• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز قضا کا حکم ائمہ کرام کے اقوال اور مستند دلائل کی روشنی میں

شمولیت
نومبر 13، 2016
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
نماز قضا کا حکم ائمہ کرام کے اقوال اور مستند دلائل کی روشنی میں

تحریر : علیم اللہ عنایت اللہ سلفی ؔ ممبئی

نماز مومنوں کے لیے اللہ کی جانب سے عطا کردہ بیش بہا تحفہ اور گراں قد ر انعام ہے جس میں مسلمانوں کی کامیابی وکامرانی کا راز مضمر ہے ۔نماز وہ عبادت ہے جو برائیوں کو بھلائیوں میں تبدیل کر دیتی ہے ۔نماز ہی وہ عبادت ہے جو فواحش ومنکرات سے بچا کر انسان کو نیکی کی راہ پر لا کر کھڑا کرتی ہے ،نماز آ نکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا نور ہے ۔اس لیے مسلمانوں کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ نمازوں کے سلسلے میں سستی اور غفلت سے کام نہ لیں بلکہ ان کو ان کے وقت پر ادا کریں اللہ رب العالمین نے فرمایا:(فاذا اطمأننتم فأقیموا الصلوۃ ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا)[النساء :۱۰۳]
اور جب اطمینان ہو جائے تو نماز قائم کرو یقیناًنماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے ،اور نماز کو وقت متعینہ پر ادا کرنے کے سلسلے میں ایک حدیث ہے صحابی رسول ﷺ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا ائے اللہ کے رسول ﷺاللہ کے یہاں کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :’’الصلوۃ علی وقتھا وبر الوالدین والجھاد فی سبیل اللہ ‘‘ [سنن نسائی :کتاب الصلوۃ ،باب فضل الصلاۃ لمواقیتھا، رقم ۶۱۰،صححہ الالبانی رحمہ اللہ ]
نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ،والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ۔
چونکہ مضمون کا تعلق نماز قضاء سے ہے اس لیے سب سے پہلے قضاکی لغوی واصطلاحی تعریف کردینا بہتر ہے ۔
قضاکی لغوی تعریف : قضاکی جمع اقضیہ اور قضایا آتی ہے جس کے معنی کسی چیز کے انقطاع کے بعد دوبارہ اس کو پایہ ء تکمیل تک پہنچانا(لسان العرب :۵؍۱۸۶)
اور صاحب قاموس الوحید لکھتے ہیں کہ قضاء کے لغوی معنی فیصلہ ،اتمام اور ادائیگی کے ہیں ۔(القاموس الوحید :۲؍۱۳۲۶۔التعریفات للجرجانی:۱۷۷)
اصطلاحی تعریف: قضااعیان موجودات کی بابت ایسے کلی الٰہی فیصلے کو کہتے ہیں جو ازل سے لیکر ابد تک جاری رہیں گے ۔(التعریفات للجرجانی:۱۷۷)
اور دوسری جگہ واجب الاتباع کام کو متعینہ وقت نکل جانے کے بعد انجام دینا یا نمازکو اس کے متعینہ وقت کے بعدپڑھنا قضاکہلاتا ہے ۔[بدایۃ المجتھد :۱؍۱۷۵]
اور نور اللغات میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ قضا وہ عبادت ہے جس کا وقت گزر گیا ہو۔[نور اللغات:۳؍۶۷۵]
قضاکی تعریف فقہاء کی اصطلاح میں :القضایا تسلیم مثل الواجب بالسبب۔کسی سبب سے چھوٹے ہوئے واجب کے ارکان کو ادا کرنا قضا کہلاتا ہے۔[التعریفات للجرجانی:۱۷۷]
قضا نماز کے لیے اذان واقامت کا ثبوت:فوت شدہ نمازوں کی قضائی کے وقت پہلی نماز کے ساتھ اذان واقامت اور باقی نمازوں کے لیے صرف اقامت کہنا اور انہیں باجماعت ادا کرنا مشروع ہے ،جیسا کہ حدیث لیلۃ التعریس سے واضح ہے کہ رسول ﷺ نے ایک وادی میں پڑاو ڈالا چنانچہ تمام لوگ سو گئے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نگرانی کی ذمہ داری سنبھالی لیکن ان پر نیند کا غلبہ ہو گیا اور وہ بھی نیند کی آغوش میں چلے گئے اور صبح ہو گئی جب سورج کی شعائیں آپ کے اوپر پڑیں تو سب سے پہلے آپ بیدار ہوئے ’’وأمر بلالا فأقام وصلی بھم الفجر‘‘اور بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی اور آپ نے ان کو نماز فجر پڑھائی ۔
