- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
نقد روایت اور اس کا عملی نفاذ
ان دونوں صدیوں میں احادیث کو ہر ایک سے قبول کرنے کی بجائے روز اول سے ہی اس پر تحقیق ونقد کا سایہ کردیا گیا تاکہ اسے جلتی دھوپ سے بچایا جاسکے۔اسکی وجوہات ظاہر ہے نومسلموں کی بے احتیاطی اور باغیوں کی بدخواہی تھی۔
٭…قبول حدیث میں انتہائی محتاط شخص سیدنا ابو بکرؓ صدیق تھے۔جن کے بارے میں امام ذہبی ؒلکھتے ہیں:
کَانَ أَوَّلُ مَنِ احْتَاطَ فِی قَبُولِ الأَخْبَارِ۔
قبول حدیث میں پہلے محتاط شخص تھے۔
٭…اور سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت ِحدیث میں ثبوت مہیا کرنے کے مؤسس(Founder) تھے۔
ہُوَالَّذِیْ سَنَّ لِلْمُحَدِّثِیْنَ ،اَلتَّثَبُّتَ فِی النَّقْلِ وَرُبَمَا کَانَ یَتَوَقَّفُ فِی خَبَرِ الْوَاحِدِ إِذَا ارْتَابَ۔
تذکرۃ :۶، سیدنا عمر ؓنے احادیث کے ضبط وحفظ اور روایت کے کمال ثبوت کا اس درجہ اہتمام کیا کہ تمام محدثین کے ہاں آپ کا یہ طرزِ عمل ایک بہترین نمونہ بن گیا۔ بسا اوقات ایک حدیث میں محض شک کو دور کرنے کے لئے توقف بھی فرمالیتے۔
٭…براءؓ بن عازب کہتے ہیں: صحابہ ایک دوسرے سے احادیث سنتے اور
کَانُوا یَشُدُّونَ عَلَی مَا یَسْمَعُونَ مِنْہُ۔
جس سے سنتے اس پر خوب سختی کرتے۔
٭… عقبہ ؓبن نافع اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہیں:
لاَ تَقْبَلُوا الْحَدِیثَ إِلاَّ عَنْ ثِقَۃٍ۔
حدیث کو صرف ثقہ سے ہی قبول کرو۔
٭…خادم رسول سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں
{وَإِنَّہُ لَذِکْرٌ لَکَ وَلِقَوْمِکَ } (الزخرف: ۴۴)
بلاشبہ یہ آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے ایک ذکر ہے۔اس سے مراد آدمی کا یہ کہنا ہے:
حَدَّثَنِی أَبِی عَنْ جَدِّیْ
مجھے حدیث بیان کی میرے والد نے میرے دادا محترم سے۔
٭…شہادت ذوالنورین نے مسلمانوں کے درمیان اخلاص و نفاق کی ایک واضح لکیر کھینچ دی۔ حقِ خلافت کو روافض نے نسب سے منسلک کرکے پہلے تین خلفاء کو غاصب قرار دیا جس کا نتیجہ سبھی صحابہ سے نفرت اور ان کے مرتد ہوجانے کا عقیدہ بنا۔بارہ اماموں کو پیدائشی معصوم اور براہ راست اللہ تعالیٰ سے راہنمائی وصول کرنے والا بنادیا۔جس میں رسول کی اہمیت کم اور غیر ضروری سمجھی گئی۔نیزتوحید باری تعالیٰ کا عقیدہ بھی کمزور ہو گیا کہ یہی ائمہ معصومین إلہ کا درجہ پاگئے۔کسریٰ کی سلطنت کا عرب مسلمانوں کے ہاتھوں زوال بھی اس میں مزید نفرت بھرتا گیا۔ روافض نے صرف اسی روایت کو معتبر قرار دیاجو ان کے کسی امام تک منتہی ہوتی ہو۔اس لئے ان کے مجموعہ ہائے روایت اہل السنۃ سے علیحدہ ہوگئے کیونکہ اہل السنۃ کے یہ عقائد نہیں تھے اور نہ ہی وہ ان کے ساتھ شریک ہیں۔ وہ روایت حدیث میں سوائے رسول کے کسی کو معصوم نہیں جانتے ۔اس لئے وہ براہ راست رسول اللہ ﷺ سے حدیث لینے اور اسی پر عمل کرنے کے روادار ہیں۔اور ہر روایت کو نقد وجرح کی چھلنی سے گذارنے کے قائل بھی۔
٭…مختار ثقفی کذاب کے زمانۂ عروج میں بھی علماء حدیث نے ہر ظاہر ہوتی حدیث کی اسناد کے بارے میں خوب سوال کئے ۔کیونکہ بعض ایسی روایات ظاہر ہوئیں جن میں سیدنا علیؓ کے بارے بکثرت جھوٹ پھیلایا گیا۔(شرح علل الترمذی ۳۶)