• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کا حکم

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
باب : نماز جنازہ میں سورئہ فاتحہ پڑھنا ( ضروری ہے )
وقال الحسن يقرأ على الطفل بفاتحة الكتاب ويقول اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا وأجرا‏.
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بچے کی نماز جنازہ میں پہلے سورئہ فاتحہ پڑھی جائے پھر یہ دعا پڑھی جائے :
اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا واجرا
یا الله! اس بچے کو ہمارا امیر سامان کردے اور آگے چلنے والا‘ ثواب دلانے والا۔
حدیث نمبر : 1335
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد، عن طلحة، قال صليت خلف ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ‏.‏ حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن طلحة بن عبد الله بن عوف، قال صليت خلف ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب قال ليعلموا أنها سنة‏.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے غندر ( محمد بن جعفر ) نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے اور ان سے طلحہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتداءمیں نماز ( جنازہ ) پڑھی ( دوسری سند ) ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن ابراہیم نے‘ انہیں طلحہ بن عبداللہ بن عوف نے‘ انہوں نے بتلایا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورئہ فاتحہ ( ذرا پکار کر ) پڑھی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے۔
تشریح :
جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنی ایسی ہی واجب ہے جیسا کہ دوسری نمازوں میں کیونکہ حدیث لا صلوٰۃ لمن لم یقرا بفاتحة الکتاب ہر نماز کو شامل ہے۔
اس کی تفصیل حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے:
والحق والصواب ان قراة الفاتحة فی صلوٰة الجنازة واجبة کما ذهب الیه الشافعی واحمد واسحاق وغیرهم لانهم اجمعواعلی انها صلوٰة وقد ثبت حدیث لا صلوٰة الا بفاتحة الکتاب فهی داخلة تحت العموم واخراجها منه یحتاج الی دلیل ولا نها صلوٰة یجب فیها القیام فوجبت فیها القراة کسائر الصلوات ولانه وردالامر بقراتها فقدروی ابن ماجة باسناد فیه ضعف یسیر عن ام شریک قالت امرنا رسول الله صلی الله علیه وسلم ان نقراءعلی میتنا بفاتحة الکتاب وروی الطبرانی فی الکبیر من حدیث ام عفیف قالب امرنا رسول الله صلی الله علیه وسلم ان نقرا علی میتنا بفاتحة الکتاب قال الهیثمی وفیه عبدالمنعم ابوسعید وهو ضعیف انتهی۔
والا مر من ادلة الوجوب وروی الطبرانی فی الکبیر ایضا من حدیث اسماءبنت یزید قالت قال رسول الله صلی الله علیه وسلم اذا صلیتم علی الجنازة فاقر ؤا بفاتحة الکتاب قال الهیثمی وفیه معلیٰ بن حمران ولم اجد من ذکره وبقیة رجاله موثقون وفی بعضهم کلام هذا وقد صنف حسن الشر نبلانی من متاخری الحنفیة فی هذه المسئلة رسالة اسمها النظم المستطاب لحکم القراءة فی صلوٰة الجنازة ام الکتاب وحقق فیها ان القراءة اولیٰ من ترک القراءة ولا دلیل علی الکراهة وهوالذی اختاره الشیخ عبدالحی اللکهنوی فی تصانیفه لعمدة الرعایة والتعلیق الممجد وامام الکلام ثم انه استدل بحدیث ابن عباس علی الجهر بالقراءة فی الصلوٰة علی الجنازة لا نه