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں فوت شدہ نمازوں کی قضا کے لیے ترک اذان کا اشارہ ملتا ہے لیکن ابو قتادہ کی ایک روایت ہے جس میں ہے کہ ’’ثم اذّن بلال بالصلاۃ فصلی رسول اللہ ﷺ رکعتین ثم صلی الغداۃ فصنع کما کان یصنع کل یوم ‘‘بلال نے نماز کے لیے اذان دی پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور روزانہ کی طرح تمام کام کو انجام دیا ۔
امام نووی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کا جواب دو طرح سے دیتے ہیں (۱)اذان کے عدم ذکر سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اذان دی ہی نہیں ۔ہوسکتا ہے اذان دی گئی ہو لیکن راوی کو اس کا علم نہ ہو سکا ہو ۔(۲)اور دوسرا جواب یہ دیتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اذان کو بطور جواز چھوڑ دیا ہو ۔ اور اس حدیث سے اشارہ ملتا ہے کہ اذان واجب نہیں خاص طور سے سفر میں ۔[صحیح مسلم مع شرح النووی:کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ ،باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ واستحباب تعجیل قضاء ھا ،رقم ۳۰۹۔۳۱۱]
رہا اس سلسلے میں ائمہ کرام کا اختلاف تو امام ابو حنیفہ ،امام احمد بن حنبل اور ابو ثور کا مسلک ہے کہ نماز قضا میں اذان واقامت دونوں مستحب ہے۔[البنایہ والنہایہ :۱؍۴۳]اصحاب رائے بھی یہی کہتے ہیں ۔[عون المعبود :۲۲۷]
علامہ شوکانی بھی اذان واقامت کی مشروعیت کے قائل ہیں دلیل اللہ کے رسول ﷺ کا قول ہے :’’تحولوا من مکانکم الذی أصابتکم فیہ الغفلۃ،قال فأمر بلالا فأذن فأقام‘‘[نیل الاوطار:۳؍۱۸۲]
تم لوگ اپنی اس جگہ سے ہٹ جاو جس میں تم غفلت کا شکار ہوئے ہو راوی فرماتے ہیں کہ پھر آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان دی اور اقامت کہی ۔
یہی راجح ہے ۔
لیکن امام مالک اور سعید بن جبیر کا کہنا ہے کہ صرف اقامت کافی ہے ،اور امام محمد کا قول ہے کہ اگر کئی نمازیں فوت ہوئی ہوں تو پہلی کو اذان واقامت اور بقیہ کوصرف اقامت سے ادا کیا جائے گا ۔[البنایہ والنہایہ :۱؍۴۴]امام شافعی بھی قضاء فوائت کے لیے صرف اقامت کے قائل ہیں اذان کے نہیں ۔[عون المعبود:۲۲۷]
کیا فوت شدہ نمازوں کی قضاء اوقات ممنوعہ میں جائز ہے ؟ علامہ شوکانی رحمہ اللہ اپنی کتاب نیل الاوطار میں رقم طراز ہیں کہ حدیث ’’من نسی صلاۃ فلیصلھا اذا ذکرھا ‘‘[صحیح مسلم :کتاب المساجدومواضع الصلاۃ ،باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ ،رقم ۱۵۶۶]
جو شخص نماز بھول جائے تو جب اس کو یاد آئے پڑھ لے ۔کا سیاق اس بات پر دلالت کررہا ہے کہ وہ اشخاص جن کی نمازیں کسی بنا پر چھوٹ گئی ہوں وہ ان نمازوں کو اوقات ممنوعہ میں بھی قضا کرسکتے ہیں۔[نیل الاوطار:۳؍۱۷۸]
امام ابو حنیفہ کا قول اس سلسلہ میں یہ ہے کہ تین اوقات میں فوت شدہ نمازوں کی قضا جائز نہیں ۔۱۔سورج کے طلوع ہونے کے وقت ۔۲۔ غروب ہونے کے وقت ۔۳۔زوال کے وقت ۔[الفقہ علی المذاہب الاربعۃ :۱؍۳۸۴۔المحلی لابن حزم :۳؍۹ ]
