• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نفاق؛تعریف اور اقسام واحکام

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
بسم اللہ الرحمان الرحیم

نفاق؛تعریف اور اقسام واحکام

(۱) نفاق کی تعریف۔ لغۃ: لفظ نفاق، نَافَقَ کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: نَافَقُ یُنَافِقُ نِفَاقًا وَ مُنَافَقَۃ۔ یہ نافقاء سے ماخوذ ہے۔ نافقاء چوہے کی بِل کے ایک خاص سوراخ کو کہا جاتا ہے۔ چوہا خطرے کے وقت اس مخفی اور خاص سوراخ سے نکل کر بھاگ جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ لفظ نفاق، نَفَق سے ماخوذ ہے۔ نَفَقَ کا مطلب سرنگ ہے، جس میں انسان چھپ جاتا ہے۔ (ابن الاثیر، النہا یۃ: ۵/ 98 مفہوم)
اصطلاحاً: شرعی اصطلاح میں نفاق کا مطلب ہے، اسلام کا اظہار و اقرار کرنا اور کفر و شرک کو مخفی رکھنا۔ اس عمل کو نفاق اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ایسا آدمی اسلام میں ایک دروازے سے د اخل ہوکر دوسرے سے نکل جاتا ہے۔ اسی بارے اللہ عزوجل نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:(اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ) (التوبۃ:9
/67)
”یقینا منافق ہی فاسق ہیں۔“
یہاں فسق سے مراد شریعت سے خروج اختیار کرنا ہے۔ اللہ عزوجل نے منافقین کو کفار سے بدتر قرار دیا ہے۔ فرمان الہی ہے:
(اِنَّ الْمُنٰٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَلَھُمْ نَصِیْرًا)(النسا: 4/ 145)
”یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے۔“
مزید فرمایا:
(اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ ھُوَ خَادِعُھُمْ)(النساء:142/4)
”یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں حلانکہ درحقیقت اللہ ہی نے انھیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔“
منافقین کے بارے میں مزید فرمایا:
(یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ o فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ فَزادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَo)(البقرۃ:9/2'10)
”وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انھیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا ہے۔ جو جھوٹ وہ بولتے ہیں اس کی پاداش میں ان کے لیے دردناک سزا ہے۔“

(ب) نفاق کی انواع۔ نفاق کی دو انواع ہیں:

(۱) نفاق کی پہلی نوع۔اعتقادی نفاق: یہ نفاقِ اکبر ہے۔ اس کا مرتکب اظہار تو اسلام کا کرتاہے لیکن باطن میں کفر چھپائے رکھتا ہے۔ اس کا مرتکب دین سے بالکل خالی ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن قرارپاتا ہے۔ اللہ عزوجل نے ایسے منافقین کو مجموعۂ فتنہ و فساد قرار دیا ہے۔ یہ تمام طرح کی بری عادات و اطوار کے مرتکب ہوتے ہیں۔جیسے: کفر اور عدم ایمان، اسلام اور اہل اسلام کا استہزاء کرنا، اہل ایمان کو تکلیف و الم میں مبتلا کرنے کا موجب بننا، ان کا میلان دشمنانِ دین کی طرف ہوتا ہے کیونکہ یہ اسلام دشمنی میں مشترک ہوتے ہیں۔
ایسے لوگ ہر دور میں ہوتے ہیں۔ خاص کر جب اسلام کو قوت و غلبہ نصیب ہوتا ہے اور ان میں علانیہ طور پر اسلام کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ تب یہظاہری طور پر اسلام قبول کرتے ہیں،جس کا مقصد مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر انھیں نقصان پہنچا نااور ان کے خلاف منصوبے بنانا ہوتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں میں گھل مل کر رہنے سے اپنے جان و مال کو محفوظ رکھنا بھی ان کا مقصود ہوتا ہے۔ منافق اس چیز کااظہار و اقرار تو کرتا ہے کہ اس کا اللہ عزوجل پر، فرشتوں پر، آسمانی کتابوں پر، پیغمبروں پر اور روزِ آخرت پر ایمان ہے، لیکن دل میں اس کا کسی پر ایمان نہیں ہوتا۔وہ جھوٹا اور دھوکے باز ہوتاہے۔منافق اللہ عزوجل کی ذات اور دیگر ایمانیات میں سے کسی پر ایمان نہیں رکھتا۔
اللہ عزوجل نے انسانوں میں سے ایک عظیم ہستی پر اپنا کلام نازل فرمایا اور انھیں انسانیت کا پیغمبر منتخب فرمایا۔ اس پیغمبر نے اللہ عزوجل کے حکم سے لوگوں کو رشد و ہدایت کی دعوت دی، انسانیت کو اللہ عزوجل سے ڈرایا اور اس کی گرفت سے خوف دلایا۔
قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے منافقین کے برُے کرتوت کھول کر بیان کیے۔ ان کے مکر و کفر اور منصوبوں کو بھی خوب واضح فرمایا۔ اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کے لیے منافقین کے امور و معاملات تفصیل سے بیان فرمائے، تاکہ وہ خود کو منافقین کے شر و فتنہ سے بچا کر رکھیں اورنفاق جیسے مرض میں مبتلا ہونے سے بھی محفوظ رہیں۔ اسی مقدس کتاب کی سورت بقرہ کے آغاز میں اللہ عزوجل نے تین طرح کے لوگوں کا تذکرہ فرمایا: مومنین، کفار اور منافقین۔ اہل ایمان کا چار آیات میں تذکرہ کیا۔ دو آیات میں کفار کا ذکر کیا جب کہ منافقین کی تفصیل تیرہ آیات میں بیان فرمائی۔ منافقین کے کثرتِ تذکرہ کی وجہ ان کی کثرتِ تعداد اور ان سے کثیر واسطہ پڑنا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام اور اہل اسلام کے لیے ان کی غیر معمولی ضرر رسانی اور فتنہ و فساد بھی ان کے کثرتِ تذکرہ کی وجہ ہے۔ اسلام کو ان کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ اسلام کا اظہار کرتے ہیں،اسلام کی نصرت و حمایت کا بھی دم بھرتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ اسلام دشمن ہوتے ہیں، ایذا رسانی کاکوئی موقع خالی نہیں جانے دیتے۔ منافقین اپنی اسلام دشمنی کا اظہار مختلف انداز سے کرتے رہتے ہیں۔ نادان آدمی منافقین کے اعمال و کردار اوران کی نکتہ چینی کو علم اور اصلاح سمجھ رہا ہوتا ہے، جب کہ حقیقت میں منافقین کا عمل و کردار انتہائی درجے کی جہالت اور فتنہ و فساد کا سبب ہوتا ہے۔(ابن القیم، صفات المنافقین،ص: ۴)
اس اعتقادی نفاق کی چھ انواع ہیں:
(۱) رسول اللہﷺ کی تکذیب کرنا۔
(۲) رسول اللہﷺ کی بعض تعلیمات کا انکار کرنا۔
(۳) رسول اللہﷺ سے بغض و عداوت رکھنا۔
(۴) رسول اللہﷺ کی بعض تعلیمات سے بغض و عداوت رکھنا۔
(۵) دین محمدی کی پستی اور اس کی زوال پذیری پر دلی فرحت محسوس کرنا۔
(۶) دین محمدی کی نشر و اشاعت اور اسلام کی عروج و بالا دستی پر کڑھنا۔