یدل علی انه جهر بها حتی سمع ذالک من صلی معه واصرح من ذلک ماذکر ناه من روایة النسائی بلفظ صلیت خلف ابن عباس علی جنازة فقرا بفاتحة الکتاب وسورة وجهر حتی اسمعنا فلما فرغ اخذت بیده فسالته فقال سنة وحق وفی روایة اخریٰ له ایضا صلیت خلف ابن عباس علی جنازة فسمعته یقرا بفاتحة الکتاب الخ ویدل علی الجهر بالدعاءحدیث عوف بن مالک الاتی فان الظاهر انه حفظ الدعاءالمذکور لما جهربه النبی صلی الله علیه وسلم فی الصلوٰة علی الجنازة اصرح منه حدیث واثلة فی الفصل الثانی۔
واختلف العلماءفی ذلک فذهب بعضهم الی انه یستحب الجهر بالقراءة والدعاءفیها واستدلوا بالروایات التی ذکرناها انفا و ذهب الجمهور الی انه لا یندب الجهربل یندب الاسرار قال ابن قدامة ویسر القراءةوالدعاءفی صلوٰة الجنازة لا نعلم بین اهل العلم فیه خلا فا انتهی۔
واستدلوا لذلک بما ذکرنا من حدیث ابی امامة قال السنة فی الصلوٰة علی الجنازة ان یقرا فی التکبیرة الاولیٰ بام القرآن مخافتة لحدیث اخرجه النسائی ومن طریقه ابن حزم فی المحلیٰ ( ص:129ج:5 ) قال النووی فی شرح المهذب رواه النسائی باسناد علی شرط الصحیحین وقال ابوامامة هذا صحابی انتهی وبما روی الشافعی فی الام ( ص:239ج:1 والبیهقی ص:39ج:4 ) من طریقه عن مطرف بن مازن عن معمرعن الزهری قال اخبرنی ابوامامة بن سهل انه اخبره رجل من اصحاب النبی صلی الله علیه وسلم ان السنة فی الصلوة علی الجنازه ان یکبر الامام ثم یقرا بفاتحة الکتاب بعدالتکبیرة الاولیٰ سرا فی نفسه الحدیث وضعفت هذه الروایة بمطرف لکن قواها البیهقی بمارواه فی المعرفة والسنن من طریق عبیدالله بن ابی زیاد الرصا فی عن الزهری بمعنی روایة مطرف وبما روی الحاکم ( (ص:359،ج:1 ، والبیهقی من طریقه ص:42ج:4 ) عن شرحبیل بن سعدقال حضرت عبدالله بن مسعود صلی علی جنازة بالابواءفکبر ثم قرا بام القرآن رافعاً صوته بها ثم صلی علی النبی صلی الله علیه وسلم ثم قال اللهم عبدک وابن عبدک الحدیث وفی آخره ثم انصرف فقال یا ایها الناس انی لم اقرا علنا ( ای جهرا ) الا لتعلموا انها سنة قال الحافظ فی الفتح وشرحبیل مختلف فی توثیقه انتهی۔
واخرج ابن الجارود فی المنتقیٰ من طریق زید بن طلحة التیمی قال سمعت ابن عباس قرا علی جنازة فاتحة الکتاب وسورة وجهر بالقراءة وقال انما جهرت لاعلمکم انها سنة۔
وذهب بعضهم الی انه یخیربین الجهر والاسرار وقال بعض اصحاب الشافعی انه یجهر باللیل کاللیلة ویسربالنهار۔ قال شیخنا فی شرح الترمذی قول ابن عباس انما جهرت لتعلموا انها سنة یدل علی ان جهره کان للتعلیم ای لالبیان ان الجهر بالقراءة سنة قال واما قول بعض اصحاب الشافعی یجهر باللیل کاللیلة فلم اقف علی روایة تدل علیه هذا انتهی۔ وهذا یدل علی ان الشیخ مال الی قول الجمهور ان الاسرار بالقرا ءة مندوب هذا وروایة ابن عباس عندالنسائی بلفظ فقرا بفاتحة الکتاب وسورة تدل علی مشروعیة قرا ءة سورة مع الفاتحة فی الصلوٰة الجنازة قال الشوکانی لامحیص عن المصیر الی ذلک لانها زیادة خارجة من مخرج صحیح قلت ویدل علیه ایضا ما ذکره ابن حزم فی المحلیّٰ(ص:129ج:5 )معلقا عن محمدبن عمروبن عطاءان المسور بن مخرمة صلی علی الجنازة فقرا فی التکبیر الاولیٰ بفاتحة الکتاب وسورة قصیرة رفع بهاصوته فلما فرغ قال لا اجهل ان تکون هذه الصلوة عجماءولکن اردت ان اعلمکم ان فیها قرا ءة۔ (مرعاة المفاتیح، ج:2ص:478 )

حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ کے اس طویل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ جنازہ میں پڑھنی واجب ہے جیسا کہ امام شافعی اور احمد اور اسحاق وغیر ہم کا مذہب ہے۔ ان سب کا اجماع ہے کہ سورۃ فاتحہ ہی نماز ہے اور حدیث میں موجود ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ پس نماز جنازہ بھی اسی عموم کے تحت داخل ہے اور اسے اس عموم سے خارج کرنے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اور یہ بھی کہ جنازہ ایک نماز ہے جس میں قیام واجب ہے۔ پس دیگر نمازوں کی طرح اس میں بھی قرات واجب ہے اور اس لیے بھی کہ اس کی قرات کا صریح حکم موجود ہے۔ جیسا کہ ابن ماجہ میں ام شریک سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگرچہ اس حدیث کی سند میں کچھ ضعف ہے مگر دیگر دلائل وشواہد کی بناپر اس سے استدلال درست ہے اور طبرانی میں بھی ام عفیف سے ایسا ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا اور امرو جوب کے لیے ہوتا ہے۔ طبرانی میں اسماءبنت یزید سے بھی ایسا ہی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جنازہ پر نماز پڑھو تو سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔
متاخرین حنفیہ میں ایک مولانا حسن شرنبلانی مرحوم نے اس مسئلہ پر ایک رسالہ بنام النظم المستطاب لحکم القراءة فی صلوٰة الجنازة بام الکتاب کہا ہے۔ جس میں ثابت کیا ہے کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا نہ پڑھنے سے بہتر ہے اور اس کی کراہیت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایسا ہی مولانا عبدالحی لکھنؤی رحمہ اللہ نے اپنی تصانیف عمدة الرعایه اور تعلیق الممجد اور امام الکلام وغیرہ میں لکھا ہے۔
پھر حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے جہر پر دلیل پکڑی گئی ہے کہ وہ حدیث صاف دلیل ہے کہ انہوں نے اسے بالجہر پڑھا۔ یہاں تک کہ مقتدیوں نے اسے سنا اور اس سے بھی زیادہ صریح دلیل وہ ہے جسے نسائی نے روایت کیاہے۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک جنازہ کی نماز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے پڑھی۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورۃ کو جہر کے ساتھ ہم کو سنا کر پڑھا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر یہ مسئلہ آپ سے پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک یہی سنت اور حق ہے اور جنازہ کی دعاؤں کو جہر سے پڑھنے پر عوف بن مالک کی حدیث دلیل ہے۔ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آپ کے بلند آواز سے پڑھنے پر سن سن کر ان دعاؤں کو حفظ ویاد کرلیا تھا اور اس سے بھی زیادہ صریح واثلہ کی حدیث ہے۔
اور علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے روایات مذکورہ کی بناپر جہر کو مستحب مانا ہے جیسا کہ ہم نے ابھی اس کا ذکر کیا ہے۔ جمہور نے آہستہ پڑھنے کو مستحب گردانا ہے۔ جمہور کی دلیل حدیث امامہ ہے جس میں آہستہ پڑھنے کو سنت بتایا گیا ہے اخرجہ النسائی۔ علامہ ابن حزم نے محلّٰی میں اور امام شافعی نے کتاب الام میں اور بیہقی وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے فرمایا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے۔
شرحبیل بن سعد کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک جنازہ میں بمقام ابواءشریک ہوا۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور درود اور دعاؤں کو بلند آواز سے پڑھا پھر فرمایا کہ میں جہر سے نہ پڑھتا مگر اس لیے پڑھا تاکہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔
اور منتقی ابن جارود میں ہے کہ زید بن طلحہ تیمی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز پڑھی جس میں انہوں نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورت کو بلند آواز سے پڑھا اور بعد میں فرمایا کہ میں نے اس لیے جہر کیا ہے تاکہ تم کو سکھلاؤں کہ یہ سنت ہے۔
