• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نمازِ جنازہ اور تدفین کا طریقہ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نمازِ جنازہ اور تدفین کا طریقہ

زیر نظر سطور میں ہم غسل میت، کفن دینے اور دفن کرنے کے اُمور اور طریقہ کار تحریر کر رہے ہیں:
1 مسلمان کو غسل دینا اور اس کی تدفین میں حصہ لینا فرض کفایہ ہے۔ اس لئے اس عمل میں حصہ لینے والے کو اجر و ثواب کے حصول کی مکمل نیت کرنی چاہیئے۔ غیر مسلم کو غسل دینا اور مسلمانوں کے ساتھ دفن کرنا جائز نہیں ہے۔
2 غسل دینے والا میت کا امانت دار ہے۔ لہٰذا اس کو غسل دینے کے تمام مسنون طریقے استعمال کرنے چاہئیں۔
3 غسل دینے والے کو میت کے عیبوں کی پردہ پوشی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
4 غسل دینے والے کو میت کے ساتھ مکمل احترام اور نرمی کرنی چاہیئے۔ لباس اتارتے اور کفن پہناتے وقت غیر ضروری جلد بازی اور سختی نہیں کرنی چاہیئے۔
5 شوہر کے علاوہ عورت میں کوئی دوسرا مرد شریک نہیں ہو سکتا۔ اور نہ مرد کے غسل کے وقت بیوی کے علاوہ کوئی دوسری عورت شریک ہو سکتی ہے۔ سات برس سے چھوٹے بچوں کی میت میں یہ حکم نہیں ہے۔ اسے کوئی بھی غسل دے سکتا ہے۔

غسل کا طریقہ
1 میت کے نیچے کوئی چیز رکھیں مثلاً لکڑی کا تختہ یا کوئی دوسری چیز۔
2 لباس اتارنے سے پہلے کوئی چادر وغیرہ میت پر ڈالیں تاکہ شرمگاہ وغیرہ عریاں نہ ہو۔
3 میت کے کپڑے بہت احتیاط اور آہستگی سے اتاریں۔
4 غسل دینے والا اپنے ہاتھوں پر کوئی دستانہ وغیرہ چڑھا لے۔
5 ایک گیلا تولیہ یا کپڑا لے کر میت کے دانت، ناک وغیرہ صاف کیجئے۔
6 استنجاء وغیرہ کروانے کے بعد وضو کے تمام اعضاء کو دھوئیں۔ پھر دائیں طرف سے تمام بدن پر پانی ڈالیں۔

کفن دینے کا طریقہ
کم از کم ایک بڑی چادر سے مکمل طور پر میت کو لپیٹنا ضروری ہے۔ لیکن افضل طریقہ درج ذیل ہے:
1 کفن کے تین کپڑے ہونے چاہئیں۔ کفن سفید رنگ کا ہونا چاہیئے۔ ایک چادر زمین پر بچھا کر میت کو اس کے اوپر لٹایا جائے۔ پھر دونوں اطراف سے لپیٹ دی جائے۔ ایک چادر کو بطور شلوار ٹانگوں اور دوسری چادر کو بطور قمیض سر اور سینے پر لپیٹ دی جائے۔
2 کفن اور میت کو خوشبو لگانا بھی بہتر ہے۔ کافور اور دیگر خوشبویات کو ناک کان اور دیگر اعظاء پر لگائیں۔
3 عورت کے کفن میں پانچ کپڑے ہوتے ہیں۔
4 میت کو قبر میں اتارنے کے بعد کفن کھول دینا چاہیئے۔

