انطلقا إليه" فلما أتيا إليه قال الرجل: يا ابن الخطاب، قضى لي رسول الله صلى الله عليه وسلم على هذا، فقال: ردنا إلى عمر. فردنا إليك. فقال: أكذاك؟ فقال: نعم فقال عمر: مَكَانَكُمَا حتى أخرج إليكما فأقضي بينكما. فخرج إليهما مشتملا على سيفه، فضرب الذي قال رُدَّنا إلى عمر فقتله، وأدبر الآخر فارا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله قتل عُمَر والله صاحبي، ولولا أني أعجزتُه لقتلني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما كنت أظن أن يجترئ عُمَر على قتل مؤمن" فأنزل الله: { فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ } الآية، فهدر دم ذلك الرجل، وبرئ عمر من قتله، فكره الله أن يسن ذلك بعد، فقال: { وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلا قَلِيلٌ مِنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا }
وكذا رواه ابن مَرْدُويه من طريق ابن لَهِيعة، عن أبي الأسود به.وهو أثر غريب، وهو مرسل، وابن لهيعة ضعيف والله أعلم .
[تفسير ابن كثير / دار طيبة 2/ 351]

یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا عبداللہ بن لھیعہ پر اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ اس سندمیں ان سے عبداللہ بن وہب روایت کررہے ہیں اور ابن لھیعہ سے جب عبادلہ روایت کریں تو ابن لھیعہ کی روایت صحیح ہوتی ہے۔البتہ ان کے عنعنہ پر اعتراض ہوسکتا ہے مگر یہ تحقیق طلب امر ہے کہ یہ کس طبقہ کے مدلس ہیں حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں پانچویں طبقہ میں رکھا تو اس کی وجہ ان کا عام حالات میں ضعیف ہونا ہے نہ کہ کثیر التدلیس ہونا واللہ اعلم۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے ایک دوسرا طریق پیش کیا ہے۔
طريق أخرى: قال الحافظ أبو إسحاق إبراهيم بن عبد الرحمن بن إبراهيم بن دُحَيْم في تفسيره: حدثنا شُعَيب بن شعيب حدثنا أبو المغيرة، حدثنا عتبة بن ضَمْرَة، حدثني أبي: أن رجلين اختصما إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقضى للمحق على المبطل، فقال المقضيّ عليه: لا أرضى. فقال صاحبه: فما تريد؟ قال: أن نذهب إلى أبي بكر الصديق، فذهبا إليه، فقال الذي قُضي له: قد اختصمنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقضى لي فقال أبو بكر: فأنتما على ما قضى به النبي صلى الله عليه وسلم فأبى صاحبه أن يرضى، قال: نأتي عمر بن الخطاب، فأتياه، فقال المقضى له: قد اختصمنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقضى لي عليه، فأبى أن يرضى، ثم أتينا أبا بكر، فقال: أنتما على ما قضى به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأبى أن يرضى فسأله عمر، فقال: كذلك، فدخل عمر منزله وخرج والسيف في يده قدْ سَلَّه، فضرب به رأس الذي أبى أن يرضى، فقتله، فأنزل الله: { فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ } [تفسير ابن كثير / دار طيبة 2/ 352]

اس کی سند صحیح ہے مگر یہ بھی مرسل ہے ۔ لہٰذا ضعیف ہے۔
مگر امام شافعی رحمہ اللہ کے اصول سے یہ روایت حسن لغیرہ بن سکتی ہے کیونکہ ان دونوں مراسیل کو بیان کرنے والوں کے مشائخ میں ضعیف رواۃ یکساں نہیں ہیں ۔
بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے اصول کے مطابق بھی یہ روایت حسن لغیرہ ہونی چاہئے۔

اگر اس کی کوئی ایک سند بھی اور مل جائے تو یہ روایت بلا تامل حسن لغیرہ بن جائے گی واللہ اعلم۔

رہی بات یہ کہ مذکورہ آیت کے شان نزول میں ایک اور واقعہ بھی پیش کیا جاتا ہے جو صحیح سند سے ثابت ہے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں کیونکہ ایک ہی آیت کے مختلف شان نزول ہوسکتے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ یہ روایت تحسین کی متحمل ہے اس لئے اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں واللہ اعلم۔
 
Top