بعض علماءکہتے ہیں کہ جہر اور سرہردو کے لیے اختیار ہے۔ بعض شافعی حضرات نے کہا کہ رات کو جنازہ میں جہر اور دن میں سر کے ساتھ پڑھا جائے۔ ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمتہ اللہ علیہ قول جمہور کی طرف ہیں اور فرماتے ہیں کہ قرات آہستہ ہی مستحب ہے اور نسائی والی روایات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں دلیل ہے کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا مشروع ہے۔ مسور بن مخرمہ نے ایک جنازہ میں پہلی تکبیر میں سورۃ فاتحہ اور ایک مختصر سی سورت پڑھی۔ پھر فرمایا کہ میں نے قرات جہر سے اس لیے کی ہے کہ تم جان لو کہ اس نماز میں بھی قرات ہے اور یہ نماز گونگی ( بغیر قرات والی ) نہیں ہے۔ انتہی مختصرا
خلاصتہ المرام یہ کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا ضروری ہے۔ حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب مالا بدمنہ میں اپنا وصیت نامہ بھی درج فرمایا ہے۔ جس میں آپ فرماتے ہیں کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جو اس میں سورہ فاتحہ پڑھے۔ پس ثابت ہوا کہ جملہ اہل حق کا یہی مختار مسلک ہے۔
علمائے احناف کا فتوی!
فاضل محترم صاحب تفہیم البخاری نے اس موقع پر فرمایا ہے کہ حنفیہ کے نزدیک بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی جائز ہے۔ جب دوسری دعاؤں سے اس میں جامعیت بھی زیادہ ہے تو اس کے پڑھنے میں حرج کیا ہوسکتا ہے۔ البتہ دعا اور ثناءکی نیت سے اسے پڑھنا چاہئے قرات کی نیت سے نہیں۔ (تفہیم البخاری‘ پ5 ص:122 )
فاضل موصوف نے آخر میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ صحیح نہیں جب کہ سابقہ روایات مذکورہ میں اسے قرات کے طور پر پڑھنا ثابت ہے۔ پس اس فرق کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ بہر حال خدا کرے ہمارے محترم حنفی بھائی جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع فرمادیں یہ بھی ایک نیک اقدام ہوگا۔
روایات بالا میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے جو یہ فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے اس کی وضاحت حضرت مولانا شیخ الحدیث مدظلہ العالی نے یوں فرمائی ہے۔
والمراد بالسنة الطریقة المالوفة عنه لا مایقابل الفریضة فانه اصطلاح عرفی حادث فقال الاشرف الضمیر المونث لقراءة الفاتحة ولیس المراد بالسنة انها لیست بواجبة بل مایقابل البدعة ای انها طریقة مرویة وقال القسطلانی انها ای قراءة الفاتحة فی الجنازة سنة ای طریقة الشارع فلا ینا فی کونها واجبة وقد علم ان قول الصحابی من السنة کذا حدیث مرفوع عند الاکثر قال الشافعی فی الام واصحاب النبی صلی الله علیه وسلم لا یقولون السنة الالسنة رسول الله علیه وسلم ان شاءالله تعالیٰ انتهٰی (مرعاۃ المفاتیح، ص:477 )
یعنی یہاں لفظ سنت سے طریقہ مالوفہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہے نہ وہ سنت جو فرض کے مقابلہ پر ہوتی ہے۔ یہ ایک عرفی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یہ مراد نہیں کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ وہ سنت مراد ہے جو بدعت کے مقابلہ پر بولی جاتی ہے۔ یعنی یہ طریقہ مرویہ ہے اور قسطلانی نے کہا کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی سنت ہے یعنی شارع کا طریقہ ہے اور یہ واجب ہونے کے منافی نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں فرمایا ہے کہ صحابہ کرام لفظ سنت کا استعمال سنت یعنی طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے۔ اقوال صحابہ میں حدیث مرفوع پر بھی سنت کا لفظ بولا گیا ہے۔ بہرحال یہاں سنت سے مراد یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ نماز میں پڑھنا طریقہ نبوی ہے اور یہ واجب ہے کہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ تفصیل بالا میں بیان کیا گیا ہے۔
اور مؤطا امام مالک میں روایت ’’لا يقرأ في الصلاة على الجنازة ‘‘ اس بارے میں شیخ صالح العثیمن کا فتوی
 
