• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

::::: نماز عید اور نماز جمعہ ایک ہی دن :::::

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::::: نماز عید اور نماز جمعہ ایک ہی دن :::::

السلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہ ،



اس دفعہ سعودی عرب میں عید الاضحیٰ جمعہ کے روز آ رہی ہے لہذا یہ مسئلہ پھر سے سمجھنے کی ضرورت ہوئی کہ نماز ء عید اورنمازء جمعہ کی ادائیگی کا کیا سلسلہ ہو گا ؟

اس مسئلےکا بیان :::::: عید الاضحی اور عید الفِطر، شرعی حُکم (حیثیت ) ، اور اہم مسائل ::::::: میں پیش کر چکا ہوں ، اور وہیں سے نقل کر رہا ہوں کہ :::

*** اگر عید جمعہ کے دِن ہو عید کی نماز پڑہنے کے بعدجمعہ کی نماز چھوڑی جا سکتی ہے ***
::: دلائل :::

::::: (1) :::::ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قَد اجتَمَعَ فی یَومِکُم ہذا عِیدَانِ فَمَن شَاء َ اَجزَاَہُ مِن الجُمُعَۃِ وَاِنَّا مُجَمِّعُونَ ::: تُم لوگوں کے آج کے دِن میں دو عیدیں اکٹھی ہو گئی ہیں تو جو چاہے (عید کی نماز کے ذریعے ) جمعہ کو چھوڑے لیکن ہم دونوں نمازیں پڑہیں گے )))))سنن ابو داؤد ، حدیث ١٠٦٩ / کتاب الصلاۃ / تفریع ابواب الجمعہ / باب ٢١٥ ، اِمام الالبانی نے کہا حدیث صحیح ہے ۔
::::: (2) :::::اِیاس بن ابی رملۃ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے ''''''' میں معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہما کے پاس تھا ، اُنہوں نے زید بن الاَرقم رضی اللہ عنہُ سے پوچھا ::: کیا تُم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلمکے ساتھ ایک ہی دِن میں دو عیدیں دیکھی ہیں؟ (((یعنی جمعہ کے دِن عید الفِطر یا عید الاَضحی)))
زید رضی اللہ عنہُ نے کہا ‘‘‘ جی ہاں’’’
معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہ نے پوچھا ‘‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کِیا تھا ؟ ’’’،

زید رضی اللہ عنہُ نے کہا’’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑہی اور پھر جمعہ کی نماز میں رُخصت ( نہ پڑہنے کی اجازت) دیتے ہوئے فرمایا((((( مَن شَاءَ اَن یُصَلِّی فَلیُصَلِّ::: جو (جمعہ کی نماز) پڑہنا چاہے وہ پڑھ لے ( یعنی جو نہ چاہے وہ نہ پڑہے))))) '''''''،سنن ابو داؤد / حدیث 1066 / کتاب الصلاۃ / تفریع ابواب الجمعہ / باب 215 ، سنن ابن ماجہ / حدیث 1310 /کتاب اِقامۃ الصلاۃ/ باب166، اِمام علی بن المدینی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ، بحوالہ ''' التلخیص الحبیر ''' اور اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے بھی صحیح قرار دِیا ،
::::: (3) :::::ایک دفعہ عید جمعہ کے دِن ہو گئی تو امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہُ نے فرمایا(((((مَن اَرادَ اَن یُجَمِّعَ فَلیُجَمِّع ، ومَن اَرادَ اَن یَجلِسَ فَلیَجلِس::: جو دونوں نمازیں پڑہنا چاہے تو پڑہے اور جو بیٹھنا چاہے تو بیٹھے)))))اِمام سفیان الثوری رحمہُ اللہ نے کہا اِس کا مطلب ہے کہ'''''''جو( جمعہ نہ پڑھنا چاہے اور) اپنے گھر میں بیٹھنا چاہے تو بیٹھے'''''''، مصنف عبدالرزاق ،حدیث 5731 / کتاب صلاۃ العیدین /باب 118جتماع العیدین ، مُصنف ابن ابی شیبہ / حدیث 5839 / کتاب الصلوات /باب 433 فی [FONT=Al_Mushaf]العِیدانِ یَجتَمِعانِ یَجزِیءُ اِحدُھما مِن الآخر[/FONT] ، حدیث صحیح ہے ۔
::::: (4) :::::عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے دور میں عید جمعہ کے دِن ہوئی تو اُنہوں نے صرف عید کی نماز اور جمعہ کی نماز کو جمع کر لیا اور جمعہ کی نماز نہیں پڑہی بلکہ عید کی نماز پڑہنے کے بعد (عصرکے وقت ) عصرکی نماز پڑہی::::: سنن ابو داؤد / حدیث 1068 / کتاب الصلاۃ / تفریع ابواب الجمعہ / باب 215 ، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا حدیث صحیح ہے ۔

