- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,549
- پوائنٹ
- 791
فیس بک پر ایک محترم بھائی نے نماز میں سجدہ سہو کے متعلق ایک سوال کیا ، اس کا سوال اور ہمارا جواب دیگر بھائیوں کیلئے یہاں پیش خدمت ہے :
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــــــــــــــــــ
نماز میں کمی ،بیشی کا شک اور سہو کے سجدے
سوال :
ایک شخص کو نماز کے آخر میں شک ہوا کہ اس نے چار کی بجائے تین رکعت پڑھی ہیں ،
اس نے ایک رکعت مزید پڑھی ، لیکن یہ ایک رکعت پڑھتے ہوئے اس کو شک ہوا کہ میں نے چار کی بجائے پانچ رکعت پڑھ دی ہیں ،
اب اسے نماز کے آخر میں سلام کے بعد سہو کے دو سجدےکرنا تھے ، لیکن سجدہ سہو میں بھی اس سے غلطی ہوگئی ،اور بجائے دو سجدوں کے ایک ہی سجدہ کرکے سلام پھیر دیا ،
تو اس طرح کرنے سے کیا وہ نماز میں اضافہ کا مجرم تو نہیں ، اور کیا اس کی نماز ہوگئی یا نہیں ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب :
جب امام کو یا اکیلے نمازی کو چار رکعت والی نماز میں شک پیدا ہوجائے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار تو اس لازم ہے کہ وہ یقینی بات کوبنیاد بنائے اور وہ کم رکعت ہی ہوسکتی ہیں گویا انہیں تین شمار کر کے چوتھی ادا کر لے۔ پھر سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے۔ جیساکہ سیدنا ابوسعید خدری رضى الله عنه نبیﷺ سے روایت کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
((عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى، ثَلَاثًا، أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ، وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ، قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، فَإِنْ كَانَ صَلَّى خَمْسًا، شَفَعْنَ لَهُ صَلَاتَهُ، وَإِنْ كَانَ صَلَّى إِتْمَامًا لِأَرْبَعٍ، كَانَتَا تَرْغِيمًا لِلشَّيْطَانِ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کرے (کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں) اور معلوم نہ ہو سکے تین پڑھیں یا چار تو شک کو دور کرے اور جس قدر کا یقین ہوا اس کو قائم کرے پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرے۔ اب اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھیں تو یہ دو سجدے مل کر چھ رکعتیں ہو جائیں گی اور اگر پوری چار پڑھیں ہیں تو ان دونوں سجدوں سے شیطان کے منہ میں خاک پڑ جائے گی۔“۔‘‘
اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں (کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ ) میں روایت کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
س: إذا شك الإمام في الصلاة الرباعية ولم يعلم أصلى ثلاثا أم أربعا ثم سلم، وبعد السلام أخبره بعض المأمومين أنه لم يصل إلا ثلاثا، في هذه الحالة هل يكبر الإمام تكبيرة الإحرام للرابعة أو يقوم فقط ويقرأ الفاتحة بدون تكبير؟ وما موقع سجود السهو، قبل السلام أم بعده؟ .
ج: إذا شك الإمام أو المنفرد في الصلاة الرباعية هل صلى ثلاثا أم أربعا، فإن الواجب عليه البناء على اليقين وهو الأقل فيجعلها ثلاثا، ويأتي بالرابعة ثم يسجد للسهو قبل أن يسلم؛ لما ثبت عن أبي سعيد الخدري عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «إذا شك أحدكم في الصلاة فلم يدر كم صلى ثلاثا أم أربعا فليطرح الشك، وليبن على ما استيقن، ثم ليسجد سجدتين قبل أن يسلم، فإن كان صلى خمسا شفعن له صلاته، وإن كان صلى تماما كانتا ترغيما للشيطان ( صحيح مسلم المساجد ومواضع الصلاة (571) ، سنن الترمذي الصلاة (396) ، سنن النسائي السهو (1238) ، سنن أبو داود الصلاة (1024) ، سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (1210)أما إن سلم من ثلاث ثم نبه على ذلك فإنه يقوم بدون تكبير بنية الصلاة ثم يأتي بالرابعة ثم يجلس للتشهد وبعد فراغه من التشهد والصلاة على النبي - صلى الله عليه وسلم - والدعاء يسلم ثم يسجد سجدتين بعد ذلك للسهو ثم يسلم هذا هو الأفضل في حق كل من سلم عن نقص في الصلاة ساهيا؛ لما ثبت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - «أنه سلم من اثنتين في الظهر أو العصر فنبهه ذو اليدين، فقام فأكمل صلاته ثم سلم ثم سجد للسهو ثم سلم (1) » . وثبت عنه - صلى الله عليه وسلم - «أنه سلم من ثلاث في العصر فلما نبه على ذلك أتى بالرابعة ثم سلم ثم سجد سجدتي السهو ثم سلم (2) » .