شمولیت
جولائی 24، 2012
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
150
پوائنٹ
66
باب : نماز جنازہ میں سورئہ فاتحہ پڑھنا ( ضروری ہے )
وقال الحسن يقرأ على الطفل بفاتحة الكتاب ويقول اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا وأجرا‏.
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بچے کی نماز جنازہ میں پہلے سورئہ فاتحہ پڑھی جائے پھر یہ دعا پڑھی جائے :
اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا واجرا
یا الله! اس بچے کو ہمارا امیر سامان کردے اور آگے چلنے والا‘ ثواب دلانے والا۔
حدیث نمبر : 1335

السلام علیکم.
بھائی حافظ محمد عمر، آپ نے جو حدیث نمبر درج کیا ہے وہ حدیث کس کتاب سے لی گئی ہے،؟
جزاک اللہ خیراً
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء ۔۔۔ وزادکم علماً
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
نمازجنازہ میں سورۂ فاتحہ کاثبوت​

محمدآصف فاروق کمبوہ ،فاضل المعہد السلفی
امام وخطیب:رحمانیہ مسجدقمبر
نظر ثانی:شیخ ضیاء الحق بھٹی نائب شیخ الحدیث المعہد السلفی
مجلہ دعوت اہل حدیث ، شمارہ دسمبر2016
نمازجنازہ میں سورۂ فاتحہ کاثبوت
کتب احادیث میں موجود تمام روایات کا باسندتذکرہ

حدیث ابن عباس وذکر روایۃ سفیان الثوری
(۱)قال البخاری حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ قَالَ: «لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ»(الصحیح للامام البخاری،۱؍۵۹۴الرقم:۱۲۵۴)
مفہومی ترجمہ: امام بخاری ذکرفرماتے ہیں کہ:طلحہ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے (رسول اللہ کے صحابی) عبداللہ بن عباس کے پیھچے نمازجنازہ پڑھی تو آپ نے سورت فاتحہ پڑھی اور(ساتھ ہی) فرمایا: تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ یہ سنت ہے۔

(۲)عبدالرزاق، عن الثوری، عن سعید بن ابراھیم، عن طلحۃ بن عبداللہ بن عوف، قال: صلیت مع ابن عباس علی جنازۃ فقرأ فاتحۃ الکتاب، فقلت لہ، فقال: انہ من تمام السنۃ، أو، انہ من السنۃ.(المصنف لعبدالرزاق۳؍۳۱۵، رقم:۶۴۵۵،اس کی سند بخاری والی سند ہے۔)
مفہومی ترجمہ: امام عبدالرزاق نے حدیث ذکر فرمائی ہے کہ:طلحہ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے سورت فاتحہ پڑھی تو میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا؟توآپ نے فرمایا کہ یہ سنت کے تمام میں سے ہے، یایوں فرمایا کہ یہ سنت میں سے ہے۔

(۳)وقال ابوداؤد: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مع ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ فقَالَ: اِنَّهَا من السُنَّة»(السنن لابی داؤد ۲؍۴۴۵،الرقم:۶۰۰)
مفہومی ترجمہ: امام ابوداؤدحدیث ذکرفرماتے ہیں کہ:طلحہ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس کے ساتھ نمازجنازہ پڑھی تو آپ نے سورت فاتحہ پڑھی(ساتھ ہی نماز سے فراغت کے بعد)فرمایا: یہ سنت سے ہے۔

(۴)وقال الترمذی: حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا عبدالرحمٰن بن مھدی، قال: حدثناسُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، ان ابْنَ عَبَّاسٍ صلی عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ ، فقلت لہ:فقَالَ:اِنَّه من السُنَّة،أو:من تمام السنۃ.
(السنن الترمذی ،ص:۲۴۳،الرقم:۱۰۲۷)
مفہومی ترجمہ: امام ترمذی فرماتے ہیں کہ:طلحہ بن عبداللہ عبداللہ بن عباس کے متعلق ذکرفرماتے ہیں کہ یقینا انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی،اورسورت فاتحہ پڑھی ،میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: یہ سنت سےہے،یا فرمایا: تمام سنت سے ہے۔

(۵)وقال الدار قطنی: حدثنا ابن مبشر،ثنا أحمد بن سنان، ثناابن مھدی،ثناسُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قال: صلی ابْنُ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ ، فقلت لہ؟ فقَالَ:اِنَّه من السُنَّة،أو:من تمام السنۃ.
(السنن الدار قطنی ۲؍۹۰،الرقم:۱۸۰۱)
مفہومی ترجمہ: امام دار قطنی حدیث ذکرفرماتے ہیں کہ:طلحہ بن عبداللہ نے فرمایا کہ عبداللہ بن عباس نے نماز جنازہ پڑھائی،توسورت فاتحہ پڑھی ،تومیں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: یہ سنت سےہے،یا فرمایا: تمام سنت سے ہے۔

