• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نقد روایت اور اس کا عملی نفاذ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نقد روایت اور اس کا عملی نفاذ

ان دونوں صدیوں میں احادیث کو ہر ایک سے قبول کرنے کی بجائے روز اول سے ہی اس پر تحقیق ونقد کا سایہ کردیا گیا تاکہ اسے جلتی دھوپ سے بچایا جاسکے۔اسکی وجوہات ظاہر ہے نومسلموں کی بے احتیاطی اور باغیوں کی بدخواہی تھی۔

٭…قبول حدیث میں انتہائی محتاط شخص سیدنا ابو بکرؓ صدیق تھے۔جن کے بارے میں امام ذہبی ؒلکھتے ہیں:
کَانَ أَوَّلُ مَنِ احْتَاطَ فِی قَبُولِ الأَخْبَارِ۔
قبول حدیث میں پہلے محتاط شخص تھے۔

٭…اور سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت ِحدیث میں ثبوت مہیا کرنے کے مؤسس(Founder) تھے۔
ہُوَالَّذِیْ سَنَّ لِلْمُحَدِّثِیْنَ ،اَلتَّثَبُّتَ فِی النَّقْلِ وَرُبَمَا کَانَ یَتَوَقَّفُ فِی خَبَرِ الْوَاحِدِ إِذَا ارْتَابَ۔
تذکرۃ :۶، سیدنا عمر ؓنے احادیث کے ضبط وحفظ اور روایت کے کمال ثبوت کا اس درجہ اہتمام کیا کہ تمام محدثین کے ہاں آپ کا یہ طرزِ عمل ایک بہترین نمونہ بن گیا۔ بسا اوقات ایک حدیث میں محض شک کو دور کرنے کے لئے توقف بھی فرمالیتے۔

٭…براءؓ بن عازب کہتے ہیں: صحابہ ایک دوسرے سے احادیث سنتے اور
کَانُوا یَشُدُّونَ عَلَی مَا یَسْمَعُونَ مِنْہُ۔
جس سے سنتے اس پر خوب سختی کرتے۔

٭… عقبہ ؓبن نافع اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہیں:
لاَ تَقْبَلُوا الْحَدِیثَ إِلاَّ عَنْ ثِقَۃٍ۔
حدیث کو صرف ثقہ سے ہی قبول کرو۔

٭…خادم رسول سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں
{وَإِنَّہُ لَذِکْرٌ لَکَ وَلِقَوْمِکَ } (الزخرف: ۴۴)
بلاشبہ یہ آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے ایک ذکر ہے۔اس سے مراد آدمی کا یہ کہنا ہے:
حَدَّثَنِی أَبِی عَنْ جَدِّیْ
مجھے حدیث بیان کی میرے والد نے میرے دادا محترم سے۔

٭…شہادت ذوالنورین نے مسلمانوں کے درمیان اخلاص و نفاق کی ایک واضح لکیر کھینچ دی۔ حقِ خلافت کو روافض نے نسب سے منسلک کرکے پہلے تین خلفاء کو غاصب قرار دیا جس کا نتیجہ سبھی صحابہ سے نفرت اور ان کے مرتد ہوجانے کا عقیدہ بنا۔بارہ اماموں کو پیدائشی معصوم اور براہ راست اللہ تعالیٰ سے راہنمائی وصول کرنے والا بنادیا۔جس میں رسول کی اہمیت کم اور غیر ضروری سمجھی گئی۔نیزتوحید باری تعالیٰ کا عقیدہ بھی کمزور ہو گیا کہ یہی ائمہ معصومین إلہ کا درجہ پاگئے۔کسریٰ کی سلطنت کا عرب مسلمانوں کے ہاتھوں زوال بھی اس میں مزید نفرت بھرتا گیا۔ روافض نے صرف اسی روایت کو معتبر قرار دیاجو ان کے کسی امام تک منتہی ہوتی ہو۔اس لئے ان کے مجموعہ ہائے روایت اہل السنۃ سے علیحدہ ہوگئے کیونکہ اہل السنۃ کے یہ عقائد نہیں تھے اور نہ ہی وہ ان کے ساتھ شریک ہیں۔ وہ روایت حدیث میں سوائے رسول کے کسی کو معصوم نہیں جانتے ۔اس لئے وہ براہ راست رسول اللہ ﷺ سے حدیث لینے اور اسی پر عمل کرنے کے روادار ہیں۔اور ہر روایت کو نقد وجرح کی چھلنی سے گذارنے کے قائل بھی۔