__________
(1) صحيح البخاري الأدب (6051) ، صحيح مسلم المساجد ومواضع الصلاة (573) ، سنن الترمذي الصلاة (399) ، سنن النسائي السهو (1224) ، سنن أبو داود الصلاة (1008) ، سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (1214) ، مسند أحمد بن حنبل (2/235) ، موطأ مالك النداء للصلاة (211) ، سنن الدارمي الصلاة (1496) .
(2) صحيح مسلم المساجد ومواضع الصلاة (574) ، سنن الترمذي الصلاة (395) ، سنن النسائي السهو (1237) ، سنن أبو داود الصلاة (1018) ، سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (1215) ، مسند أحمد بن حنبل (4/427) .
ترجمہ :
سوال :جب امام کویا اکیلے نمازی کو رکعتوں کی تعداد میں شک پیدا ہو
جب چار رکعت والی نماز میں امام کو شک پڑجائے اور اسے معلوم نہ ہو کہ تین رکعت ادا کی ہیں یا چار او رسلام کے بعد کوئی مقتدی خبر دے کہ اس نے تو تین ہی رکعت ادا کی ہیں ۔ اس صورت میں کیا امام چوتھی رکعت کے لیے تکبیر تحریمہ کہے گا یا بغیر تکیبر کے فقط سورہ فاتحہ پڑھے گا… نیز سجو دسہو کا موقع کونسا ہے ۔ سلام سے پہلے ای اس کے بعد ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب بعون الوهاب
جب امام کو یا اکیلے نمازی کو چار رکعت والی نماز میں شک پیدا ہوجائے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار تو اس لازم ہے کہ وہ یقینی بات کوبنیاد بنائے اور وہ کم رکعت ہی ہوسکتی ہیں گویا انہیں تین شمار کر کے چوتھی ادا کر لے۔ پھر سلام سے پہلے سجدہ سہو نکاے۔ جیساکہ ابوسعید خدری رضى الله عنه نبیﷺ سے روایت کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
((إِذَا شَکَّ أَحَدُکُمْ فِی صَلٰوتِہٖ فَلَمْ یَدْرِ کَمْ صَلّٰی ثَلَاثًا أَمْ أَرْبَعًا فَلْیَطْرَحْ الشَّکَّ وَلْیَبْنِ عَلٰی مَا اسْتَیْقَنَ ثُمَّ یَسْجُدُ سَجْدَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یُّسَلِّمَ فَإِنْ کَانَ صَلّٰی خَمْسًا شَفَعْنَ لَہٗ صَلٰوتَہٗ وَإِنْ کَانَ صَلّٰی إِتْمَامًا لِأَرْبَعٍ کَانَتَا تَرْغِیمًا لِلشَّیْطَانِ))
’’ جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک پڑجائے اور نہ جانتا ہو کہ تین رکعت ادا کی ہیں یا چار تو شک کو نکال پھینکیں اور نماز کی بنا اس بات پر رکھیں جو یقیقنی ہو۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدہ نکال لیں ۔ اگر پانچ رکعت پڑھ لیں تو یہ سجدے نماز کو جواڑ بنادیں گے اور اگر نماز پوری ہوئی تو یہ سجدے شیطان کو خاک آلود کریں گے۔‘‘
اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے
اور اگر اس نے تین رکعت کے بعد سلام پھیرے دییا پھر اسے اس بت کی خبردی گئی تو وہ نماز کی نیت سے بلا تکبیر اٹھ کھڑا ہوا اور چوتھی رکعت ادا کرے پھر تشہد کے لیے بیٹھ جائے اور تشہد نبی ﷺ پر دور اور دعا کے بعد سلام پھیرے ۔ پھر اس کے بعد سہوکے دو سجدے نکالے۔ پھر سلام پھیرے۔ یہی طریقہ نماز میں ہر طرح کی بھول کے نقص کے لیے افضل ہے ۔ کیونکہ نبیﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے ظہر یا عصر کی دو رکعت ادا کرکے سلام پھیردیا ۔ ذولیدین رضى الله عنه نے آپﷺ سے یہ بھی اٹھے ، اپنی نماز مکمل کی، پھر سلام پھیرا۔ نیز آپﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے عصر کی نماز میں تین رکعت کے بعد سلام پھیردیا۔ پھرجب آپ کو بتلایا تو آپ ﷺ نے چوتھی رکعت پڑھی سلام پھیرا۔ پھر سہو کے دوسجدے کیے پھر سلام پھیرا۔
فتاوی بن باز رحمہ اللہ جلد 11 ص 252.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: "صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم الظهر او العصر فسلم، فقال له ذو اليدين: الصلاة يا رسول الله انقصت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لاصحابه احق ما يقول؟، قالوا: نعم، فصلى ركعتين اخريين، ثم سجد سجدتين"، قال سعد: ورايت عروة بن الزبير صلى من المغرب ركعتين فسلم وتكلم، ثم صلى ما بقي وسجد سجدتين، وقال: هكذا فعل النبي صلى الله عليه وسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ذوالیدین کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز کی رکعتیں کم ہو گئی ہیں؟ (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر صرف رکعتوں پر سلام پھیر دیا تھا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ کہتے ہیں؟ صحابہ نے کہا جی ہاں، اس نے صحیح کہا ہے۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت اور پڑھائیں پھر دو سجدے کئے۔ سعد نے بیان کیا کہ عروہ بن زبیر کو میں نے دیکھا کہ آپ نے مغرب کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اور باتیں بھی کیں۔ پھر باقی ایک رکعت پڑھی اور دو سجدے کئے اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا۔
صحیح بخاری ( 1227)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب آپ کی مسئولہ صورت یہ ہے کہ اس نمازی کو نماز میں سہو تو یقیناً ہوا ہے خواہ اس نے چار کی جگہ تین رکعت پڑھ کر سہو کا مظاہرہ کیا یا چار کی جگہ پانچ پڑھ کر غلطی کی ، دونوں صورتوں میں اس پر سہو کے دو سجدے واجب تھے ،
اور سہو کے سجدوں کی ادائیگی میں اس سے غلطی دو طرح سے ہوئی ایک تو یہ کہ سجدے سلام کے بعد کرنے تھے اور پھر سلام پھیرنا تھا ،جبکہ اس نے سلام سے پہلے ایک سجدہ کرلیا اور ایک سجدہ اس س ے پھر رہ گیا یہ دوسری غلطی تھی ،
اس طرح اس کے سہو کے سجدے ادا نہیں ہوئے یعنی اس کا وہ ایک سجدہ کالعدم ہے ،اور اب وقت بھی زیادہ گزرچکا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ یہ نماز دوبارہ پڑھے ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــسوال :
ایک شخص کو نماز کے آخر میں شک ہوا کہ اس نے چار کی بجائے تین رکعت پڑھی ہیں ،
اس نے ایک رکعت مزید پڑھی ، لیکن یہ ایک رکعت پڑھتے ہوئے اس کو شک ہوا کہ میں نے چار کی بجائے پانچ رکعت پڑھ دی ہیں ،
اب اسے نماز کے آخر میں سلام کے بعد سہو کے دو سجدےکرنا تھے ، لیکن سجدہ سہو میں بھی اس سے غلطی ہوگئی ،اور بجائے دو سجدوں کے ایک ہی سجدہ کرکے سلام پھیر دیا ،
تو اس طرح کرنے سے کیا وہ نماز میں اضافہ کا مجرم تو نہیں ، اور کیا اس کی نماز ہوگئی یا نہیں ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب :
جب امام کو یا اکیلے نمازی کو چار رکعت والی نماز میں شک پیدا ہوجائے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار تو اس لازم ہے کہ وہ یقینی بات کوبنیاد بنائے اور وہ کم رکعت ہی ہوسکتی ہیں گویا انہیں تین شمار کر کے چوتھی ادا کر لے۔ پھر سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے۔ جیساکہ سیدنا ابوسعید خدری رضى الله عنه نبیﷺ سے روایت کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
((عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى، ثَلَاثًا، أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ، وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ، قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، فَإِنْ كَانَ صَلَّى خَمْسًا، شَفَعْنَ لَهُ صَلَاتَهُ، وَإِنْ كَانَ صَلَّى إِتْمَامًا لِأَرْبَعٍ، كَانَتَا تَرْغِيمًا لِلشَّيْطَانِ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کرے (کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں) اور معلوم نہ ہو سکے تین پڑھیں یا چار تو شک کو دور کرے اور جس قدر کا یقین ہوا اس کو قائم کرے پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرے۔ اب اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھیں تو یہ دو سجدے مل کر چھ رکعتیں ہو جائیں گی اور اگر پوری چار پڑھیں ہیں تو ان دونوں سجدوں سے شیطان کے منہ میں خاک پڑ جائے گی۔“۔‘‘
اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں (کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ ) میں روایت کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
س: إذا شك الإمام في الصلاة الرباعية ولم يعلم أصلى ثلاثا أم أربعا ثم سلم، وبعد السلام أخبره بعض المأمومين أنه لم يصل إلا ثلاثا، في هذه الحالة هل يكبر الإمام تكبيرة الإحرام للرابعة أو يقوم فقط ويقرأ الفاتحة بدون تكبير؟ وما موقع سجود السهو، قبل السلام أم بعده؟ .