نمازِ جنازہ کا طریقہ
1 ہر مسلمان کا جنازہ پڑھانا ضروری ہے۔ میت مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا۔
2 چار مہینے سے زائد عمر کا حمل اگر ساقط ہو جائے تو بھی ناقص الخلقت بچے کا جنازہ پڑھانا چاہیئے کیونکہ اس بچے میں روح ڈال دی گئی تھی۔
3 اگر بچے میں روح نہیں ڈالی گئی تھی تو ایسے اسقاط کا غسل و جنازہ نہیں ہوتا۔
4 میت اگر مرد ہو تو اس کے درمیان میں اور اور عورت کے سر کی طرف امام کو کھڑا ہونا چاہیئے۔
5 جنازے کی چار تکبیرات ہوتی ہیں۔ پہلی تکبیر کے بعد تعوذ، بسم اﷲ اور سورہ فاتحہ پڑھی جائے۔ دوسری تکبیر کے بعد دوردِ ابراہیمی مکمل پڑھا جائے۔ تیسری تکبیر کے بعد مسنون دعائیں میت کی بخشش کے لئے پڑھی جائیں۔ اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھر دی جائے۔

تدفین کا طریقہ
1 قبر کو گہرا کرنا لازمی ہے تاکہ درندوں سے میت محفوظ رہ سکے۔
2 قبر کو ’’لحد‘‘ کے طریقے پر بنانا افضل ہے۔ یعنی پہلے ایک گہرا گڑھا کھود کر پھر ایک پہلو میں دوسر گڑھا نکالنا۔ اس طریقے کو ’’لحد‘‘ کہتے ہیں۔ اگر اس طرح لحد نہ بنائی جا سکے تو صرف ایک سادا سا گڑھا بنانا بھی جائز ہے۔
3 میت کے چہرے کو قبلے کی طرف موڑ دینا چاہیئے۔
4 گڑھا بند کرنے کیلئے پہلے پتھر کی اینٹیں یا لکڑی کا تختہ رکھ دیا جائے تاکہ میت کو مٹی نہ لگے۔
5 قبر کو بلند اور سیمنٹ سے پختہ نہیں کرنا چاہیئے۔
6 طلوع و غروبِ شمس اور زوال کے وقت میت کو دفن نہ کریں۔ اس کے علاوہ تمام اوقات (دن رات) میں دفن کرنا جائز ہے۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
السلام علیکم۔
عامر بھائی۔

5 جنازے کی چار تکبیرات ہوتی ہیں۔ پہلی تکبیر کے بعد تعوذ، بسم اﷲ اور سورہ فاتحہ پڑھی جائے۔ دوسری تکبیر کے بعد دوردِ ابراہیمی مکمل پڑھا جائے۔ تیسری تکبیر کے بعد مسنون دعائیں میت کی بخشش کے لئے پڑھی جائیں۔ اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھر دی جائے۔



میرے خیال میں صلاۃ المیت کا یہ ہی طریقہ مسجد الاحرام میں رائج ہے۔

حنفیوں کا طریقہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا طریقہ مسجد الا حرام کے طریقے سے مختلف ہے۔ حنفی جنازہ کی صلاۃ میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
محترم مسلم بھائی،
آپ ایک صحیح بات غلط استدلال کے تحت کہہ رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسجد حرام میں چار چار مصلے بھی بچھائے گئے جس میں ہر فقہ کے تحت نماز پڑھائی جاتی رہی ہے۔ اگر آپ اُس دور میں ہوتے تو کس طریقے کے تحت نماز جنازہ پڑھتے؟
آج ذرائع ابلاغ کی وجہ سے مسجد حرام میں پڑھی جانے والی نماز کا طریقہ جان لینا مشکل نہیں۔ چند سو سال پہلے تک اگر آپ کی فکر کے لوگ ہوتے، تو کیا ہر شخص خود مسجد حرام جا کر نماز کا طریقہ سیکھ کر آتا پھر ہی نماز پڑھتا؟ یا اپنے والدین پر یا اساتذہ پر بھروسا کر کے کہ یہ درست نماز سکھا رہے ہوں گے، نماز پڑھ لیتے؟
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
محترم مسلم بھائی،
آپ ایک صحیح بات غلط استدلال کے تحت کہہ رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسجد حرام میں چار چار مصلے بھی بچھائے گئے جس میں ہر فقہ کے تحت نماز پڑھائی جاتی رہی ہے۔ اگر آپ اُس دور میں ہوتے تو کس طریقے کے تحت نماز جنازہ پڑھتے؟
آج ذرائع ابلاغ کی وجہ سے مسجد حرام میں پڑھی جانے والی نماز کا طریقہ جان لینا مشکل نہیں۔ چند سو سال پہلے تک اگر آپ کی فکر کے لوگ ہوتے، تو کیا ہر شخص خود مسجد حرام جا کر نماز کا طریقہ سیکھ کر آتا پھر ہی نماز پڑھتا؟ یا اپنے والدین پر یا اساتذہ پر بھروسا کر کے کہ یہ درست نماز سکھا رہے ہوں گے، نماز پڑھ لیتے