(۶)وقال البیھقی أخبرنا علی بن أحمد بن عبدان، أخبرنا أحمد بن عبید الصفار، حدثنا اسماعیل بن اسحاق،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حدثنَا سُفْيَانُ بن سعید، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مع ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ وقَالَ:اِنَّهَا من السُنَّة.(السنن الکبری للبیھقی ۴؍۲۰۷،الرقم:۶۴۵۵)
مفہومی ترجمہ: امام بیہقی حدیث ذکرفرماتے ہیں کہ:طلحہ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس کےساتھ نمازجنازہ پڑھی تو آپ نے سورت فاتحہ پڑھی اور فرمایا: یہ سنت سےہے۔

(۷)وقال ابن الجارود:حدثنا محمد بن یحیی، قال: ثنا عبدالرزاق، قال ثنا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مع ابْنِ عَبَّاسٍ بھذا.(المنتقی لابن الجارود،ص:۲۰۷،الرقم:۵۸۵)
مفہومی ترجمہ: امام ابن الجارودنے اپنی کتاب المنتقی میںطلحہ بن عبداللہ سے ان کا عبداللہ بن عباس کےساتھ نمازجنازہ پڑھنے والی حدیث اسی طرح ذکر کی ہے۔

(۸)وقال ابن حزم حدثنا عبدالرحمٰن بن عبد اللہ، ثنا ابراھیم بن أحمد، ثنا الفربری، ثنا البخاری، ثنا محمد بن کثیر، ثنَا سُفْيَانُ ھو الثوری، عَنْ سَعْدٍ ھو ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بن عبدالرحمٰن بن عوف، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ قَالَ: «لِتَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ»
(المحلی لابن حزم ۵؍۱۲۹،رقم المسألۃ:۵۷۴)
مفہومی ترجمہ: امام ابن حزمذکرفرماتے ہیں کہ:طلحہ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس کے پیچھے نمازجنازہ پڑھی تو آپ نے سورت فاتحہ پڑھی (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) فرمایا:(یہ کام میں نے اس لئے کیاہے) تاکہ تمہیں پتہ چلے کہ سنت ہے۔

(۹)وقال البیھقی: أخبرنا أبو عبداللہ الحافظ ، أخبرنی أبو الحسن أحمد بن محمد عبدوس، حدثنا عثمان بن سعید الدارمی، حدثنا محمد بن کثیر،حدثنا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مع ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ فقَالَ: اِنَّهَا من السُنَّة»(السنن الصغری للبیھقی)
مفہومی ترجمہ: امام بیہقیطلحہ بن عبداللہ سے بیان فرماتے ہیں انہوں نے فرمایا میں نے عبداللہ بن عباس کے ساتھ نمازجنازہ پڑھی تو آپ نے سورت فاتحہ پڑھی(اورساتھ )آپ نے فرمایا: یہ سنت میںسے ہے۔

(۱۰)وقال ابن الجوزی:أخبرنا عبدالملک، قال: أنبأ الازدی، قال: أنبأ ابن الجراح، قال: حدثنا ابن محبوب، قال: حدثنا الترمذی، قال: حدثنا محمد بن بشار،حدثنا عبدالرحمٰن بن مھدی، حدثناسُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، ان ابْنَ عَبَّاسٍ صلی عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ ، فقلت لہ:فقَالَ:اِنَّه من السُنَّة،أو:من تمام السنۃ.(التحقیق فی حدیث الخلاف لابن الجوزی ۲؍۱۴،الرقم:۸۹۱)
مفہومی ترجمہ: امام ابن الجوزیطلحہ بن عبداللہ سے بیان فرماتےہیں،انہوں نے فرمایا:بے شک عبداللہ بن عباس نے نماز جنازہ پڑھائی،اورسورت فاتحہ پڑھی ،میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: یہ سنت سےہے،یا فرمایا: تمام سنت سے ہے۔

ذکر روایۃ شعبۃ بن الحجاج
(۱۱) قال البخاری حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشار، قال: حدثناغندر،قال:حدثناشعبۃ،عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا . (الصحیح للامام البخاری،۱؍۵۹۴الرقم:۱۲۵۴)
مفہومی ترجمہ: امام بخاریشعبہ کی سند سےطلحہ بن عبداللہ کا عبداللہ بن عباس کے پیھچے نمازجنازہ پڑھنےوالی حدیث بیان فرماتے ہیں۔

(۱۲)وقال ابوداؤد والطیالسی: حدثناشعبۃ،عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قال حدثنی طَلْحَةُ بن عبداللہ بن عوف، قال صلینا ابن عباس علی جنازۃ، وأنا یومئذ شاب، فسمعتہ یقرأ علیھا بفاتحۃ الکتاب، فلما صلیت جئت فأخذت بیدہ، فقلت: یاأبا العباس ماہذہ؟ قال :ھذا حق وسنۃ أو: قال: سنۃ وحق.

