مگر میں روز آنا جانا کرتا ہوں اس بارے میں کیا حکم ہے
اس کے متعلق شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا :
وقد سئل الشيخ عبد العزيز بن باز رحمه الله : ماذا عن الرجل المسافر على الدوام ، كأن يكون سائقا بين المدن ، هل الأفضل له القصر أم الإتمام ، وعلى هيئتها بقية الرخص في السفر ؟
فأجاب رحمه الله : " المسافر الذي من شأنه السفر مثل سائق التكس أو الجمال ، إن كان يسافر على الإبل مثل ما مضى من الزمان له القصر مدة السفر ، وله الجمع مدة السفر ، فإذا وصل إلى بلده لم يقصر ولم يجمع ، وإذا وصل إلى بلد يريد أن يقيم فيها أكثر من أربعة أيام لم يقصر ولم يجمع ، أما ما دام في السفر أو في حكم السفر ولو أن طبيعته السفر ، ولو أنه دائم الأسفار ، فالحاجة تعمه بنص القرآن والسنة ، كلاهما يعمه ويعم غيره ، فالإنسان الذي من عادته السفر ؛ لأنه جمّال ، لأنه صاحب تكس ، له أن يقصر في سفره ، وفي مدة إقامته في البلد التي يمر بها ، إذا كانت الإقامة أربعة أيام فأقل " انتهى من " فتاوى نور على الدرب " .
http://www.alifta.net/Fatawa/FatawaChapters.aspx?View=Page&PageID=3375&PageNo=1&BookID=5
ترجمہ :
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: "اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو ہمیشہ سفر کی حالت میں رہتا ہے، مثلا: مختلف شہروں کو جانے والے ڈرائیور حضرات، ان کیلئے نماز قصر کرنا افضل ہےیا مکمل ادا کرنا افضل ہے؟ اسی طرح سفرکی بقیہ رخصتیں انکا کیا حکم ہے؟"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو انہوں نے جواب دیا؛ "ایسے مسافر جو ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں مثلا: ٹیکسی ڈرائیور، اونٹوں پر سفر کرنے والےلوگ، اگر نماز قصر کرنے کی مسافت کے برابر سفر کریں تو یہ نمازوں کو جمع بھی کر سکتے ہیں، چنانچہ جب اپنے شہر واپس آجائے تو جمع یا قصر نہیں کریگا، ایسے ہی جب کسی ایسے شہر میں پہنچ جائے جس میں وہ چار دن سے زیادہ ٹھہرنا چاہتا ہو تب بھی نمازیں قصر یا جمع نہیں کریگا، ایسا شخص جو ہمیشہ سفر میں رہے یا سفر کرنے والوں کے حکم میں ہو، یا اسکی طبیعت ہی ایسی ہے کہ وہ سفر کرتا رہتا ہے، تو قرآن و سنت کی رو سے اسے نمازیں قصر اور جمع کرنے کی اجازت ہے، اس لئے سفر کرنا جس شخص کی عادت ہو کہ وہ اونٹوں پر سفر کرتا ہے یا ٹیکسی ڈرائیور ہےوہ دورانِ سفرقصر کر سکتا ہے، ایسے ہی راستے میں آنیوالے شہروں میں پڑاؤ اگر چار دن سے کم ہو تو تب بھی اسکے لئے قصر کی اجازت ہے"انتہی، "فتاوى نور على الدرب"
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور علامہ ابن العثیمینؒ سے اس کے متعلق سوال ہوا :
وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : " قصر الصلاة متعلق بالسفر ، فما دام الإنسان مسافراً ، فإنه يشرع له قصر الصلاة , سواء كان سفره نادراً أم دائماً , إذا كان له وطن يأوي إليه ويعرف أنه وطنه , وعلى هذا فيجوز لسائق الشاحنة أن يترخص برخص السفر من قصر الصلاة , والمسح على الخفين ثلاثة أيام بلياليها والفطر في رمضان وغيرها من رخص السفر " .
انتهى من " مجموع فتاوى ابن عثيمين " (15/264) .
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
اسی بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نمازِ قصر کا تعلق سفر سے ہے، تو جب تک انسان سفر میں ہے اس وقت تک اس کیلئے نماز قصر کرنا مشروع ہے ، چاہے اسکا سفر وقتاً فوقتاً ہو یا ہمیشہ، بشرطیکہ اسکی مستقل رہائش بھی موجود ہو، اس لئے ٹرک ڈرائیور حضرات کیلئے سفر کی رخصتوں پر عمل کرنا درست ہے، اس لئے وہ نماز قصر کر سکتا ہے، تین دن اور راتوں تک موزوں پر مسح بھی کرسکتا ہے، رمضان المبارک میں روزے بھی چھوڑ سکتا ہے" انتہی، "مجموع الفتاوی"از ابن عثیمین(15/264)