• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نسخ (اصول الفقہ)

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
نسخ:

تعریف: لغت میں نسخ کا مطلب ہے زائل کرنا، ”نسخت الشمس الظل“سورج نے سایہ کو منسوخ کردیا،اسی معنی میں ہے۔یعنی سورج نے سایہ کو ختم کرکے سایہ کو اس کی جگہ پر پہنچا دیا۔

اسی طرح :”نسخت الريح الأثر“ ہوا نے قدموں کے نشانات منسوخ کردیئے۔ یعنی انہیں مٹادیا۔

نسخ کا لفظ نقل کے مشابہ چیز پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ آپ کہتے ہیں: ”نسخت الكتاب“ میں نے کتاب کو نسخ کرلیا ہے۔ یعنی میں نے ایسی چیز نقل کی ہے جو اس کتاب میں موجودچیز کے مشابہ ہے ، اور میں نے اسے کسی دوسری جگہ پر رکھ دیا ہے۔

نسخ کا اصطلاحی معنی لغوی معنوں میں سے پہلے معنی کے ساتھ موافق ہے۔کیونکہ اصطلاح میں نسخ کی تعریف یہ ہے: ”رفع الحكم الثابت بخطاب متقدم بخطاب آخر متراخ عنه“ متقدم خطاب کے ساتھ ثابت حکم کو متاخر خطاب کے ذریعے اُٹھا دینا/ختم کردینا۔

تعریف کی وضاحت: ’الثابت‘ حکم کی صفت ہے۔اور ’خطاب متقدم‘ ثابت کے متعلق ہے اور ’خطاب آخر‘ رفع کے متعلق ہے۔اور ’عنہ‘ میں موجود ضمیر متقدم خطاب کے ساتھ ثابت کی طرف لوٹ رہی ہے۔

حکم کو دور کرنا ایک جنس ہے جو نسخ اور اس کے علاوہ باقی چیزوں کو بھی شامل ہے ۔ باقی قیود اس کے ساتھ اسی لیے لگائی گئی ہے تاکہ یہ صرف نسخ کےلیے ہی ہو۔لہٰذا ”الثابت بخطاب متقدم“ کی قید سے برأۃ اصلیہ خارج ہوگئی تو اس طرح نماز ، روزہ ، حج اور زکاۃ کا واجب ہونا برأۃ اصلیہ کوختم کرنے والا ہے ، نسخ نہیں ہے۔

”بخطاب آخر“ کی قید سے حکم کا پاگل پن یا موت کی وجہ سے ختم ہونا ، نکل گیا۔

”متراخ عنه“ کی قید سے وہ خطاب نکل گیا جو متقدم خطاب کے ساتھ ملا ہوتا ہے جیسا کہ تخصیص ہے۔ تو اسی وجہ سے تخصیص وغیرہ کا نام نسخ نہیں رکھا جاتا۔

آئیے! ہم اس تعریف کی مزید وضاحت اس مثال کے ذریعے کردیتے ہیں ۔
مثال یہ ہے کہ شروع اسلام میں مسلمانوں کو حکم تھا کہ جنگ میں دس کافروں کے بدلے میں اکیلا ایک مسلمان ہی مقابلہ کرے ، پھر بعد میں اس حکم کو اس حکم کے ذریعے منسوخ کردیا گیا کہ اب دو کافروں کا مقابلہ ایک مسلمان کرے ۔

تو اس مثال میں دس کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان کا کھڑا رہنا ایسا حکم تھا جو متقدم خطاب کے ذریعے ثابت تھا۔ اور وہ متقدم خطاب اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے:﴿ إن يكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يغْلِبُوا مِائَتَينِ ﴾ [الأنفال:65] اگر تم میں سے دس صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے۔

تو اس حکم کو بعد والے ایک خطاب کے ذریعے ختم کردیا گیا ، اور بعد والا خطاب اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے: ﴿ الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإن يكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يغْلِبُوا مِائَتَينِ ﴾ الآية [الأنفال:66] اب اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہاری مشقت دور کردی ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں کمزوری ہےتواگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وه دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو وه اللہ کے حکم سے دو ہزار پرغالب رہیں گے، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
لنک
 
Top