امام احمد بن حنبل ،امام مالک ،امام شافعی ،اسحاق اور امام اوزاعی کا مسلک یہ ہے کہ فوت شدہ نمازوں کی قضا ممنوعہ وغیرممنوعہ تمام اوقات میں جائز لیکن اصحاب الرای کا مذہب یہ ہے کہ فوت شدہ نمازوں کی قضااوقات ممنوعہ میں جائز نہیں ۔[عون المعبود :۲۲۷]
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جن اشخاص کی فرض نمازیں چھوٹ گئی ہوں تو وہ ان کو تمام اوقات میں قضا کرسکتے ہیں۔[المجموع الفتاوی :۲۲؍۱۰۴]
دلیل نبی ﷺ کا فرمان ہے :جو شخص فجر کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پالے تو چاہیے کہ وہ دوسری رکعت بھی پڑھ لے ۔[سنن ترمذی :کتاب الصلاۃ ،باب فیمن أدرک رکعۃ من العصر ،رقم ۱۸۶،وصححہ الالبانی رحمہ اللہ]
عمداً نماز کو ترک کرنے والے کی قضا کا حکم :جس شخص پر نماز واجب ہو اور وہ جان بوجھ کر بلا کسی شرعی عذر کے اس کو ترک کردے تو اس کے اوپر قضا ہے یا نہیں ؟جمہور کا مذہب یہ ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کا وقت نکل جائے تو اگر وہ اس نماز کی قضا کرتا ہے تو وہ مقبول نہیں اس لیے چاہیے کہ وہ نیک اعمال کرے ،کثرت سے نوافل پڑھے ساتھ ہی ساتھ توبہ واستغفار بھی کرے تاکہ قیامت کے دن اس کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہو یہی محدثین اور بہت سے سلف صالحین کا بھی مسلک ہے جن میں حسن بصری ،ابو بکر الحمیدی ،ابن قیم الجوزیہ اور ابن رجب حنبلی رحمہم اللہ وغیرہم ہیں ۔[مسند حمیدی:۲؍۳۶۱]
یہی راجح ہے ۔اس کو راجح قرار دیا ہے علامہ ابن حزم رحمہ اللہ [المحلی لابن حزم:۲؍۲۳۵]علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ [المجموع الفتاوی:۲۲؍۴۰]اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے[نیل الاوطار:۳؍۱۷۵]
ان تمام لوگوں کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے :(فان تابوا وأقاموا الصلوۃ وآتو االزکوۃ فخلوا سبیلھم )[التوبہ:۵]
اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کرنے لگ جائیں تو ان کے راستے خالی کردو ۔
اس آیت میں جان بوجھ کر نماز چھوڑنے کی وجہ سے قضا کا حکم نہیں لیکن ائمہ ثلاثہ یعنی امام ابو حنیفہ ،امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ نے فرمایا کہ وقت نکل جانے کے بعد قضا کرے گا امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو شخص جان بوجھ کر ایک یا کئی نمازترک کردے تو وہ ان نمازوں کے اوقات آنے سے پہلے پڑھ لے اگرچہ موجودہ نماز کا وقت جارہا ہو اگر پانچ نمازوں سے زائد ہو تو وہ موجودہ نمازوں سے شروع کرے ۔[المحلی لابن حزم :۲؍۲۳۵]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا جان بوجھ کر نماز ترک کرنے والے کے لیے قضانہیں لیکن اگر اللہ اس کے لیے بھی قضا کومشروع کردیتا تو عامد اور ناسی برابر ہوجاتے جبکہ ناسی غیر ماثوم ہے بر خلاف عامد کے پھر دونوں برابر کیسے ہو سکتے ہیں ؟[فتح الباری لابن حجر :۲؍۹۴]
فوت شدہ نمازوں کی قضائی میں ترتیب: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی دو روایتوں میں سے ایک روایت یہ ہے کہ فوت شدہ نمازوں کی قضا میں ترتیب واجب ہے چاہے کم ہو یا زیادہ یا چاہے وقت کی قلت ہو یا کثرت ،یہی مذہب امام مالک ،زہری ،ابو حنیفہ اور عطا بن ابی رباح کا بھی ہے ۔ان لوگوں کی دلیل :’’من نام عن صلاۃ أو نسیھا فلیصلھا اذا ذکرھا ‘‘[صحیح بخاری: کتاب الصلاۃ ،باب من نسی صلاۃ فلیصلھا اذا ذکرھا ،رقم۵۹۷]کا عموم ہے ۔