؟

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
وہ ایک گروہ ہے کہ گزر گیا ان کے لئے ان کی کمائی اور تمہارے لئے تمہاری کمائی اور ان کے کاموں کی تم سے پرسش نہ ہوگی۔ (141)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
وہ ایک گروہ ہے کہ گزر گیا ان کے لئے ان کی کمائی اور تمہارے لئے تمہاری کمائی اور ان کے کاموں کی تم سے پرسش نہ ہوگی۔ (141)
سبحان اللہ محترم بھائی، میں نے آپ کے طریقہ استدلال کی خامی پر سوال اٹھایا تھا۔ کہ اگر آپ کا نظریہ درست مانا جائے تو چند سو سال پہلے تک آپ کے نظریہ پر عملدرآمد ناممکن تھا۔ ان گزرے لوگوں کی کمائی یا کاموں پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
سبحان اللہ محترم بھائی، میں نے آپ کے طریقہ استدلال کی خامی پر سوال اٹھایا تھا۔ کہ اگر آپ کا نظریہ درست مانا جائے تو چند سو سال پہلے تک آپ کے نظریہ پر عملدرآمد ناممکن تھا۔ ان گزرے لوگوں کی کمائی یا کاموں پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔[
/QUOTE]




07-10-2011 17:17 #11
muslim
سینئر رکن
تاریخ شمولیت
Sep 2011
مقام
کراچی پاکستان
پیغامات
113
اصل پیغام ارسال کردہ از: ابو الحسن علوی
پچاس کی دہائی سے پہلے حرم مکی میں چار مصلے حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی موجود تھے، جن کی تصاویر اور تاریخ موجود ہیں۔ لہذا آج سے ساٹھ سال پہلے تک تو چار طرح نماز پڑھنا درست تھی اور اب ایک طرح سے پڑھنا درست ہے؟ آپ کی قرآن فہمی لاجواب ہے؟
اسلام و علیکم۔
آپ درست نہیں کہہ رہے۔ 60 سال پہلے نہ تو آپ موجود تھے اور نا ہی آپ گواہ ہیں۔ امامت ایک ہی طریقہ پر قائم ہے۔ جو ابراہیم علیہ سلام اور دیگر انبیا نے قائم کیا اور اسی طریقہ پر محمدﷺ نے صلاۃ قائم کی۔اور آج بھی اور آئیندہ بھی کوئی اسے تبدیل نہیں کرسکتا۔ ہمارے لئے قرآن کی آیت حجت ہونی چاہئے نہ کہ تاریخ۔ اللہ آپ سے تاریخ کے متعلق سوال نہیں کرے گا بلکہ اپنی آیت کے بارے میں ضرور سوال کرے گا۔
اللہ کے گھر میں عالمین کے لئے ہدایت ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
مسلم بھائی، کاپی پیسٹ احتیاط سے کیا کریں۔ اور پیسٹنگ کے بعد ایک مرتبہ دیکھ لیا کریں کہ کیا کچھ پیسٹ ہو گیا ہے۔
آپ نے جو یہ درج بالا جواب دیا ہے۔ محترم، اس پر توجہ کریں۔ ساٹھ سال پہلے آپ یا ہم واقعی موجود نہیں تھے۔ لیکن گواہوں کی ایک کثیر تعداد ہے۔ تصاویر موجود ہے، کتابیں موجود ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آج آپ نے جاپان نہیں دیکھا ہے اور ٹی وی پر یا اخبارات کی گواہی پر آپ اعتبار نہ کرتے ہوئے کہہ دیں کہ جاپان کا وجود ہی نہیں ہے۔ یا جیسے آپ نے ابھی فرمایا ہے کہ مسجد حرام میں نماز جنازہ کا یہی طریقہ رائج ہے۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ یہی طریقہ وہاں رائج ہے؟ کیا آپ نے خود ملاحظہ کیا ہے؟ کتابوں میں پڑھا ہے یا انٹرنیٹ اور ٹی وی وغیرہ پر دیکھا ہے۔