عید کی نماز کا طریقہ صحیح سُنّت مبارکہ کے مطابق ، اور دیگر مسائل جاننے کے لیے:::::: عید الاضحی اور عید الفِطر، شرعی حُکم (حیثیت ) ، اور اہم مسائل ::::::: کا مطالعہ اِن شاء اللہ مُفید ہو گا ، والسلام علیکم۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
فتوى نمبر:21162
تمام تعريفيں صرف الله كيلئے ہيں ، اور درود و سلام اس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ، اور سلام ہو آپ کی آل و اولاد اور تمام صحابہ پر ۔ حمد وصلوٰۃ كے بعد :
جب کبھی عید جمعہ کے دن آجاتی ہے ایک سوال عام طور پر کیا جاتا ہے، یعنی دو عیدیں: عید الفطر یا عید الاضحی ، اور جمعہ کا دن یہ مسلمانوں کےلئے ہفتہ واری عید کا دن ہے ۔ تو کیا اس شخص پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی واجب ہے، جس نے نمازِ عید ادا کرلی ہے؟ یا پھر وہ صرف نمازِعید پر اکتفاء کرلے اور نمازِ جمعہ کے بدلے ظہر پڑھ لے؟ اور کیا اس ظہر کی نماز کےلئے مساجد میں اذان دی جائے گی یا نہیں ؟ اس سے متعلق دیگر سوالات جو عام طور پر لوگوں کے درمیان عام ہیں ۔ چنانچہ علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی نے اس سوال کے جواب میں درجِ ذیل فتوی جاری کیا ہے :
اس مسئلے میں مرفوع احادیث اور موقوف آثار(اقوال) مروی ہیں :
1 - حضرت زید بن ارقم رضي الله عنه کی یہ حدیث : کہ حضرت معاويہ بن ابو سفيان رضي الله عنه نے ان سے سوال کیا کہ کیا تم کسی ایسے موقعہ پر حضوراکرم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ تھے، جبکہ دونوں عید ایک ہی دن اکٹھا ہوگئی ہوں؟ تو حضرت زید بن ارقم نے کہا: ہاں، تو انہوں نے سوال کیا کہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کیا کیا؟ تو جوابا حضرت زید نے کہا: آپ نے نمازِ عید ادا کی، پھر نمازِ جمعہ کے بارے میں رخصت دی، اور فرمایا: نمازِجمعہ جو پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے۔ اس حدیث کو امام احمد ، ابو داود ، نسائي ، ابن ماجہ ، دارمی اور حاکم نے مستدرك میں روايت كيا ہے ، اور حاکم نے فرمایا کہ : اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں ،
( جلد کا نمبر 7، صفحہ 117)
1 اور بخاری و مسلم نے اس حدیث کی تخریج نہیں کی ہے ، البتہ امام مسلم کی شرائط کے مطابق اس کی ایک مثال پائی جاتی ہے ۔ علامہ ذہبی نے اس مسئلے میں حاکم کی موافقت کی ہے، اور علامہ نووی نے اپنی كتاب المجموع میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند جید ہے ۔
2 - اس حدیث کی جس مثال کا ذکر اوپر ہوا ہے ، وہ مثال یہ حدیث ہے : جو حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے مروی ہے ، کہ بےشک رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا آج کے دن دو عید جمع ہوگئی ہیں، تو جو چاہے اس کے لئے یہ (عید) جمعہ سےبھی کافی ہوگئی، اور ہم تو جمعہ کی نماز پڑھیں گے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روايت كيا ہے ، جیساکہ اوپر اس کا ذکر ہوا ہے ، اور اس حدیث کو امام ابو داود ، ابن ماجہ ، ابن جارود ، بیھقی اور ان کے علاوہ دیگر محدثین نے روايت كيا ہے ۔