٭…مختار ثقفی کذاب کے زمانۂ عروج میں بھی علماء حدیث نے ہر ظاہر ہوتی حدیث کی اسناد کے بارے میں خوب سوال کئے ۔کیونکہ بعض ایسی روایات ظاہر ہوئیں جن میں سیدنا علیؓ کے بارے بکثرت جھوٹ پھیلایا گیا۔(شرح علل الترمذی ۳۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…سند اور کی اہمیت کو علماء نے آیت ِقرآنیہ سے مستنبط کیا۔امام مطر الوراقؒ کہتے ہیں:
اس آیت {أو أثٰرۃ من علم} یا کوئی علمی دلیل (الاحقاف: ۴)سے مراد اسنادِ حدیث ہے ۔ انہوں نے أثٰرۃ سے مراد علم ِاسناد لیا ہے۔

٭…راوی حدیث یا استاذ حدیث کون اور کیسا ہو؟ اس کے بارے میں امام ابنؒ سیرین کا یہ قول بھی بہت مشہور ہے:
إِنَّ ہَذَا الْعِلْمَ دِیْنٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأخُذُونَ دِیْنَکُمْ۔
یہ علم، دین ہے تو دیکھا کرو تم کس سے اپنے دین کو لے رہے ہو۔

دین کے معاملے کسی کے جھوٹ، گھڑت اور بدعت کو ان صحابہ اور تابعین نے کھل کر اگر بتایا ہے تو یہ دماغی تعزیر ہی سہی۔مگر اس طرز عمل سے ایسے لوگوں کی روایت کشی ضرور ہوئی اور لاتعلق لوگ پرے ہٹا دئے گئے۔

٭… امام زہری رحمہ اللہ فرمایا کرتے:
أَمَا أنَّ الْحَدِیْثَ یُعْجِبُہُ ذَکُوْرُ الرِّجَالِ وَیَکْرَہُہُ مُؤَنِّثُوْہُمْ۔
غور سے سنو! حدیث ایسا موضوع ہے جسے مذکر مرد پسند کرتے ہیں اور ان کے مؤنث حضرات اس سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا کرتے ہیں۔

٭…امام زہریؒ ، اسحق بن ابی فروۃ کے پاس تھے انہوں نے حدیث بیان کرنا شروع کی تو کہا:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ۔
اس پر امام زہریؒ کو جلال آیااور فرمایا:
قَاتَلَکَ اللّٰہُ یَا ابْنَ أَبی فَرْوَۃَ، مَا أَجْرَأَکَ عَلَی اللّٰہِ؟ أَلاَ تُسْنِدُ حَدِیثَکَ؟ تُحَدِّثُنَا بِأحَادِیثَ لَیْسَ لَہَا خَطْمُ وَلاَ أزِمَّۃُ۔
ابن ابی فروہ اللہ تم سے پوچھے تمہیں اللہ تعالیٰ کے غضب کے خلاف اتنی جرات کیسے ہوئی؟ تم حدیث کو سند کے ساتھ کیوں نہیں بیان کرتے؟ ہمیں تم ایسی حدیث بیان کرتے ہو جس کی نہ نکیل ہے اور نہ ہی کوئی باگ۔