(۲) نفاق کی دوسری نوع۔ عملی نفاق: اس سے مراد دل میں ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ منافقین والا کوئی عمل سرانجام دینا ہے۔ اس کی وجہ سے آدمی ملت سے خارج تو نہیں ہوتا لیکن یہ عمل اس کا ایک ذریعہ ہے۔ ایسے آدمی میں ایمان و نفاق دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔ ایسی روش اور طرزِ عمل پر اصرار اور اس کا کثیر ارتکاب کرنے سے آدمی پکا منافق بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی دلیل آنحضرتﷺ کا یہ فرمان ہے:
((أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ کَانَتْ فِیہِ خَصْلَۃٌ مِنْہُنَّ کَانَتْ فِیہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّی یَدَعَہَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ)) (صحیح البخاری: 34 و صحیح مسلم: 58)
”چار چیزیں جس بھی آدمی میں ہوں گی وہ پکا منافق ہو گا، جس میں ان چار میں سے ایک چیز ہو گی اس میں نفاق کی ایک عادت ہو گی یہاں تک کہ اسے چھوڑ نہ دے۔ وہ چار یہ ہیں: (۱) جب بھی اس کے پاس امانت رکھی جائے اس میں خیانت کرے۔ (۲) جب بھی بات کرے جھوٹ بولے۔(۳) جب بھی عہد و پیمان کرے اسے پورا نہ کرے(۴) اور جب بھی لڑائی جھگڑا کرے گالی گلوچ کرے۔“
جس آدمی میں بھی یہ چار علامات موجود ہوں وہ مجمع شر ہوتا ہے اور اس میں منافقین کی مکمل خصلتیں ہوتی ہیں۔ جس میں ان چار چیزوں میں سے کوئی ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوتی ہے۔ انسان میں اچھی اور بری دونوں طرح کی عادات جمع ہو سکتی ہیں۔ آدمی میں ایمان اور کفر و نفاق کی خصلتیں بھی اکٹھی ہوسکتی ہیں۔ اچھی بری عادات و امور کے ارتکاب کے حساب سے انسان ثواب اور عقاب کا بھی حق دار قرار پاتا ہے۔ مسجد میں باجماعت نمازسے سستی اور کوتاہی بھی انہی امور میں سے ہے۔ یہ بھی منافقین کی علامت ہے۔ نفاق بہت ہی خطرناک اور نقصان دہ بیماری ہے۔ صحابہ کرامy اس سے بچاؤ کے لیے بہت ہی فکر مند رہا کرتے تھے۔ ابن ابی ملیکہ کا کہنا ہے کہ میری تیس صحابہ کرامyسے ملاقات ہوئی ہر کوئی اپنے بارے میں نفاق سے ڈرتا تھا۔

