مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,391
- ری ایکشن اسکور
- 453
- پوائنٹ
- 209
بیان کیا جاتا ہے کہ : "جب اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں تو سب نے سجدہ کیا سواۓ ابلیس لعین کے تو رب نے ابلیس کو مردود قرار دے کر جنت سے نکال دیا.ابلیس کی یہ حالت دیکھ کرفرشتوں نے سجدہ شکر ادا کیا اورکہا اے اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمیں اپنا حکم ماننے اور اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائی.وہ دو سجدے آج تک نماز میں ادا کیے جاتے ہیں".
اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اسے متعدد اسباب کی وجہ سے بیان کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔
اولا: یہ ایسا دعوی ہے جس کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں ہے ، اور نہ ہی علمائے تفاسیر میں سے کسی نے ذکر کیا ہے ۔
ثانیا: اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کے سجدہ کے لئے ایک ہی امر ذکر کیا ہے پھر اس کے بعد خبر دیا کہ سارے فرشوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ۔ (البقرة: 34)
ترجمہ : اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، اس نے انکار کیا اورتکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ (الكهف: 50)
ترجمہ : اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا ، یہ جنوں میں سے تھا ، اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی ۔
ثالثا: فرشتوں کا سجدہ آدم علیہ السلام کے لئے تھا جبکہ نماز میں ہمارا سجدہ اللہ رب العالمین کے لئے ہے ۔ تو نمازی کا اللہ کے لئے سجدہ اور فرشتوں کا آدم علیہ السلام کے لئے سجدہ دونوں میں کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔
رابعا : اللہ تعالی نے بغیر علم کے کوئی بات کہنے کو حرام قرار دیا ہے ۔ فرمان باری تعالی ہے ۔قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ۔ ( الأعراف: 33)
ترجمہ : آپ فرمادیجئے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں ، اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں ۔
اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اسے متعدد اسباب کی وجہ سے بیان کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔
اولا: یہ ایسا دعوی ہے جس کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں ہے ، اور نہ ہی علمائے تفاسیر میں سے کسی نے ذکر کیا ہے ۔
ثانیا: اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کے سجدہ کے لئے ایک ہی امر ذکر کیا ہے پھر اس کے بعد خبر دیا کہ سارے فرشوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ۔ (البقرة: 34)
ترجمہ : اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، اس نے انکار کیا اورتکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ (الكهف: 50)
ترجمہ : اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا ، یہ جنوں میں سے تھا ، اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی ۔
ثالثا: فرشتوں کا سجدہ آدم علیہ السلام کے لئے تھا جبکہ نماز میں ہمارا سجدہ اللہ رب العالمین کے لئے ہے ۔ تو نمازی کا اللہ کے لئے سجدہ اور فرشتوں کا آدم علیہ السلام کے لئے سجدہ دونوں میں کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔
رابعا : اللہ تعالی نے بغیر علم کے کوئی بات کہنے کو حرام قرار دیا ہے ۔ فرمان باری تعالی ہے ۔قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ۔ ( الأعراف: 33)
ترجمہ : آپ فرمادیجئے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں ، اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں ۔