اور امام شافعی کہتے ہیں ترتیب واجب نہیں چاہے کم ہو یا زیادہ اور اگر بعض کو بعض پر مقدم کرلے تو مقدم کی ہوئی نماز بھی صحیح ہو گی ۔[المغنی:۲؍۳۳۶]
لیکن امام ابو حنیفہ کے یہاں ترتیب تین امور سے ساقط ہو سکتی ہے (۱)فوائت کی ترتیب چھ یا اس سے زیادہ کو پہنچ جائے وتر اس میں داخل نہیں ۔(۲)فوائت کو ادا کرنے کے وقت قضا کرنا بھول جائے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ان اللہ تجاوز عن أمتی الخطأ والنسیان وما استکرھوا علیہ ‘‘[اراواء الغلیل :۸؍۱۹۴وصححہ الالبانی رحمہ اللہ ]
اللہ نے میری امت کے خطا اور نسیان اور جس چیز پر وہ مجبور کیا جائے معاف فرمادیا ہے ۔اور امام مالک کے یہاں ترتیب دو شرطوں کی بنیاد پر واجب ہے چاہے کم ہوں یا زیادہ ۔(۱)سابقہ فوت شدہ نمازوں کی تعداد کو جانتا ہو ۔(۲)ترتیب پر قادر ہو ۔[الفقہ علی المذاہب الأربعۃ :۱؍۳۸۲]
امام بخاری رحمہ اللہ نے فوائت کی ترتیب کے متعلق اپنی صحیح میں قضاء الصلاۃ الأولی فالأولی کے نام سے ایک باب ہی قائم کیا ہے اور اس میں یہ حدیث ذکر کی ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خندق کے دن غروب آفتاب کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور کفار قریش کو سب وشتم کرنے لگے اور کہا ائے اللہ کے رسول ﷺ جب میں نے نماز عصر ادا کی سورج غروب ہونے والاتھا تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’واللہ ما صلیتھا فتوضأ وتوضأنا فصلی العصر بعد ما غربت الشمس ثم صلی بعدھا المغرب ‘‘[صحیح بخاری: کتاب مواقیت الصلاۃ ،باب قضاء الصلاۃ الأولی فالأولی،رقم ۵۹۶]
اللہ کی قسم میں نے یہ نماز ابھی تک ادا نہیں کی پھر آپ نے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا پھر آپ نے غروب آفتاب کے بعد نماز عصرپڑھی پھر اس کے بعد نماز مغرب پڑھی ۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا نفل نماز افضل ہے یا قضا ؟ تو آپ نے جواب دیا جب قضا واجب ہو تو نفل نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ وہ پہلے قضا واجب کی ادائیگی کرے۔[المجموع الفتاوی : ۲۲؍۱۰۴]
فوائت کی قضا فوراً یا تاخیر سے ؟ فوت شدہ نمازوں کی قضا فورا واجب ہے چاہے وہ نماز کسی ایسے عذر کی بنا پر فوت ہوئی ہو جو اس فریضہ کو ساقط کر دے یا بغیر کسی عذر کے فوت ہوئی ہو اس پر تمام ائمہ ثلاثہ کا اتفاق ہے لیکن امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر تاخیر کسی شرعی عذر کی بناپر نہیں تو قضا واجب ہے اور اگر شرعی عذر کی بنا پر ہوئی ہو تو تاخیر سے واجب ہوتا ہے اور تاخیر القضا کسی عذر کی بنا پر ہی جائز ہے ۔علا مہ شوکانی رحمہ اللہ ’’فلیصلھا اذا ذکرھا ‘‘سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فوت شدہ نمازوں کوفوراً قضا کیا جائے ۔[نیل الاوطار:۳؍۱۷۸]اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔[المجموع الفتاوی : ۲۲؍۱۰۸]شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا بھی مسلک یہی ہے ۔[حجۃ اللہ البالغۃ :۱؍۴۰۲]
لیکن علامہ عینی حنفی ان تمام باتوں کا جواب دیتے ہیں کہ ’’فلیصلھا اذا ذکرھا ‘‘سے یہ لازم نہیں آتا کہ یاد آنے کے وقت فوراً ہی پڑھ لے کیونکہ اگر اس کو یاد آجائے اور ایک مدت تک یاد بھی رہے اور وہ اس مدت میں کبھی بھی ادا کرتا ہے تو یہ بھی تو حالت یاد داشت ہی میں ہے اور دوسرا جواب یہ ہے کہ ’’اذاً ‘‘شرط کے لیے ہے یعنی اگر یاد آجائے تو پڑھے اور نہ یاد آئے تو قضا لازم نہیں آتا اور جزا بھی لازم نہیں کرتا کہ شرط کے مطابق اس کو فوراً ادا ہی کیا جائے ۔[عمدۃ القاری: ۴؍۱۳۱]