(المسند لابی داود الطیالسی۱؍۱۸۹الرقم:۴۷)
مفہومی ترجمہ: امام ابوداؤدالطیالسی طلحہ بن عبداللہ سے بیان فرماتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ ہم نے عبداللہ بن عباس کے پیچھے نمازجنازہ پڑھی اور ان دنوں میںنوجوان تھا، میں نے سنا آپ نے سورہ فاتحہ اس نماز جنازہ میں پڑھی،جب میں نے نماز مکمل کی تو میں نے آپ کا ہاتھ تھام کرکہا: اے عباس کےباپ یہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:یہ حق ہے اور سنت ہے، یایوں فرمایا: یہ سنت ہے اور حق ہے۔

(۱۳)وقال النسائی: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بشار، قال: حدثنامحمد،قال:حدثناشعبۃ،عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بن عبداللہ ،قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا علی جنازۃ، فسمعتہ یقرأبفاتحۃ الکتاب، فلما انصرف أخذت بیدہ فسألتہ ،فقلت: تقرأ؟ قال: نعم انہ حق وسنۃ.(السنن للنسائی ۱؍۲۰۴،الرقم:۱۹۹۲)
مفہومی ترجمہ: امام نسائی حدیث ذکرفرماتے ہیں کہ:طلحہ بن عبداللہ نے فرمایا میں نےعبداللہ بن عباس کےپیچھے نماز جنازہ پڑھی تو میں نے ان سے سنا کہ وہ سورہ فاتحہ پڑھ رہے ہیں، جب نماز ختم ہوئی تو میں نے ان کاہاتھ پکڑ کر ان سے سوال کیا کہ کیا آپ(سورہ فاتحہ) پڑھتے ہو؟ تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں، یقینا یہ حق ہے اور سنت ہے۔

(۱۴)وقال ابن الجارود:حدثنا الحسن بن محمد الزعفرانی، قال: ثنا یحی بن عباد، قال: ثناشعبۃ،قال أخبرنی سَعْد بْن إِبْرَاهِيمَ، قال طَلْحَةُ بن عبداللہ،قال صلیت خلف ابن عباس رضی اللہ عنھماعلی جنازۃ، فقرأ فیھا بفاتحۃ الکتاب، فأخذت بیدہ، فقلت: تقرأ بھا؟ قال :انھا سنۃ وحق.(المنتقی لابن الجارود،ص:۲۰۶،الرقم:۵۸۴)
مفہومی ترجمہ: امام ابن الجارودطلحہ بن عبداللہ سے بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نےعبداللہ بن عباس کےپیچھےنمازجنازہ پڑھی تو آپ نے اس میں سورہ فاتحہ پڑھی،میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کرپوچھا کیا آپ اسے پڑھتے ہو؟ آپ نے فرمایا:یقینا یہ سنت ہے اور حق ہے۔