٭…امام ابن شہاب زہریؒ فرمایا کرتے:
إِنَّ لِلْحَدِیْثِ آفۃً وَنَکِدًا، وَہَجَنَۃً، فَآفَتُہُ نِسْیَانُہُ، وَنَکِدُہُ الْکِذْبُ وَھَجَنَتُہُ نَشْرُہُ عِنْدَ غَیْرِ أَھْلِہِ۔
کہ حدیث میں آفت بھی ہے اور عسرت وتنگی بھی اور عیب بھی۔ اس کی آفت اس کا بھولنا ہے اس کی تنگی اس میں جھوٹ بولنا ہے اور اس کا عیب یہ ہے کہ نااہل کو یہ علم بخش دیا جائے۔ ( العلل ومعرفۃ الرجال ۱؍۹۲)

٭… یہ علماء حدیث ِرسول کے محافظ وامین تھے۔ نقد ِحدیث میں امام سفیان ثوریؒ (۹۷۔۱۶۱ھ)کی اڑان بہت اونچی ہے۔راوی ثور ؒبن زید قدری تھے اور ناصبیت کی طرف بھی رجحان رکھتے تھے۔ان کے بارے میں امام سفیان ؒ فرمایا کرتے:
خُذُوْا عَنْ ثَوْرٍ وَاتَّقُوْا قَرْنَیْہِ۔
ثور ؒسے حدیث لے لو مگر اس کے دو سینگوں سے بچو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تحقیق سند کا آغاز:
تابعین کرام کا دور بھی صغار صحابہ کا یہ اثر لے کر ابھرا کہ حفاظت وروایت حدیث میں بہر صورت محتاط رہنا ہے۔ جہاں سند کے بارے میں وہ سوال کرتے وہاں خود بھی اس کا التزام کرتے۔ امام ابن عبد البر لکھتے ہیں: امام شعبی ، جو اپنے دور کے معروف فقیہ وقاضی تھے۔ اپنے ذوقِ تحقیق کا ذکر وہ یوں کرتے ہیں:
میں نے ربیع بن خیثم سے ایک روایت سنی کہ جو
لا إلہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد یحی و یمیت وھو علی کل شئی قدیر۔
دس بار کہے گا۔ اسے ایک غلام کے آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔ شعبیؒ کہتے ہیں ۔میں نے ربیع بن خیثم سے عرض کی۔آپ کو یہ حدیث کس نے بیان کی؟کہنے لگے: عمرو بن میمون الاودی نے۔چنانچہ میں عمرو بن میمون الاودی سے ملا۔ ان سے پوچھا۔یہ حدیث آپ کو کس نے بیان کی ؟ انہوں نے کہا:عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ نے ۔ میں ابن ابی لیلی کو ملا۔ ان سے دریافت کیا کہ یہ حدیث آپ کو کس نے بیان کی۔انہوں نے کہا۔کہ صحابی ٔرسول ابو ایوب الانصاری نے۔(مقدمہ التمہید۱۴)

امام یحییٰؒ بن سعید اس پر یوں تبصرہ فرما ہیں:
وَھَذَا أَوَّلُ مَنْ فَتَّشَ عَنِ الِاسْنَادِ۔(المحدث الفاصل۲۰)
یعنی امام شعبی پہلے فرد ہیں جنہوں نے اسناد کے بارے میں تحقیق و جستجو کی بناء ڈالی۔

آج یہ ذوق محض تکیہ پر ٹیک لگائے آمدہ اطلاعات پر قائم ہے مزید برآں وہ قاضی بھی ہے۔

٭…محدثین کرام نے بعض اسانید حدیث میں جھوٹ، ادراج ، تدلیس وغیرہ جیسی عام خرابیوں کی نشان دہی کی۔ نیز سند وروایت میں راوی یا مؤلف اوران کے تاریخی مغالطوں کو انہوں نے اپنی خداداد صلاحیت سے طشت از بام کیا۔مثلاً:

٭…امام شعبہؒ بن الحجاج العتکی (۸۲۔۱۶۰ھ) سند میں تدلیس سے سخت متنفر اور مدلسین کومعاف نہیں کرتے تھے۔تدلیس کے خطرناک نتائج سے یہ امام محترم بخوبی آگاہ تھے ۔ کہا کرتے:
لأَنْ أَزْنِیَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أُدَلِّسَ۔
تدلیس حدیث کرنے سے بہتر ہے کہ میں بدکاری کرلوں۔[ مقدمہ تدریب الراوی، الکفایہ: ۱۱۳]