وہ اشخاص جن پر بالاتفاق قضا ہے : علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بھول جانے والے اور سوجانے والے پر قضا واجب ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے انہیں دو قسم کے لوگوں کے سلسلے میں فرمایا ہے :’’انہ لیس فی النوم التفریط انما التفریط فی الیقظۃ فاذا نسی أحدصلاۃ أو نام عنھا فلیصلھا اذا ذکرھا ‘‘کہ کوتاہی نیند کی حالت میں نہیں بلکہ کوتاہی تو بیداری کی حالت میں ہے پس جب کوئی نماز کو ادا کرنا بھول جائے یا اس سے غافل ہو کر سوجائے تو جب یاد آئے پڑھ لے ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ نائم مکلف نہیں لیکن بیدار ہونے کے بعد اس پر قضا واجب ہے اور یہی اصحاب فقہ واصول فقہ کے نزدیک راجح اور صحیح قول ہے ۔[صحیح مسلم : مع شرح النووی :کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ ،باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ ،رقم ۳۱۱]
حائضہ اور نفساء پر بالاتفاق قضا نہیں : حدیث معاذ رضی اللہ عنہ ہے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ ’’ما بال الحائض تقضی الصوم ولا تقضی الصلاۃ فقالت کان یصیبنا ذلک مع رسول اللہ ﷺ فنومر بقضاء الصوم ولا نومر بقضاء الصلاۃ ‘‘[صحیح مسلم :کتاب الحیض ،باب وجوب قضاء الصوم علی الحائض دون الصلاۃ ،رقم ۳۳۵]کیا بات ہے کہ حائضہ عورت روزہ کی تو قضا کرتی ہے لیکن نماز کی قضانہیں کرتی تو انہوں نے کہا کہ یہ چیز ہمیں رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لاحق ہوتی تھی تو ہمیں روزہ کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا نمازکی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا ۔
اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ’’کانت المرأۃ من نساء النبی ﷺ تقعد فی النفاس أربعین لیلۃ لا یأمرھا النبی بقضاء صلاۃ الناس ‘‘[سنن ابی داود :کتاب الطھارۃ ،باب ماجاء فی وقت النفساء ،رقم۳۱۲،وصححہ الالبانی رحمہ اللہ ]
نبی ﷺ کی کوئی بیوی چالیس دن تک نفاس میں رہتی تھی اور نبی ﷺ ایسی نماز کی قضا کا حکم نہیں دیتے تھے ۔
اس مسئلہ پر تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ حائضہ اور نفساء سے براہ راست نماز ساقط ہو جاتی ہے چنانچہ ان دو قسم کی عورتوں پر حالت حیض اور نفاس میں جو نمازیں فوت ہوئی ہوں حیض ونفاس کے ختم ہو جانے کے بعد فوت شدہ نمازوں کی قضا نہیں کریں گی ۔[الفقہ الاسلامی وأدلتہ : ۲؍۱۱۵۰۔۱۱۴۹]
مغمی علیہ(بے ہوش) اور مجنون کی نماز کا حکم : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ مجنون اور بے ہوش شخص سے نماز ساقط ہو جاتی ہے جبکہ جنون اور بے ہو شی کی حالت پانچ نمازوں سے زائد ہو اور اگر اس سے کم ہو جائے تو اس کے اوپر اس وقت کی نماز کی قضا واجب ہے ۔[المحلی لابن حزم :۱؍۲۲۳]
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس کی عقل زائل ہو جائے چاہے وہ دیوانہ پنی کی وجہ سے ہو یا بے ہوشی کی وجہ سے ہو یا بیماری کی وجہ سے ہو یا کسی مباح سبب سے ہو تو اس کے اوپر نماز واجب نہیں اور نہ ہی قضا ہے ۔دلیل اللہ کے نبی ﷺ کا یہ فرمان ہے: ’’رفع القلم عن ثلاثۃ عن المجنون حتی یفیق وعن النائم حتی یستیقظ وعن الصبی حتی یحتلم ‘‘[سنن ابی داود :کتاب الحدود ،باب فی المجنون یسرق ویصیب جدا ،رقم ۴۴۰۱وصححہ الالبانی رحمہ اللہ ]