نفاقِ اکبراور نفاقِ اصغر میں فرق:
۱۔ نفاقِ اکبر کی وجہ سے آدمی ملت سے خارج ہو جاتا ہے جبکہ نفاقِ اصغر کا مرتکب ملت سے خارج نہیں ہوتا۔
۲۔ نفاقِ اکبر میں عقیدے کے حوالے سے انسان کے ظاہر اور باطن میں فرق ہوتا ہے،نفاقِ اصغر میں عقیدے کی بجائے انسان کے ظاہری اور مخفی عمل میں فرق ہوتا ہے۔
۳۔ مومن نفاقِ اکبر کا ارتکاب کسی صورت نہیں کر سکتا جب کہ نفاقِ اصغر کا ارتکاب مومن سے ہو سکتا ہے۔
۴۔ نفاقِ اکبر کے مرتکب کو عام طورپر توبہ کی توفیق نہیں ملتی۔ اگر ایسا آدمی توبہ کر بھی لے تو حاکم وقت کے ہاں اس کی قبولیت ِ توبہ کے بارے میں اختلاف ہے۔ نفاقِ اصغر کے مرتکب کی صورتحال اس سے مختلف ہے۔ ایسے آدمی کو جلدی توبہ کی توفیق نصیب ہوتی ہے اور اللہ عزوجل بھی اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہرحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عام طور پر مومن سے عملی نفاق کا کسی طرح ارتکاب ہو سکتا ہے، لیکن پھر جلدی توبہ کرنے سے اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ مومن کے دل میں بعض ایسے خیالات آتے ہیں جن کا نفاق سے تعلق ہوتا ہے، لیکن جلد ہی اللہ تعالیٰ وہ خیالات اس سے ہٹا دیتا ہے۔ مومن کو شیطانی خیالات بھی آتے ہیں اور اسے کفریہ خیالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے،جس سے وہ شدید قلق اور اضطراب محسوس کرتا ہے۔ جیسا کہ صحابہ کرامy نے آنحضرت ﷺ سے اظہارِ خیال کرتے کہا تھا:((یَا رَسُولَ اللہِ، إِنَّا لَنَجِدُ شَیْءًا لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا خَرَّ مِنَ السَّمَاء ِ کَانَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ أَنْ یَتَکَلَّمَ بِہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ :ذَاکَ مَحْضُ الْإِیمَانِ))(صحیح مسلم:132و مسند احمد:9156)
”اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کو ایسے خیالات بھی آتے ہیں جن کے اظہار سے کہیں آسان،آسمان سے زمین پر گرنا محسوس ہوتاہے۔ آپﷺ نے فرمایا: یہی تو حقیقی ایمان ہے۔“
ایک روایت میں ہے کہ سائل سے کہا: اسے بیان کرنا بہت ہی مشکل لگتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمام تعریفات اس اللہ کے لیے ہیں جس نے شیطانی مکرو حیلے کو وساوس میں تبدیل کرکے اسے بے حیثیت ٹھہرا دیا۔ (سنن ابی داود:5112، ومسند احمد:2097)
اس سے مقصود ہے کہ کفر و نفاق سے انتہائی نفرت و کراہت کے باوجود دل میں ایسے خیالات اور وساوس کا آکر ختم ہوجانا حقیقی ایمان کی علامت ہے۔ انتھی۔(ابن تیمیہ، کتاب الایمان،ص:238)
رہے نفاق اکبر کے مرتکبین تو ان کی حالت اس فرمان الٰہی کے مطابق ہے:(صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ)(البقرۃ:18/2) ”وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں وہ اب کسی صورت واپس نہیں پلٹ سکتے۔“
منافقین قلب و ضمیر سے دوبارہ اسلام اختیار نہیں کر سکتے۔ انھی کے بارے میں اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:
(اَوَلَا یَرَوْنَ اَنَّھُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَ لَا ھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ)(التوبۃ:126/9)
”کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، مگر اس پر بھی نہ تو یہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی سبق سیکھتے ہیں۔“
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ منافقین کی ظاہری طور پر قبولیت توبہ کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے کیونکہ اس کا پتہ نہیں چل سکتا۔ منافقین تو ہمیشہ اظہار اسلام کرتے رہتے ہیں۔ (ابن تیمیہ، مجموع الفتاوٰی:28/ 434، 435)
(ماخوذ من کتاب التوحید لمحمد بن صالح الفوزان الفوزان)
حافظ محمد فیاض الیاس
اثری
رکن دارالمعارف ریلوے روڈ لاہور
 
Top