محترم، ہم ہرگز بھی کتاب اللہ کے بالمقابل کسی کی بات نہیں مان رہے۔ بلکہ کتاب اللہ کی ایک آیت سے جو آپ نے خود ساختہ مفہوم اخذ کیا ہے اس مفہوم کا بطلان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اب دیکھئے نا، قرآن کی آیت وہی ایک ہی ہے۔ لیکن اس سے آپ کچھ اور مفہوم مراد لیتے ہیں اور یہ عجیب و غریب بات کہتے ہیں کہ مسجد حرام میں نماز جس طریقے پر پڑھی جائے اسی کو اپنا لو۔ دوسری طرف یہی قرآن اور یہی آیت ہمارے سامنے بھی کھلی ہے۔ لیکن ہمیں آپ کا یہ اخذ کردہ مفہوم دور دور تک کہیں نظر نہیں آتا۔ اب بتائیں کہ یہ فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کون آیت کا درست مطلب سمجھ رہا ہے اور کون غلط؟ میں ایک عام مسلمان ہوں اور خلوص سے اللہ تعالیٰ کی مراد کو جاننا چاہتا ہوں تو میں آپ کی عقل میں آنے والا مفہوم مراد لے لوں؟ یا اپنی عقل میں آنے والا مفہوم مراد لوں؟ آپ جو مفہوم مراد لے رہے ہیں وہ تاریخی حوالہ جات اور کثیر گواہوں، اخباری اور کتابی رپورٹس، تصاویر، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، فقہاء ، محدثین، علمائے امت کے مجموعی فہم سب کے خلاف ہے۔کیونکہ آج تک کسی مسلمان ثقہ مفسر نے ان آیات کا یہ مفہوم مراد نہیں لیا ہے اور ذرا وہ آیات تو ملاحظہ کریں جن سے آپ نے یہ مفہوم کشید کرنے کی کاوش کی ہے:

رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ﴿٣٧﴾
اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لیے کہ وه نماز قائم رکھیں، پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے۔ اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں۔ 14:37
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ﴿١٢٥﴾
ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لئے ثواب اور امن وامان کی جگہ بنائی، تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کرلو، ہم نے ابراہیم ﴿علیہ السلام﴾ اور اسماعیل ﴿علیہ السلام﴾ سے وعده لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجده کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو۔ 2:125
نَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ﴿٩٦﴾
اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ (شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت والا ہے۔3:96

امید ہے کہ ترجمہ سے آپ اختلاف نہیں کریں گے۔ محترم درج بالا آیات میں یہ کہاں ذکر کیا گیا ہے کہ مسجد حرام میں نماز کا طریقہ ہمیشہ ایک جیسا رہے گا؟ پہلی اور دوسری آیت سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز گزشتہ امتوں میں بھی رائج تھی۔ مقام ابراہیم کا جائے نماز ہونا بھی تسلیم ہے بلکہ آپ کے سے طرز استدلال پر تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ بھی مقام ابراہیم ہی کو جائے نماز بنائیں، گھر یا علاقے کی مسجد کو نہیں۔