اسلئے کہ بدکاری ظاہر ہوکر سزا پاتی ہے مگر تدلیس ظاہر ہوتی ہے اور نہ مدلس کا علم ہوتا ہے۔نیز وہ برائی وقتی ہے اور یہ برائی دینی اور دائمی ہے۔انہی کا قول ہے:
لاَ یَجِیْئُکَ الشَّاذُّ إِلَّا مِنَ الرَّجُلِ الشَّاذِّ۔
تمہیں حدیث شاذ وہی ہی پیش کرے گا جو خود شاذ ہوگا۔ یہ وہ تجزیہ ہے جو انہوں نے راوی کی نفسیات اور اس کی خود پسندی و علمی غرور اور منفرد قسم کی روش جس میں حب نام وشہرت چھلکتا ہو ، پرکیا ہے۔امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں:
کُنَّا نَسْمَعُ الْحَدِیثَ وَنَعْرِضُہُ عَلَی أَصْحَابِنَا کَمَا نَعْرِضُ الدِّرْہَمَ الزَّائِفَ، فَمَا عَرَفُوا مِنہُ أَخَذْنَاہُ وَمَا أَنْکَرُوْا مِنْہُ تَرَکْنَاہُ۔ الکفایہ: ۴۳۰۔
ہم حدیث سنا کرتے اور پھر اسے اپنے مشایخ کی خدمت میں پیش کرتے جس طرح ایک سکہ اس کے پہچاننے والے کو پیش کیا جاتا۔ وہ جس حدیث کو پہچانتے ہم اسے لے لیا کرتے اور جسے ناپسند فرماتے یا لاعلمی کا اظہار کرتے اسے ہم ترک کردیا کرتے۔

٭…ابن المبارکؒ(۱۱۸۔ ۱۸۱ھ) راویوں کے بارے میں اپنے ریمارکس اشعار میں دیا کرتے تاکہ یہ زیادہ مشہور ہوجائیں۔ انہی کا یہ شعر بطور مثال:

أَیُّہَــــا الطَّــالِبُ عِلْــماً ائْتِ حَمََّــــادَ بْنَ زَیْــدٍ
فَاطْلُـَبـــنَّ الْعِلَْــمَ مِنْـــہُ ثُمَّ قَــیِّــــدْہُ بِقَـــیْـــــدٍ
لَا کَـثَـــوْرٍ وَکَجَہْـــمٍ وَکَعـَـــمْرٍو بْنِ عُبَـــــیْدٍ


اے طالب علم! حماد بن زید کے پاس علم کے لئے آؤ۔ اس سے علم حاصل کرو پھر اسے اس سے مقید بھی کرو۔
ثور اور جہم جیسوں سے یا عمرو بن عبید جیسے شخص سے علم مت لو۔