3 - حضرت ابن عمر رضي الله عنهما کی یہ حدیث ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ساتھ دو عید پڑگئیں (یعنی عید اور جمعہ)، تو آپ نے عید کی نماز پڑھانے کے فرمایا کہ: جو شخص جمعہ پڑھنا چاہے توپڑھ لے، اور جو نہیں پڑھنا چاہتا ہے تو وہ نہ پڑھے۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روايت كيا ہے ۔ اوراسی حدیث کو علامہ طبرانی نے المعجم الكبير میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عید ایک ساتھـ پڑگئی یعنی عید الفطر اور جمعہ، تو آپ نے لوگوں کوعید کی نماز پڑھائی، پهران کی طرف متوجہ ہوکر ان سے فرمایا: اے لوگو! تم نے ثواب اور خیر کا کام کیا ہے، اور ہم تو جمعہ کی نماز پڑھنے والے ہیں، تو جو شخص ہمارے ساتھـ جمعہ پڑھنا چاہتا ہے وہ جمعہ پڑھ لے، اورجو اپنے گھر واپس ہونا چاہتا ہے وہ چلا جاوے۔
4 - اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضي الله عنهما کی یہ حدیث کہ بیشک رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا آج کے دن دو عید ایک ساتھ پڑگئیں ہیں ، اس لئے جو جمعہ میں نہیں آنا چاہتا ، اس کے لئے یہ عید کی نماز کافی ہے، اور ہم ان شاء اللہ جمعہ پڑھيں گے ۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روايت كيا ہے ۔ اورعلامہ بوصيری نے کہا کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں ، اور اس کی روایت کرنے والے لوگ ثقہ [ قابلِ اعتبار] ہیں ۔ [ ختم شد ]
5 - اور حضرت ذکوان بن صالح کی یہ حدیثِ مرسل کہ :
( جلد کا نمبر 7، صفحہ 118)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عید ایک ساتھ پڑگئیں ، یعنی جمعہ اور عید ، تو آپ نے عید کی نماز ادا کرنے کے بعد کھڑے ہوکرخطبہ دیا اورفرمای ا: تم نے ثواب اور خیر کا کام کیا ہے ، اور ہم تو جمعہ پڑھنے والے ہیں ، اور جو شخص اپنے گھر میں بیٹھنا چاہے بیٹھ جائے اور جو جمعہ پڑھنا چاہے وہ نمازِجمعہ پڑھ لے ۔ اس حدیث کو امام بیہقی نے السنن الكبرى میں ذکر کیا ہے ۔
6 - اور حضرت عطاء بن ابو رباح سے مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ : حضرت عبداللہ ابن زبير نے جمعہ کے دن اولین ساعتوں میں نمازِعید میں ہماری امامت کی ، پھر اس کے بعد ہم جمعہ کی نماز پڑھنے کےلئے پہنچے ، لیکن عبداللہ بن زبیر جمعہ کےلئے باہر نہیں نکلے ، تو ہم لوگ ہی نمازِ جمعہ پڑھ لئے ، اورحضرت عبداللہ ابن عباس اس وقت طائف شہر میں تھے ، جب وہ طائف سے واپس ہوئے ، تو ہم لوگوں نے آپ کے سامنے عبداللہ بن زبیر کے اس عمل کا ذکر کیا ، تو آپ نے فرمایا کہ انہوں نے سنت کے مطابق عمل کیا ہے ۔ اس حدیث کی امام ابو داود نے روايت كي ہے ، اور اس حدیث کو ابن خزیمہ نے دوسرے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے ، جس کے آخر میں یہ اضافہ ہے کہ : عبداللہ ابن زبير فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو جب بھی جمعہ کے دن عید آجاتی ، تو اس طرح کرتے دیکھا ہے ۔
7 - اور صحيح بخاری میں ( رحمه الله تعالى ) اور موطأ امام مالک رحمه الله تعالى میں حضرت ابو عبید ( جوکہ ابن ازہر کے آزاد کردہ غلام ہیں ) سے مروی ہے کہ : ابو عبيد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان کے ساتھ عید کی نماز پڑھی ، اور اس دن جمعہ تھا ، حضرت عثمان نے نماز پڑھائی ، اور پھر خطبہ دیا ، اورفرمایا کہ : اے لوگو : یہ وہ دن ہے ، جس میں تمہارے لئے دو عید اکٹھا آگئیں ہیں ، لہذا تم میں سے جو بال بچے والے لوگ جمعہ کا انتظار کرنا چاہتے ہیں ، وہ انتظار کرلیں ، اور جو اپنے گھر لوٹنا چاہتے ہیں ، ان کو میری طرف سے [ لوٹ جانے کی ] اجازت ہے ۔