لیکن بہرحال آپ کی پیش کردہ کسی آیت میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ حرم میں ہمیشہ تاقیام قیامت نماز کا وہی طریقہ برقرار رہے گا جس کا حکم حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیا گیا تھا۔ اگر درج بالا آیات کو یا ان کے تراجم کو آپ کی تفسیر سے علیحدہ کر کے کسی بھی عام مسلمان کو پڑھا دیا جائے تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ لاکھ میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوگا جو ان آیات کا وہ مفہوم سمجھے گا جو آپ نے سمجھا ہے۔ اور آپ والے مفہوم کو اگر واقعی حق بات مان لیا جائے تو اس سے قرآن نازل کرنے والی ہستی کے متعلق کیا تصور ابھرتا ہے کبھی سوچا ہے آپ نے؟؟ اگر اللہ تعالیٰ کو یہی بات کہنی مطلوب تھی کہ نماز کا طریقہ مسجد حرام میں ہمیشہ وہی رہے گا جو درست ہے اور کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔ تو کیا نعوذباللہ اللہ تعالیٰ کو ہمیں سمجھانے کے لئے مناسب الفاظ نہیں مل سکے؟ دیکھئے نا، آپ نے یہ بات ہمیں سمجھانی تھی کہ مسجد حرام کا طریقہ ہمیشہ درست ہوگا ، آپ نے ایک ہی پوسٹ کے ایک ہی جملہ میں ہمیں سمجھا ڈالا۔ لیکن قرآن کی جو آیات آپ نے دلیل میں پیش کی ہیں، ان تینوں آیات کو متفرق مقامات سے اٹھا کر یکجا دیکھنے پر بھی یہ مفہوم کہیں نہیں ملتا۔

بہرحال، اگر مجھ سے آپ کی بات درست سمجھنے میں غلطی ہو رہی ہے تو نشاندہی کر دیجئے۔ روز قیامت آپ نے اور میں نے سب نے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے، قرآن کی آیات کا من چاہا مفہوم اخذ کرنا کتنا بڑا گناہ ہے آپ کو سمجھانے کی ضرورت تو نہیں ہوگی۔ امید ہے کہ یا تو اپنی بات کی وضاحت کریں گے یا اللہ کے حضور توبہ کرکے اپنے نیک نیت ہونے کا ثبوت دیں گے۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
بہرحال، اگر مجھ سے آپ کی بات درست سمجھنے میں غلطی ہو رہی ہے تو نشاندہی کر دیجئے۔ روز قیامت آپ نے اور میں نے سب نے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے، قرآن کی آیات کا من چاہا مفہوم اخذ کرنا کتنا بڑا گناہ ہے آپ کو سمجھانے کی ضرورت تو نہیں ہوگی۔ امید ہے کہ یا تو اپنی بات کی وضاحت کریں گے یا اللہ کے حضور توبہ کرکے اپنے نیک نیت ہونے کا ثبوت دیں گے۔

شاکر بھائی
السلام علیکم۔

میرے بہت قابل احترام بھائی۔ مجھے درج زیل صرف ایک آیت کا مطلب بتادیں۔


انَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ﴿٩٦﴾
بیشک پہلا گھر جو لوگوں کے لئے وضع کیا گیا وہی ہے جو بکہ کے ساتھ ہے۔ مبارک ہے اور علمین کے لئے ہدایت ہے۔3:96


اس اول بیت میں ہمارے (میرے اور آپ کے لئے آج اس دور میں) لئے کیا ہدایت ہے؟ ہمارے لئے کیا برکت ہے؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891

انَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ﴿٩٦﴾
بیشک پہلا گھر جو لوگوں کے لئے وضع کیا گیا وہی ہے جو بکہ کے ساتھ ہے۔ مبارک ہے اور علمین کے لئے ہدایت ہے۔3:96