ج: إذا شك الإمام أو المنفرد في الصلاة الرباعية هل صلى ثلاثا أم أربعا، فإن الواجب عليه البناء على اليقين وهو الأقل فيجعلها ثلاثا، ويأتي بالرابعة ثم يسجد للسهو قبل أن يسلم؛ لما ثبت عن أبي سعيد الخدري عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «إذا شك أحدكم في الصلاة فلم يدر كم صلى ثلاثا أم أربعا فليطرح الشك، وليبن على ما استيقن، ثم ليسجد سجدتين قبل أن يسلم، فإن كان صلى خمسا شفعن له صلاته، وإن كان صلى تماما كانتا ترغيما للشيطان ( صحيح مسلم المساجد ومواضع الصلاة (571) ، سنن الترمذي الصلاة (396) ، سنن النسائي السهو (1238) ، سنن أبو داود الصلاة (1024) ، سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (1210)أما إن سلم من ثلاث ثم نبه على ذلك فإنه يقوم بدون تكبير بنية الصلاة ثم يأتي بالرابعة ثم يجلس للتشهد وبعد فراغه من التشهد والصلاة على النبي - صلى الله عليه وسلم - والدعاء يسلم ثم يسجد سجدتين بعد ذلك للسهو ثم يسلم هذا هو الأفضل في حق كل من سلم عن نقص في الصلاة ساهيا؛ لما ثبت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - «أنه سلم من اثنتين في الظهر أو العصر فنبهه ذو اليدين، فقام فأكمل صلاته ثم سلم ثم سجد للسهو ثم سلم (1) » . وثبت عنه - صلى الله عليه وسلم - «أنه سلم من ثلاث في العصر فلما نبه على ذلك أتى بالرابعة ثم سلم ثم سجد سجدتي السهو ثم سلم (2) » .
__________
(1) صحيح البخاري الأدب (6051) ، صحيح مسلم المساجد ومواضع الصلاة (573) ، سنن الترمذي الصلاة (399) ، سنن النسائي السهو (1224) ، سنن أبو داود الصلاة (1008) ، سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (1214) ، مسند أحمد بن حنبل (2/235) ، موطأ مالك النداء للصلاة (211) ، سنن الدارمي الصلاة (1496) .
(2) صحيح مسلم المساجد ومواضع الصلاة (574) ، سنن الترمذي الصلاة (395) ، سنن النسائي السهو (1237) ، سنن أبو داود الصلاة (1018) ، سنن ابن ماجه إقامة الصلاة والسنة فيها (1215) ، مسند أحمد بن حنبل (4/427) .
ترجمہ :
سوال :جب امام کویا اکیلے نمازی کو رکعتوں کی تعداد میں شک پیدا ہو
جب چار رکعت والی نماز میں امام کو شک پڑجائے اور اسے معلوم نہ ہو کہ تین رکعت ادا کی ہیں یا چار او رسلام کے بعد کوئی مقتدی خبر دے کہ اس نے تو تین ہی رکعت ادا کی ہیں ۔ اس صورت میں کیا امام چوتھی رکعت کے لیے تکبیر تحریمہ کہے گا یا بغیر تکیبر کے فقط سورہ فاتحہ پڑھے گا… نیز سجو دسہو کا موقع کونسا ہے ۔ سلام سے پہلے ای اس کے بعد ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب بعون الوهاب
جب امام کو یا اکیلے نمازی کو چار رکعت والی نماز میں شک پیدا ہوجائے کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار تو اس لازم ہے کہ وہ یقینی بات کوبنیاد بنائے اور وہ کم رکعت ہی ہوسکتی ہیں گویا انہیں تین شمار کر کے چوتھی ادا کر لے۔ پھر سلام سے پہلے سجدہ سہو نکاے۔ جیساکہ ابوسعید خدری رضى الله عنه نبیﷺ سے روایت کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
((إِذَا شَکَّ أَحَدُکُمْ فِی صَلٰوتِہٖ فَلَمْ یَدْرِ کَمْ صَلّٰی ثَلَاثًا أَمْ أَرْبَعًا فَلْیَطْرَحْ الشَّکَّ وَلْیَبْنِ عَلٰی مَا اسْتَیْقَنَ ثُمَّ یَسْجُدُ سَجْدَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یُّسَلِّمَ فَإِنْ کَانَ صَلّٰی خَمْسًا شَفَعْنَ لَہٗ صَلٰوتَہٗ وَإِنْ کَانَ صَلّٰی إِتْمَامًا لِأَرْبَعٍ کَانَتَا تَرْغِیمًا لِلشَّیْطَانِ))
