اس پر توہم صرف اتناہی کہہ سکتے ہیں کہ
اس طرح توہوتاہے اس طرح کے کاموں میں
اولاتونصرانی خواتین سے شادی کرناصرف جواز کی حد تک ہے ۔
پھراگردل کے ہاتھوں مجبور ہوکر شادی کرہی لی تواپنی بیوی کو اسلام سے قریب کرناچاہئے تھا۔یہ ایک عام المیہ ہے کہ لوگ یوروپ اورامریکہ اوراسی طرح دوسرے ممالک میں عیسائیوں سے شادی کرلیتے ہیں اوربیوی کو اسلام سے قریب کرنے کی جانب دھیان نہیں دیتے۔ جب بچہ ہوتاہے توپھر کشاکش اورکشمکش شروع ہوجاتی ہے۔
ایماں مجھے روکےہے توکھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسامرے آگے
اس میں میاں بیوی دونوں کے اندردین کا حقیقی درد نہیں ہوتا۔شوہرمسلم ہے توسوچتاہے کہ اگراس کا بچہ عیسائی بن گیاتو وہ اپنے خاندان اورواقف کاروں کو کیسے منہ دکھائے گا۔ بیوی بھی یہی بات سوچتی ہے۔ اس کاآسان ساحل یہ ہے بیوی کو ہی شادی کے بعد اسلام سے قریب کیاجائے۔
جوصورت حال پیداہوگئی ہے۔ اس کاآسان ساحل تویہ ہے کہ اس کو حکمت سے ٹالنے کی کوشش کی جائے اورکہہ دیاجائے کہ
ہم اسلام کے تعلق سے اورتم عیسائیت کے تعلق سے بچہ کو بتائو
بچہ جس کو پسند کرے اسی کے مطابق اس کو مذہبی تعلیم دی جائے۔
یہ اس حدیث سے مستفاد ہے کہ
کل مولود یولد علی الفطرہ
بعض نکتہ شناس محدثین وشارحین نے فطرت سے مراد اسلام کوبھی لیاہے۔ویسے بھی اسلام کی صاف سیدھی اوربے غل وغش تعلیمات عیسائیت سے زیادہ انسانی ذہن کو اپیل کرتی ہیں۔ والسلام