• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ اور مقام

شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
نماز میں قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
احادیث:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ کی ذراع پر رکھتے تھے (صحیح بخاری)۔
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی دائیں ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کے گٹ پر رکھتے تھے (صحیح بخاری)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر رکھتے تھے (صحیح مسلم)ٌ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کو پکڑتے تھے (ابوداؤد)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے الٹی طرف جوڑ کے پاس کلائی پر رکھتے تھے (ابوداؤد)۔
نماز مین ہاتھ باندھنے سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں ان میں صحابہ کرام نے اپنا مشاہدہ ذکر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف احادیث میں مختلف کیفیات کا ذکر معلوم ہوتا ہے مگر تھوڑ سی توجہ دی جائے تو سب کا مذکورہ ہاتھ باندھنے کا طریقہ ایک ہی جیسا ہے۔
اگر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی کلائی کو گٹ کے پاس سے پکڑیں تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ان دو میں بہت معمولی سا فرق ہے۔ ایک یہ کہ دائیں ہاتھ کی چاروں انگلیاں ایک طرف ہوں اور انگوٹھا دوسری طرف اور الٹے ہاتھ کی کلائی کو گٹ کے پاس سے پکڑلیں۔ دوسرا طریقہ یہ کہ دائیں ہاتھ کی چھنگلیا اور انگوٹھے سے بائیں کلائی کو گٹ کے پاس سے پکڑیں اور بقیہ انگلیں بائیں کلائی پر بچھا دیں۔
ان مذکورہ دونوں طریقوں میں سے جس کے مطابق بھی ہاتھ باندھیں گے تو کسی بھی حدیث کی مخافت نہیں ہوگی۔ لہٰذا وہی عمل مسنون کہلانے کا زیادہ مستحق ہے جو کسی بھی حدیث کا مخالف نہ ہو۔

یہاں تک تو بات ہوئی ہاتھ باندھنے کے طریقہ کار کی۔ اب بات کرتے ہیں ہاتھ باندھنے کے مقام کی۔
اس سلسلہ کی احادیث اور آثار سے پتہ چلتا ہے کہ ہاتھ باندھنے کا محور ناف ہے۔ کوئی ناف سے نیچے کہتا ہے کوئی ناف سے اوپر اور کوئی ناف پر۔ ہاں البتہ خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو سنت کہتے ہیں۔ لہٰذا خلیفہ راشد کی بات سب پر مقدم ہے۔
دراصل ناف کے اوپر نیچے کا اختلاف حقیقتاً کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ ناف ستر ہے اور اس کو ہر وقت ڈھانپ کر رکھنا لازم ہے۔ چونکہ ہاتھ باندھنے کی تمام احادیث مشاہدہ پر مبنی ہیں اور ناف ایک چھوٹی سی تقریباً آدھ انچ قطر کی جگہ ہے لہٰذا اس کے تعین میں غلطی کا امکان موجود ہے۔

احادیث
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہتحیلی پر ہتھیلی رکھنا سنت ہے (مسند أحمد)۔
حضرت علیؓ فرماتے الله عز و جل کے فرمان: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] (کے بارے) میں، فرمایا: (نماز میں) رکھنا دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر ناف کے نیچے .[التمهيد لابن عبد البر]

آثار
ابن جریر الضبی اپنے والد سے روایت کرتے ہین کہ میں نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہون نے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے گٹ کے پاس سے ناف کے اوپر پکڑا ہؤا تھا (سنن ابوداؤد)۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی کو ہتھیلی سے پکڑیں (سنن ابو داؤد)۔