اس اول بیت میں ہمارے (میرے اور آپ کے لئے آج اس دور میں) لئے کیا ہدایت ہے؟ ہمارے لئے کیا برکت ہے؟
محترم بھائی،
آپ بہت سے اہم سوالات کو چھوڑ کر ایک نئی آیت پیش کر رہے ہیں۔ گویا آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پہلے آپ نے جن آیات کے ریفرنس دئے جن کا ذکر اوپر ہوا ان سے آپ کا وہ دعویٰ ثابت نہیں ہوتا کہ مسجد حرام میں نماز کا طریقہ ہمیشہ درست اور یکساں رہے گا۔
درج بالا آیت کی تفسیر بھی آپ ہی کر دیں تو ہم کم علموں کو سمجھ آ جائے۔ ورنہ درج بالا آیت سے بھی زیر بحث مسئلہ کی کوئی شق ثابت ہوتی ہوئی مجھے نظر نہیں آ رہی۔ کیونکہ درج بالا آیت میں نہ تو نماز کا ذکر ہو رہا ہے، نہ ہی اس کا کوئی بیان ہے کہ نماز کا کوئی غلط طریقہ حرم میں رائج نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ یہاں عالمین کے لئے ہدایت کے الفاظ سے اپنا مدعا ثابت کرنا چاہتے ہیں تو معاف کیجئے گا اس سے صرف نماز نہیں، بلکہ ہدایت کے تمام امور ثابت ہوں گے۔ لہٰذا آپ کو مسجد حرام سے جاری ہونے والے تمام فتاویٰ بھی درست ماننے ہوں گے۔ حج، روزہ، زکوٰۃ، حجیت حدیث سے متعلق جو کچھ وہاں رائج ہے سب ہی ہدایت پر مشتمل ہوگا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ نماز قرآن سے ثابت نہیں ہوئی تو مسجد حرام کی نماز کو اپنی تائید میں پیش کر دیا۔ لیکن بقیہ امور میں آپ قرآن کی اس آیت سے کفر کرتے ہوئے بیت اللہ کو گمراہی کا مرکز قرار دے رہے ہیں؟؟
نماز ہی کے مسئلے کو لے لیں تو کیا بیت اللہ میں جو نماز قائم کی جاتی ہے وہ آپ کے نظریہ پر قائم ہے؟ یا وہاں کے مسلمین نماز کے طریقہ کو کتب احادیث میں موجود پا کر اس طرح کی نماز قائم کرتے ہیں؟ سمجھنے کی بات ہے بھائی، کہ ہم جب آپ سے کہتے ہیں کہ نماز کا طریقہ صحیح احادیث میں ملتا ہے وہ مان لیں، تو آپ نہیں مانتے۔ آپ بیت اللہ میں پڑھی جانے والی نماز کو اسٹینڈرڈ بنا لیتے ہیں جو کہ خود انہی صحیح احادیث کو دیکھ کر نماز قائم کئے ہوئے ہیں۔۔۔؟ ہم آپ کو ماخذ تک لے جانا چاہتے ہیں اور آپ ہیں کہ بواسطہ مسجد حرام ہی وہاں تک جانا چاہتے ہیں؟ یہ عجیب بات نہیں؟
نیز یہ بھی بتا دیں کہ اگر مسجد حرام میں پڑھائی جانے والی نماز کا طریقہ اگر کوئی شخص کسی کتاب میں لکھ دے اور وہ شخص سچا، پکا، اچھا، مخلص اور قوی یادداشت رکھنے والا مسلمان ہو اور اس مسلمان کی عدالت کی اور اس کتاب کی صداقت کی گواہی اس جیسے دیگر بہت سے مسلمان دے رہے ہوں تو کیا آپ اس کتاب کے مطابق نماز پڑھنے کو تیار ہو جائیں گے یا نہیں؟