’’ جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک پڑجائے اور نہ جانتا ہو کہ تین رکعت ادا کی ہیں یا چار تو شک کو نکال پھینکیں اور نماز کی بنا اس بات پر رکھیں جو یقیقنی ہو۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدہ نکال لیں ۔ اگر پانچ رکعت پڑھ لیں تو یہ سجدے نماز کو جواڑ بنادیں گے اور اگر نماز پوری ہوئی تو یہ سجدے شیطان کو خاک آلود کریں گے۔‘‘
اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے
اور اگر اس نے تین رکعت کے بعد سلام پھیرے دییا پھر اسے اس بت کی خبردی گئی تو وہ نماز کی نیت سے بلا تکبیر اٹھ کھڑا ہوا اور چوتھی رکعت ادا کرے پھر تشہد کے لیے بیٹھ جائے اور تشہد نبی ﷺ پر دور اور دعا کے بعد سلام پھیرے ۔ پھر اس کے بعد سہوکے دو سجدے نکالے۔ پھر سلام پھیرے۔ یہی طریقہ نماز میں ہر طرح کی بھول کے نقص کے لیے افضل ہے ۔ کیونکہ نبیﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے ظہر یا عصر کی دو رکعت ادا کرکے سلام پھیردیا ۔ ذولیدین رضى الله عنه نے آپﷺ سے یہ بھی اٹھے ، اپنی نماز مکمل کی، پھر سلام پھیرا۔ نیز آپﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے عصر کی نماز میں تین رکعت کے بعد سلام پھیردیا۔ پھرجب آپ کو بتلایا تو آپ ﷺ نے چوتھی رکعت پڑھی سلام پھیرا۔ پھر سہو کے دوسجدے کیے پھر سلام پھیرا۔
فتاوی بن باز رحمہ اللہ جلد 11 ص 252.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: "صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم الظهر او العصر فسلم، فقال له ذو اليدين: الصلاة يا رسول الله انقصت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لاصحابه احق ما يقول؟، قالوا: نعم، فصلى ركعتين اخريين، ثم سجد سجدتين"، قال سعد: ورايت عروة بن الزبير صلى من المغرب ركعتين فسلم وتكلم، ثم صلى ما بقي وسجد سجدتين، وقال: هكذا فعل النبي صلى الله عليه وسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ذوالیدین کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز کی رکعتیں کم ہو گئی ہیں؟ (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر صرف رکعتوں پر سلام پھیر دیا تھا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ کہتے ہیں؟ صحابہ نے کہا جی ہاں، اس نے صحیح کہا ہے۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت اور پڑھائیں پھر دو سجدے کئے۔ سعد نے بیان کیا کہ عروہ بن زبیر کو میں نے دیکھا کہ آپ نے مغرب کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اور باتیں بھی کیں۔ پھر باقی ایک رکعت پڑھی اور دو سجدے کئے اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا۔
صحیح بخاری ( 1227)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب آپ کی مسئولہ صورت یہ ہے کہ اس نمازی کو نماز میں سہو تو یقیناً ہوا ہے خواہ اس نے چار کی جگہ تین رکعت پڑھ کر سہو کا مظاہرہ کیا یا چار کی جگہ پانچ پڑھ کر غلطی کی ، دونوں صورتوں میں اس پر سہو کے دو سجدے واجب تھے ،
اور سہو کے سجدوں کی ادائیگی میں اس سے غلطی دو طرح سے ہوئی ایک تو یہ کہ سجدے سلام کے بعد کرنے تھے اور پھر سلام پھیرنا تھا ،جبکہ اس نے سلام سے پہلے ایک سجدہ کرلیا اور ایک سجدہ اس س ے پھر رہ گیا یہ دوسری غلطی تھی ،
اس طرح اس کے سہو کے سجدے ادا نہیں ہوئے یعنی اس کا وہ ایک سجدہ کالعدم ہے ،اور اب وقت بھی زیادہ گزرچکا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ یہ نماز دوبارہ پڑھے ،