8 - اور حضرت علی بن ا بو طالب
( جلد کا نمبر 7، صفحہ 119)
رضي الله عنه سے مروی ہے ، فرماتے ہیں - جب کسی ایک دن میں دو عید اکٹھا آجائیں - جو جمعہ پڑھنا چاہے وہ جمعہ پڑھ لے ، اور جو [ اپنے گھر] بیٹھنا چاہے بیٹھ جائے ۔ اور حضرت سفیان کہتے ہیں کہ اس سے مراد اپنے گھر بیٹھ جانا ہے ۔ اس حدیث کو امام عبدالرزاق نے اپنے مصنف میں روایت کیا ہے ، اور اسی جیسی ایک روایت ابن ابو شیبہ کے پاس بھی مذکور ہے ۔
حضوراکرم صلى الله عليه وسلم سے مروی ان مرفوع احادیث ، متعدد صحابہ رضي الله عنهم سے منقول ان مختلف موقوف اقوال ، اور علماء کرام کی اکثریت نے اپنے فقہ میں جو ذکر کیا ہے ، اس کی بناء پر فتوی کمیٹی نے درجِ ذیل احکام قلمبند کئے ہیں :
1 - جو عید کی نماز پڑھ لے ، تو اس کےلئے یہ اجازت ہے کہ وہ جمعہ کی نماز میں حاضر نہ ہو، اور وہ جمعہ کے بدلے ظہر کی چار رکعت اس کے وقت میں پڑھ لے ، اور اگر اس شخص نے عزیمت پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ جمعہ پڑھ لیا ہے، تو یہ اس کے حق میں افضل ہے۔
2 - جو عید کی نماز نہ پڑھا ہے ، تو اس کے حق میں یہ اجازت نہیں ہے، لہذا جمعہ کی ادائیگی اس پر واجب ہی رہے گی، چنانچہ وہ جمعہ کےلئے مسجد پہنچے گا ، اور اگر جمعہ کی نماز کےلئے کافی عدد نہيں ہے ، تو وہ ظہر کی چار رکعت پڑھ لےگا ۔
3 - جامع مسجد کے امام پر یہ واجب ہے کہ وہ اس دن جمعہ کی نماز کا اہتمام کرے، تاکہ جو جمعہ پڑھنا چاہے وہ جمعہ پڑھ لے، اور تاکہ جو عید کی نماز نہ پڑھا ہے، وہ کم از کم جمعہ پڑھ لے، ہاں یہ شرط ہے کہ اتنی تعداد میں لوگوں کا ہونا ضروری ہے، جس سے جمعہ کی جماعت بن جاتی ہو، ورنہ امام ظہر کی نماز پڑھائیگا۔
4 - جو شخص نمازِعید پڑھ چکا ہے ، اس کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ جمعہ کی نماز میں حاضر نہ رہے ، تو اس شخص کےلئے یہ حکم ہے کہ وہ ظہر کا وقت شروع ہونے کے بعد ظہر کی نماز چار رکعت پڑھ لے ۔
5 - اس دن اذان صرف ان مساجد میں دینا مسنون ہے ، جن میں نمازِجمعہ کا اہتمام کیا جارہا ہے ، لہذا اس دن ظہر کی نماز کےلئے اذان دینا مسنون نہیں ہے ۔
( جلد کا نمبر 7، صفحہ 120)
6 - یہ کہنا کہ جو شخص نمازِ عید پڑھ لیا ہے ، اس سے نمازِ جمعہ اور نمازِظہر دونوں معاف ہوجاتی ہیں ، بالکل غلط ہے ، اسی لئے علماء کرام نے اس بات کا اعتراف نہیں کیا ہے ، اور اس کو غلط اور غیرلائق حکم قرار دیا ہے ، اسلئے کہ یہ سنت کے خلاف ہے ، نیز اللہ کے فرائض میں سےایک فرض کو بلادلیل ختم کرنا ہے ، اور شاید کہ اس بات کے کہنے والوں کی نظر سے وہ احادیث یا اقوال نہیں گذرے ہیں ، جو اس مسئلے میں اس شخص کےلئے اجازت سے متعلق ہیں ، جو نمازِعید پڑھ رہا ہے ، تواس کو نمازِ جمعہ میں حاضر نہ رہنے کی اجازت ہے ، اور یہ کہ اس شخص پر اس دن ظہر کی نماز واجب ہے ۔ اورالله تعالى سب سے زیادہ جاننے والا ہے ۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر بکر ابو زید
ممبر صالح فوزان
ممبر عبد اللہ بن غدیان
صدر عبد العزیز بن عبداللہ آل شیخ
 
Top