٭…ابو اسحق فزاریؒ کے حالات میں یہ لکھا ہے کہ ہارون رشید نے کسی زندیق کو گرفتار کیا کہ اسے قتل کرے۔ تو وہ کہنے لگا: پھر آپ ان ہزار احادیث کا کیا کریں گے جو میں نے گھڑ کر پھیلا دی ہیں۔ہارون رشید نے اسے کہا: او دشمن خدا! تم شاید ابو اسحاق فزاری اور ابن المبارک کے بارے میں غافل ہو وہ نہ صرف تمہاری پھیلائی ہوئی احادیث کو واضح کریں گے بلکہ اس کے ایک ایک حرف کو کھنگالیں گے۔یہ کہتے ہی اسے قتل کردیا۔الزامات لگانے والے سوچیں کہ آخر وضع حدیث کو کیا برداشت کیا گیا؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…یحییٰ ؒبن سعید القطان(۱۲۰۔۱۹۸ھ) بھی حدیث کو قبول کرنے میں بہت سخت تھے۔عبد الرحمنؒ بن مہدی(۱۳۳۔ ۱۹۸ھ) معتدل نقاد میں سے تھے۔ان سے پوچھا گیا:
إِنَّکَ تَقُوْلُ لِلشَّیْئِ ہَذَا صَحِیْحٌ وَہَذَا لَمْ یَثْبُتْ فَعَمَّنْ تَقُوْلُ ذَلِکَ؟ فَقَالَ: أَرَأَیْتَ لَو أَتَیْتَ النَّاقِدَ ، فَأَرَیْتَہُ دَرَاہِمَکَ ، فَقَالَ ہَذَاجَیِّدٌ وَہَذَا بَہْرَجٌ، أَکُنْتَ تَسْأَلُ عَمَّنْ ذَاکَ أَو تَسْلِمُ لَہُ؟ قَالَ أَسْلَمُ لَہُ الأَمْرَ۔ فَقَالَ کذَلکَ بِطُوْلِ الْمُجَالَسَۃِ وَالْمُنَاظَرَۃِ وَالْخِبْرَۃِ۔ تدریب: ۱۶۲۔
آپ کسی حدیث کے بارے میں یہ فرماتے ہیں صحیح ہے اور کسی کے بارے میں یہ کہ وہ حدیث ثابت نہیں ہے۔ آپ یہ بات کس اتھارٹی پہ فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: سوچو ! اگر تم کچھ درہم کو ایک ماہر صراف کے پاس لے آؤ جو انہیں دیکھتے ہی کہے کہ یہ چند درہم تو درست و صحیح ہیں اور باقی یہ کھوٹے ہیں تو کیا تم اس سے یہ سوال کرو گے کہ کیوں اور کیسے؟ یا اس کی بات مان لوگے؟ سائل نے کہا کہ میں تو اس کی بات مان لوں گا۔ فرمایا: کہ یہ علم بھی ماہرین کے ساتھ کافی طویل نشستوں، ان سے سوال وجواب کے سیشنوں اور لمبے تجربے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔

٭…آپ ﷺ نے خدام ِحدیث کے بارے میں فرمایا:
لاَ یَزَالُ نَاسٌ مَنْصُورِیْنَ لَا یَضُرُّہُمْ مَنْ خَذَلَہُمْ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ۔
چند لوگ تاقیامِ قیامت مسلسل غالب رہیں گے جنہیں کوئی بھی خوار کرنا چاہے تو ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
إِنْ لَمْ یَکُنْ ہَذِہِ الطَّائِفَۃُ الْمَنْصُورَۃُ أَصْحَابُ الْحَدِیثِ۔۔ فَلاَ أَدْرِیْ مَنْ ہُمْ؟
اگر یہ غالب گروہ اصحابِ حدیث کا نہیں تو مجھے نہیں معلوم کہ پھر وہ کون لوگ مراد ہیں؟ (معرفۃ علوم الحدیث:۲)

٭… جرح وتعدیل میں امام یحییٰؒ بن معین(۱۵۸۔۲۳۳ھ) کے ریمارکس سب ائمہ سے زیادہ ہیں۔ ان کی کتاب الضعفاء اور کتاب الکنی ہے۔ ان کے شاگرد عباس الدوری نے ان کے تنقیدی ریمارکس کو تاریخ نامی کتاب میں جمع کیا ہے۔ دیگر تلامذہ بھی ایسے ریمارکس کو جمع کرکے الگ کتب لکھ چکے ہیں۔

٭…امام علی ؒبن المدینی(۱۶۱۔۲۳۴ھ) کی مؤلفات میں کتاب الضعفاء، العلل، المدلسون، الأسماء والکنی وغیرہ ہیں۔