حدیث میں جنون کی صراحت ہے اسی پر ہر اس شخص کو قیاس کیا گیا ہے جس کی عقل کسی مباح چیز کی سبب سے زائل ہوئی ۔جہاں تک مسئلہ ہے اس شخص کا جس کی عقل ماری گئی ہو کسی حرام چیز سے جیسے نشہ آور اشیا کے استعمال یا بلا ضرورت دوا کا استعمال تو اس پر قضا واجب ہے ۔[المغنی : ۱؍۳۹۸۔المجموع شرح المھذب : ۳؍۷]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص بے ہوش ہو جائے اس پر قضا ہے اگرچہ تعداد زیادہ ہی کیوں نہ ہو اور امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں مغمی علیہ پر نہ تو نماز ہے اور نہ ہی قضا دلیل امام شافعی کی دلیل ہے ۔اور امام نخعی فرماتے ہیں ایک دن اور ایک رات کی نماز لوٹائے گا اور اس سے پہلے کی نماز نہیں لوٹائے گا ۔[التحقیق لابن الجوزی وتنقیقحہ للذھبی :۶۳۳]
حالت ارتداد میں فوت شدہ نمازوں کی قضا قبول اسلام کے بعد : حنفیہ کہتے ہیں حالت ارتداد میں فوت شدہ نمازوں کی قضا کرے گا اور نہ ہی اس سے پہلے کی سوائے حج کے کیونکہ مرتد ہونے کی وجہ سے وہ حقیقی کافر کے مثل ہوجاتا ہے ۔[المغنی :۲؍۳۴۹]اور یہی مسلک امام مالک کا بھی ہے ۔دلیل : ’’ان الاسلام یھدم ما کان قبلہ ‘‘[صحیح مسلم :کتاب الایمان،باب کون الاسلام یھدم ما کان قبلہ ،رقم ۷۳۔المجموع شرح المھذب:۳؍۵]
اور شافعیہ کا مسلک ہے کہ مرتد جب اسلام لے آئے تو اس کے اوپر نماز کی قضا لازم ہے کیونکہ نماز ان کے اوپر پہلے سے واجب ہے۔[الفقہ علی المذاہب الاربعۃ:۱؍۳۹۷]
مرتد کی نماز قضا کے وجوب کے سلسلے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے دو قسم کی روایتیں ہیں ایک تو حنفیہ کی طرح کہ لازم نہیں کیونکہ اس کا عمل اس کے کفر کی وجہ سے رائیگاں ہو گیا دلیل :اللہ کا قول :(لئن أشرکت لیحبطن عملک )[الزمر : ۶۵]اگر آپ بھی شرک کرلیں تو آپ کا بھی عمل برباد ہوجائے گا اور اگر حج کیا ہو تو وہ دوبارہ حج کرے گا اور تمام معاملہ میں حقیقی کافر کی طرح ہے ۔[المغنی :۱؍۴۰۱]
مسبوق کا نماز کو پورا کرلینا قضا ہے یا ادا ؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد نماز پڑھے تو قضا ہے اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جو شخص بقیہ نمازوں کو امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کرے وہ ادا ہی ہے ۔ ان کے اختلاف کا سبب بعض مشہور حدیثیں ہیں جن میں لفظ کا اختلاف ہے جیسے کہ بخاری کے الفاظ ہیں :’’فما أدرکتم فصلوا وما فاتکم فأتموا ‘‘[صحیح بخاری : کتاب الاذان ،باب لا یسعی الی الصلاۃ ولیاتھا بالسکینۃ والوقار ،رقم ۷۳۶]
اور دوسری روایت میں ہے ’’فما أدرکتم فصلوا وما فاتکم فاقضوا ‘‘[مسند حمیدی :کتاب الصلاۃ ،باب ما فاتکم فاقضوا ،رقم ۲۷۱]تو لفط اتمام پائے ہوئے رکعت کے پہلی رکعت اور لفظ قضا آخری رکعت ہونے کا تقاضہ کرتا ہے ۔[بدایۃ المجتھد ونھایۃ المقتصد ،۱۵۹]
لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ اگر کسی عذر کی بنا پر ہو تو یہ قضا نہیں بلکہ عذر ختم ہوجانے کے وقت ہی ادا ہے ۔دلیل : نبیﷺ کا فرمان ہے ’’فلیصلھا اذا ذکرھا ‘‘[صحیح بخاری : کتاب السلاۃ ،باب من نسی صلاۃ فلیصلھا اذا ذکرھا ،رقم ۵۹۷]
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں خلوص نیتی کے ساتھ نمازوں کو وقت متعینہ پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
 
Top