محدثین و فقہاء
عقبہ بن صہبان فرماتے ہیں کہ مین نے علی رجی اللہ تعالی کو فرماتے سنا ہے کہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے بادھیں (التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد)۔
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہین کہ لوگ ناف کے نیچے یا اوپر ہاتھ باندھتے تھے (سنن الترمذی)۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھو یا اوپر یا اس پر (بدائع الفوائد)۔
محمد بن الحسن الشیبانی رحمۃ الل علیہ فرماتے ہیں کہ سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کے گٹ پر ناف کے نیچے رکھے (مؤطا امام محمد)۔
ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے (الآثار لمحمد بن الحسن)۔
سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ نماز مین ہاتھ ناف کے اوپر باندھے جائیں (سنن الکبریٰ للبیہقی)۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ کی ذراع پر رکھتے تھے (صحیح بخاری)۔
ذراع کی معنی بیان کریں ذراع کہاں سے کہاں تک ہے ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر رکھتے تھے (صحیح مسلم)ٌ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کو پکڑتے تھے (ابوداؤد)۔
ان تینوں مرفوع احادیث کے حوالے مع رقم بیان کریں ۔
آثار پر بعد میں پوچھیں گے ۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
احادیث
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہتحیلی پر ہتھیلی رکھنا سنت ہے (مسند أحمد)۔
یہ وہی روایت ہے جو پہلے بھی دے چکے ہو آپ اور اسکی سند پر بات کرنے سے معذور تھے
حضرت علیؓ فرماتے الله عز و جل کے فرمان: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] (کے بارے) میں، فرمایا: (نماز میں) رکھنا دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر ناف کے نیچے .[التمهيد لابن عبد البر]
التمہید کے نسخے میں السرة کا لفظ نہیں یے بلکہ الثندوة کا لفظ ہے

آثار
ابن جریر الضبی اپنے والد سے روایت کرتے ہین کہ میں نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہون نے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے گٹ کے پاس سے ناف کے اوپر پکڑا ہؤا تھا (سنن ابوداؤد)۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی کو ہتھیلی سے پکڑیں (سنن ابو داؤد)۔
ان روایات کا عربی متن لگائیں
محدثین و فقہاء
عقبہ بن صہبان فرماتے ہیں کہ مین نے علی رجی اللہ تعالی کو فرماتے سنا ہے کہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے بادھیں (التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد)۔
اسکا بھی عربی متن لگادیں ویسے اسکا جواب بھی اوپر التمہید والا ہی ہے
ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے (الآثار لمحمد بن الحسن)۔
یہ بھی ثابت نہیں ہےان سے جن کا ذکر کیا ہے

روایات کو مع سند و متن لگادیں آپ پھر ان شاء اللہ آپ کی طبیعت شریف میں افاقہ ہوجائیگا
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
(۳۹۶۲) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ بن أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ عَاصِمٍ الْجَحْدَرِيِّ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ ظُهَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ : فِي قَوْلِهِ {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} قَالَ : وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَي الشِّمَالِ فِي الصَّلاَةِ۔
(٣٩٦٢) حضرت علی اللہ تعالیٰ کے فرمان { فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنا ہے۔
مجهول ؛ لجهالة عقبة بن ظهير
کیا آپ کو اس کا علم نہیں؟
آپ بتاديجئے هميں علم نهيں ۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
یہ وہی روایت ہے جو پہلے بھی دے چکے ہو آپ اور اسکی سند پر بات کرنے سے معذور تھے
یہ میرا شروع کردہ پہلا تھریڈ اور اس میں پہلی پوسٹ ہے۔ یہ روایت اگر پہلے سے آپ کو معلوم ہے تو اس حدیث پر جو اعتراض ہے وہ بیان کریں۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
التمہید کے نسخے میں السرة کا لفظ نہیں یے بلکہ الثندوة کا لفظ ہے
ان روایات کا عربی متن لگائیں
اسکا بھی عربی متن لگادیں ویسے اسکا جواب بھی اوپر التمہید والا ہی ہے
یہ بھی ثابت نہیں ہےان سے جن کا ذکر کیا ہے
جب آپ کا ارادہ کسی کی بات کو سمجھنے کا ہے ہی نہیں بلکہ انا الحق کا ہے تو کیوں بحث کرنا چاہتے ہو؟ بحث کرنے کا اصل مقصد جناب نے خود ہی بیان فرمادیا کہ؛

روایات کو مع سند و متن لگادیں آپ پھر ان شاء اللہ آپ کی طبیعت شریف میں افاقہ ہوجائیگا
میں بقسم کہتا ہوں کہ مثبت انداز میں بحث کرکے اگر آپ نے مجھے غلطی پر ثابت کر دیا تو میں اپنی اصلاح کر لوں گا بضد نہیں ہوں گا۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
(۳۹۶۲) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ بن أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ عَاصِمٍ الْجَحْدَرِيِّ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ ظُهَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ : فِي قَوْلِهِ {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} قَالَ : وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَي الشِّمَالِ فِي الصَّلاَةِ۔
(٣٩٦٢) حضرت علی اللہ تعالیٰ کے فرمان { فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنا ہے۔
اس کا حوالہ؟
 
Top