٭… اختلافی نکتۂ نظر کو دلیل سے پیش کرنے کے بعد مخالف کا حد درجہ احترام صحیح بخاری کے اس جملے میں نظر آتا ہے جو قال بعض الناس یعنی بعض لوگ یہ کہتے ہیں، سے ادا کیا گیا ہے۔ جو سنت رسول ہے۔اختلاف کا یہ باوقار انداز ہمیں رواۃ حدیث پر نقد کرتے ہوئے بھی ملتا ہے الا یہ کہ جو کذاب ہو یا بے دین ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ کے تنقیدی ریمارکس بھی بہت وزنی ہیں۔ گو ان الفاظ میں شدت نہیں مگر محدثین متفقہ طور پر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ امام بخاری کے یہ الفاظ سخت ترین نقد کے حامل ہیں۔ جیسے:
فِیْہِ نَظَرٌ، لَمْ یَصِحَّ حَدِیْثُہُ، یُخَالَفُ بَعْضَ حَدِیثِہِِِ،
ان کے سخت سے سخت تر الفاظ صرف
مُنکَرُ الحدیثِ
کے ہیں۔قال بعضُ النَّاسِ میں گو انہوں نے احترام ِمخالف ظاہر کیا ہے اس کا نام نہ لیا اور نہ لکھا مگر واقعی کچھ لوگوں کے لئے یہ الفاظ بھی بہت تنقیدی ٹھہرے۔ کَذَّابٌ ووَضَّاعٌ جیسے لفظ توشاذ ہی ہیں۔ ہاں اتنا کہہ دیتے ہیں کہ فلا ں نے اسے وضاع کہا ہے یا فلاں نے اس پر تہمت لگائی ہے۔

٭… عصرِ صحابہ سے تیسری صدی ہجری کے وسط تک نقد روایت کے درجہ بالا چند نقدی کلمات ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تنقید ِمتن اور رواۃ کسی بھی دور میں مفقود نہیں رہی بلکہ حالات وعوامل کے ہمراہ دن بدن اس میں بھی نکھار آتا گیا۔اور حدیث ِرسول کی روایت کے منہج کو مستقیم بنانے کے عمل میں کتنے اخلاص ، سنجیدہ کوشش اور نیک نیتی کا دخل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین کے اس مصدر کی حفاظت کا کام ان صالح افراد سے لیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… محدثین آخر کوئی Gospal-Writer نہ تھے جو عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پہ اٹھ جانے کے بہت عرصہ بعد بغیر کسی سند کے انجیل کی تالیف وتدوین کرتے ہیں۔اور الفاظ وترجمہ تک بدل دیتے ہیں۔بلکہ ایک آدھ لفظ کو سامنے رکھ کر اس پر صفحات کے صفحات لکھتے چلے جاتے ہیں۔ اور پھر یہی کہتے ہیں :
ہو من عند اللّٰہ۔
دیکھئے (Gospal of Barnabas) ۔ بلکہ محدثین نے اس کے برعکس آپ ﷺ کے اقوال واعمال کو پیش کرنے کے بے شمار شواہد فراہم کئے ہیں کہ صحابہ کرام سے تابعین نے اخذ کیا اور پھر یہ سب احادیث مکمل چھان بین کے بعد ضبط تحریر میں لائی گئیں۔ ان شواہد میں یہ تک خیال رکھا گیا کہ اپنے شیخ سے حدیث لینے یا سننے کا انداز کیا تھا اور پھر اس کی ادائیگی ،حدیث لینے والے نے کس طرح کی۔ ہمیشہ براہ راست سماع کو محدثین نے ترجیح دی اور کوشش کی کہ (early source) سے بات لی جائے تاکہ رسول کی بات پہنچانے میں کم سے کم واسطے ہوں۔نااہل اور بدعمل لوگوں کو وہ خاطر میں نہ لائے بلکہ ان کے حالات جان کر ان پرجرح کردی اور ہمیشہ کے لئے انہیں ٹھکانے لگادیا۔ صدق ودیانت کا غائب ہونا ایسا ہی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔اس لئے کہ معاملہ حدیث کا تھا اس میں ان کا کیا کام؟ اس لئے محدثین کا وہ لکھا قابل قبول ہونا چاہئے جو صحیح نسبت اور سند رکھتا ہو۔

٭٭٭٭٭
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Top