(۱۵)وقال البیھقی:و أخبرنا ابو الحسن علی بن أحمد بن عمر المقری ابن الحمانی رحمہ اللہ ببغداد،أخبرنا أحمد بن سلمان الفقیہ،حدثنا عبداللملک بن محمد، حدثنا بشر بن عمر،حدثنا شعبۃ ،عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ خلف ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ فسمعتہ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ فلما انصرف سألتہ ؟فقال: سنۃ وحق، وربما، قال: سنۃ، ولم یذکر :حق.
(السنن الصغری للبیھقی۴؍۲۰۷،الرقم:۶۹۵۶)
مفہومی ترجمہ: امام بیہقی طلحہ بن عبداللہ سے بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے عبداللہ بن عباس کے پیچھے نمازجنازہ پڑھی میں نے سنا آپ نے سورہ فاتحہ پڑھی، جب نماز ختم ہوئی تو میں نے آپ سے ( اس بارے میں) پوچھا؟ تو آپ نے فرمایا یہ سنت ہے اور حق ہے ،اور کبھی کہا:سنت ہے، حق کاذکر نہیں کیا۔
(۱۶)وقال البیھقی أیضا: رواہ شعبۃ ،عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ،قال حدثنی طَلْحَة بْن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ خلف ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ وأنا یومئذ شاب، فسمعتہ یقرأ علیھا بفاتحۃ الکتاب، فلما صلیت جئت فأخذت بیدہ، فقلت: یاأبا العباس ماہذا؟ قال: ھذا حق وسنۃ أو: قال: سنۃ وحق.
أخبرنا ابوبکر بن فوزک، أخبرنا عبداللہ بن جعفر، حدثنا یونس بن حبیب، حدثنا ابوداود ، حدثنا شعبۃ فذکرہ(السنن الصغری للبیھقی۱؍۲۹۹،الرقم:۱۰۹۹)
مفہومی ترجمہ: امام بیہقیطلحہ بن عبداللہ سے بیان فرماتے ہیںانہوں نے فرمایا کہ میں نے عبداللہ بن عباس کے پیچھے نمازجنازہ پڑھی اور ان دنوں میںنوجوان تھا، میں نے سنا آپ نے سورہ فاتحہ پڑھی،جب میں نےنمازختم کی تو میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کرپوچھا: اے ابوالعباس یہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:یہ حق ہے اور سنت ہے، یایوں فرمایا: یہ سنت ہے اور حق ہے۔

(۱۷)وقال الحاکم: أخبرنا عبدالرحمٰن بن الحسن القاضی، ثنا ابراھیم بن الحسین ،ثنا آدم بن ابی ایاس:ثنا شعبۃ، عن سعد بن ابراھیم، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قال صلیت خلف ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ فسمعتہ یقرأ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ ، فلما انصرف أخذت بیدہ فسألتہ ،فقلت: أتقرأ ؟فقال :نعم انہ حق وسنۃ.
(المستدرک للحاکم ۱؍۵۱۰،الرقم:۱۳۲۴)
مفہومی ترجمہ: امام حاکم طلحہ بن عبداللہ سے بیان فرماتے ہیں کہ میں نےعبداللہ بن عباس کےپیچھے نماز جنازہ پڑھی تو میں نے ان سے سنا کہ وہ سورہ فاتحہ پڑھ رہے ہیں، جب نماز ختم ہوئی تو میں نے ان کاہاتھ پکڑ کر ان سے سوال کیا کہ کیا آپ(سورہ فاتحہ) پڑھتے ہو؟ تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں، یقینا یہ حق ہے اور سنت ہے۔

(۱۸)وقال النسائی: أنبأ محمد محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد،حدثنا شعبۃ، عن سعد بن ابراھیم، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قال صلیت مع ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ فسمعتہ یقرأ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ ، فلما انصرف أخذت بیدہ فسألتہ ،فقلت: أتقرأ ؟فقال :نعم انہ حق وسنۃ.
(السنن الکبری للنسائی ۱؍۶۴۴،الرقم:۲۱۱)
مفہومی ترجمہ: امام نسائی طلحہ بن عبداللہ سے بیان فرماتے ہیں کہ میں نےعبداللہ بن عباس کےساتھ نماز جنازہ پڑھی تو میں نے آپ سے سنا آپ نے سورہ فاتحہ پڑھی ، جب آپ نے نماز مکمل کی تو میں نے آپ کاہاتھ پکڑ کر ان سے سوال کیا کہ کیا آپ(سورہ فاتحہ) پڑھتے ہو؟ تو انہوں نے فرمایا:
جی ہاں، یقینا یہ حق ہے اور سنت ہے۔​
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
السلام عليكم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
شیخ محترم @اسحاق سلفی
کیا ایسی کوئی حدیث ہے کہ جس میں ہو ایک شخص اپنے ساتھ ہزار بندوں کو جنّت میں لے جا سکتا ہے؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام عليكم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
شیخ محترم @اسحاق سلفی
کیا ایسی کوئی حدیث ہے کہ جس میں ہو ایک شخص اپنے ساتھ ہزار بندوں کو جنّت میں لے جا سکتا ہے؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
مجھے اس مضمون کی کوئی صحیح یا ضعیف حدیث نہیں ملی ،
اگر ایسی کسی روایت کا کوئی متن ،الفاظ آپ کے علم میں ہیں تو ہمیں آگاہ کریں ۔
 
Top