پھر آپ سے یہ بھی دریافت کرنا تھا کہ کیا قرآن آج ٹی وی ، انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ کا محتاج ہو گیا ہے؟ (نعوذ باللہ) اگر یہ چیزیں آج کے دور میں نہ ہوتیں تو آپ یا میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر کیسے عمل کر پاتے؟ یہ بہت اہم سوال ہے کیونکہ آپ حدیث کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے لہٰذا امید ہے کہ کفار کی بنائی ہوئی دور جدید کی ان ایجادات کو بھی قرآن پر اتھارٹی تسلیم نہیں کریں گے۔
امید کرتا ہوں کہ آپ کچھ تفصیلی وضاحت کر کے شکریہ کا موقع دیں گے۔
والسلام
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
محترم بھائی،
آپ بہت سے اہم سوالات کو چھوڑ کر ایک نئی آیت پیش کر رہے ہیں۔ گویا آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پہلے آپ نے جن آیات کے ریفرنس دئے جن کا ذکر اوپر ہوا ان سے آپ کا وہ دعویٰ ثابت نہیں ہوتا کہ مسجد حرام میں نماز کا طریقہ ہمیشہ درست اور یکساں رہے گا۔
درج بالا آیت کی تفسیر بھی آپ ہی کر دیں تو ہم کم علموں کو سمجھ آ جائے۔ ورنہ درج بالا آیت سے بھی زیر بحث مسئلہ کی کوئی شق ثابت ہوتی ہوئی مجھے نظر نہیں آ رہی۔ کیونکہ درج بالا آیت میں نہ تو نماز کا ذکر ہو رہا ہے، نہ ہی اس کا کوئی بیان ہے کہ نماز کا کوئی غلط طریقہ حرم میں رائج نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ یہاں عالمین کے لئے ہدایت کے الفاظ سے اپنا مدعا ثابت کرنا چاہتے ہیں تو معاف کیجئے گا اس سے صرف نماز نہیں، بلکہ ہدایت کے تمام امور ثابت ہوں گے۔ لہٰذا آپ کو مسجد حرام سے جاری ہونے والے تمام فتاویٰ بھی درست ماننے ہوں گے۔ حج، روزہ، زکوٰۃ، حجیت حدیث سے متعلق جو کچھ وہاں رائج ہے سب ہی ہدایت پر مشتمل ہوگا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ نماز قرآن سے ثابت نہیں ہوئی تو مسجد حرام کی نماز کو اپنی تائید میں پیش کر دیا۔ لیکن بقیہ امور میں آپ قرآن کی اس آیت سے کفر کرتے ہوئے بیت اللہ کو گمراہی کا مرکز قرار دے رہے ہیں؟؟
نماز ہی کے مسئلے کو لے لیں تو کیا بیت اللہ میں جو نماز قائم کی جاتی ہے وہ آپ کے نظریہ پر قائم ہے؟ یا وہاں کے مسلمین نماز کے طریقہ کو کتب احادیث میں موجود پا کر اس طرح کی نماز قائم کرتے ہیں؟ سمجھنے کی بات ہے بھائی، کہ ہم جب آپ سے کہتے ہیں کہ نماز کا طریقہ صحیح احادیث میں ملتا ہے وہ مان لیں، تو آپ نہیں مانتے۔ آپ بیت اللہ میں پڑھی جانے والی نماز کو اسٹینڈرڈ بنا لیتے ہیں جو کہ خود انہی صحیح احادیث کو دیکھ کر نماز قائم کئے ہوئے ہیں۔۔۔؟ ہم آپ کو ماخذ تک لے جانا چاہتے ہیں اور آپ ہیں کہ بواسطہ مسجد حرام ہی وہاں تک جانا چاہتے ہیں؟ یہ عجیب بات نہیں؟
نیز یہ بھی بتا دیں کہ اگر مسجد حرام میں پڑھائی جانے والی نماز کا طریقہ اگر کوئی شخص کسی کتاب میں لکھ دے اور وہ شخص سچا، پکا، اچھا، مخلص اور قوی یادداشت رکھنے والا مسلمان ہو اور اس مسلمان کی عدالت کی اور اس کتاب کی صداقت کی گواہی اس جیسے دیگر بہت سے مسلمان دے رہے ہوں تو کیا آپ اس کتاب کے مطابق نماز پڑھنے کو تیار ہو جائیں گے یا نہیں؟

پھر آپ سے یہ بھی دریافت کرنا تھا کہ کیا قرآن آج ٹی وی ، انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ کا محتاج ہو گیا ہے؟ (نعوذ باللہ) اگر یہ چیزیں آج کے دور میں نہ ہوتیں تو آپ یا میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر کیسے عمل کر پاتے؟ یہ بہت اہم سوال ہے کیونکہ آپ حدیث کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے لہٰذا امید ہے کہ کفار کی بنائی ہوئی دور جدید کی ان ایجادات کو بھی قرآن پر اتھارٹی تسلیم نہیں کریں گے۔
امید کرتا ہوں کہ آپ کچھ تفصیلی وضاحت کر کے شکریہ کا موقع دیں گے۔
والسلام

السلام علیکم۔

مسجدالاحرام میں صلاۃ پہلے سے قائم ہے یا احادیث پڑہ کر قائم کی گئی ہے؟
 
Top